کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نہ تمہارے مکر کی
خود مجھے نابود کرتا اس جہاں کا شہر یار
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسّی کی دہائی میں گوجرہ میں ڈیوٹی کر رہا تھا۔ اکابرین گوجرہ کے ساتھ تعارف اور میل ملاپ تھا۔ ان اکابرین میں مفتی گوجرہ سید محمد طفیل شاہ صاحب مرحوم کا نام سر فہرست ہے۔ جب بھی اُ ن کے پاس جاتا بہت پیار اور محبت سے استقبال کرتے۔ اور اپنی مصروفیات چھوڑ کر بھی مجھے وقت دیتے تھے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ جَزَاہُمُ اللّٰہُ
لائبریری گراؤنڈ میں ایک رات مجلس ختم نبوت کا جلسہ تھا۔ ہر مقرر نے ایک دوسرے سے بڑھ کر جماعت احمدیہ اور بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے خلاف باتیں کیں اور حاضرین کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ حضرت مرزا صاحب ایک نیا دین لے کر آئے ہیں۔ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ انہوں نے تو ظلم کی حد عبور کر کے قرآن بھی بدل دیا ہے۔ اور کلمہ طیبہ بھی بدل دیا ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ
جلسے کی آخری تقریر غالباً مفتی گوجرہ محترم شاہ صاحب مرحوم کی تھی۔ نعروں کی گونج میں اسٹیج پر تشریف لائے۔ قرآنی آیات سے آغاز فرمایا۔ اور پھر چند باتیں اسلام کے زندہ اور آخری مذہب ہونے،قرآن کریم کے کامل اور آخری کتاب ہونے پر کیں۔ ہر بات پر بہت نعرے بلند ہوتے رہے۔ پھر فرمایا:
دیکھو! ہمارے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خدا نے خود اپنے ذمہ لیا ہے۔ دو تین بار یہ فقرہ دہرایا۔ ہر دفعہ ہر طرف سے حاضرین نے نعروں کے ساتھ حوصلہ افزائی کی۔ پھر فرمایا:
یہ وہ کتاب ہے کہ کوئی ایک لفظ بھی اس کا کسی کو بدلنے کی جرات نہیں۔۔۔ نعرے۔۔۔ دیکھو مرزا غلام احمد قادیانی نبی تو بن بیٹھا لیکن اُسے بھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ ہمارے قرآن کو بدل دے۔۔۔ نعرے۔۔۔ اب تم کسی قادیانی کے گھر جاکے دیکھ لو۔ وہ یہی ہمارا قرآن پڑھنے پر مجبور ہیں۔۔۔ نعرے۔۔۔
پھر فرمایا:
قرآن تو بہت بڑی بات ہے اُ ن کو تو یہ جرات نہیں ہوئی کہ ہمارا چھوٹا سا کلمہ بدل دیں۔۔۔ نعرے۔۔۔ کسی قادیانی سے مل کے پوچھو۔ سب ہمارا ہی کلمہ طیبہ پڑھنے پر مجبور ہیں۔۔۔۔۔
انہیں دنوں میں میرا پلاثور ٹوبہ روڈ میں مہمانوں سے ملاقات اور سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ میں اپنے سفر سائیکل پر ہی کرتا تھا کیونکہ لوکل بسوں پے سفر کریں تو جان،مال،وقت اور عزت کچھ بھی محفوظ رہنے کی ضمانت نہیں ہوتی۔ اور پھر ہم نے جو طریق کار اپنایا ہؤا تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ ساری جماعتوں کو مختلف دائروں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ جس مقام پر شام کے وقت کوئی پروگرام ہوتا، تو صبح گھر سے نکلتے اور اُس دائرہ کی سب جماعتوں سے ملاقات کر کے پروگرام میں جا شامل ہوتے۔ ہر دورے میں میرے ساتھ گوجرہ سے کوئی ایک خادم میرے ساتھ ہوتے تھے۔ عام طور پر تو حنیف صاحب میرے مستقل ساتھی تھے۔ (جن کا تعلق بھٹی فیملی سے ہے۔ اور آجکل جرمنی میں مقیم ہیں) اس روز بھی یہی حنیف صاحب میرے ساتھ تھے۔
ہم گوجرہ سے نکلے۔ کانا کو نٹا، دھیرکے، کتھووالی اور تلونڈی سے ہوتے ہوئے کالا پہاڑ پہنچے۔ نماز عصر اُ ن کے ساتھ ادا کی۔ اتنے سخت بادل آگئے۔ میں اپنے ساتھی کو لے کے فورا اٹھ کھڑا ہؤا۔ کیونکہ ہماری منزل پلاثور ابھی چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔ تمام لوگوں نے بہت روکا کہ بارش آرہی ہے۔ اور اتنے میں بارش شروع بھی ہوگئی۔ لیکن میرا سب کو یہی جواب تھا کہ اصل پروگرام تو ہمارا آگے ہے۔ اُس میں پہنچنا ضروری ہے۔ اور یہ کہ ہم نہ نمک سے بنے ہیں کہ کُھر جائیں گے۔ اور نہ روئی ہیں جو ہمیں بارش سے خطرہ ہے۔۔۔ چنانچہ ہم نکل کھڑے ہوئے۔ کچا راستہ، تیز بارش اور منزل پے جلد پہنچنے کے لئے ہم بھی تیزی سے چلتے گئے۔ خدا کا شکر کہ ہم دنوں میں سے کسی کی سائیکل نہ کسی جگہ پھسلی اور نہ کیچڑ میں پھنسی۔ زیادہ تر راستہ تو کچا تھا۔ البتہ کچھ حصہ ٹوبہ گوجرہ روڈ پکا تھا۔ سڑک پے پہنچے تو سُکھ کا سانس آیا۔ لیکن منزل تو ابھی مزید آگے تھی۔ خدا کا شکر ہےکہ پلا ثور تک ہم خیریت سے پہنچ گئے۔ اب ایک اور مشکل تھی۔ ہمارے میزبان دوست چوہدری عنایت اللہ صاحب کا گھر گاؤں کی دوسری طرف تھا۔ یہاں کچی گلیاں اور نالیاں پانی سے بھرپور اور خوب کیچڑ۔خیر ہم نے اپنی سائیکلیں کندھوں پے رکھیں اور چل پڑے۔اللہ نے فضل فرمایا کہ کسی جگہ نہ پاؤں پھسلا اور نہ مشکل پیش آئی۔ اور ہم خیریت سے اپنی اصل منزل پے پہنچ گئے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلیٰ ذَالِکَ
تمام گلیوں میں کیچڑ اور پانی تھا۔ قابل ذکر حاضری تو نہ ہوئی۔ البتہ ایک مہمان جنہوں نے ہمیں گلی میں آتے دیکھا۔ کہنے لگے کہ آپ لوگوں کو اس موسم میں آتے دیکھ کر میرے سارے مسائل حل ہو گئے ہیں۔ اب میرے پاس کوئی سوال بھی باقی نہیں بچا مجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں کے پاس سچائی ہے۔ جو آپ کو اس موسم اور کیچڑ میں بھی لئے پھرتی ہے۔ اگر ہم نے اپنے کسی عالم کو بلایا ہوتا تو وہ اس موسم میں کبھی کسی قیمت پر نہ آتا۔
فَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْراً
(ابوالکوثر۔ فرانس)