• 18 جولائی, 2025

لاہور کے امراء اور نائب امراء کا ذکر خیر

مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان
سابق امیر لاہور

مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان کو1975 سے لیکر2009 تک بحیثیت امیر جماعت احمدیہ لاہور ذمہ داری نبھانے کی توفیق ملی تھی۔آپ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خاں ؓ کے داماد تھے۔حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ نے آپ کو براہ راست امیر لاہور مقرر فرمایا تھا یوں آپ کی امارت کی ابتداء خلافت ثالثہ میں ہوئی جبکہ اختتام خلافت خامسہ میں ہوا،اس طرح ان کی امارت تقریبا چونتیس برسوں پر محیط رہی۔ہر خلیفہ وقت کے ساتھ گہری وفا کا تعلق رہا تھا اور ہر تحریک پر لبیک کہا اور جماعت لاہور کو بھی تحریک کی۔مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان ایک باوقار اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے اور گونا گوں صفات کے مالک تھے۔ آپ کے اندر فراست، تدبر،دور اندیشی، تحمل اور برداشت جیسی صفات کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں۔آپ ا نتظامی صلاحیتوں سے مالا مال تھے جس کا مظاہرہ تین دہائیوں تک جماعت احمدیہ لاہور کے ممبران نے دیکھا۔کسی قسم کے دباؤ میں آنا شاید ان کے مزاج اور طبیعت میں شامل ہی نہیں تھا۔ ابتلاؤں کے دور میں آپ نے خلیفہ وقت کی ہدایات کی روشنی میں احباب جماعت لاہور کو گھبرانے نہیں دیا اور ہر ابتلاء میں پوری جماعت ثابت قدم رہی۔ کوئی فیصلہ جلدی میں نہیں کرتے تھے، اور اہم جماعتی معاملات پر مشاورت کو ترجیح دیتے تھے۔ قانونی معاملہ ہوتا یا ملکی سیاسی ایشو ہوتا، آپ لمبی مشاورت کرتے جس کے لئے آپ نے لاہور کے چند چیدہ چیدہ صاحب علم اور صاحب الرائے احباب کو منتخب کر رکھا تھا،ان میں لاہور کے ٹاپ کے احمدی وکلاء بھی شامل تھے۔آپ کے دور میں جماعتی اور ملکی سیاست کے اہم ترین واقعات رونما ہوئے تھے۔ ان کے دور امارت میں ضیاء الحق کا سیاہ قانون کا نفاذ، کلمہ طیبہ کی مہم،پاکستان سے ہجرت، احمدیہ صد سالہ جشن تقریبات، 1991ء میں قادیان کا صد سالہ تاریخی جلسہ،اسلامی اصول کی فلاسفی کی صد سالہ تقریبات، خلافت کی صد سالہ تقریبات کا انعقادایسے اہم ترین واقعات شامل تھے اور انہی تمام خوشیوں اور بحرانوں کے دنوں میں آپ نے لاہور میں تمام حالات و معاملات کو انتہائی ذمہ داری،حوصلے،تدبر اور فراست کی ساتھ نبٹایا تھا اورجماعت لاہور نے آپ کی قیادت میں تمام ذمہ داریوں اور آزمائشوں کو یکجا ہو کر احسن طریق سے نبھانے کی توفیق پائی۔تین دہائیوں سے زائد عرصہ تک جماعت اور ذیلی تنظیموں کی مکمل راہنمائی کی۔جماعت لاہور کو تنظیمی طور پرمضبوط کیا اور نئے جماعتی حلقے بنا کر کام میں آسانیاں پیدا کیں۔جماعتوں کو پھیلانے اور مرکزی تحریکات میں لاہور کو سرفہرست لانے میں آپ کی کوششیں قابل قدر رہی ہیں۔آپ کے دور امارت میں جماعتی مالی بجٹ ہزاروں، لاکھوں سے نکل کر کروڑوں تک پہنچ گیا۔وکلاء کی تنظیم، احمدیہ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، انجینئرز، آرکیٹیکچرسمیت دیگر شعبوں کے ماہرین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رکھا تھا۔ دارالذکر کی وسعت بھی انہی کے دور کا ایک قابل ذکر کام ہے اور دور حاضر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ نے پوری فراست اور تدبر کیساتھ دارالذکر کی توسیع اور تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی علالت اور پھر ان کی وفات کے موقع پرنماز جنازہ و تدفین کے مراحل انتہائی حکمت کیساتھ پایہ تکمیل تک پہنچانا بھی ایک اہم فریضہ تھا۔یہ سب واقعات آج تاریخ احمدیت کا درخشندہ باب بن چکے ہیں۔ 2009ء میں بیماری کی وجہ سے آپ لاہور کی امارت کی ذمہ داری سے فارغ ہوگئے تھے۔ 4 جنوری2017ء کو آپ نے 83 سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ اور ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔

مکرم منیر احمد شیخ شہید
امیر لاہور

آپ کی امارت کا دور تقریبا ًڈیڑھ سال تک رہا۔ 2009ء کے آغاز پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو لاہور کا امیر مقرر فرمایا۔ اگلے سال آپ28 مئی2010ءکو دارالذکر میں نمازجمعہ کے موقع پر دہشت گردی کے حملے کے دوران شہید ہو گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ کی شہادت پرحضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ جمعہ فرمودہ11جون2010ء میں آپ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ان کا علم بہت وسیع تھا، بڑے دلیر تھے، قوت فیصلہ بہت تھی، ملازموں اور غریبوں سے بڑی ہمدردی کرتے تھے درویش صفت انسان تھے، جب بھی ان کو ملا ہوں جہاں تک میں نے دیکھا ہے ان کی طبیعت میں بڑی سادگی تھی، فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔۔ گارڈن ٹاؤن کے صدر بھی رہے ہیں۔۔ گزشتہ سال میں نے ان کو لاہور کا امیر مقرر کیا اور انہیں لکھا کہ کوئی مشکل ہو تو براہ راست راہنمائی لینی چاہتے ہوں تو بیشک لے لیا کریں۔۔۔۔آپ بڑے منجھے ہوئے شخص تھے سب جو کارکنان تھے، ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کو ساتھ لیکر چلنے والے تھے۔ یقینا ً انہوں نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کردیا اور بڑے پیار سے ساروں کو ساتھ لیکر چلے، بیشمار خصوصیات کے حامل تھے، اللہ اپنے پیاروں میں ان کو جگہ دے۔‘‘

امیر مقرر ہونے سے پہلے آپ گارڈن ٹاؤن جماعت کے صدر تھے۔جب آپ امیر لاہور مقرر ہوئے تو اکثریت احباب لاہور آپ کو نہیں جانتے تھے لیکن محض ڈیڑھ سال کے عرصہ کی امارت میں بھی لاہور کے خدام، انصار لجنہ اور دیگر احباب آپ کی اہلیت اور قابلیت کے معترف ہو گئے تھے۔آپ کے دور امارت میں منعقد ہونے والی واحد اہم بڑی تقریب وہ تھی جس میں مکرم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی ربوہ نے شرکت کی تھی، اس کے علاوہ مکرم چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب سابق امیر لاہور بھی موجود تھے، یہ قادیان جلسہ پر ڈیوٹی دینے والے خدام، انصار کے اعزاز میں عشائیہ کی تقریب تھی۔ آپ کے امیر بننے پر عاجز بھی ان کی عاملہ کا ممبر تھا۔ میں ان نے کو انکساری و عاجزی کا پیکر پایا تھا۔ ہر ایک کے ساتھ مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے۔ آپ کا تعلق عدلیہ سے تھا شاید یہی وجہ تھی کہ آپ کے اندر انسانی ہمدردی اور خدمت خلق کرنے کا وصف بہت نمایاں تھا اور دوسروں کے کام کرکے بے انتہا خوشی محسوس کرتے۔

1991ء کے یادگار اور تاریخی صد سالہ جلسہ قادیان کے دنوں میں محترم منیر احمد شیخ سیالکوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج تھے لیکن ان دنوں لاہور میں تھے، اور وہ خود بسوں کی چھتوں پر قادیان کے مہمانوں کا سامان رکھا کرتے تھے۔

دیانت اور قابلیت کا غیر احمدی لوگ بھی اعتراف کرتے تھے۔معاملہ فہم تھے جلد ہی بات کی گہرائی میں پہنچ جاتے۔ حقوق العباد کے ساتھ حقوق اللہ میں بھی آپ بہت آگے تھے۔ بہت دعا گو، تہجد گزار تھے۔ مرکزی مہمانوں اور سلسلہ کے مربیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک بار روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر صاحب اور نائب ایڈیٹر صاحب لاہور چند دنوں کے دورہ پر آئے تو میری ڈیوٹی لگائی کہ دارالذکر میں کوئی تکلیف نہ ہو اور پھر اپنے گھر بھی ان کو کھانے پر بلایا۔ آپ سے ملاقات میں کسی کو کسی قسم کی مشکل نہ تھی۔ ماہانہ میٹنگ میں بھی آپ کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی گفتگو میں بہت نمایاں ہوتی۔جمعہ کے دن عدالت سے سیدھے دارالذکر پہنچ کر نماز جمعہ تک دفتر میں بیٹھتے تھے۔ 28مئی 2010ء کو بھی اسی معمول کے مطابق دارالذکر پہنچے تھے اور پھر دہشتگردی کے حملہ میں محراب میں دیگر احمدی شہداء کے ساتھ جام شہادت نوش کیا اور اس وقت آپ کو محفوظ مقام پر جانے کے لئے بار بار کہا گیا لیکن آپ نے احمدیوں کو اکیلا چھوڑنے کی بجائے انہی کے ساتھ شہید ہوجانا پسند کیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

