• 19 جولائی, 2025

حضرت سید صادق حسین ؓ

حضرت سید صادق حسین ؓ۔ اٹاوہ (یو پی)

بھارتی صوبہ اترپردیش کے ابتدائی احمدیوں میں ایک بڑا نام حضرت سید صادق حسین رضی اللہ عنہ ولد حکیم وارث علی صاحب محلہ پیرون ٹولہ اٹاوہ (Etawa) کا بھی ہے جنھوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے سفر علی گڑھ اپریل 1889ء کے موقع پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ رجسٹر بیعت اولیٰ میں آپ کی بیعت کا اندراج 11؍اپریل 1889ء کے تحت درج ہے۔

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ347)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کا تعلق حضرت مولوی تفضل حسین رضی اللہ عنہ یکے از 313 کبار صحابہ (وفات: 3؍نومبر 1904ء) کے ذریعہ ہوا جن کی دعوت پر حضرت اقدس علیہ السلام علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ قبول احمدیت کے بعد خلوص و عقیدت میں بہت ترقی کی۔ 313 کبار صحابہ میں آپ کا نام 138ویں نمبر پر ’’منشی صادق حسین صاحب مختار۔ اٹاوہ‘‘ درج ہے۔

(انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ327)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی صلاحیتوں سے نوازا تھا چنانچہ اس انعام خداوندی کو آپ نے خدمت اسلام میں لگایا اور اسلام احمدیت کی قلمی خدمت کرنے والوں کی صف اول میں شمار ہوئے۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ لکھتے ہیں: ’’حضرت مولوی صادق حسین صاحب حکیم بھی تھے اور مختار عدالت بھی اور ایک صاحب علم اخبار نویس بھی۔ جوانی کی حالت میں میں نے ان کو دیکھا تھا نہایت وجیہ اور طرحدار تھے۔ سلسلہ کے ساتھ ان کے تعلقات تو مولوی تفضل حسین صاحب ہی کے ذریعہ ہوئے مگر آخر میں وہ سلسلہ کے تبلیغی مشاغل میں پورے منہمک ہوگئے اور اپنے پیشہ میں کوئی نمایاں ترقی نہ کر سکے اور سراسر سلسلہ کی تبلیغ کے لیے وقف تھے اور اٹاوہ کی جماعت ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ سلسلہ کی تائید کے لیے انہوں نے اخبار بھی جاری کیا تھا۔‘‘

(حیات احمد جلد سوم صفحہ66 مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ)

ایک اور جگہ حضرت عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں:
’’میرے محترم بھائی سید محمد صادق حسین صاحب مختار عدالت اٹاوہ ایک مشہور اہل قلم اور ممتاز اخبار نویس ہیں۔ سلسلہ عالیہ کی تبلیغ کا انہیں بے حد جوش ہے اور یہ جوش ہمیشہ ان کے قلم کو حرکت میں رکھتا ہے….‘‘

(الحکم 28؍اکتوبر 1912ء صفحہ11)

سلسلہ احمدیہ کا پرانا لٹریچر آپ کے علمی مضامین سے بھرا پڑا ہے جو رہتی دنیا تک آپ کی یادگار ہے۔ آپ کے مطبوعہ مضامین کی ایک فہرست ذیل میں دی جاتی ہے جس سے وسعت علمی، بیدار مغزی اور جوش احمدیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

اخبار شحنہ ہند کی غلط بیانی کا فوری جواب

(الحکم 17؍اگست 1903ء صفحہ11،12)

جناب مولوی امیر علی صاحب اٹاوی اثنا عشری کے نام کھلی چٹھی

(الحکم 17؍جنوری 1904ء صفحہ3)

’’اشتہار واجب الاظہار‘‘ حضرت حاجی وارث علی شاہ صاحب مد ظلہٗ متوطن دیوہ شریف کے مریدوں کو ایک ضروری اطلاع (الحکم 31؍مارچ 1904ء صفحہ15) اس کے ساتھ ہی اس اشتہار کا دوسرا حصہ ’’اعلان دافع البہتان‘‘ بھی شائع شدہ ہے۔

سید علی حائری کی کتاب غایۃ المقصود پر ریویو

(الحکم 31؍جنوری 1905ء صفحہ4) (الحکم 24؍فروری 1905ء صفحہ13) (الحکم 24؍جولائی 1905ء صفحہ5،6)

ڈاکٹر عبدالحکیم مرتد کی کتاب ’’الذکر الحکیم‘‘ پر ریویو

(بدر 30؍اگست 1906ء صفحہ10تا 13)

