3 دسمبر کو سیالکوٹ میں ایک انسانی جان کا جس ظلم و بربریت سے زیاں کیا گیا ہے۔ اس سے مذہب کے نام پر خون بہانے کی ملکی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا افسوسناک اضافہ ہو اہے۔
جیسے بارودی سرنگیں
مشتعل ہو کر کئی سو افراد کا ایک نہتے فرد پر یوں حملہ آور ہونا اور کسی کا اسے روکنے کی کوشش نہ کرنا اس غیض و غضب کا مظہر ہے جس نے عوام الناس کے دلوں کو کئی دہائیوں سے دی جانے والی نفرت ، عدم رواداری ، عدم برداشت کی مسلسل تعلیم ،روّیوں اور حمایت نے بھررکھا ہے ۔ بارود بھرے ان لوگوں کو پھٹنے کے لئے کوئی بھی بہانہ کافی ہوتا ہے ۔ جیسے وہ بارودی سرنگیں جو دشمن کو نقصان پہنچانے کی غرض سے بچھائی جاتی ہیں اور نظروں سے اوجھل ہونے کے باوجود ، وجود رکھتی ہیں اور کسی ٹھوکر پر پھٹ کر نقصان کر گزرتی ہیں۔
تحت الثریٰ کی طرف
اس دین سے تعلق کے دعوے کے ساتھ جس نے ایک انسان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور جس نے حوصلہ، برداشت اور رواداری کی بے مثل تعلیم دی، اور اس عظیم ترین وجود صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو سب جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے اور جنہوں نے خود مذہبی رواداری اور برداشت کا حیرت انگیز زاسوہ دکھایا حتیٰ کہ غیر مذاہب کے جنازوں کا احترام بھی عملاً کر کے دکھایا۔ آج گرتے گرتے گویا تحت الثریٰ کو پہنچ جانا ایک عبرتناک تاریخ ہے۔
آگ کا عذاب
قرآن کریم میں 145مقامات پر نار کا ذکر ہے جن میں سے بیشتر جہنم کے حوالے سے ہیں۔ یہ معاملہ تو خیر بعد کا ہے۔ لیکن اپنے وجودوں میں بارود بھرے لوگ جو یہاں بھی ہر دم اپنے آپ کو غیض و غضب کی آگ میں جلاتے رہتے ہیں۔ کیا وہ اسی دنیا میں عذابِ جہنم سے حصہ تو نہیں پا رہے؟ یہ مقام ِ خوف ہے اور اسی لئے مقامِ فکر۔
ذمہ داریاں
اس انجام تک پہنچانے میں دین سکھانے والے، حکومت کرنے والے، قانون بنانے والے، فیصلے کرنے والے، میڈیا والے ، خاموش رہ کر تماشا دیکھنے والے، اور خود عقل و خرد کو تج کر ان مفاد پرست ٹولوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والے سب یکساں ذمہ دار ہیں۔ ان سب نے اپنے طور بھی اور ایک دوسرے کی مدد کر کے بھی اس زوال میں حصہ ڈالا ہے۔
پہلے ذمہ دار مولوی
جیسا کہ پہلے ہی باخبر کر دیا گیا تھا کہ بعض دین سکھانے والے انسانی سطح سے پست ہو جائیں گے۔ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس گروہ نے اپنی اپنی جتھہ بندی اور اس کے تحت دنیا کمانے کے لئے دوسرے عقیدے والوں کے خلاف نفرت اور عدم برداشت کی تعلیم دی اور دے رہے ہیں۔ اکٹھے عبادت نہ کرنے اور سماجی تعلقات نہ رکھنے کی ابتدا نے واجب القتل کے فتووں تک پہنچایا اور اب ’’سر تن سے جدا‘‘ کا نعرہ دیا۔
مستشرقین کے طریق پر چلتے ہوئے غیر مستند روایات کے سہارے ، محض اپنی اذیت پسندی کی تسکین کے لئے، خون ریزی کا یہ درس دین کی امن و سلامتی کی ضامن تعلیم کے صریحاً برعکس ہے۔
دوسرے ذمہ دارحکومتیں
