جماعت احمدیہ کے عظیم الشان جلسہ سالانہ کی
بنیادی اینٹ اور سو منزلہ خوبصورت و دلکش عمارت
مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اللہ سے اذن پا کر 1891ء میں ایک ایسے مبارک اجتماع کی بنیاد رکھی جو جلسہ سالانہ کہلایا۔ آغاز قادیان کی مسجد اقصیٰ سے ہوا جس میں 75کے قریب مخلصینِ جماعت شامل ہوئے۔ چونکہ اس کی بنیادی اینٹ خود اللہ تعالیٰ نے رکھی تھی۔ اس کے اوپر اب دنیا بھر میں کثیر منزلہ سٹوری (Multiple story) یعنی عمارت قائم ہو چکی ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ سیاح دنیا کی منفرد اور بلند ترین عمارتیں دیکھنے کے لئے امریکہ، دوبئی، ملائشیا اور دوسری جگہوں کا وزٹ کرتے ہیں۔ روحانی معنوں میں اگر کسی نے بلند ترین عمارت دیکھنی ہو تو وہ جماعت احمدیہ میں بابرکت اور مقدس جلسہ سالانہ کی عالیشان عمارت کو دیکھے جو 100سے زائد Stories (منزلوں) تک تعمیر ہو چکی ہے (یعنی 100سے زائد ممالک میں یہ جلسہ بہت دھوم دھام سے اور نماز تہجد، دعاؤں، خصوصی عبادات اور ذکر الہٰی کے روح پرور ماحول میں اور اسلامی روایات کے مطابق منایا جاتا ہے) جس میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں شرکاء نہ صرف پناہ لیتے ہیں بلکہ روحانی اورا خلاقی ماحول میں تین دن بسر کرکے اپنے جسموں کو صیقل کرکےاپنے قلب و ذہن کو جلا بخشتے اور صاف ستھرے ہوکر گھروں کو لوٹتے ہیں نیز روحانی عطر سے ممسوح کئے جاتے ہیں، ایسا عطر جس کی خوشبو کبھی ختم نہیں ہوتی۔
کچھ دنوں تک اس سو منزلہ عمارت کے گراؤنڈ فلور کے باسیوں (یعنی قادیان) کا 126واں جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے۔ جو 25,24اور26دسمبر کو اپنے گلہائے رنگا رنگ کی خوشبو سے ماحول کو معطر کرے گا۔ ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اسے مبارک اور کامیاب بنائے، آمین۔
ادارہ الفضل اس مبارک روحانی موقع پر قارئین کوجلسہ سالانہ قادیان کے انعقاد کی مبارکباد پیش کرتا ہے اور یہ بتانے میں خوشی محسوس کر رہا ہے کہ اس سوا سو (125 سے ایک اوپر) سالہ جلسہ قادیان کے موقع پر تاریخ جلسہ ہائے سالانہ پر مشتمل تاریخ ساز نمبر کی تیسری قسط مورخہ 20تا 25دسمبر 2021ء کے 6شماروں میں آئے گی جن سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکے گا کہ کن مشکل حالات میں 130سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ اور 75افراد الہام ’’یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ وَیَا تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘ کو پورا کرتے ہوئے اپنے نفوس، وقت اور اموال کی قربانی کرتے ہوئےاپنے آقا و پیشوا کے ایک اشارے پر بھاگے چلے آئے تھے۔ ان میں اکثر پا پیادہ اور بے سرو سامان تھے۔ جن کے چلنے سےمذکورہ الہام کے تحت راستوں میں گڑھے پڑتے تھے۔ اُدھر مولوی محمد حسین بٹالوی کے جوتے بٹالہ اسٹیشن تک بار بار آکر اور قادیان کی زیارت کرنے والوں کو روکنے کے لئے گھستے گھستے ختم ہو چکےتھےاور مومنوں کو گمراہ کرنے کی امیدیں دم توڑتی جاتی تھیں۔ مگر ان مخلصین اور فدائین کا قادیان آنےکے لئے وارفتگی کے ساتھ تانتا بندھا رہتا تھا۔ اور یہ جماعت احمدیہ کی سچائی کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ہی جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعدادسینکڑوں سے نکل کرہزاروں میں پہنچ چکی تھی۔ آج تو اس نظارہ کو کسی حد تک اپنےدلی جذبات کی زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کہاں 1891ء کے جلسہ میں 75افراد نے شرکت کی اور اب 100 سے زائد ممالک میں نہ صرف جلسہ ہوتا ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لنگر بھی جاری ہوتا ہے، جو بجائے خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی پیش خبریوں کی تکمیل کو بڑی شان کے ساتھ پورا کرتا نظر آرہا ہے۔ اور اب تو MTAکےمواصلاتی سیاروں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود ؑ کا روحانی مائدہ گھر گھر ، سینٹر سینٹر اور مسجد مسجد میں بٹ رہا ہے یعنی سننےاور دیکھنے کو ملتا ہےاور پیاسی روحوں کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ جہاں اکثر جگہوں پر 75سےکہیں زیادہ احمدی افراداورمدعو کئے گئے مہمان اکٹھے ہو کر جلسہ کا سماں بنا کر اس روحانی مائدہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جہاں جسمانی تراوت اور سیری کا سامان یعنی لنگر مسیح موعودؑ بھی جاری ہوتے ہیں۔ بلکہ جلسہ کی خوشی اور اپنے آپ کو اس ماحول کا حصہ بنانے کے لئے گھر گھرمیں خصوصی پکوان تیار ہوتے ہیں بلکہ مجھے یاد ہے کہ پاکستان میں گھروں میں جلسے کا ماحول بنانے کے لئے مونگ پھلی، ڈرائی فروٹ، کنو، مالٹے منگوائے جاتے ان کو کھاتے اور تقاریر سنتے اور روحانی ودنیاوی مزے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
مجھے بعض بزرگوں کے متعلق علم ہے کہ ایک وقت تک لوگوں کی کشائش اتنی نہ تھی کہ جب کبھی سفر کا ارادہ کیا تو چل دیئے بلکہ کراچی، حیدرآباد، کوئٹہ اور سندھ کے بعض علاقوں کے لوگ حتیٰ کہ پشاور کے اطراف سے بھی ماہانہ بنیاد پرسارا سال گلہ (money box) میں پیسے ڈالتے تھے تاکہ ربوہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام نے جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے کے لئے ’’للّٰہی سفر‘‘ کے الفاظ استعمال فرما کر ان میں شریک ہونے والوں کے حق میں یہ دُعا کی ہے۔
’’ہر یک صاحب جو ا س للہی جلسے کے لئے سفر اختیار کریں خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کو اجرعظیم بخشے اور ان پر رحم کرے۔ اور ان کی مشکلات اور اضطراب کے حالات ان پر آسان کر دیوے اور ان کے ہم و غم دور فرمائے۔ اور ان کو ہریک تکلیف سے مخلصی عنایت کرے۔ اور ان کی مرادات کی راہیں ان پرکھول دیوے۔ اور روزِآخرت میں اپنے ان بندوں کے ساتھ ان کو اٹھاوے جن پراس کا فضل ورحم ہے۔ تااختتام سفر ان کے بعد ان کاخلیفہ ہو‘‘۔
(اشتہار 7دسمبر 1892ء۔ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ342)
یہ للّہی سفر وقت کے دھارے بدلنے کے ساتھ مختلف نوعیتوں میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک دور میں پیدل، تانگوں، یکوں، ریل گاڑیوں اور بسوں کے ذریعہ یہ سفر طے ہوتا تھا۔ اب ہر جگہ تیز رفتار اور سرعت سے چلنے والی ٹرانسپورٹ دستیاب ہیں اور انسان بآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جلسوں کا نظام اس حد تک پھیل چکا ہے کہ ایک احمدی کا جسمانی رنگ میں ہر جلسہ میں شامل ہونا بہت مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر احسان کرتے ہوئے ایم ٹی اے جیسی ایک عظیم نعمت عطا فرمائی ہے۔ اور ہم گھروں میں اور اگر گھروں میں ایم ٹی اے کی سہولت میسر نہیں تو پڑوسیوں اور نماز سینٹرز پر پہنچ کر جلسہ ہائے سالانہ میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ اور گھروں میں اپنے اپنے بیڈ رومز سے ٹی وی لاؤنج میں چند قدم کا خصوصی سفر اختیار کر کے پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم یقین کامل رکھتے ہیں کہ یہ چند قدم کا سفر بھی اس‘‘للّٰہی سفر” میں شامل ہو گا اور ایسے لوگوں کے حق میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مندرجہ بالا بیان کردہ تاریخی دُعا کے الفاظ پورے ہوں گے۔ ان شاءاللہ
مجھے اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ Pandemic سے قبل 2019ء کی ابتدا ء میں پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی نمائندگی میں سیر الیون مغربی افریقہ جا کر جلسہ سالانہ میں شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جہاں شاملین جلسہ کی تعداد 24ہزار 700تھی۔ خاکسار مکرم مولانا سعید الرحمٰن امیرو مشنری انچارج سیرالیون کے ہمراہ ایک ہی کار پر فری ٹاؤن (دارالخلافہ) سے Bo (جلسہ گاہ، دارالخلافہ سدرن پراونس یعنی جنوبی صوبہ) کی طرف سفر کر رہا تھا۔ تو راستہ میں عازمین جلسہ سالانہ کو بسوں، پوڈوں، ویگنوں، موٹر بائیکس ،اور پیدل سفر کرنے والوں کو دیکھا اور کم و بیش وہ مجازی نظارے آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جو ہم حضرت مسیح موعود علیہ لسلام کے دور میں عازمین جلسہ سالانہ کے حوالے سے کتب اور تاریخ احمدیت کی جلدوں میں پڑھتے ہیں۔ تقریباً 200میل کا یہ سفر جہاں مادی لحاظ سے خوشگوار ماحول اور روح افزا فضاؤں میں گزارا وہاں تقریباً سارا رستہ ہی نعرہ ہائے تکبیر، اللہ اکبر اور درود شریف کے ورد سے فضا معطر نظر آئی۔ میں اپنی کار سے اتر کر ایک منی بس کے قریب جا کر مسافروں یعنی عازمین جلسہ کو السلام علیکم کہنے اور حال چال پوچھنے کے لئے گیا۔ تو میں نے ان عشاق عازمین جلسہ کو بس کی اوڑھ میں بیٹھےدیکھا جو بس کی Capacity سے بہت ہی زیادہ تھے۔ گویا قریباً دوگنا زیادہ تھے۔ میں نے امیر صاحب موصوف سے پوچھا یہ کیسے اتنا لمبا سفر کر رہے ہیں؟ ان کی سواری میں تو اتنی گنجائش ہی نہیں تو جواب ملا۔ ’’مسیح موعودؑ کی محبت میں‘‘ اور بعض کوتو گڑھے نما ٹوٹے پھوٹے راستوں پر پیدل سفر کرتے پایا۔
میں جب 1983ء سے 1990ء تک سیرالیون کے Bo ریجن میں خدمت دین بجا لا رہا تھا۔ Bo کے ریذیڈنس مشنری انچارج ہونے کے اعتبار سے خاکسار کو کئی سال افسر جلسہ گاہ کے فرائض بھی ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس وقت بھی میں نے بہت قریب سے ان افریقن بھائی بہنوں کی قربانی کو دیکھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک 70سالہ بزرگ40 میل کا سفر پیدل طے کر کے تیاما (Tiama) سے Boجلسہ میں شرکت کے لئے آئے۔ میں اتفاق سے مشن ہاؤس کے برآمدہ میں کھڑا تھا ، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ پسینے سے شرابور، جوتے سر پر رکھے مشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور میرے قریب آتے ہی سر سے جوتے ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے پھینکے اور مجھ سے اس حال میں ہی بغلگیر ہوگئے کہ ان کا دائیاں ہاتھ جیب میں تھا اور چند لیون (سیرا لیون کی کرنسی) جیب سے نکال کر میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ ’’مولوی صاحب! یہ رقم میں ٹرانسپورٹ پر آنے کی بجائے پیدل سفر کرکے بچا کر جلسہ سالانہ کے لئے لایا ہوں۔ اسے قبول کرو‘‘ فجزاہ اللّٰہ تعالیٰ فی الدارین خیرًا کثیرا۔
ابھی میں اس بزرگ کی پیش کی گئی قربانی ، اللہ کی راہ میں غیر معمولی توانائی اور جماعت سےبے انتہا محبت کا سوچ ہی رہا تھا کہ چند لمحوں کے بعد 12,10ممبرات لجنہ کا قافلہ مشن ہاؤس کی طرف پا پیادہ بڑھتے ہوئے دیکھا۔ ان خواتین نے اپنے نوزائیدہ بچے اپنی کمروں پر چادروں سے باندھ رکھے تھے۔
(سیرالیون میں جفاکش اور محنتی عورتیں اپنے بچوں کو پیٹھوں پر باندھ کر میلوں میل کا فاصلہ طے کرتی ہیں) جلسہ میں شرکت کرنے کے لئے مشن ہاؤس آنے والے اس قافلہ میں کوئی چھوٹا بچہ تھا اور کوئی ذرا بڑا۔ ان میں سے بعض نے ایک ایک بچہ اپنی انگلی سے پکڑا ہوا تھا اور سروں پر زادِ راہ ،کپڑوں اور سازوسامان کی گٹھڑیاں تھیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ان عشاق اور مخلص خواتین نے آتے ہی کہا کہ مولوی صاحب! ہم 37میل کا پیدل سفر کر کے جلسہ سالانہ کے لئے حاضر ہوئی ہیں۔ اور پوڈا پوڈا (سواری کا نام) کی یہ رقم ہم نے بچائی ہے۔ یہ چندہ جلسہ سالانہ کے طور پر قبول کر لیں
یہ صرف سیرا لیون کے چند واقعات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے اس دور کے نبیؑ کو عطا ہونے والی الہامی پیش خبری ’’یَاتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ وَیَا تُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ‘‘ کے حوالہ سے بیان کر دئیے ہیں ورنہ افریقہ کے دوسرے ممالک اور دنیا بھر کے قادیان سمیت دیگر ممالک میں آباد احمدی جماعتوں کی تاریخ ایسے حقیقت پسندانہ اور ایمان افروز واقعات سے رقم ہے۔
اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی اس عظیم الشان عمارت کو جس کی بنیادی اینٹ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کے ذریعہ رکھی مضبوط سے مضبوط تر کرتا چلا جائے۔ اور جہاں اس کی منازل میں ترقی ہو وہاں اس کے شرکاء کی آمد میں اضافہ ہوتا چلا جائے، نیز اس کے ساتھ ساتھ وہ مخلصین جماعت جو ان للہی جلسوں میں قربانیاں کر کے شریک ہوں اللہ تعالیٰ ان کے نفوس و اموال میں برکت ڈالے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، خلفاء کرام اور محبین و بزرگان ِجماعت کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ آمین
(ابو سعید)