مولوی رضا خان بریلوی صاحب کی کتاب الصارم الربانی پر ریویو

(الحکم 6؍مئی 1908ء صفحہ7) (الحکم 10؍مئی 1908ء صفحہ5،6) (الحکم 18؍مئی 1908ء صفحہ5 دوسری قسط)

’’اَلْحَقُّ الصَّرِیْح فِیْ تَصْدِیْقِ الْمَسِیْحِ‘‘ ایک صادق کا انجام۔ وفات مسیح موعود علیہ السلام

(بدر 20؍اگست 1908ء صفحہ3 تا 10)

ابوالحسنات مولانا عبدالحی صاحب لکھنوی کی کتاب ’’دافع الوسواس فی اثر ابن عباس‘‘ سے عام غیر احمدی مسلمانوں خصوصًا حنفیوں پر اتمام حجۃ

(بدر 15؍دسمبر 1910ء صفحہ6)

مولوی ثناء اللہ صاحب ایڈیٹر اہل حدیث کی خدمت میں چند سوالات

(بر حدیث مجددین) (بدر 15؍دسمبر 1910ء صفحہ6)

مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی صاحب کی کتاب ’’سُلّم الْوصُوْلِ اِلیٰ اَسْرَارِ اِسْرَآءِ الرَّسولِ‘‘ پر ریویو

(تشحیذ الاذہان مئی 1911ء تا اپریل 1912ء۔ 9 بسیط اقساط میں شائع ہوا)

شہادۃ القرآن مصنفہ مولوی محمد ابراہیم سیالکوٹی پر ریویو

(تشحیذ الاذہان جنوری 1913ء تا مارچ 1914ء۔ آٹھ اقساط میں یہ تفصیلی مضامین شائع ہوئے)

حیات و وفات مسیح پر اٹاوہ کے احمدیوں اور اہل حدیث میں تحریری مباحثہ اور احمدیوں کی عظیم الشان فتح

(تشحیذ الاذہان جولائی 1919ء صفحہ9 تا 30)

جوابات اعتراضات شیعہ

(تشحیذ الاذہان جنوری 1919ء صفحہ1 تا 16)

جوابات اعتراضات شیعہ

(تشحیذ الاذہان فروری 1920ء صفحہ15تا 41)

کیا امام غائب ابھی حاضر نہیں ہوئے

(تشحیذ الاذہان مئی 1920ء صفحہ32 تا 35)

سید ہوکر مرزائی (ایک شیعہ کے اعتراض کا جواب)

(تشحیذ الاذہان دسمبر 1920ء صفحہ24 تا 30)

شیعہ کے متعلق اشتہار نور الابصار

(ریویو آف ریلیجنز اپریل 1922ء صفحہ126 تا 130)

ابطال قدامت مادہ

(ریویو آف ریلیجنز نومبر 1924ء صفحہ494 تا 502)

’’اسماعیل شہید اور ختم نبوت‘‘

(الفضل 12؍ستمبر 1936ء)

آپ نے اٹاوہ سے ایک اخبار ’’اٹاوہ پنچ‘‘ بھی جاری کیا اور اس کی غرض بھی سلسلہ احمدیہ کی تبلیغ اور اشاعت تھی۔

(الحکم 24؍مارچ 1902ء صفحہ1) (الحکم 31؍اکتوبر 1901ء صفحہ11)

اس کے علاوہ اخبار ’’اظہار الحق‘‘ اور ’’صبح صادق‘‘ نامی اخبار بھی جاری کیے۔

ایک کتاب ’’تصدیق کلام ربانی بجواب مسلمانی کی بانی کی کہانی‘‘ بھی شائع کی جس میں آریوں کے آنحضرت ﷺ کی ذات مطہر پر لگائے گئے اعتراضات کے جوابات یورپین مصنفوں کی کتب سے ثبوتوں کے ساتھ درج کیے گئے تھے۔

(بدر 3؍اکتوبر 1912ء صفحہ 8 کالم 2)