وہ سب حکومتیں جن کا حصول اقتدار یا اس کے جاری رکھنے کے لئے مذہب کا استعمال وطیرہ رہا ہے ۔ وہ جنہوں نےاس غرض سے مقنّنہ کو استعمال آئین میں دوسری ترمیم کی ۔ اور وہ جنہوں نے اس کے تابع بعد میں مزید ایسے قوانین بنائے جنہوں نے نفرت انگیزی اور تعصب کے ان شعلوں کو اور بھی ہوا دی ۔ جنہوں نے اسی غرض سے مذہب کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے علماء کی سر پرستی کی ۔ بلکہ از خود بھی مفید طلب مذہبی گروہ بنائے ، ان کی معاونت کی ، ان کی غیر قانونی سرگرمیوں سے صرفِ نظر کئے رکھا اور حسبِ ضرورت انہیں استعمال کیا ۔ جس کے ایک بد نتیجہ میں ملک لمبے عرصہ تک بھیانک دہشت گردی کا شکار رہا ہے ۔ یہ سرپرستانہ رویہ مجموعی طور پر نفرت انگیزی کی مہم کے پھیلاؤ کا سبب اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتی اداروں اور مؤثر کاروائی میں سب سے بڑی روک ہے ۔
تیسرے ذمہ دار مقنّنہ
وہ سب اسمبلیاں جن کے ارکان گو بعد میں وائٹ پیپر اور احتسابی عمل کے کردار رہے ہیں لیکن جنہوں نے اپنے دنیوی مفاد کی خاطر وقت کے حکام کے اشاروں پر اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایسی قانون سازی کی جو ایک طرف دینی تعلیم کے سراسر بر عکس اور مروجہ بین الاقوامی اصولوں سے متصادم تھی وہیں اس نے مذہبی منافرت کو قانون کا درجہ دے دیا ۔ اور جنہوں نے ایسے قوانین بنائے جانے کو نہ روکا جن کے تحت پورے ملک میں سے صرف ایک جماعت کی علیحدہ ووٹر لسٹ بنائی جاتی ہے اور بیشتر سرکاری دستاویزات جیسے شناختی کارڈ فارم، پاسپورٹ فارم ،پاسپورٹ ،تعلیمی میں اداروں کے داخلہ فارم، اعلیٰ ملازمتوں کے لئے درخواست فارم ، ووٹر لسٹ اور اب نکاح ناموں میں بلا ضرورت مذہب کا خانہ شامل کیا گیا ہے ۔ جبکہ ان سب کا مقصد کھلے طور پر صرف تفریق اور نفرت کا کاروبار کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرنا اور آبادی کے ایک حصہ کا استحصال ہے۔
چوتھے ذمہ دار عدلیہ
وہ سب جو انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے لیکن جنہوں نے انصاف اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ان تفریقی قوانین کو نہ صرف جائز رکھا بلکہ حسب استطاعت ان میں ویسی ہی ایزادیاں بھی تجویز کیں۔ پھر وہ جنہوں نے نفرت انگیز جرائم کرنے والوں کی نہ صرف گرفت نہیں کی بلکہ انہیں آزاد بھی کیا ۔ اور وہ بھی جنہوں نے نہ کردہ جرائم کی پاداش میں گرفتاروں کی داد رسی نہ کی اور بسا اوقات ضمانت تک نہ لی ۔ اور وہ بھی جنہوں نے ان قوانین کے بے جا استعمال سے کی جانے والی حق تلفیوں کو روا رکھا یا ایسے مقدمات کی ارادتاً شنوائی نہ کی ۔ اور یوں ان سب نفرت کا پرچار کرنے والے قانون شکنوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ کیا تعجب ہے کہ پاکستان کی عدلیہ دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں درجٔہ آخر پر شمار ہوتی ہے ۔
پانچویں ذمہ دار میڈیا
