اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندہ کو نبوّت اور رسالت کے مقام پر فائز فرماتا ہے تو دنیا پر یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ وجود میری نما ئندگی میں مبعوث ہوا ہے، اسے اپنی صفات کا چوغہ پہناتا ہے۔ جب وہ صفاتِ الٰہیہ ایک نبی اور رسول کے توسّط سے ظہور پذیر ہوتی ہیں تو کئی لوگوں کو ایمان لانے کا موقع نصیب ہوتا ہے اور مومنوں کے لئے ایسے واقعات ازدیادِ ایمان کا باعث بنتے ہیں۔ اُن صفاتِ خداوندی میں سے ایک اہم صفت امورِ غیبیّہ پر اطلاع پانا ہے۔ یعنی خداوند کریم اپنے رسولِ مقبول کو حسبِ ضرورت غیب کی خبریں عطا کرتا ہے۔جیسے فرمایا:
عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۷﴾ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسۡلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ رَصَدًا ﴿ۙ۲۸﴾
(الجن: 27-28)
ترجمہ: وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا بجز اپنے برگزیدہ رسول کے، پس یقینا ًوہ اس کے آگے اور اُس کے پیچھے حفاظت کرتے ہوئے چلتا ہے۔
ذیل کی سطور میں اسی قبیل کے چند ایمان افروز واقعات ہدیہ قارئین ہیں۔
معاہدہ کی تحریر کو دیمک کھا گئی
نبوّت کے ساتویں سال مشرکینِ مکّہ نے اشاعتِ اسلام کو روکنے کیلئے ایک یہ تدبیر سوچی کی آنحضورؐ اور آپ کے خاندان کے خلاف بائیکاٹ کیا جائے۔ چنانچہ تمام قبائل نے سوشل بائیکاٹ کا ایک معاہدہ تحریر کیا جس کے اہم نکات یہ تھے۔
قریش کا کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے قربت نہیں کرے گا۔
ریش کا کوئی شخص خاندان بنی ہاشم سے خرید وفروخت نہیں کرے گا۔
ریش کا کوئی شخص خاندان بنی ہاشم کے پاس خور و نوش کا سامان نہیں بھیجے گا۔
جب تک بنی ہاشم محمدؐ کو ہمارے حوالے نہ کر دیں۔ یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کر دیا گیا۔
آنحضورؐ کے چچا حضرت ابو طالب مجبور ہو کر اپنے خاندان بنی ہاشم کے ساتھ شعبِ ابی طالب میں پناہ گزیں ہو گئے اور تین سال تک اُس حصار میں بسر کئے۔
ایک روز آنحضورؐ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے کہا اے چچا ! میرے ربّ نے مجھے اطلاع دی ہے کہ قریش کے معاہدہ بائیکاٹ کی تحریر کو سوائے اللہ کے نام کےدیمک کھا گئی ہے۔
حضرت ابو طالب اُسی وقت قریش کے پاس گئے اور کہا اے گروہِ قریش ! میرے بھتیجے محمدؐ نے اپنے اللہ سے اطلاع پا کر بتایا ہے کہ تمہارے بائیکاٹ کے معاہدہ کی تحریر کو دیمک چاٹ گئی ہے.۔ اگر ایسا ہے تو پھر تمہارے پاس ہمارے قطع تعلق کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
جب معاہدہ کی تحریر منگوا کر دیکھی گئی تو وہ واقعی دیمک کی نذر ہو چکی تھی۔ تب قریش کے رئیس مطعم بن عدی نے معاہدہ کی بچی کھچی دستاویز چاک کر دی اور دیگر روسائے قریش کے ہمراہ مسلّح ہو کر بنوہاشم کے پاس گئے اور اُنہیں شعبِ ابی طالب سے نکال لائے۔
(سیرت ابنِ ہشام جلد اوّل صفحہ 413-414)
اُن درہموں کا کیا ہوا
جو آپ اُمّ الفضل کے پاس رکھ آئے ہو؟
غزوہ بدر میں مشرکینِ قریش کے ساتھ آنحضورؐ کے چچا حضرت عبّاس بن عبدالمطلب اپنے دو بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث سمیت گرفتار ہوئے تھے۔ دربارِ رسالت نے قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ فدیہ کی رقم حسبِ مراتب ایک ہزار درہم سے لیکر چار ہزار درہم تک تھی۔
جب حضرت عبّاسؓ سے فدیہ کی رقم کا تقاضا کیا گیا تو اُنہوں نے ناداری کا عذر کیا اور کہا اے محمدؐ ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کا چچا فدیہ کی رقم کی ادائیگی کی خاطر گدائی کرے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا اے عباس! اُن درہموں کا کیا کرنا ہے جو آپ بوقتِ روانگی امّ الفضل کے پاس رکھ کر آئے ہو۔حضرت عبّاس ؓ نے نہایت تعجّب سے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ آپ نے فرمایا میرے اللہ نے مجھے بتایا ہے۔ اس پر حضرت عبّاسؓ نے کہا۔ آپؐ واقعی اللہ کے سچّے رسول ہیں۔ بالآخر حضرت عبّاس ؓ نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں کے فدیہ کی بھاری رقم ادا کر کےرہائی پائی۔