ان تحریری کارناموں کے علاوہ اپنے حلقہ احباب اور مجالس میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق گفتگو کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں:
’’اٹاوہ میں ہماری چھوٹی سی جماعت ہے، اس جماعت کے لائق مخلص کارکن سید صادق حسین صاحب مختار عدالت نے چار روز ہوئے مجھے لکھا کہ یہاں مولوی ابراہیم سیالکوٹی تشریف لائے ہیں۔ کسی تقریب سے ملاقات ہوئی اور ادھر اُدھر کی باتیں درمیان آئیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں نے حضرت اقدس کی پُر تحدی کتابوں کا کوئی جواب اب تک کیوں نہیں لکھا۔ مولوی صاحب نے فرمایا : جواب کیا لکھیں، وہ تو غلط عربی لکھتے ہیں۔ میں نے کہا آپ بھی کچھ لکھ دیتے، مقابلہ کے بعد مرزا صاحب کی غلطیاں اور آپ کی کتاب کی پاکیزگی اور صحت باطل اور حق میں امر فارق ہوجاتی…..‘‘

(بدر 20 جولائی 1905ء صفحہ4)

مکرم خانزادہ عبدالعلی خان صاحب آف اناؤ (Unnao) بیان کرتے ہیں:
’’…. اٹاوہ میں انجمن حمایت اسلام کی طرف سے ایک مڈل سکول قائم تھا چنانچہ سال میں ایک مرتبہ اس ادارہ کی طرف سے ایک جلسہ ہوتا تھا جس میں کچھ مولوی صاحبان بھی آتے تھےاور مذہبی تقریریں وغیرہ ہوتی تھیں۔ ایک مرتبہ دوران جلسہ مسلمانوں اور آریوں کے مابین مناظرہ ہوا تھا جس کی صدارت کے لیے مسلمانوں نے خاص طور پر سید صادق حسین صاحب مرحوم کو پسند کیا تھا۔ سید صاحب مرحوم کے ایک شیعہ شاگرد سید موسیٰ رضا صاحب وکیل تھے۔ کچھ دنوں تک موسیٰ رضا صاحب کے اور سید مرحوم صاحب کے تعلقات بہت خوشگوار تھے جیسے کہ استاد اور شاگرد میں ہونے چاہئیں کچھ عرصہ کے بعد موسیٰ رضا صاحب کو کچھ شوق تحریری مناظرہ کا ہوا اور آپ نے سید صاحب مرحوم کو چیلنج دیا۔ غرضیکہ سید صاحب مرحوم اور موسیٰ رضا صاحب کے درمیان تحریری مناظرہ شروع ہوگیا۔ دو تین پرچوں کا تو جواب موسٰی رضا صاحب نے جوں توں کر کے دیا، اس کے بعد خاموش ہوگئے لیکن جلد ہی تھوڑے وقفہ کے لیے لکھنؤ کے ایک مجتہد العصر کی خدمات مستعار معاوضہ پر حاصل کی گئیں۔ مجتہد صاحب بھی مشکل سے آٹھ دس پرچوں کا جواب دینے کے بعد لکھنؤ چلے گئے….‘‘

(الفضل 11؍نومبر 1949ء صفحہ6)

مخالفین احمدیت کو انعامی چیلنج کے ساتھ بھی للکارتے، اخبار بدر ایک جگہ لکھتا ہے:
’’اظہار الحق اٹاوہ کے ایڈیٹر صاحب نے ایک جیبی گھڑی قیمتی …. روپیہ کا انعام اور حضرت صاحب کی بیعت سے توبہ کا اشتہار اس شرط پر دیا ہے کہ کوئی میرزا صاحب کا مخالف کسی آیت قطعی الدلالت یا حدیث صحیح مرفوع متصل سے یہ بات ثابت کردے کہ مسیح علیہ السلام زندہ جسم خاکی کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان سے اتریں گے۔‘‘

(بدر 27؍فروری 1903ء صفحہ47)

غرضیکہ ہر سطح پر اور ہر ممکنہ طریق پر آپ نے اسلام احمدیت کی اشاعت کے لیے مساعی کیں، آپ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:

؎ کرے تبلیغ حق اور خدمتِ دیں تا دمِ آخر
یہ صادؔق کی تمنا ہے، یہی بس اُس کا ارماں ہے

