• 29 اپریل, 2024

دعا کى حقىقت و آداب کا ادراک اور اس کى قبولىت کے نظارے

حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالىٰ بنصرہ العزىز مزىدفرماتے ہىں:
پس حضرت مسىح موعود علىہ الصلوٰۃ والسلام نے دعا کى حقىقت و آداب کا ىہ ادراک ہمىں عطا فرماىا اور سب سے بڑھ کر اپنے اُن صحابہ کو عطا فرماىا جن کى براہِ راست تربىت آپ نے فرمائى۔ بلکہ آپ کى آمد سے جو دنىا مىں اىک ہلچل مچى، اللہ تعالىٰ کى طرف سے بھى جو تحرىک چلى، اُس نے بھى بہت سے اىسے لوگوں کو جن کى اللہ تعالىٰ اصلاح کرنا چاہتا تھا، اُن مىں بھى دعا کى حقىقت اور آداب کا ادراک پىدا فرما دىا۔ اور ىوں اُن لوگوں کا آپؑ پر اىمان اور بھى مضبوط ہو گىا۔ اس وقت مَىں آپ کے زمانے کے اور آپ سے فىض پانے والے چند صحابہ کا ذکر کروں گا جنہوں نے دعا کى حقىقت کو جانا اور اللہ تعالىٰ نے اُنہىں اُن کى دعاؤں کى قبولىت کے نظارے دکھائے جس سے اُن کے اىمان بھى مضبوط ہوئے اور وہ لوگ دوسروں کى ہداىت کا بھى باعث بنے۔

حضرت مىاں محمدنواز خان صاحبؓ بىان کرتے ہىں کہ ’’1906ء مىں ىہاں سىالکوٹ مىں طاعون کا از حد زور و شور تھا۔ رسالہ بند ہو گىا۔ ہر طرف مردے ہى مردے نظر آتے تھے۔ مولوى مبارک صاحب صدر مىں مولا بخش صاحب کے مکان پر درس دے رہے تھے۔ مَىں لىٹا ہوا تھا۔ مجھے بھى طاعون کى گلٹى نکل آئى۔ مىں نے دعا کى کہ ىا مولا! مىں نے تو تىرے مامور کو مان لىا ہے اور مجھے بھى گلٹى نکل آئى ہے۔ پس اب مَىں تو گىا۔ مگر خدا کى قدرت کہ صبح تک وہ گلٹى غائب ہو گئى اور مىرا اىک ساتھى محمد شاہ ہوا کرتا تھا، اُسے مىں نے دىکھا کہ مرا پڑا ہے۔ محمدشاہ اور مىں دونوں اىک کمرے مىں رہتے تھے‘‘۔

(رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر10 صفحہ نمبر143رواىت حضرت مىاں محمدنواز خان صاحبؓ)

پھر حضرت خلىفہ نور الدىن صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہىں کہ مَىں اىک دفعہ جموں سے پىدل براہ گجرات کشمىر گىا۔ راستہ مىں گجرات کے قرىب اىک جنگل مىں نماز پڑھ کر اَللّٰھُمَّ اِنِّىْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِ والى دعا نہاىت زارى اور انتہائى اضطراب سے پڑھى۔ اللہ تعالىٰ مىرے حالات ٹھىک کر دے۔ کہتے ہىں اُس کے بعد اللہ تعالىٰ نے مىرى روزى کا سامان کچھ اىسا کر دىا کہ مجھے کبھى تنگى نہىں ہوئى اور باوجود کوئى خاص کاروبار نہ کرنے کے غىب سے ہزاروں روپے مىرے پاس آئے۔

(ماخوذ از رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر12 صفحہ نمبر68 رواىت حضرت خلىفہ نورالدىن صاحبؓ)

حضرت امىر خان صاحبؓ فرماتے ہىں کہ 1915ء کو مىرے بچے عبداللہ خان کو جبکہ مىں بمع عىال قادىان مىں تھا طاعون نکلى اور دو دن کے بخار نے اس شدت سے زور پکڑا کہ جب مىں دفتر سے چار بجے شام کے قرىب گھر مىں آىا تو اُس کى نہاىت خطرناک اور نازک حالت تھى۔ اُس وقت مىرا ىہى اىک بچہ تھا۔ والدہ ىعنى بچے کى ماں جو کئى دنوں سے اُس کى تکلىف کو دىکھ دىکھ کر جاں بہ لب ہو رہى تھى، مجھے دىکھتے ہى زار زار رو دى اور بچے کو مىرے پاس دے دىا۔ سخت گرمى کا موسم اور مکان کى تنگى اور تنہائى اور بھى گھبراہٹ کو دوبالا بنا رہى تھى۔ (مکان بھى تنگ، گرمى کا بھى موسم، اکىلے اور اس پر ىہ کہ بچہ بھى بہت زىادہ بىمار، تو گھبراہٹ اور بھى زىادہ بڑھ رہى تھى) کہتے ہىں مَىں نے بچے کو اُٹھا کر اپنے کندھے سے لگا لىا۔ بچے کى نازک حالت اور اپنى بے کسى، بے بسى کے تصور سے بے اختىار آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس اضطرارى حالت مىں بار بار اُن دعائىہ الفاظ کا اعادہ کىا کہ اے خدا! اے مىرے پىارے خدا! اس نازک وقت مىں تىرے سوا اور کوئى غمگسار اور حکىم نہىں، صرف اىک تىرى ہى ذات ہے جو شفا بخش ہے۔ غرضىکہ مىں اس خىال مىں اىسا مستغرق ہوا کہ ىکا ىک دل مىں خىال ڈالا گىا کہ تو قرآنِ کرىم کى دعا قُلْنَا ىٰنَارُ کُوْنِىْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰٓى اِبْرَاھِىْمَ پڑھ کر بچے کے سر پر سے اپنا ہاتھ پھىرتے ہوئے نىچے کى طرف لا اور بار بار اىسا کر۔ چنانچہ مَىں نے بچشم تر (روتے ہوئے) اسى طرح عمل شروع کىا۔ ىہاں تک کہ چند منٹوں مىں بچے کا بخار اُتر گىا۔ صرف گلٹى باقى رہ گئى جو دوسرے دن آپرىشن کرانے سے پھوٹ گئى اور چار پانچ روز مىں بچے کو بالکل شفا ہو گئى۔