(تاریخ ابنِ خلدون جلد اوّل صفحہ 77)
اے عمیر! کیا تم صفوان سے میرے قتل کا
وعدہ کر کے نہیں آئے؟
عمیر بن وہب قریش میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ وہ صفوان بن امیّہ کے چچا زاد تھے۔ غزوہ بدر میں مشرکینِ قریش کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ شکست کے بعد خود تو مکّہ لوٹ گئے تھے تاہم ا ُن کا بیٹا وہب بن عمیر قید ہو گیا تھا۔بدر کی شکست کے بعد عمیر اور صفوان بیٹھے بدر کی شکست کا ماتم کر رہے تھے۔ عمیر نے کہا مجھ پر کچھ قرض ہے۔ نیز بال بچّے بھی ہیں۔ورنہ میں مدینہ جا کر محمد کو قتل کر ڈالتا۔یہ سن کر صفوان نے کہا تمہاراقرض اور بال بچّے میرے ذمہ رہے۔ صفوان نے عمیر کو ایک زہر آلود اور صیقل کی ہوئی تلوار دے کر مدینہ روانہ کر دیا۔
جب عمیر مدینہ پہنچا تو حضرت عمر بن خطابؓ نے اُسے دیکھ کر آنحضورؐ کو اطلاع کر دی۔ رسول اکرمؐ نے عمیر بن وہب کو طلب کرلیا اور پوچھا اے عمیر! تم یہاں کیوں آئے ہو؟ اُس نے کہا میں اپنے قیدی رہا کرانے آیا ہوں۔آنحضورؐ نے پوچھا پھر یہ تلوار کیوں لائے ہو؟ عمیر نے کہا یہ کم بخت بدر کے دن ہمارے کس کام آئی تھی جو اب کام آئے گی؟ رسول کریمؐ نے دریافت فرمایا۔ تم نے حطیم کے پاس بیٹھ کر صفوان بن امیّہ کے ساتھ کیا شرائط طے کی ہیں؟ عمیر نے صاف انکار کر دیا۔ رسول کریم ؐ نے فرمایا کیا تم نے صفوان بن امیہ سے قرض کی ادائیگی اور بچّوں کی کفالت کے عوض میرے قتل کا وعدہ نہیں کیا؟ عمیر نے اسی وقت کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کیا اور کہا یا رسول اللہ جو شرائط میرے اور صفوان کے مابین حطیم کے اندر طے ہوئی تھیں کسی کو خبر نہ تھی۔ جب مشرکینِ مکّہ کو عمیر کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو مایوس ہو کر رہ گئے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد دوم صفحہ689-690)
اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر
اپنے نبی کو کر دے
رسول کریمؐ نے عاصم بن ثابت کی ا مارت میں ایک مہم کیلئے دس صحابہ کرام ؓ کی جماعت روانہ کی۔ جب یہ صحابہ کرام ؓ مقامِ ہدہ (رجیع) پہنچے تو قبیلہ ھذیل کے خاندان بنو لحیان کے سو تیر انداز صحابہ کرامؓ کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے۔ اندریں صورت صحابہؓ ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے۔ الغرض صحابہؓ دشمن کے نرغہ میں پھنس چکے تھے۔ تب حضرت عاصم بن ثابتؓ نے دعا کی اَللّٰھُمَّ اَخْبِرْ عَنَّا نَبِیِّکَ اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے۔ بالآخر دشمنوں نے حضرت عاصم بن ثابتؓ سمیت آٹھ صحابہؓ کو شہید کر دیا۔ اُدھر آنحضورؐ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اُسی دن شہداء کے سانحہ کی خبر دے دی تھی۔
یہ واقعہ شہادت چار ہجری کو بمقامِ رجیع ہوا تھا۔ اس سے قبل حضرت عاصم بن ثابت نے دو ہجری کو غزوہ بدر میں مکّہ کے سردار عقبہ بن ابی معیط کو واصلِ جہنّم کیا تھا اور تین ہجری کو غزوہ اُحد میں سلافہ بنت سعد کے دو بیٹوں سافح بن طلحہ اور جلاس بن طلحہ کو قتل کیا تھا۔اُس وقت ان کی ماں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر خدا نے مجھے قدرت دی تو عاصم کے کاسہ سر میں شراب پیوں گی۔
جب قریش کو معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت شہید ہو گئے ہیں تو انہوں نے عاصم کا سر لینے کیلئے اپنے چند آدمی بھیجے تاکہ سلافہ کے ہاتھ فروخت کر کے ایک خطیر رقم وصول کی جائے۔لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ اللہ جلّ شانہ نے اُن کی لاش کی حفاظت کیلئے زنبوروں کی فوج بھیج دی۔ بعد ازاں رات کو بارش کا ریلہ آیا اور لاش کو بہا کر لے گیا۔ یہ اس لئے ہوا تھا کیونکہ عاصم نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ وہ کسی مشرک کو مس نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کو کوئی مشرک مسّ کرے گا۔
(بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر 3989) (اسد الغابہ جلد دوم صفحہ123-124)
(مبشر احمد ظفر)