ہم نے ہزاروں سال کا سفر کر کے جو سب سے بڑی کامیابی حاصل کی وہ تہذیب کا حصول تھا، ہم پتھروں میں رہنے والے کچا گوشت کھانے والے ننگے گھومنے والے اور ایک دوسرے کی تمیز نہ رکھنے والے آہستہ آہستہ پتھروں سے مکان بنانے لگے آگ جلا کر گوشت بھون کر کھانے لگے درختوں کے بڑے پتوں سے اپنا جسم ڈھانکنے لگے اور ایک دوسرے کی تمیز بھی کرنے لگے، یہ اس زمین کے باسیوں کی سب سے بڑی کامیابی تھی اور سب سے پہلی کامیابی، ہم جانور شکار کرنے والے لوگ جانورسدھانا سدھارنا سیکھ گئے فصلیں اگانا گھر بنانا اور خاندان کی شکل میں رہنا سیکھ گئے بستیاں آباد ہوتی گئیں شہر بستے گئے علم کی دریافت ہوئی عقل اور ادراک کے پردے کھلنے لگے ہم رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے اس اکیسویں صدی میں آن پہنچے ہیں جہاں سب کچھ ممکن ہے سوائے موت کی شکست کے۔
آج میں نے اپنی گفتگو کا آغاز اس اجڈ اور گنوار ماحول کے آغاز سے کیا جو انسان کی سب سے پہلی مشق تھی، ہم رفتہ رفتہ ترقی کرتے ہوئے کمال تک آئے اور مجھے لگتا ہے اب ہم پھر سے ذہنی و اخلاقی پستی کا سفر شروع کر چکے ہیں اور شاید یہ پستی اُس پستی سے خطرناک ہو جو کہ ماضی میں صرف مادی حوالے سے تھی، ہم آج کل اپنے آپ پر نظر دوڑانے کے بھی قابل نہیں رہے. ہم اپنے آپ کو آئینے میں دیکھتے ہوئے صرف چہرے پہ نظر گھماتے ہیں خود سے نظریں نہیں ملاتے؟ ایسا کیوں ہے؟ ہمارے بچے بڑے بڑے سکولوں میں پڑھتے ہیں ہم ترقی یافتہ ممالک میں رہتے ہیں ہمارے ارد گرد سب کچھ موجود ہے جس کا انسان نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا لیکن جو بات سوچنے کی ہے وہ یہ کہ ہم اس دوڑ میں جیتنے کے لیے اتنا آگے نکل چکے کہ ہم اپنی پہچان اپنی ذات اپنا آپ اپنا اخلاق اپنے اطوار اپنا مذہب اپنے رشتے اپنا خون اپنے وہ سب علوم جو انسانی و اخلاقی حوالے سے تربیت کرتے تھے وہ سب کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں اور یہ کہنا بالکل غلط نہ ہو گا کہ ہم خود کو کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہیں، اس میں مبالغہ نہیں کہ انسانی ذات کا بوجھ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس کو ساتھ ساتھ اٹھا کر انسان تیز نہیں دوڑ سکتا، تو ہم نے بھی اپنی انسانیت کا بوجھ کہیں اتار پھینکا اور صرف ترقی کی دوڑ میں ایک اندھی گلی میں دوڑتے چلے جا رہے ہیں۔
ہم اپنے بچوں کو کیا تربیت دے رہے ہیں، کیا آپ سکول سے باہر کھڑے ہو کر باہر نکلتے بچوں کو دیکھتے ہیں؟ آپ کو وہ بچے نہیں بلکہ چلتی پھرتی تہذیب و تربیت نظر آئیں گے، جس طرح کی تربیت ہو گی بالکل ویسے ہی بچے، ہمارا معاشرہ اس وقت افراتفری کا شکار ہے اور جو خوف و ہراس اور سراسیمگی کا عالم ہے اس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے، کچھ خوف زدہ ہیں تو کچھ خاموش، کچھ اچھل کود رہے ہیں تو کچھ کسی سے لڑ رہے ہیں، آج کل انٹرنیٹ اور میڈیا نے جس قدر نئی نسل کو اپنی حدود میں جکڑا ہوا ہے وہ شاید پچھلے دور میں کسی ظالم و جابر بادشاہ کے قیدیوں کو بھی ایسا نہیں جکڑا جا سکا ہو گا، جو بچے آج کل اپنے والدین کی نہیں مانتے تو آپ کیسے امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ ریاست اور ملکی قوانین کو مانیں گے اور معاشرے کی بہتری کے لیے اثر انداز ہوں گے۔
اس مشینی دور میں ساتھ بیٹھے دو ساتھی بھی ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوتے ہیں کہ ان کے درمیان صرف سمجھوتہ تو ہو سکتا ہے کوئی جذباتی رحجان نہیں، یہ معاشرہ جذبات سے عاری ہو چکا اخلاق سے خالی ہو چکا، ساتھ چلنے والے کب کہاں اپنا رستہ بدل لیں اس کا کسی کو علم نہیں، گھر سے بھاگے ہوئے پیار کرنے والے جوڑے بھی درمیان میں ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں سانسوں کے وعدے کرنے والے لمحوں میں ساتھ چھوڑنے لگے ہیں، ایک ہی گھر میں رہنے والے ایک دوسرے کے حال سے واقف نہیں ہوتے، ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے جب خاموشی رہے تو اس وقت سمجھ لیں کہ گھر میں دیوار ہو نہ ہو دل میں دیوار اٹھ چکی، اپنے لیے سوچتے تو بھی اچھا تھا لیکن یہ عجیب دور ہے کہ سب ایک مایوسی کے خلا میں گھورتے ہوئے راہِ فرار چاہتے ہیں، ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ صرف وہ رہے اور باقی سب ختم ہو جائیں، یا پھر وہ کہیں ایسی جگہ چلا جائے جہاں صرف اس کے علاوہ کوئی نہ ہو۔
ہم جب اس معاشرے کے آخری لوگوں میں سے ہیں جو کتاب کو پڑھنے والوں میں سے ہیں جنہوں نے پڑھائی کے لیے پرانی کتابیں خریدیں جنہوں نے ریڈیو سنا جنہوں نے فوٹوگرافر کے پاس جا کر اپنی تصویریں نکلوائیں، جنہوں نے پیدل سفر کیا جنہوں نے ٹاٹ پہ بیٹھ کر پڑھائی کی جنہوں نے اپنے کلاس روم کی خود صفائی کی جنہوں نے بازار میں کھلونے دیکھ کر منہ پھیر لیا جنہوں نے اساتذہ کے ساتھ بیٹھنا اور گھر کے بزرگوں کو دبانا سعادت سمجھا جنہوں نے گھروں میں پھولوں کی کیاریاں بنائیں ہم وہ ہیں جنہوں نے زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آنے والی نسلیں شاید اپنی زندگی ماضی اور مستقبل کو بھی بڑی سکرین پر دیکھیں لیکن وہ مشینی دور میں رہتے ہوئے ان جذبات اور احساسات سے واقف نہ ہوں جن میں ہم نے زندگی اور زندگی کا خیال گزارا، لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ امانت ہماری آئندہ نسلوں تک پہنچے گی۔
(بشریٰ بختیار خان۔لندن)