• 27 اپریل, 2024

غزل آپؐ کے لیے

گلشن میں پھول، باغوں میں پھل آپؐ کے لیے
جھیلوں پہ کھل رہے ہیں کنول آپؐ کے لیے

میری بھی آرزو ہے، اِجازت ملے تو مَیں
اشکوں سے اِک پروؤں غزل آپؐ کے لیے

مژگاں بنیں، حکایتِ دل کے لیے قلم
ہو رَوشنائی، آنکھوں کا جل آپؐ کے لیے

اِن آنسوؤں کو چرنوں پہ گرنے کا اِذن ہو
آنکھوں میں جو رہے ہیں مچل آپؐ کے لیے

دِل آپؐ کا ہے، آپؐ کی جان، آپؐ کا بدن
غم بھی لگا ہے جان گسل آپؐ کے لیے

میں آپؐ ہی کا ہوں، وہ مری زندگی نہیں
جس زندگی کے آج نہ کل آپؐ کے لیے

گو آ رہی ہے میرے ہی گیتوں کی بازگشت
نغمہ سرا ہیں دَشت و جبل آپؐ کے لیے

ہر لمحۂ فراق ہے عمرِ درازِ غم
گزرا نہ چین سے کوئی پل آپؐ کے لیے

آ جائیے کہ سکھیاں یہ مل مل کے گائیں گیت
موسم گئے ہیں کتنے بدل آپؐ کے لیے

ہم جیسوں کے بھی دید کے سامان ہو گئے
ظاہر ہوا تھا حسنِ ازل آپؐ کے لیے

(کلام طاہر)

پچھلا پڑھیں

مضمون نگاروں سے اىک ضرورى درخواست

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 نومبر 2021