چند مستثنیات کو چھوڑ کر وہ سب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا جس نے نفرت انگیزی کی مہم میں جھوٹ بول کر یا معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کر غلط رنگ دیا اور دوسری طرف اس مہم کے شکار چھوٹی جماعتوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے واقعات سے عمداً آنکھیں بند کئے رکھیں اور ان خبروں کا مکمل بائیکاٹ کیا ۔ حتی کہ ان کی جاری کردہ پریس ریلیز کو بھی شائع نہ کیا اور یوں عملاً اس مہم کے مو ئٔید و مددگار بنے رہے۔ نیز وہ سب میڈیا جس نے اس نفرت انگیزی کی مہم کے توڑکے لئے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں عوام کو باہم محبت اور بھائی چارہ کا درس نہ دیا دیا اور تنگ نظری سے عقیدہ کی بنیاد پر تفریق کرنے اور نفرت پھیلانے کی مذمت نہ کی۔
چھٹے ذمہ دار خاموش تماشائی
ملک کے شرفا کی وہ بھاری اکثریت جس نے بزدلی سے منافقت کی راہ اپنائے رکھی ۔ جنہوں نے نجی محفلوں اور ڈرائنگ روم مجالس میں انسانی حقوق اور بھائی چارے کی خوب وکالت کی لیکن بھر زبان بند رکھی۔ وہ ان غلط کاریوں میں براہ راست عملاً شریک تو نہ ہوئے لیکن ان کے خلاف آواز اٹھائی نہ مخالف رد عمل ظاہر کیا اور یوں ان کی خاموش حمایت کی ۔ اور اس غلط تاثر کو ہوا دی کہ گویا سارا ملک ہی نفرت انگیزی کی اس مہم میں شریک ہے ۔
ساتویں ذمہ دار عوام الناس
وہ سب عام لوگ جو کا لا نعام بنے رہے۔ جنہوں نے مخالف پروپیگنڈا کو صرف سن کر سچ مان لیا۔ ان کے عقیدے کے صحیح یا غلط ہونے کو جانچا نہ ان کے خلاف سنی سنائی باتوں کو پرکھا۔ اور نہ اس مشاہدہ کو مقدم کیا جو دوسرے عقیدے والوں کے پڑوس میں رہ کر، ساتھ کھیل کر، بچپن سے ساتھ بڑے ہوکر، اسکول اور کالج میں اکٹھے تعلیم پاکر، ملازمتوں اور کاروبار میں اکٹھے وقت گزار، کر رشتے داریاں رکھ کر وہ حاصل کر چکے تھے۔ غرض اپنی عقل کو استعمال نہیں کیا۔ اور آنکھیں بند کر کے روحانی نابیناؤں کے پیچھے چلتے رہے۔ اور جب مولوی نے جو کہا اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ سلام دعا ترک کردی، میل ملاقات چھوڑ دی، لین اور کاروبار میں الگ کر دیا۔ اور اس بات کو بھول گئے کہ اس حوالے سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا اسوہ تھا۔
پستی سے نکلنے کی راہ
اس پستی سے نجات کی راہ صرف غلطیوں کی درستگی ہے۔ اس میں کلیدی کردار حکومت کا ہے۔ اسے جہاں خود کو مذہب سے علیحدہ کرکے اپنے ان بنیادی فرائض کو ادا کرنا ہوگا کہ بلا کسی تفریق کے اس کی رٹ قائم ہو۔ بلا استثنا سب فسادی کیفر کردار تک پہنچیں۔ حکومتی مناصب صرف صلاحیت کی بنا پر تفویض ہو۔ ہر شہری کو بلا لحاظ مذہب و عقیدہ اس کے جملہ حقوقحاصل ہوں۔ وہیں اسے یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اسمبلیاں ان سب قوانین کو قلم زد کریں جو مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتے ہیں۔ یا جو ملک کے شہریوں کے درمیان تفریق کرتے ہیں۔ عدالتیں بلالحاظ عقیدہ سب کو جلد انصاف مہیا کریں اور میڈیا صحافتی اصولوں کے تابع بلا لگی لپٹی اور بلا تفریق آگہی دے۔
حکومتی سطح پر مثبت پیش رفت شہریوں کے لیے بھی درست راہ متعین کرے گی اور رفتہ رفتہ ان میں اختلاف عقیدہ کی برداشت کا حوصلہ اور گفتگو سے معاملات کے حل کا رجحان پیدا ہوگا۔ اور نفرتیں دور ہوگی۔
یہ کام جتنی جلد ہوگا موجودہ اندھیرا اتنی جلد دور ہو گا۔
(جمیل احمد بٹ)