مکرم میجر عبد اللطیف
نائب امیر لاہور

لاہورکے نائب امراء میں مکرم میجر عبد اللطیف صاحب کا نام بہت نمایاں ہے، آپ نائب امیر بننے سے پہلے کئی سال تک سیکرٹری ضیافت لاہور دارالذکر بھی رہے تھے جس بناہ پر آپ احباب لاہور آپ کی شخصیت سے بخوبی واقف ہو چکے تھے۔۔ آپ کے متعلق مختلف قسم آراء احباب جماعت میں پائی جاتی تھیں کہ وہ مزاج کے بہت سخت تھے لیکن ان کے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے ہی جانتے ہیں کہ وہ اندر سے انتہائی شفقت اورمحبت کا جذبہ بھی رکھتے تھے۔

خاکسار جب طفل تھا اس وقت سے ان سے واقف تھا کیونکہ ان کا اور میرا جماعتی حلقہ (صدر بازار کینٹ) ایک ہی تھا، اور مکرم میجر عبد اللطیف آفیسر کالونی میں رہائش رکھتے تھے اور آپ نے اپنی کوٹھی کا ایک حصہ نماز سنٹر اور جماعتی پروگراموں کے لئے وقف کر رکھا تھا اور ہم اطفال، خدام اور احباب مغرب عشاء کی نمازیں وہیں ادا کرتے تھے، اطفال کے پروگرام بھی وہیں ہوا کرتے تھے۔یہیں سے آپ کی جماعت سے وفا اور محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک وقت وہ آیا کہ میجر صاحب سیکرٹری ضیافت لاہور منتخب ہو گئے اور یہیں سے ان کا دارالذکر سے پکا رابطہ قائم ہوا، اس وقت مکرم چوہدری فتح محمد نائب امیر لاہور تھے اور ان کا دفتر اوپر کچن کے بالکل سامنے ہوا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب ابھی ربوہ میں جلسہ سالانہ منعقد ہوتے تھے اور نومبر دسمبر کے دنوں میں دارالذکر غیر ملکی مہمانوں سے بھرا رہتا تھا۔کچن،کھانے اور تمام مہمانوں کی میزبانی ان کے بنیادی فرائض میں سرفہرست تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھی غیر ملکی مہمانوں نے شاپنگ کرنے یا سیر کرنے جانا ہوتاتو آپ نے دیگر خداموں کے ساتھ ساتھ متعدد بار خاکسار کی ڈیوٹی مہمانوں کیسا تھ لگائی اور مجھے ہدایات بھی دیتے اور یوں مجھے مہمانوں کو سیر اور شاپنگ کروانے کے مواقع ملے تھے۔ بذریعہ ویگن اور بس کے جب بیرون ممالک کے مہمانوں کو ربوہ بھجوایا جاتا تو اس کی بھی مکمل نگرانی کرتے، ایک دو خادم سیکیورٹی کے طور پر ساتھ جاتے، مجھے بھی دو بار مواقع دیئے تھے۔شرعی عدالت میں کیس کی کاروائی کے دوران جب جماعتی وفد دارالذکر میں قیام پذیر تھا، آپ نے ان کے قیام و طعام کی ذمہ داری بطور سیکرٹری ضیافت بہت جانفشانی سے نبھائی اور ہر طرح سے وفد کے اراکین کی ضروریات کا خیال رکھا تھا۔یہ ایک تاریخی ڈیوٹی تھی۔صد سالہ جلسہ سالانہ قادیان1991ء کے موقع پر بہت بھاری ذمہ داری شب و روز دارالذکر بیٹھ کر نبھائی تھی اور تمام امور کی نگرانی کیا کرتے تھے۔

