• 18 جولائی, 2025

حضرت چودھری ولی داد خان ؓ کے قبول احمدیت کی روئیداد

اللہ تعالیٰ کے لا محدود اور بے شمار افضال جو انوارِ بارش کی طرح مجھ پر نازل ہوئے یہ میرا کمال نہیں بلکہ میرے اسلاف کی تگ و دو اس میں شامل ہے لہذا میں نے سوچا کیوں نہ میں اپنے اسلاف کا قبول ِ احمدیت کا واقعہ رقمطراز کروں جو ہم سب کے لئے ازدیاد ِ ایمان کا موجب ہو۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا انتظام فرمایا۔ اس بہار نو میں جن درختوں میں اتنی زندگی تھی کہ وہ اس پاک اور روحانی پانی کو قبول کر سکیں وہ آپ کی برکات سے پھر ہرے ہو گئے۔ اس ذات ِ باری تعالیٰ نے اس قدر شیریں پھل عطا کئے کہ وہ میوؤں سے لد گئے ان پھلوں اور میوؤں سے لدا ہوا یک زندہ درخت خاکسار کے پڑداداجان چودھری ولی داد خان رضی اللہ عنہ تھے جو صحابی کا درجہ حاصل کرنے سے نور علیٰ نور ہوگئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و احسان کا ذکر کرتے ہوئے ان صدق بھری روحوں کے متعلق فرمایا:
’’میں اس بات کے اظہار اور اس کا شکر ادا کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا۔ میرے ساتھ تعلقِ اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے۔ محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خداتعالیٰ کے اپنے خاص احسان سے یہ صدق بھری روحیں مجھے عطا کیں‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ35)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد نے مجھے یہ مضمون لکھنے کی طرف مزید راغب کیا۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو یاد رکھنا اور ان کے احسانات کو یاد کرکے ان کے لیے دعائیں کرنا ایک ایسا خلق ہے جس کو ہمیں صرف اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہیے اس لیے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ان کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لیے ان کے واقعات کو محفوظ کریں پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ وہ لوگ جو تمہارے آباؤ اجداد تھے کن حالات میں کس طرح وہ خدمت ِ دین کیا کرتے تھے؟ ان کا اوڑھنا بچھونا کیا تھا؟ اور ان کے انداز کیا تھے؟‘‘

(خطبہ جمعہ 17 مارچ 1989)

میرے پڑ دادا جان کا نام چودھری ولی داد خان صاحب تھا ان کے والد محترم کا نام ملک خان صاحب تھا۔ قوم کے راجپوت ساکن مراڑہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ آپ محکمہ انہار میں پٹواری کے عہدہ پر فائز تھے۔ کچھ عرصہ کے لئے آپ کی تعیناتی ضلع لائل پور (حال فیصل آباد) میں ہوئی۔ آپ ان دنوں احمدیت میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ اتفاق سے آپ کے دفتر کے سامنے ایک احمدی پٹواری کا دفتر تھا ان کے پاس البدر اخبار روزانہ آتا تھا جسے پڑھنے کے بعد وہ پڑ دادا جی کے پاس رکھ دیتا مگر آپ بغیر اخبار پڑھے اسے واپس کر دیتے۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں تک چلتا رہا۔ میاں جی (پڑ دادا جی کو سب گاؤں والے میاں جی کہتے تھے) احمدیت کی طرف مائل ہونا نہیں چاہتے تھے لہذا کوئی جماعتی پمفلٹ دیکھنا بھی انہیں گوارا نہ تھا۔ اتفاق سے احمدی پٹواری ایک دن چھٹی پر تھا جونہی پوسٹ مین ان کے آفس میں البدر اخبار رکھ کر گیا آپ نے فوراً وہاں سے اٹھا لی اور چند لمحوں میں نہ صرف اخبار کو دیکھا بلکہ شروع سے آخر تک ساری اخبار پڑھ ڈالی۔ اس واقعہ کا ذکر میاں جی یوں فرماتے ہیں
’’1907ء میں میں بمقام بنگلہ خدا یار ضلع لائل پور میں سب ڈویژ ن آفیسر کی پیشی میں مثل خواں تھا اتفاق سے شیخ اصغر علی صاحب احمدی کلرک تبدیل ہو کر وہاں آگئے۔ اخبار بدر ان کے نام آتا تھا میں ان سے لے کر میں پڑھنے لگا۔ بلکہ شیخ صاحب نے کہا کہ مجھے کام کی کثرت رہتی ہے آپ اونچی آواز میں پڑھ کر سنا دیا کریں۔ شیخ صاحب کے نیک نمونے نے مجھ پر بہت اچھا اثر کیا۔‘‘