(ماخوذ از رجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر6 صفحہ نمبر150-151رواىت حضرت چوہدرى امىر خان صاحبؓ)

حضرت چوہدرى امىر محمد خان صاحبؓ فرماتے ہىں کہ جب مجھے شفا خانہ ہوشىار پور مىں علاج کراتے اىک عرصہ گزر گىا اور باوجود تىن دفعہ پاؤں کے آپرىشن کرنے کے پھر بھى پاؤں اچھا نہ ہوا تو اىک دن مس صاحبہ نے (ىعنى انگرىز نرس تھى) جو بہت رحمدل تھى اور خلىق تھى، مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دىں تو پاؤں کو ٹخنے سے کاٹ دىا جائے کىونکہ اب ىہ ٹھىک نہىں ہو رہا۔ کىونکہ گىنگرىن کى طرح کى صورت پىدا ہو رہى ہے تاکہ مرض ٹخنے سے اوپر سراىت نہ کر جائے۔ مىں نے گھر والوں سے مشورہ کر کے اجازت دے دى۔ اُس پر مس صاحبہ بىوى کو دوسرے کمرے مىں لے گئى جس کمرے مىں پاؤں کاٹنا تھا۔ (ىہ آپرىشن بىوى کا ہونا تھا) مَىں نے ساتھ جانے کے لئے مِس صاحبہ سے اجازت چاہى مگر اُس نے کہا کہ آپ ىہىں رہىں۔ لہٰذا مىں وہىں وضو کر کے نفلوں کى نىت کر کے دعا مىں مصروف ہو گىا۔ (بىوى کا آپرىشن کرنے کے لئے وہ لے گئى)۔ مَىں وہىں نفلوں مىں دعا مىں مصروف ہو گىا اور دل اس خىال کى طرف چلا گىا کہ اے خدا! تىرى ذات قادر ہے تُو جو چاہے سو کر سکتا ہے۔ پس تو اس وقت پاؤں کو کاٹنے سے بچا لے۔ کىونکہ اگر پاؤں کٹ گىا تو عمر بھر کا عىب لگ جائے گا۔ تىرے آگے کوئى بات انہونى نہىں۔ اور اسى خىال مىں سجدہ کے اندر سر رکھ کر دعا مىں انتہائى سوز و گداز کے ساتھ مستغرق ہوا کہ عالمِ محوىت مىں ہى ندا آئى، ىہ آواز آئى کہ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اور جب اس آواز کے ساتھ ہى مَىں نے سجدہ سے سر اُٹھاىا تو کىا دىکھتا ہوں کہ مس صاحبہ (وہ نرس جو تھى) مىرى طرف دوڑى آ رہى ہے اور آتے ہى ىہ کہا کہ سول سرجن صاحب فرماتے ہىں کہ اس دفعہ مَىں خود زخم کو صاف کرتا ہوں اور پاؤں نہىں کاٹتا، اس لئے کہ پاؤں کو ہر دفعہ کاٹا جا سکتا ہے (ىعنى کہ پاؤں کو تو پھر بھى کاٹا جا سکتا ہے) مگر کاٹا ہوا پاؤں ملنا محال ہے۔ مىں خدا کى اس قدرت نمائى اور ذرہ نوازى کے سو جان سے قربان جاؤں جس نے کرمِ خاکى پر اىسے نازک وقت مىں لَا تَقْنَطُوْا کى بشارت سے معجز نمائى فرمائى۔ اور وہ پاؤں کٹنے سے بچ گىا۔

(ماخوذ ازرجسٹر رواىات صحابہ غىر مطبوعہ رجسٹر نمبر6 صفحہ نمبر121-122رواىت حضرت چوہدرى امىر خان صاحبؓ)

(خطبہ جمعہ 15؍ جون 2012ء بحوالہ الاسلام وىب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مضمون نگاروں سے اىک ضرورى درخواست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2021