خلافت ثانیہ کے موقع پر جب کچھ لوگوں نے خلافت کا انکار کیا تو آپ نے اُن سے سخت بیزاری کا اظہار کیا اور خلافت احمدیہ سے وابستگی اور بیعت کا خط حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تحریر کیا، آپ نے لکھا:
’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ کل مولوی محمد علی صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کا ایک اشتہار بعنوان ایک نہایت ضروری اعلان میرے پاس پہنچا۔ اس کو پڑھ کر مجھے سخت صدمہ ہوا۔ میں نے نماز پڑھی اور نماز میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس وقت جماعت احمدیہ کو ابتلا سے محفوظ رکھے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے اور قائم رکھنے کی توفیق عطا فرماوے۔ دعا کے بعد دل میں خیال پیدا ہوا کہ میں اس اشتہار کی مخالفت کروں چنانچہ میں نے اس کا جواب لکھنا شروع کیا، جواب لکھ رہا تھا کہ پوسٹ مین نے تار لا کر دیا، نہایت بے چینی کے ساتھ میں نے لفافہ کھول کر تار پڑھا۔ مولانا شیر علی صاحب نے امرتسر سے تار دیا تھا کہ صاحبزادہ محمود احمد صاحب بالاتفاق خلیفہ منتخب ہوئے۔ اس تارکو پڑھ کر حضرت خلیفۃ المسیح مولانا نور الدین صاحب مرحوم کی وفات کا سخت صدمہ ہوا مگر صبر کے سوا کیا چارہ ہے، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مگر حضور کے بالاتفاق خلیفہ منتخب ہو جانے سے دل کو تسلی ہوئی، اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا۔ میں نے دل میں کہا کہ اب مولوی محمد علی صاحب کے اشتہار کا جواب دینے کی ضرورت نہیں، اللہ تعالیٰ نے خود اس کا جواب دے دیا۔ ممبران جماعت احمدیہ اٹاوہ کو تار کے مضمون سے اطلاع دی گئی۔ آج انجمن احمدیہ کا خاص جلسہ ہوا، میں نے مولوی محمد علی صاحب کا اشتہار سب صاحبوں کو پڑھ کر سمجھایا اور اس کے جوابات جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے تھے، وہ بھی انھیں سنائے اور تار کا مضمون بھی سنا دیا، سب نے بالاتفاق مولوی محمد علی صاحب کے اشتہار سے سخت مخالفت کی اور ان کے خیالات متعلقہ خلافت پر اظہار ناپسندیدگی کیا اور ان خیالات کو سلسلہ کے لیے نہایت خطرناک و ضرر رساں سمجھا اور بطیب خاطر سب نے مجھے درخواست کی کہ ہماری بیعت کی درخواست حضرت میاں صاحب خلیفہ دوم کی خدمت میں بھیج دی جائے لہذا میں بکمال ادب درخواست کرتا ہوں کہ میری بیعت اور نیز میری زوجہ کی بیعت قبول فرمائی جاوے ….. سید صادق حسین مختار عدالت و سیکرٹری نجمن احمدیہ اٹاوہ‘‘

(الحکم 28 مارچ 1914ء صفحہ 4 کالم 1)

آپ ایک اچھے شاعر تھے اور شعر و شاعری میں بھی دینی اور اصلاحی پہلو غالب تھا۔ سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں آپ کی نظمیں موجود ہیں،ذیل میں آپ کی نظموں کی ایک فہرست درج کی جاتی ہے:

مسدس دعائیہ در مدحت حضرت اقدس علیہ السلام

(الحکم 30 ستمبر 1903ء صفحہ 6۔ و بدر 24؍ستمبر 1903ء صفحہ 387)

فارسی نظم بر تتبع سید عبدالقادر جیلانیؒ

(الفضل 20؍مارچ 1922ء صفحہ 7)

اے دل و جانم فدائے گیسوئے پہچان تو

(الفضل 27؍اگست 1913ء)

لڑی ہے آنکھ اپنی جب سے اس چشم فسونگر سے
مرے اشکوں کی قیمت بڑھ گئی ہے لعل و گوہر سے

غزل (الفضل 9/5 فروری 1920ء صفحہ 16)
نظم (الحکم 28 اپریل 1920ء صفحہ 2)
برپا کریں گے حشر جو افغانیوں میں ہم (الفضل 3؍جنوری 1921ء)
دعائیں ہوتی کارگر دیکھ لینا (الفضل 18؍اکتوبر 1920ء)
زمینِ قادیان ہے تختگاہِ مرسلِ یزداں (الفضل 29؍نومبر 1920ء)
عمر ہے فاتح عالم عمر فاروق اعظم ہے (الفضل 26؍فروری 1920ء)
گدا ہوں تیرے دروازے کا اے ابن رسول اللہ (الفضل 25؍نومبر 1920ء)
محمود احمد ہے خالق کا پیارا (الفضل 10؍فروری 1938ء)
یاد روئے تو بود ہمدم و جانانہ ما (الفضل 20 مارچ 1922ء)
یہ قرآں ہے ہمارا سب سے بہتر (الفضل 23؍فروری 1920ء)
دل مومن میں ایسا جلوہ خورشید قرآں ہے (ریویو آف ریلیجنز اپریل 1922ء صفحہ 130)
اب غلام احمد کی جے ارض و سما کہنے کو ہے (الفضل یکم نومبر 1927ء صفحہ 12)

