• 14 مئی, 2025

جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے تکبر و غرور کی بجائے عاجزی و انکساری اپنانے کی اہمیت

فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ
جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے
تکبر و غرور کی بجائے عاجزی و انکساری اپنانے کی اہمیت

مندرجہ بالا عنوان سورۃ النجم کی آیت 33کا ایک حصہ ہے۔ جس کا حضرت مصلح موعودؓ نے یوں ترجمہ فرمایا ہے: پس اپنی جانوں کو پاک مت قرار دو۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس کا ترجمہ یہ فرمایا کہ پس اپنے آپ کو (یونہی) پاک نہ ٹھہرایا کرو۔ جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ترجمہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’تم اپنی ذاتوں کی شیخی نہ بکھیرا کرو‘‘

خلفاء سلسلہ کے تین ترجموں کو قارئین کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ معاشرہ میں بسنے والے لوگوں میں بعض کو شیخی بکھیرنے، فخر ومباحات کا اظہار کرنے اور تکبر کی حد تک اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے بلند رکھنے یا کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ کی نصیحت کرتے ہوئے ناپسند فرماتا ہے۔ان مبارک اور ناصحانہ الفاظ سے قبل اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر تے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ تمہیں سب سے زیادہ جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہاری نشوونما کی اور جب تم اپنی ماؤں کی کوکھ میں محض جنین تھے یعنی تم سب کی پیدائش تو ایک ہی طریق سے ہوئی جو گندے خون اور لوتھڑے سے تھی تو پھر غرور اور تکبر کس بات کا! اور ان نصیحت آمیز الفاظ کے بعد فرمایا ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰیکہ اصل فخر کا مقام تو تقویٰ کا ہے اور اللہ بہت جانتا ہے کہ متقی کون ہے۔

لیکن خود اس تقویٰ کے اظہار سے بھی مومن کو روک دیا۔ اوریہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا کہ تقویٰ اور نیکی کا معیار کس کا زیادہ ہے۔ تقویٰ کے اظہار کی اجازت نہ تو انسان کو دی اور نہ ہی معاشرہ میں بسنے والے لوگوں کو دی کہ وہ کسی کی نیکی اور تقویٰ کا اظہار کرتے پھریں۔

عرب کے علاقہ میں بھی فخر ومباحات کے اظہار کا طریق موجود تھا اورہمارے ایشیائی ممالک کے معاشرے میں بھی پایا جاتا ہے۔ دینی تعلیمات کی روشنی میں ایک تو اپنی نیکی اور اپنی ذات پات کا اظہار کرنا ممنوع ہے اور پھر انسانوں کو ظا ہر میں ہلاک کرنے والی بیماری مدح اورتعریف و توصیف ہے۔ آنحضور ﷺ نے اول تو کسی کی بے جا تعریف سے منع فرمایا اور دوم جس کی تعریف کی جارہی ہو اُسے بھی اس تعریف پر پھوڑ ہونے اور شیخی مارنے سے بھی منع فرما دیا۔ ہمارے معاشرے میں افسران کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں۔ جو مثبت انداز میں ترقی کرنے کے لئے نامناسب عمل ہے۔ اس سے انسان اپنے آپ کو عالم کل سمجھنے لگتا ہے۔ اگر ہم اپنے ملک پاکستان ہی کی مثال لیں تو اس کی کئی مثالیں نظر آئیں گی۔ سربراہ مملکت یا وزیر مشیر کی ان کے ماتحت اس قدر تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں کہ اس کے بُرے کاموں کو بھی اچھا گردانتے ہیں اور میڈیا میں اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں تقریباً تمام سربراہان اور افسران اپنے احکامات پر اس قدر اتراتے ہیں کہ گویا وہی عالم کل ہیں اور انہی خوابو ں میں بسنے کی وجہ سے کسی قسم کے ترقیاتی کام نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کا رخ الٹی طرف ہو جاتا ہے گویا عوام کو ریلیف دینے والے کام ترقی معکوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے بھی بعض لوگو ں میں اپنے کام نکلوانے کے لئے افسروں کی بڑائی بیان کرنے کی بری عادت موجود ہے۔ عام محاورہ میں اسے نمبر بنانا یا نمبر بڑھانا کہتے ہیں جو درست نہیں۔

حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمانؓ نے حضرت مقدادؓ کو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھے تعریف کرنے والے کے منہ میں کنکریاں ڈالتے دیکھا۔ حضرت عثمانؓ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اِذَا رَاَیْتُمُ الْمَدَّاحِیْنَ فَاحْثُوْا فِیْ وُجُوْحِہِمُ التُّرَابَ

(صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق)

کہ جب تم کسی کو کسی کی تعریف کرتے دیکھو تو ان کے چہروں پر خاک ڈالو یعنی ایسے لوگوں کی بات کو کبھی کوئی اہمیت نہ دو۔

*ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آنحضورﷺ کے سامنے دوسرے شخص کی تعریف کر دی۔ نبی پاکﷺ نے فرمایا کہ تم نے اپنے بھائی کی تعریف کر کے گردن کاٹ دی ہے اور یہ الفاظ آپ نے تین بار دہرائے (یعنی سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا) اگر تمہیں کسی کی تعریف ہی کرنی ہے تو یہ کہو کہ فلاں کے متعلق میرا یہ خیال ہے۔ اگر وہ بات اس کے متعلق جانتا ہو اور اللہ اس کا نگران ہے۔ میں تو اللہ کے مقابل پر کسی کو نیک اور پاک نہیں کہہ سکتا یعنی یوں نہیں کہہ سکتا کہ وہ اللہ کے علم میں بھی نیک ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الادب)

اپنی تعریف خود کرنا بھی درست نہیں

جہاں تک اپنی تعریف خود کرنے کا تعلق ہے اس حوالے سے بھی ایک روایت ملتی ہے کہ بنی اسد قبیلہ سے ایک خاتون حضرت عائشہؓ سے ملنے آئی۔ جو اپنی نمازوں کی تعریف کرنے لگی۔ آنحضورﷺ نے اس خاتون کے حوالے سے دریافت فرمایا کہ یہ کون ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جب عرض کیا کہ وہ اپنی راتوں کے جاگنے اور نفل پڑھنے کا ذکر کر رہی ہے تو آنحضورﷺ نے اس عمل کو ناپسند فرماتے ہوئے اُسے روک دیا اور فرمایا:

عَلَیْکُمْ مَّا تُطِیْقُوْنَ مِنَ الْاَ عْمَالِ

کہ تم پر اتنا ہی واجب ہے جتنا اعمال بجا لانے کی تم کو طاقت ہے۔

اس زمانے کے حکم اور عدل حضرت مسیح موعودؑ نے اس مضمون کو اپنی کتب اور ملفوظات میں بیان فرمایا ہے۔ چند ارشادات پیش ہیں۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’تم اپنے تئیں پاک مت ٹھہراؤ کیونکہ کوئی پاک نہیں جب تک خدا پاک نہ کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ62 حاشیہ ایڈیشن 1984ء)