مکرم میجر عبد اللطیف صاحب ایک انتہائی ڈسپلن والے ادارہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے لہٰذا ان کی شخصیت اور مزاج میں اس کے اثرات بہت گہرے تھے اس لئے پہلی باران کا سامنا کرنے والے ان کے انتخاب پر حیرت زدہ ضرور ہوتے تھے لیکن جلد ہی ان کی حیرانی دور ہوجاتی، کیونکہ اس ڈسپلن کے پیچھے جماعت اور فرد سے محبت اور شفقت پوشیدہ ہوتی تھی۔ روزانہ ٹھیک گیارہ بجے ان کے دفتر میں چائے کا وقت مقرر تھا جس میں مکرم مولوی نذیر احمد صاحب، مکرم شیخ ریاض محمود احمد صاحب، مقامی مربی حنیف محمود صاحب مقیم دارالذکر اور دیگر شامل ہوتے، اگر مجھ جیسا کوئی کسی کام سے اسی وقت دفتر پہنچ جاتا تو بیٹھنے کا کہتے اور خادم سے چائے لانے کا کہہ کر اپنی دراز کھول کر بسکٹ نکال کر دیتے، سب کے لئے بسکٹ کی تعداد یکساں طے شدہ تھی جس کا اظہار دیتے وقت وہ فلگ شگاف قہقہہ سے کیا کرتے تھے۔ایک وقت آیا کہ آپ کولاہور کے امیر صاحب نے نائب امیر مقرر کردیا اور اس وقت نائب امیر اور امیر ضلع کا دفتر نیچے شفٹ ہو چکا تھا اور پھر تادم وفات آپ نے لمبا عرصہ بحیثیت نائب امیر جماعت لاہور کی خدمت سرانجام دیں اور لاہور جماعت کی خدمت کی۔آپ کو متعدد بار کئی کئی ماہ تک قائم مقام امیر لاہور بننے کی بھی توفیق ملی تھی۔ دونوں حیثیتوں میں آپ نے مثالی خدمت کی توفیق پائی۔ لمبا عرصہ جماعتی خدمت بجا لانے کے بعد 2003ء میں آپ کی وفات ہوگئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

مکرم چوہدری اعجاز نصراللہ خان
نائب امیر لاہور

مکرم چوہدری اعجاز نصراللہ خان نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور ان شہدائے دارالذکر میں شامل تھے جنہیں 28 مئی2010ء جمعہ کے روزدہشت گردی کے ایک حملہ میں شہید کردیا گیا تھا۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر83 برس تھی۔ مکرم چوہدری اعجاز نصراللہ خان کا سیالکوٹ کے ایک بڑے اور انتہائی معزز خاندان سے تعلق تھا۔ آپ لاہور کے ایک سابق امیر مکرم چوہدری اسد اللہ خان مرحوم کے صاحبزادے تھے۔ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کے بھتیجے اور مکرم حمید نصراللہ خان مرحوم امیر لاہور کے چچازاد بھائی تھے، اسی طرح آپ حضرت چوہدری نصراللہ خان ؓ ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ قادیان کے پوتے تھے۔ آپ نائب امیر لاہور مقرر ہونے بعد باقاعدگی سے دارالذکر اپنے دفتر میں بیٹھا کرتے اور یوں آپ سے رابطہ بھی ہوا اور تعلق بھی قائم ہوا، اس دوران میں نے ایک بات خاص طور پر محسوس کی تھی کہ لاہور کے امیر صاحب کے ساتھ خاندانی اور خونی تعلق ہونے کے باوجود آپ بطور امیر چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب کا انتہائی ادب و احترام کرتے تھے اور دوران میٹنگ مشورہ مانگنے پر ہی جواب دیتے ورنہ خاموش رہتے اور سنتے تھے۔آپ بہت سادہ لیکن باوقار شخصیت کے مالک تھے، آپ کی گفتگو میں توکل علی اللہ کا اثر بہت نمایاں ہوتا تھا۔ انکساری بہت نمایاں تھی اور ہمیشہ مسکرا کر بات کرتے تھے اور صاحب علم شخصیت تھے بیرسٹر کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رکھی تھی، میں ان دنوں مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور کا ممبر تھا تو تنظیمی معاملات میں آپ سے ان کے دفتر میں ملاقات ہوتی جس کام کے لئے بھی جاتا تھا ہو جاتا،بہت شفقت سے بات سنتے اور جو بھی کام ہوتا کردیتے تھے، پھر میرے انصاراللہ میں جانے کے بعد جب مجلس عاملہ جماعت احمدیہ لاہور کا بذریعہ انتخاب ممبر بنا تو پھر مزید آپ کو سننے کا موقع ملا۔ قابل ذکر بات یہ تھی کہ آپ کی یادداشت میں تاریخ جماعت اور بزرگوں سے متعلق بہت واقعات محفوظ تھے اور دفتر میں ملاقات میں گفتگو کے دوران ضرور سناتے، مقصدیہی ہوتا تھا کہ ہمارا خلافت، نظام جماعت سے وفا اور محبت کا تعلق بڑھے۔ آپ جمعہ کی نماز باقاعدگی سے دارالذکر پڑھا کرتے تھے اور ہمیشہ محراب میں موجود ہوتے اور وہیں شہادت پائی۔شہادت کے بعد علم ہوا کہ حملے کے دوران مکرم شیخ منیر احمد صاحب امیر لاہور نے آپ کو محفوظ مقام پر جانے کا کہا تھا لیکن آپ نے انکار کردیا تھا اور یوں مسکراتے ہوئے شہادت کو گلے لگا لیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

اللہ ان تمام مرحومین کی مغفرت فرمائے۔ آمین

(منور علی شاہد۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات