• 18 جولائی, 2025

حضرت مسیح موعودؑ کی مہمان نوازی

فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ

(اَلذَّارِیات: 27)

ترجمہ: وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ بھنا ہوا بچھڑا لے آیا مہمان نوازی کا وصف خدا تعالی کو اس قدر پسند ہے کہ باری تعالی نے اپنی دائمی شریعت میں حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی کا ذکر کر کے اس کی ترغیب دی۔ اس مضمون کو لکھنے کا خاص مدعا وہ تمام میزبان جماعتیں، سنٹرز، مشن ہاؤسز، دارالضیافت ،جماعتی گیسٹ ہاؤسز وغیرہ ہیں جہاں افراد جماعت عہدیدار وغیر عہدیدار بطور مہمان جاتے ہیں۔ میزبانی کی خدمت کی توفیق پانے والے خوش نصیب حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے ان واقعات کوپڑھیں کہ کس قدر حضرت مسیح موعودؑ کو اپنے مہمانوں کی فکرلاحق تھی وہ فکر ان کی ضروریات کے حوالہ سے ہو یا ان کے جذبات کے حوالہ سے ہو۔ تا ان واقعات کو پڑھ کر میزبانی کی خدمتیں سمیٹنے والے خوش نصیب اپنے ایمان اور محنت میں ترقی کریں حضرت مسیح موعودؑ کی سیرت کے اس پہلو سے روایات پیش خدمت ہیں

مہمانوں کے بھوکے رہ جانے پر
خدا نے اطلاع دی

ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ روایت کرتے ہیں کہ ‘‘خاکسار1907ء میں جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لیے قادیان حاضر ہوا ایک رات میں نے کھانا نہ کھایا تھا اور اس طرح چند اورمہمان بھی تھے جنہوں نے کھانا نہ کھایا تھا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا یاایھاالنبی اطعموا الجائع والمعتر منتظمین نے حضورؑکے بتلانے پر مہمانوں کو کھانا کھانے کے لیے جگایا خاکسار نے بھی ان مہمانوں کے ساتھ بوقت تقریبا ساڑھے گیارہ بجے لنگر میں جاکر کھانا کھایا۔ اگلے روز خاکسار نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دن کے قریبا دس بجے مسجد مبارک کے چھوٹے زینے کے دروازے پر کھڑے ہوئے تھے اور حضورؑ کے سامنے حضرت مولوی نورالدین خلیفہ اولؓ کھڑے ہوئے تھے اور بعض اوراصحاب بھی تھے اس وقت حضورؑ کو جلال کے ساتھ یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انتظام کے نقص کی وجہ سے رات کو کئی مہمان بھوکے رہے اللہ تعالی نے مجھے یہ الہام کیا یا ایھاالنبی اطعمواالجائع والمعتر

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت 1176)

مہمانوں کی تکلیف اپنے چاروں بچوں کے
مر جانے سے زیادہ

اہلیہ صاحبہ مولوی فضل الدین صاحب کھاریاں روایت کرتی ہیں کہ ’’ہمارے ساتھ ایک بوڑھی عورت مائی تابی رہتی تھی اس کے کمرے میں ایک روز بلی پاخانہ کر گئی اس نے کچھ ناراضگی کا اظہار کیا میرے ساتھ دوعورتیں تھیں انہوں نے خیال کیا کہ ہم سے تنگ آکرمائی تابی ایسا کہتی ہے ایک نے تنگ آکر اپنے خاوند کو رقعہ لکھا جو ہمارے ساتھ آیا ہوا تھا کہ مائی تابی ہمیں تنگ کرتی ہے ہمارے لئے الگ مکان کا انتظام کردیں۔ جلال الدین نے وہ رقعہ حضورؑ کے سامنے پیش کردیا رقعہ پڑھتے ہی حضورؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپؑ نے فورا مائی تابی کو بلایا اورفرمایا تم مہمانوں کو تکلیف دیتی ہوں تمہاری اس حرکت سے مجھے سخت تکلیف پہنچی ہے اس قدر تکلیف کہ اگر خدانخواستہ میرے چاروں بچے مر جاتے تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی مہمانوں کو تکلیف دینے سے پہنچی ہے۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1322)

مہمانوں کو خود کھانا پکانے نہ دیتے

مراد خاتونؓ صاحبہ اہلیہ محترم ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ صاحب کی والدہ جن کا نام بوبوجی تھا اور انہوں نے ابھی بیعت نہیں کی تھی اپنے بیٹے ڈاکٹر فیض علیؓ کے اصرار پر چند دن قادیان رہنے کیلئے آئیں اور والدہ صاحبہ کے ہی اصرار پر الگ مکان رہنے کیلئے کرایہ پرلیا چنانچہ بالآخروہ اپنے بیٹے ڈاکٹر فیض علی کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ سے ملاقات کیلئے حاضر ہوئیں تو حضورؑ نے فرمایا ’’کہاں ٹھہرے ہو اور کب سے آئے ہو؟ والدہ نے عرض کیا کہ پندرہ دن ہوئے ہیں ہم مرادوملانی کے مکان میں رہتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا کھانے کا کیا انتظام ہے؟ بوبوجی نے کہا کہ خود پکا لیتے ہیں (آپؑ نے) فرمایا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے مہمان ہوکر خود کھانا پکائیں آپ کو معلوم نہیں کی قادیان میں جو بھی مہمان آتا ہے وہ ہمارا ہی مہمان ہوتا ہے۔ آپ کو ڈاکٹر فیض علی نے نہیں بتایا؟ بوبو جی نے کہا ہم پانچ چھ آدمی ہیں حضور علیہ السلام کو تکلیف دینا مناسب نہ تھا آپؑ نے فرمایا کہ ہمارا حکم ہے کہ ہمارے مہمان ہمارے گھر سے ہی کھانا کھائیں‘‘ پھر آپؑ نے ایک خادمہ سے فرمایا ’’ان کے ساتھ جا کر گھر دیکھ لو اور دونوں وقت کھانا پہنچا آیا کرو اور پوچھ لیا کرو کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے‘‘

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1357)

اپنا لحاف مہمانوں کو دے کر
بغیر لحاف کے ساری رات گزاری

منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ کی روایت ہے کہ ’’ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی جمع تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا ایک شخص نبی بخش نمبردار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگا نے شروع کیے اور مہمانوں کو دیتا رہا۔ میں عشاء کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیے ہوئے بیٹھے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالبا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اڑھا رکھا تھا معلوم ہوا کہ آپؑ نے بھی اپنا لحاف اور بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لیے بھیج دیا میں نے عرض کی کہ حضورؑ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے۔ فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ہمارا کیا ہے رات گزر ہی جائے گی نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبردار کو برا بھلا کہا کہ تم حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا کہ جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں پھر میں مفتی فضل الرحمن صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا لحاف بچھونا مانگ کر اوپر لے گیا آپؑ نے فرمایا کسی اورمہمان کو دے دو مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پربھی آپؑ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو پھر میں لے آیا‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم 1118)

مہمان کو اپنا بستر دے دیا اور
سر کی پگڑی کاٹ کر کھانا باندھ کر دیا

’’مکرم مفتی محمد صادق صاحبؓ کی روایت ہے کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے جس کے نتیجے میں خدام بھی حضورؑ کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضورؑ کی ملاقات کے لیے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کے لیے رضائی وغیرہ نہیں تھی میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضورؑ رات کوسردی لگنے کا اندیشہ ہے حضورؑ مہربانی کرکے کوئی کپڑاعنایت فرماویں حضرت صاحبؑ نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دھسا ارسال فرمایا اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا ہے آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں میں نے رضائی رکھ لی اور دھسا واپس بھیج دیا نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضورؑاندر سے میرے لیے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحبؑ نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا جو خادم کھانا لایا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا حضرت صاحبؑ نے اس سے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے؟ کوئی رومال بھی تو ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں اور پھر آپؑ نے اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا‘‘