(الحکم 21 اگست 1935 صفحہ10)

انہی دنوں ایک اور واقعہ رونما ہوا جو میاں جی کو احمدیت کے قریب کرنے کا باعث بنا۔

کوٹ مومن (سانگلہ ہل) کے رئیس ملک شیر علی نہری پانی فصلوں کو لگانے کے لئے درخواست دینے آئے۔ میاں جی نے وعدہ کیا کہ میں انصاف سے کام لوں گا جو آپ کا حق بنتا ہے اسی طرح کروں گا کسی سے زیادتی کا مت سوچنا۔ ملک شیر صاحب نے نہایت دیدہ دلیری سے جواب دیا۔
’’جناب میں احمدی ہوں اور کسی قسم کی بددیانتی کی آپ کو اجازت نہیں دوں گا۔‘‘

اسی طرح آپس کی ملاقاتیں دوستی میں تبدیل ہوتی گئیں۔ دونوں احمدی احباب اور میاں جی کا آپس میں مذہب پر اظہار خیال بھی ہوتا اور بحث مباحثہ میں زندگی کی گاڑی یونہی رواں دواں تھی کہ میاں صاحب نے تین رات مسلسل ایک خواب دیکھی کہ لوگ کہتے ہیں کہ مسیح آگیا ہے اس کی تین نشانیاں ہیں پہلی یہ کہ اس کے ماتھے پر جو پسینہ ہے وہ موتیوں کی طرح چمک رہا ہے دوسری یہ کہ ن کے چلنے کی رفتار اس قدر تیز ہوتی ہے کہ ساتھی احباب جو حضور کے ساتھ ہیں وہ قدم نہیں ملا پاتے حالانکہ وہ بھاگ بھاگ کر ساتھ ملنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی مل نہیں پاتے۔ اور تیسری نشانی یہ دیکھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب وعظ کرتے تو ان کی زبان گول گول گھومنے لگتی۔ میاں جی خواب میں ہی مہدی کو دیکھنے جاتے ہیں مگر رش کی وجہ سے جگہ مل نہیں پاتی تو وہ پچھلے دروازے کی طرف چلے جاتے ہیں کچھ دیر کے بعد وہاں سے ایک شخص نکلتا ہے اس میں یہ تینوں نشانیاں موجود تھیں۔

میاں جی فوراً چھٹی لے کر قادیان پہنچے اور جب یہ تینوں نشانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھیں تو بیعت کا اظہار کردیا۔ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ’’کچھ دن مزید دیکھو میری کتابیں پڑھو پھر بیعت کرنا‘‘ لیکن میاں جی بیعت کرکے واپس سیالکوٹ آئے۔ گھر پہنچ کر اپنی اہلیہ محترمہ سے پنجابی میں بولے ’’میں تے جو پانا سی پا لیا‘‘۔

بیگم نے پوچھا ’’میاں تو کی پا لیا‘‘۔ میاں جی نے اپنی بیعت کا حال سنایا اور کہا تم جس کی بیعت کرنا چاہتی ہو کر لو۔ فرمانبردار بیوی نے کہا ’’جس مسیح کی آپ نے بیعت کی ہے میں بھی اسی کی کروں گی۔ میاں جی کو اپنی اطاعت گزار اور سادہ مزاج بیوی سے اسی جواب کی توقع تھی آپ بیعت فارم ساتھ لے کر آئے تھے لہذا فوراً پُر کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ارسال کر دیا۔ بے بے جی کا نام بیگم بی بی تھا دونوں بزرگ 313 صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل تھے اور صحابہ کرام میں ان کا نمبر 15 اور 20 ہے۔

حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطبہ جمعہ فرمودہ 17 دسمبر 2010ء میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں نے جو بعض روایات لی ہیں ان میں سے پہلی روایت حضرت ولی داد خان صاحب کی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے دسمبر 1902ء میں جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ مبارک پر بیعت کی تھی اور تاریخ جلسہ سے ایک دن پہلے رات کو قادیان پہنچا تھاصبح جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گھر سے باہر تشریف لانا تھا تو میں نے دیکھا کہ مسجد مبارک کے باہر بہت بڑا ہجوم ہے آدمی ایک دوسرے کے اوپر گر رہے تھے۔ میں چونکہ نووارد تھا میں دوسری گلی پر کھڑا ہو کر دعا مانگ رہا تھا کہ اے مولا کریم! اگر حضور علیہ السلام اس گلی سے تشریف لے آویں تو سب سے پہلے میں مصافحہ کر لوں اسی وقت کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت مرزا بشیرالدین محمود حمد اسی رستہ سے تشریف لے آئے۔ کہتے ہیں کہ یکلخت مجھے ایسا معلوم ہوا جس طرح سورج بادل سے نکلتا ہے اور روشنی ہو جاتی ہے۔ میں نے دوڑ کر سب سے پہلے مصافحہ کیا۔ حضور آریہ بازار کے راستے باہر تشریف لے گئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ نواب محمد علی خان صاحب کے باغ کا جو شمالی کنارہ ہے وہاں سے حضور واپس مڑے۔ غالباً مسجد نور یا مدرسہ احمدیہ کی مغربی حد ہے وہاں حضور بیٹھ گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اردگرد جمع تھے اور میر حامد شاہ صاحب مرحوم سیالکوٹی نے کچھ اپنی بنائی ہوئی نظمیں سنائیں‘‘

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر3 صفحہ84 روایت حضرت چوہدری ولی داد خان صاحب رضی اللہ عنہ۔ غیر مطبوعہ)

میاں جی اپنی شخصیت میں ایک مکمل انسان تھے مہمانوں کا پرتپاک خیر مقدم کرنے والے اور عزت و احترام دینے والے تھے۔ ایک روز چند لوگوں کا قافلہ آدھی رات کے وقت شدید بارش اور طوفان میں گھیرا گیا۔ انہوں نے ایک دروازے پر دستک دی اور رات گزارنے کی درخواست کی۔ گھر کا مالک احمدیت کا شدید مخالف تھا اس نے میاں جی کے گھر کی طرف اشارہ کیا کہ ادھر چلے جاؤ اور خود تماشہ بینوں کی طرح باہر کھڑا ہو گیا۔ میاں جی نے نہ صرف اپنے گھر ٹھہرایا، بلکہ پہلے گرم پانی کروا کر دیا تا کہ غسل کر سکیں پھر اپنے صاف کپڑے پہننے کے لیے دئیے۔ کھانا اور گرما گرم چائے سے تواضع کی اور شاندار لحاف بستر کے طور پر پیش کئے۔

چند یوم ہی گزرے تھے کہ میاں جی کے ساتھ والے کمرے کی چھت پھاڑ کر چور گھر میں داخل ہوئے۔ نیچے اترتے ہی انہیں یاد آگیا کہ یہ وہی کمرہ ہے جس میں ہم نے رات بسر کی تھی۔ لہذا وہ میاں جی سے معذرت کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو گیارہ یتیم بچوں کی کفالت کرنے کا موقع دیا۔ آپ نے نہ صرف ان کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ بلکہ احمدیت کی نعمت سے بھی مالا مال کیا۔ آپ کی بہن جوانی میں بیوہ ہو گئیں۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ اور سسرال والوں کی زیادتیاں آ پ برداشت نہ کر سکے۔ اپنی بہن اور بچوں کو اپنے گاؤں لے آئے گھر کی چابیاں بہن کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے انہیں فرمایا:
’’آج سے تم سارے گھر کی مالک ہو اور ہم تمہارے غلام تمہارے حکم کے بغیر اس گھر میں کوئی کام نہیں ہوگا‘‘