پھر فرمایا :
’’کبھی یہ دعویٰ نہ کرو کہ میں پاک صاف ہوں جیسے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (النجم: 53) کہ تم اپنے آپ کو مزکی مت کہو۔ وہ خود جانتا ہے کہ تم میں سے کون متقی ہے۔ جب انسان کے نفس کا تزکیہ ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اُس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے اور جیسے ماں بچے کو گود میں پرورش کر تی ہے اسی طرح وہ خدا کی گود میں پرورش پاتا ہے اور یہی حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کا نُور اس کے دل پر گِر کر کُل دنیاوی اثروں کو جلا دیتا ہے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر محسوس کر تا ہے لیکن ایسی حالت میں بھی اُسے ہر گز مطمئن نہ ہونا چاہئیے کہ اب یہ طاقت مجھ میں مستقل طور پر پیدا ہو گئی ہے اور کبھی ضائع نہ ہو گی۔ جیسے اولاد پر دھوپ ہو تو اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہوتے کہ یہ ہمیشہ ایسی ہی روشن رہے گی۔ اس پر لوگوں نے ایک مثال لکھی ہے کہ دیوار جب دھوپ سے روشن ہوئی تو اُس نے آفتاب کو کہا کہ میں بھی تیری طرح روشن ہوں۔ آفتاب نے کہا کہ رات کو جب میں نہ ہوں گا تو پھرتو کہاں سے لے گی؟ اسی طرح انسان کو جو روشنی عطا ہوتی ہے۔ وہ بھی مستقل نہیں ہوتی بلکہ عارضی ہوتی ہے اور ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھنے کے لئے استغفار کی ضرورت ہے۔ انبیاء جو استغفار کرتے ہیں اس کی بھی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ان باتوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور ان کو خطرہ لگا رہتا ہے کہ نور کی جو چادر ہمیں عطا کی گئی ہے ایسا نہ ہو کہ وہ چھن جاوے۔ نادان لوگ لا علمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا۔ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔ اگر وہ استغفار نہ کرتا تھا تو گویا اس نُور سے بالکل محروم تھا جو کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔ کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنے والا ثابت ہو گا اسی قدر اس کا درجہ بڑا اور بلند ہو گا لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے کیونکہ نبیوں کو بھی وہ مستعار طور پر ملتی ہے اور وہ پھر استغفار کے ذریعہ اسے مدامی طور پر رکھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ اصل انوار تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں اور نبی ہو یا کوئی اور، سب خدا تعالیٰ سے انہیں حاصل کرتے ہیں۔ سچے نبی کی یہی علامت ہے کہ وہ اس روشنی کی حفاظت بذریعہ استغفار کے کرے۔ استغفار کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خدا تعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اَور ملے۔ اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تاکہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض رہائی پا سکتا ہے۔ وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دُوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔ میرے پاس اکثر خطوط آتے ہیں مگر ان میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ میرے املاک کے لئے یا اولاد کے لئے دعا ہو۔ فلاں مقدمہ یا فلاں مرض ہے وہ اچھا ہو جاوے لیکن مشکل سے کوئی خط ایسا ہوتا ہے جس میں ایمان یا ان تاریکیوں کے دُور ہونے کے لئے درخواست کی گئی ہو۔ بعض خطوط میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ مجھے پانسو روپیہ مل جاوے تو میں بیعت کر لُوں۔ بیوقوفوں کو اتنا خیال نہیں کہ جن باتوں کو ہم چھوڑانا چاہتے ہیں۔ وہی ہم سے طلب کی جاتی ہیں۔ اسی لئے میں اکثر لوگوں کی بیعت سے خوف کرتا ہوں۔ کیونکہ سچی بیعت کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ بعض تو ظاہری شروط لگاتے ہیں جیسے کہ اُوپر ذکر ہوا۔ اور بعض لوگ بعد بیعت کے ابتلاء میں پڑجاتے ہیں۔ جیسے کسی کا لڑکا مرگیا تو شکایت کرتا ہے، میں نے تو بیعت کی تھی یہ صدمہ مجھے کیوں ہوا؟ اس نادان کو یہ خیال نہیں آتا۔ کہ آنحضرت صلےاللہ علیہ وسلم باوجود کہ پیغمبر تھے مگر آپ کے گیارہ بچے فوت ہو گئے اور کبھی شکایت نہ کی کہ خداوند تُو نے تو مجھے پیغمبر بنایا تھا میرے بچے کیوں مار دیئے۔

غرضکہ یاد رکھو کہ دین کو دنیا سے ہر گز نہ ملانا چا ہئیے اور بیعت اس نیت سے ہر گز نہ کرنی چاہئیے کہ میں بادشاہ ہی بن جاؤں گا یا ایسی کیمیا حاصل ہو جاوے گی کہ گھر بیٹھے روپیہ بنتا رہے گا۔ اللہ تعالٰے نے ہمیں تو اس لئے مامور کیا ہے کہ ان باتوں کو لوگوں سے چھوڑا دیویں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو لوگ صدق اور وفا سے خدا تعالیٰ کی طرف آتے ہیں۔ اور اس کے لئے ہر ایک دُکھ اور مصیبت کو سر پر لیتے ہیں تو خدا تعالٰے ان کو اور ان کی اولاد کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ حضرت داؤدعلیہ السلام کہتے ہیں کہ میں بوڑھا ہو گیا لیکن کبھی نہیں دیکھا کہ صالح آدمی کی اولاد ضائع ہوئی ہو۔ خدا تعالیٰ خود اس کا متکفل ہوتا ہے۔ لیکن ابتدا میں ابتلاء کا آنا ضروری ہے تاکہ کھوٹے اور کھرے کی شناخت ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ123تا 126)

  • ایک اور مو قع پر متقی کا دعویدار ہونے کی بجائے اپنے آپ کو پاکیزہ وجود بنانے کی طرف یوں توجہ دلائی۔
    ’’وہ بیان جو کہ بغیر روحانیت و خلوص کے ہے وہ اس پرنالہ کے پانی کی مانند ہے جو موقعہ بے موقعہ جوش سے پڑا جاتا ہے اور جس پر پڑتا ہے اسے بجائے پاک و صاف کرنے کے پلید کر دیتا ہے۔ انسان کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ پھر دوسروں کی اصلاح کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ۔ یعنی اے مومنو! پہلے اپنی جان کی فکر کرو۔ اگر تم اپنے وجود کو مفید ثابت کرنا چاہو تو پہلے خود پاکیزہ وجود بن جاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ باتیں ہی باتیں ہوں اور عملی زندگی میں اُن کا کچھ اثر دکھائی نہ دے۔ ایسے شخص کی مثال اس طرح سے ہے کہ کوئی شخص ہے جو سخت تاریکی میں بیٹھا ہے۔ اب اگر یہ بھی تاریکی ہی لے گیا تو سوائے اس کے کہ کسی پر گر پڑے اور کیا ہو گا۔ اُسے چراغ بن کر جانا چاہیے تاکہ اُس کے ذریعہ سے دوسرے روشنی پائیں۔‘‘

(ملفوظات جلد دہم صفحہ365۔366)

*اسی مضمون کو ایک اور موقع پر یوں بیان فرمایا کہ:
’’خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم پاک نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں کسی کو پاک نہ کروں۔ تم اندھے ہو مگر جسے میں آنکھیں دوں۔ تم مُردے ہو مگر جسے میں زندگی عطا کروں۔ پس انسان کو چاہیئے کہ ہمیشہ دُعا میں لگا رہے اور اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی سچی تڑپ اور سچی خواہش پیدا کرے اور خدا تعالٰے کی محبت کی پیاس دل میں پیدا کرے تاکہ پھر خدا تعالٰے کا فیضان بھی اس کی نصرت کرے اور اسے قدرت نمائی سے اُٹھائے۔ خدا تعالٰے کی تلاش میں اور اس کی مرضی کے ڈھونڈنے میں فنا ہو جاوے تا خدا پھر اسے زندہ کرے اور شربتِ وصال پلاوے۔ اور اگر انسان جلدی کرے گا اور خدا تعالے کی چنداں پروانہ کرے گا یا معمولی طور سے لاپرواہی کرے گا تو پھر یاد رکھو کہ خدا بھی غنی عن العالمین ہے۔ کیا کوئی ہے جو خدائی قانون کو مٹا سکے جو کہ اس نے فضل کے حصول کے واسطے بنا دیا ہے کہ فضل کے حصول کے امید وار ازراہ نیاز اس دروازے سے داخل ہوں۔ جب ان کی امیدیں پوری ہوں گی ورنہ اگر تمام عمر بھی بھٹکتے پھریں بجز اس اصلی راہ کے (جو اتباع نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے) ہر گز ہر گز منزل مقصود کو نہیں پہنچ سکیں گے۔ خدا تعالٰی نے ایک راہ بتا دی ہے۔ ہلاک ہوگا وہ جو پیروی نہ کرے گا۔ مگر لوگ باوجود سمجھانے کے نہیں سمجھتے اور لاپرواہی کرتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اس راہ کو جس کی ہم ان کو دعوت دیتے ہیں آزمالیں کہ آیا ہم سچ کہتے ہیں یا جھوٹ۔ ہماری طرف سے توخدا بحث کر رہا ہے اور اس نے ہماری تائید میں آجتک ہزاروں نشان بھی دکھائے۔ کون شخص ہے جس نے ہمارا کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو؟۔ ابھی ایک انگریز امریکہ سے ہمارے پاس آیا تھا۔ وہ خود اقرار کر گیا ہے کہ واقعی میں ڈوئی آپ کی پیشگوئی کے عین منشا کے مطابق مرا مگر وہ تو خود بُرا تھا۔ ’’

(ملفوظات جلد دہم صفحہ280۔281)

*حضرت مسیح موعودؑ نے ذات پات پر گھمنڈ کرنے والے کو اپنے اعمال درست رکھنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایااور اس ضمن میں حضرت فاطمہؓ کی مثال بھی دی کہ پیغمبر زادی بھی اعمال کے ذریعہ ہی دیکھی جائے گی۔ فرماتے ہیں:
’’بعض نادان ایسے بھی ہیں جو ذاتوں کی طرف جاتے ہیں اور اپنی ذات پر بڑا تکبر اور ناز کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی ذات کیا کم تھی جن میں نبی اور رسول آئے تھے۔ لیکن کیا اُن کی اس اعلیٰ ذات کا کوئی لحاظ خدا تعالیٰ کے حضور ہوا۔ جب اس کی حالت بدل گئی۔ ابھی میں نے کہا ہے کہ ان کا نام سؤر اور بندر رکھا گیا اور اسے اس طرح پر انسانیت کے دائرہ سے خارج کر دیا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت لوگوں کو یہ مرض لگا ہوا ہے۔ خصوصاً سادات اس مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور اپنی ذات پر ناز کرتے ہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالٰے کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذات کچھ بھی چیز نہیں ہے اور اُسے ذرا بھی تعلق نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو سید ولد آدم اور افضل الانبیاء ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ سے صاف طور پر فرمایا کہ اے فاطمہؓ ! تو اس رشتہ پر بھروسہ نہ کرنا کہ میں پیغمبر زادی ہوں۔ قیامت کو یہ ہرگز نہیں پوچھا جائے گا کہ تیرا باپ کون ہے۔ وہاں تو اعمال کام آئیں گے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قرب سے زیادہ دور پھینکنے والی اور حقیقی نیکی کی طرف آنے سے روکنے والی بڑی بات یہی ذات کا گھمنڈ ہے کیونکہ اس سے تکبر پیدا ہوتا ہے اور تکبر ایسی شئے ہے کہ وہ محروم کر دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنا سارا سہارا اپنی غلط فہمی سے اپنی ذات پر سمجھتا ہے کہ میں گیلانی ہوں یا فلاں سیّد ہوں۔ حالانکہ وہ نہیں سمجھتا کہ یہ چیزیں وہاں کام نہیں آئیں گی۔ ذات اور قوم کی بات تو مرنے کے ساتھ ہی الگ ہو جاتی ہے۔ مَرنے کے بعد اس کا کوئی تعلق باقی رہتا ہی نہیں۔ اس لئے اللہ تعالٰے قرآن شریف میں یہ فرماتا ہے مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ کوئی بُرا عمل کرے خواہ کتنا ہی کیوں نہ کرے اس کی پاداش اس کو ملے گی۔ یہاں کوئی تخصیص ذات اور قوم کی نہیں اور پھر دوسری جگہ فرمایا اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ اللہ تعالٰے کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

پس ذاتوں پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو کہ یہ نیکی کے لئے روک کا باعث ہو جاتا ہے۔ ہاں ضروری یہ ہے کہ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فضل اور برکات اسی راہ سے آتے ہیں۔ میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اسی حال میں اللہ تعالٰے کی تائید اور اس کی نُصرت ہمارے شاملِ حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی کامل اور سچی اتباع کریں۔ قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستورالعمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے۔ اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے۔ تو یقیناً یاد رکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہو گا۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ188۔189)