ایک مرتبہ آپ نے ترکیب بند صادق کتابچہ شائع کیا جس پر ریویو کرتے ہوئے ایک احمدی دوست نے لکھا:
’’حضرت صادق سے ناظرین کو کسی جدید انٹروڈیوس کی ضرورۃ نہیں، وہ اپنی موزون طبع کے نتائج کے سبب خود مشہور و ہر دلعزیز ہیں۔ گلدستہ صبح صادق کی دلچسپ اور بے بہا نظمیں دیکھ کر کون ان کی لیاقت کا معترف نہیں ہوا۔ جو لوگ علم عروض کی مشکلات سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ بالخصوص ایسی نظمیں لکھنا جن کا ایک ایک مصرعہ تاریخی واقعات پر مشتمل ہو، کس قدر مشکل ہے۔ تاریخی واقعات اور علمی اصطلاحات کا ایک ہی شعر میں …. اور بایں ہمہ شعر کو ساقط الوزن نہ ہونے دینا، فی الواقع قادر الکلامی کی دلیل ہے…‘‘

(الحکم 24؍اگست 1902ء صفحہ14 کالم1،2)

اسی طرح ایک مرتبہ ’’پیام صادق‘‘ نام سے ایک مثنوی بھی تیار کی جس پر ریویو کرتے رسالہ ریویو آف ریلیجنز نے لکھا:
’’سید صادق حسین صاحب مختار عدالت اٹاوہ ان مخلص اور جوشیلے احباب میں سے ہیں جن کے سینہ میں تبلیغ سلسلہ عالیہ احمدیہ کا جوش ہر وقت موجزن رہتا ہے۔ صاحب موصوف نے حال میں ایک مختصر سی مثنوی تصنیف کی ہے جس میں وفات مسیح، نزول مسیح، ختم نبوت، سلسلہ وحی کا قیامت تک جاری رہنا اور دیگر مسائل ضروریہ کے مضمون کو باندھ کر حاشیہ میں قرآن شریف اور احادیث صحیحہ سے پورا پورا ثبوت دیا ہے اور مخالفین سلسلہ کے منہ پر مہر سکوت لگانے کے لیے قرآن اور احادیث کا ترجمہ اور تفسیر انہی کے علماء کی قلم کی درج کی ہے۔ ہمارے خیال میں یہ مثنوی اشعار کی لطافت کے علاوہ ان آیات قرآنی اور احادیث ضروریہ کا مع حوالہ جات بہت مفید مجموعہ ہے جن کی احمدیوں کو اکثر ضرورت پڑتی رہتی ہے۔‘‘

(ریویو آف ریلیجنز مئی 1914ء صفحہ192)

حضرت سید صادق حسین رضی اللہ عنہ نے آغاز اکتوبر 1949ء میں اپنے علاقہ میں ہی وفات پائی۔ آپ کے متعلق مکرم خانزادہ عبدالعلی خان صاحب آف اناؤ اور محترم حافظ سلیم احمد اٹاوی صاحب کے مضمون اخبار الفضل 11؍نومبر 1949ء صفحہ 6 اور الفضل 18؍نومبر 1949ء صفحہ 4،5 پر شائع شدہ ہیں۔ آپ کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد آپ کی اہلیہ بھی اس جہان سے رخصت ہوگئیں۔ آپ کے بیٹے سید رضا حسین احمدی عرائض نویس کلکٹری اٹاوہ۔ یو پی نے اعلان وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’جناب والد محترم سید صادق حسین صاحب مختار اٹاوہ یو پی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال سے ایک ماہ تیرہ یوم بعد 18؍نومبر 1949ء جنابہ والدہ صاحبہ محترمہ کا بھی اس دنیائے سرائے فانی سے انتقال ہوگیا، اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ والدہ صاحبہ کی مغفرت کے لیے احباب دعا فرمائیں۔‘‘

(الفضل یکم دسمبر 1949ء صفحہ5 کالم 4)

اَللّٰھُمِّ اغْفِرْ لَہٗ وَ ارْحَمْہٗ

(غلام مصباح بلوچ۔استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2021