بھانجوں نے ماموں کے نقش ِ قدم پر چلتے ہوئے احمدیت کا انتخاب کیا۔ میاں جی نے ان کی شادیاں احمدی گھرانوں میں کرائیں۔ ان میں ایک بزرگ میرے پیارے نانا جان چوہدری عبد الکریم صاحب مرحوم دارالبرکات تھے۔ ایک جنرل اختر حسین ملک صاحب مرحوم کے سسر چوہدری عبد الغفور صاحب مرحوم تھے۔

اس دور کے مطابق گھر کے پہلے حصے میں میاں جی کی رہائش تھی۔ انہوں نے اپنے دو کمرے نماز سینٹر بنا دئے۔ لہذا گاؤں کے تمام احمدی مرد، خواتین اور بچے وہاں پنجوقتہ نمازیں، نماز جمعہ، نماز تراویح اور نماز عید ین ادا کرتے۔ نماز عید کے بعد سب کی تواضع چائے اور مٹھائی سے کرتے۔

ایک بار کسی عزیز نے پوچھا ’’آپ نے وقت کے امام کو کیسے پہچان لیا تھا آپ نے فرمایا ان کا چہرہ ایسی کھلی کتاب کی طرح تھا کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی ذہن کی تمام گرہیں کھل گئی تھیں!

مرحوم نہایت متقی، فراست و بصیرت کے مالک اور صائب الرائے بزرگ تھے۔ سلسلے کے کاموں میں دلچسپی لیتے تھے مرکز کے ساتھ بے حد لگاؤ تھا۔ طبیعت نہایت سادہ، سیدھی، کھری اور سچی بات کرنے میں عار محسوس نہ کرتے۔ عمر بھر اصولوں کو مدنظر رکھا۔ الہامی دعائیں کثرت سے یاد تھیں اور ہر وقت پڑھتے رہتے۔ بیماروں کی تیمارداری کو فوراً حاضر ہوتے۔ مومنانہ فراست کے مالک، مخلص، محنتی اور شعائر ِاسلام کے پابند تھے۔ مشکلات سے گھبراتے نہیں تھے۔ ہزاروں دقتوں کے باوجود دعاؤں کے ساتھ کام جاری رکھتے۔

خلافت ثانیہ کے انتخاب سے پہلے تین بار خواب میں دیکھا ’’محمود خلیفہ ہوگا‘‘

جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود خلیفۃ المسیح الثانی نے تحریک جدید کا اعلان کیا تو آپ دورِ اول میں پہلے دس سال کا چندہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اپنے دستِ مبارک سے آپ کو خط لکھا جو کہ قارئین کے پڑھنے کے لیے اٹیچ کر رہی ہوں۔

قادیان اعوذ باللّٰہ من الشیطن الرجیم 23 نبوت 1323ہش
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر

حبیّ فی اللہ چوہدری ولی داد خان صاحب مراڑہ تحصیل ناروال ضلع سیالکوٹ

السلام علیکم و رحمۃ اللّٰہ و برکا تہ۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے تحریک جدید کے دور اول کے پہلے دس سال کا چندہ بہ تمام و کمال ادا کر دیا ہے جس کی تفصیل دفتر کے ریکارڈ کی رو سے مندرجہ ذیل ہے۔

سال اول۔ سال دوم۔ سال سوم۔ سال چہارم۔ سال پنجم

20 20 20 20 25

سال ششم۔ سال ہفتم۔ سال ہشتم۔ سال نہم۔ سال دہم

26 28 20 21 20 روپے

اس پر آپ کو مبارک باد دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو جزائے خیر دے اور آپ نے تبلیغ اسلام کی مستقل بنیاد رکھنے میں جو قربانی کی ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور اسلام اور احمدیت کے لئے جن اہم قربانیوں کی آئندہ ضرورت پیش آئے اللہ تعالیٰ ان میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی آپ کو توفیق بخشے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ آپ کے اور آپ کی نسل کے ساتھ رہے۔ آمین۔ والسلام

خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

12 اکتوبر 1958ء میں یہ پیارا وجود ہمیں داغِ مفارقت دے گیا۔ سال ہا سال گزرنے کے باوجود یہ وجود ہمارے لئے اتنا ہی قیمتی ہے جتنا کہ پہلے۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میرا نام پیارے پڑداداجان صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا۔ خدا کرے کہ میں جماعتی خدمات احسن طریقے سے کرکے آپ کے نام کو روشن کر سکوں۔ آپ کی وفات جن دنوں ہوئی مون سون کی بارشوں کی وجہ سے ضلع سیالکوٹ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا آپ خدا کے فضل سے موصی تھے مگر حالات ایسے نہ تھے کہ آپ کو ربوہ پہنچایا جاتا لہذا امانتاً گاؤں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ چھ ماہ کے بعد جب آپ کے تابوت کو ربوہ لے جانے کے لیے نکالا گیا تو سارا گاؤں جمع تھا کہ اس مرزا کی حالت کا اب پتہ چلے گا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ تابوت کے ساتھ جسم کا بھی نام و نشان نہیں ہوگا مگر قربان جاؤں اس ہستی باری تعالیٰ کے تابوت کو کسی چیونٹی نے چھوا تک نہیں تھا۔شیشے میں سے میاں جی کا چہرہ یوں تروتازہ نظر آ رہا تھا جیسے آج ہی وفات ہوئی ہو۔ آخر انہوں نے سچے مسیح کو پہچانا تھا پھر قطعہ نمبر 7 میں مدفون ہوئے۔ خدا تعالیٰ کی ہزاروں رحمتیں آپ پر ہر آن اپنے افضال کی بارش برساتی رہیں۔

ہمار ا گاؤں مراڑہ جو کہ ایک غیر معروف گاؤں تھا، احمدیت کی وجہ سے اسے دود دور تک شہرت ملی۔ جماعت احمدیہ کی کئی نامور ہستیوں کا تعلق اس گاؤں سے قائم ہوا۔ مکرم ڈپٹی میاں شریف صاحب کی بیٹی ڈپٹی سیکرٹری چوہدری سردار احمد خان سے بیاہ کر آئیں۔ مکرم سردار عبد الرحمان صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی ڈاکٹر محمودہ نذیر اس گاؤں کی بہو بنی۔ جنرل اختر حسین ملک میاں جی کے بھانجے سے بیاہے گئے۔ خالدِ احمدیت عبدالرحمان خادم کی دو بیٹیاں اس گاؤں کی زینت بنیں۔ مولوی چراغ دین صاحب مربی سلسلہ کی دو بیٹیاں مراڑہ میں بیاہی گئیں۔ مربی سلسلہ عبدالشکور صاحب کو اس گاؤں کی دامادی کا شرف حاصل ہوا۔ یوں احمدیت کی برکت سے اس گاؤں کا نام دور دور تک پہنچ گیا۔

آخر میں دعا کرتی ہوں کہ خدا کرے ہم اس قندیلوں کو اپنے سینوں میں روشن کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں کے وارث بنیں۔ اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا حق ادا کر کے ان کے نقشِ قدم پر چلنا نصیب ہو اور ہماری نسلیں ان کی نیک نامی کا باعث بنیں۔ آمین اللھم آمین۔

(ناصرہ حفیظ۔ وینکوور،کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین جون 2021ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2021