ایک موقع پر حضرت فاطمہؓ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ پوست کو پسند نہیں کرتا۔ وہ تو رُوحانیت اور مغز کو قبول کرتا ہے۔ اس لئے فرمایا۔ لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ اور دوسری جگہ فرمایا اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ۔ حقیقت میں یہ بڑی نازک جگہ ہے۔ یہاں پیغمبر زادگی بھی کام نہیں آسکتی۔ آنحضرتﷺ نے فاطمہؓ سے بھی ایسا ہی فرمایا۔ قرآن شریف میں بھی صاف الفاظ میں فرمایا اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ یہودی بھی تو پیغمبر زادے ہیں۔ کیا صد ہا پیغمبر اُن میں نہیں آئے تھے مگر اس پیغمبر زادگی نے اُن کو کیا فائد پہنچایا۔ اگر اُن کے اعمال اچھے ہوتے تو وہ ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ کے مصداق کیوں ہوتے۔ خداتعالٰے تو ایک پاک تبدیلی کو چاہتا ہے بعض اوقات انسان کو تکبرِ نسب بھی نیکیوں سے محروم کر دیتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ میں اسی سے نجات پالُوں گا جو بالکل خیال خام ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ104)

*استغفار کا ہی ایک اور جگہ یوں ذکر فرمایا :
’’گناہ جو انسان سے صادر ہوتا ہے اگر انسان یقین سے توبہ کرے۔ تو خدا بخش دیتا ہے۔ پیغمبرخدا جو ستر بار استغفار کرتے تھے حالانکہ ایک دفعہ کے استغفار سے گزشتہ گناہ معاف ہو سکتے تھے پس اس سے ثابت ہے کہ استغفار کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ آئندہ ہر ایک غفلت اور گناہ کو دبائے رکھے اس کا صدور بالکل نہ ہو۔ فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ (النجم: 33) سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ معصوم اور محفوظ ہونا تمہارا کام نہیں خدا کا ہے۔ ہر ایک نور اورطاقت آسمان سے ہی آتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ162 ایڈیشن 2016ء)

*اس مضمون کی تائید میں حضرت مسیح موعودؑ کے بہت سے ارشادات مل جاتے ہیں مگر طوالت سے بچتے ہوئے ایک اقتباس اور بیان کر دیتا ہوں۔ آپ کامل اتباع اور عمل درست کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’مختصر یہ کہ نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے اور اس کو اعمال صالحہ اور آنحضرت ﷺ کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ قوم کا ابتلاء بھی مال کے ابتلاء سے کم نہیں۔ بعض لوگ دوسری قوموں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ اس ابتلاء میں سیّد سب سے زیادہ مبتلا ہیں۔ ایک عورت گدا گر ہمارے ہاں آئی۔ وہ کہتی تھی میں سیّدانی ہوں۔ اس کو پیاس لگی اور پانی مانگا تو کہا کہ پیالہ دھو کر دینا کسی امتی نے پیا ہو گا اس قسم کے خیا لات ان لوگوں میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے حضور ان باتوں کی کچھ قدر نہیں۔ اس نے فیصلہ کر دیا ہے۔ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ‘‘

(ملفوظات جلد ہشتم صفحہ111)

ہمارے موجودہ پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سال رواں میں یوم خلافت کے موقع پر 28 مئی 2021 کو ایک بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس میں آپ نے اسی مضمون کے تحت اپنے آپ کو کمزور انسان کہتے ہوئے عاجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے افضال اور جماعت کی غیر معمولی ترقیات کا یوں ذکر فرمایا:
’’جماعت کا جو تعارف اور دنیا میں اس کا غیر معمولی طور پر اظہار اس دور میں، ہر طبقے میں اور ہر سطح پر ہوا ہے یہ غیر معمولی ہے۔ مَیں تو ایک بہت کمزور انسان ہوں میری کسی خوبی کی وجہ سے یہ ترقی نہیں ہو رہی۔ دنیا کی حکومتوں کے سرکردہ لوگوں اور ایوانوں میں جماعتِ احمدیہ کا تعارف ہو رہا ہے تو یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیے گئے وعدوں کی وجہ سے ہو رہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہو رہا ہے۔ ہر روز اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 18جون 2021ء)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو عاجزی، انکساری اور خاکساری اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ کا کمزورو ناتواں بندہ سمجھنے اور اس کا اس رنگ میں اظہار کرنے کی توفیق دے تاکہ جماعت احمدیہ الٰہی وعدوں اور پیش گویوں کے مطابق ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جائے۔ آمین

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

تبلیغ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند ارشادات

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 دسمبر 2021