• 18 جولائی, 2025

بچوں کے دلوںک ی فائن ٹیونگ کروائیں

موٹرسائیکل ایک لیٹر میں پینسٹھ سے ستر کلومیٹر چلتی تھی۔ اچانک اس کی ایوریج خراب ہو گئی اور پینتالیس چھیالیس پہ آ گئی۔ دو تین مکینکس کو دکھانے کے باوجود معاملہ قابو میں نہ آیا۔

پھر ایک مکینک نے اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک سنیئر موسٹ کی طرف ریفر کر دیا۔

چنانچہ بائیک وہاں لے جائی گئی۔ اس نے ساری بات سنی اور ’’چھوٹے‘‘ کو آواز دی۔

’’چھوٹے‘‘ سے چھوٹا پیچ کس منگوایا۔

کاربوریٹر سے ایک پیچ کھول کے ’’چھوٹے‘‘ کو کہا کہ اسے بف لگا کے لاؤ۔

وہ پانچ منٹ میں بف لگا کے لے آیا۔ مکینک نے پیچ اسی جگہ پہ لگا دیا اور کہا کہ جاؤ۔

ان شاءاللّٰہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

پیسے بھی اس نے کچھ نہ لئے۔

چند دن بعد نوٹ کیا توگاڑی پھر تقریبا ستر کلومیٹر پہ آگئی تھی۔

میں شکریہ ادا کرنے کے لئے گیا تو پوچھا کیا فالٹ تھا؟

مکینک بولا

’’کاربن آ گیا تھا‘‘

صرف کاربن آ جانے سے اتنا اثر پڑا؟

جی ہاں۔۔۔

دِلوں پر بھی کاربن آجایا کرتا ہے۔

تب دِل کسی نیکی، بھلائی اور بہتری کی طرف مائل نہیں ہوتا۔

اس کی وجہ صرف ہمارا اپنا ذائقہ اور لطف غیر ترقی یافتہ رہ جانا ہوتا ہے۔ جیسے چھوٹے بچے بڑھتی عمر کے ساتھ دودھ چھوڑ کر نرم غذا لیتے ہیں اور پھر دلیہ یا سریلیک کھانےلگتے ہیں اور دھیرے دھیرے عمر کے ساتھ دیگر مختلف کھانوں کا ہم انہیں تجربہ کرواتے ہیں نئی نئی ڈشز ٹرائی کرتے ہیں۔

کیا آپ اپنی روز مرہ غذا میں سریلیک کھانا پسند کریں گے؟ وہی غذا جو بچے کھاتے ہیں؟ یا چھوٹی عمر کے بچے کو بریانی یا حلیم کھلا سکیں گے؟

اس کے لئے ذائقے اور لطف کو ترقی دینا اس کی فائن ٹیوننگ کرتے رہنا ضروری ہوتا ہے، اعلی لذات کی عادت ڈالنی پڑتی ہے۔ اس کے لئے چاہے کافی تردد کرنا پڑے بچوں کو دودھ چھڑوانا پڑتا۔ ارد گرد کا ماحول انکو محفوظ رہنے اور تکلیف اور تردد سے دور رہنے کا اتنا زیادہ سبق پڑھاتا ہے کہ وہ شخصیت میں پختگتی اور کردار میں مضبوطی کی تکلیف بھی نہیں اٹھاتے۔ سنجیدگی سے بھاگ کر کبھی مشکل اور فلسفیانہ محلفلوں کو بورنگ سمجھ کر سوچتے رہتے ہیں کہ یہ بوڑھے لوگ اتنی فرسودہ چیزیں کیوں پسند کرتے ہیں؟، کلاسسکی اور عارفانہ کلام اتنا کیوں پسند ہیں؟ اتنی بورنگ کتابیں پڑھتے ہیں۔ اچھائی اور نیکی، بہتری اور بھلائی کیوں چاہتے ہیں اور بورنگ محفلوں میں ان کا دل کیسے لگتا ہے؟ عبادت اتنا دل لگا کر کیسے کر لیتے ہیں؟

در اصل جب انسان اپنی فائن ٹیوننگ کرواتا رہے، انہی بزرگان میں اٹھنا بیٹھنا جاری رکھ کر اور وقتاً فوقتاً ان کی بورننگ باتیں سنا کرے اور کچھ کتابیں پڑھ لیا کرے تو اس کے دل کا زنگ صاف ہوتا رہتا ہے۔ یہ عادتیں دل کے لئے زنگ کش، اینٹی رسٹ کا کام کرتی رہتی ہیں ورنہ زنگ آلود ہو کر دل بیمار ہو جاتا ہے اور پھر اسے ایک بیمار شخص کی طرح کبھی بھی اعلی لذات کا ذائقہ اچھا نہیں لگتا یا پھیکا لگتا ہے جیسے بیماری میں انسان کے منہ کا ذائقہ تبدیل ہو جاتا ہے۔

شروع میں ہی اگر ساتھ ساتھ اس فائن ٹیوننگ کی عادت رہے تو ذائقہ، لطف اور شوق وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پاجاتے ہیں بعد میں بہت مشکل ہو جاتی ہے کبھی کبھی بہت رگڑائی کرنی ہوتی ہے زنگ آلود دلوں کی صفائی کرنا بہت وقت لیتا ہے بس اگر زیادہ بیمار ہو کر ناکارہ نہ ہو چکے ہوں تو ….

ربا ربا مینہ برسا
بنجر دل تے پانی لا

(کاشف احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