بینن کے ابتدائی احمدی
مکرم یونس داؤدا کی یاد میں
مکرم یونس داؤدا مرحوم، مکرم ذکر اللہ (سکیرو داؤد) کے چھوٹے اور عیسیٰ داؤدا صاحب کے بڑے بھائی تھے۔
تینوں بھائی ہی جماعت کے شیدائی اور فدائی تھے۔ خاکسار 1988 تا 1996ء تک بینن میں بطور امیر و مشنری انچارج رہا اور ان تینوں کی شفقت سے بھرپور حصہ پایا۔
اُس دور میں مکرم یونس داؤدا ہماری عاملہ کے فینانس سیکرٹری ،چھوٹے بھائی جنرل سیکرٹری اور ذکر اللہ صاحب نائب امیر تھے۔
داؤدا یونس صاحب بہت بڑے دنیاوی عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود بہت ہی منکسر المزاج تھے۔جب بھی ان کے آفس میں جانے کا اتفاق ہوتا ہمیشہ اُٹھ کر پُرتپاک استقبال کرتے،مشروبات پیش کرتے اور میری آمد پر خوشی کا اظہار کرتے۔
جماعتی پیسے کی اسطرح حفاظت کرتے جیسے ذاتی رقوم ہوں،سختی سے آڈٹ کرتےمگر جائز ضروریات پر خرچ سے دریغ نہ کرتےجس کے نتیجہ میں ملکی حساب کتاب مرکز سے بھی ٹھیک رہتا۔
مجھے سب سے زیادہ متاثر جس بات نے کیا وہ ان کی عبادت تھی اسقدر ڈوب کر عبادت کرتے کہ حیرانی ہوتی کہ کس قدر خدا سے لگاؤ ہےاور اکثر خدام کو نصیحت بھی کرتے کہ نماز میں انہماک ہونا چاہئے ہاتھوں کی غیر ضروری حرکات،کپڑوں،ٹوپی کو درست کرتے رہنے یا ناک اور آنکھوں کی صفائی سے نماز سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔
2017ء کے جلسہ بینن میں خاکسار بھی شامل ہوا۔دورانِ جلسہ ایک ہی ہوٹل میں قیام تھا۔عرصہ دراز (21سال) بعد ملاقات ہوئی۔ان کی خوشی دیدنی تھی،گلے ملے،بہت نحیف اور کمزور لگ رہے تھے، میں نے استفسار کیا تو بتانے لگے کہ اب عمر ڈھلنے لگی ہے۔بہت دیر تک بیٹھے پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔خاموش طبع اور کم گو تھے۔
حضور انور نے خطبہ جمعہ 10ستمبر 2021ء میں مرحوم کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
اگلا ذکر ہے مکرم داؤدا رزاقی یونس صاحب بینن کاجن کی 27 اگست کو وفات ہوئی ہے، 74سال کی عمر میں اناللّٰہ واناالیہ راجعون۔
یہ مرحوم بینن کے پہلے احمدیوں میں سے تھے،اپنے گھر میں اکیلے احمدی تھے، 1967ء میں اپنے بڑے بھائی مکرم ذکر اللہ داؤدا مرحوم جو بینن کے سب سے پہلے احمدی تھے ان کے ذریعہ احمدیت قبول کی۔ ان کے بیوی بچے احمدی نہیں ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی توفیق دے۔
امیر و مشنری انچارج صاحب بینن لکھتے ہیں کہ قبولیت احمدیت کا واقعہ فوت ہونے سے چند دن قبل مجھے بتایاکہ جب میرے بڑے بھائی مکرم ذکر اللہ داؤد جو نائیجیریا میں احمدیت قبول کر چکے تھے،ان کے احمدیت قبول کرنے کی خبر ملی اور ساتھ ہی لوگوں کی احمدیت کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سنی تو میں انکو ملنے گیا، میں نے ان کو الیس اللہ کی انگوٹھی پہنے دیکھی تو میں نے فوراً اپنے بڑے بھائی سے پوچھا کہ یہ انگوٹھی کیسی پہن رکھی ہےاور آپ کے مذہب میں اس کی کیا حیثیت ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس پر قرآن مجید کی آیت لکھی ہے جس کا مطلب ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں؟ اور جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے پھر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا بھائی سے کہ کیا اسلام سے مختلف مذہب ہے احمدیت کوئی؟ انہوں نے بتایا کہ جس امام کا تم انتظار کر رہے ہو وہ آگیا ہے،ہم یہ کہتے ہیں اور یہی سچا اسلام ہے۔پھر کہتے ہیں کہ اس بات کو سن کہ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کا مطالعہ کیااور اسلامی اصول کی فلاسفی کا مطالعہ کیا اور میں نے احمدیت قبول کرلی۔
بینن کے پڑھے لکھے احمدیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔فرانس سے بزنس مینجمنٹ میں ماسٹرز کیا انہوں نےبینن کے، بجلی اور پانی کے نیشنل ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے، نہایت بارعب، باریش اور باوقار شخصیت تھے۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، ایک نیک اور مخلص انسان تھےحضرت مسیح موعود ؑ اور خلفاء سے بے پناہ محبت تھی،ان کی کتب کا مطالعہ آپ کا معمول تھا،بہت سے جماعتی عہدوں پر فائز رہے اور جماعت بینن کے لئے آپ کی بہت سی خدمات ہیں، پہلے چیئرمین ہیومنٹی فرسٹ کے عہدے پر تھے پہلے، میڈیکل کیمپس لگایا کرتے تھے اور خود ڈاکٹرز کے ساتھ جا کر سارا سارا دن بغیر کھائے انسانی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ ڈاکٹر قمر احمدعلی صاحب کہتے ہیں بینن میں بطور ڈاکٹرخدمت کی توفیق ملی مجھےوہ کہتے ہیں کہ میڈیکل کیمپس کے دوران خواہ تھکاوٹ ہوتی یا سفر کی وجہ سے لیٹ سوتے ہمیشہ میں نے انہیں رات کو لمبی تہجد پڑھتے دیکھا ہےجب بھی آنکھ کھلی انکو تہجد پڑھتے دیکھاجب کوئی تقریر کرتے تو بڑے ہی درد کے ساتھ شرائط بیعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔مظفر احمد صاحب ظفر مبلغ سلسلہ کہہ رہے ہیں کہ جب بھی کوئی تقریر کرتے درد کے ساتھ شرائط بیعت پر عمل کرنے کی تلقین کرتےاور کہتے ہیں خاکسار کو کہا کرتے تھے کہ جب تک ہر احمدی حضرت مسیح موعود ؑ کے اس پیغام کو نہیں سمجھتا کہ الیس اللہ بکاف عبدہ تو وہ مادیت پرست ہے۔پھر امیر صاحب لکھتے ہیں کہ 2006ء میں جماعت کو ایک 30ایکڑ کا قطعہ ہبہ کیا 2021ء میں کہتے ہیں میں نے خواہش ظاہر کی کہ بینن میں مدرسۃ الحفظ کی بلڈنگ بنوا کر جماعت کو تحفہ پیش کریں توانہوں نے بڑا مسکرا کر کہا کہ ان شاء اللہ اور یہ شروع بھی ہو گیا ہے۔کہا کرتے تھے کہ اگر جماعت کے بچے پڑھ لکھ جائیں تو بینن کی جماعت افریقہ کی بڑی جماعتوں میں سے ہوگی۔آپ بچوں کو جماعت کی قیمتی کتابیں بطور انعام دیا کرتے تھے۔ یتیم خانہ بیت الاکرام میں گئےتو ڈاکٹر ولید صاحب جو وہاں کے انچارج ہیں انکو نصیحت کی کہ ان بچوں کی صحت اورسیکیورٹی کا بہت خیال رکھیں کیونکہ یہ ہماری جماعت اور قوم کے بچے ہیں اور ہم سب ان کے والدین ہیں اور دعائیں بھی دیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔
(صفدر نذیر گولیکی)