(سیرت المہدی حصہ دوم روایت 433)

مہمان حضورؑ کے بال بچے

ایک عورت جو سامانہ کی رہنے والی تھی حج کرکے حضور علیہ السلام کے گھر آئی وہ اس وقت پہنچی جب کے حضورؑ کا تمام کمبہ کھانا کھا چکا تھا حضورؑ تھوڑی دیر بعد حجرے سے باہر نکلے اور کہا کہ تم نے کھانا کھا لیا ہے کہ نہیں؟ اس نے کہا ’نہیں‘ حضور علیہ السلام گھر والوں کو خفا ہوکرکہنے لگے کہ تم نے اس کو کھانا نہیں کھلایا۔ یہی تو میرے بال بچے ہیں حضور علیہ السلام نے خود کھانا منگوا کر اسے کھلایا۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت1298)

مہمانوں کے بچوں کو
اپنے بچوں سے پہلے کھانا کھلایا

محترمہ خیر النساء صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی روایت ہے کہ ’’ایک دفعہ بارش سخت ہو رہی تھی اور کھانا لنگر میں میاں نجم الدین صاحب پکوایا کرتے تھے انہوں نے کھانا حضورؑاور بچوں کے واسطے بھجوایا کہ بچے سو نہ جائیں باقی کھانا بعد میں بھجوا دیں گے حضور علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ ’’شاہ جی کے بچوں کو کھانا بھجوا دیا ہے یا نہیں؟‘‘ جواب ملا ’نہیں‘ ان دنوں دادی مرحومہؓ وہاں رہا کرتی تھیں حضورؑ نے کھانا اٹھوا کر ان کے ہاتھ بھجوایا اور فرمایا کہ پہلے شاہ جی کے بچوں کو دو بعد میں ہمارے بچے کھا لیں گے‘‘

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت1505)

مہمانوں کوان کی پسند کے مطابق
کھانا کھلانے کا حکم

منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلویؓ کی روایت ہے کہ ’’میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحقہ کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے دیکھ کر فرمایا آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں ویسا ہی کھانا ان کے لیے تیار کیا جائے پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اوراذان بھی ہوگئی تھی حضورؑ نے فرمایا کھالواذان جلدی دے دی گئی ہے اس کا خیال نہ کرو‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم 1163)

مہمانوں سے محبت کا ایک رنگ

میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں قادیان پہنچا حضور علیہ السلام گھر میں مع احباب مہمانان کھانا کھانے کے لئے تیار تھے کہ میں بھی گھر میں داخل ہوا میرے لیے بھی کھانا آگیا جب کھانا رکھا گیا تورکابی پلاؤ کی زائد از حصہ رسدی حضور علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر میرے آگے رکھ دی تمام حاضرین میری طرف دیکھنے لگ گئے میں حضور علیہ السلام کی شفقت بھری نگاہ سے خدا تعالی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہتا ہوں الحمدللّٰہ علی ذلک‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت 1230)

سحری میں مہمانوں کی خدمت

شیخ کرم الہی صاحبؓ پٹیالوی کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ رمضان گزارنے جو کہ سردیوں میں آیا تھا قادیان آئے اور مسجد مبارک سے متصل کمرے میں رہائش مل گئی حضور علیہ السلام اسی کمرہ میں سے گزر کر نماز کے لیے تشریف لاتے تھے آپ روایت کرتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ سحری کے وقت دروازہ کھلا خاکسار سامنے بیٹھا تھا یہ دیکھ کر کہ حضرت صاحبؑ دروازہ میں کھڑے ہیں تعظیما کھڑا ہوگیا حضورؑ نے اشارے سے اپنی طرف بلایا میں جب آگے بڑھا تو دیکھا کہ حضورؑ کے دونوں ہاتھوں میں دو چینی کے پیالے ہیں جن میں کھیر تھی حضورؑ نے وہ دونوں پیالے خاکسار کو دیتے ہوئے فرمایا کہ جن احباب کے نام ان پر لکھے ہوئے ہیں دیکھ کر ان کو پہنچا دو میں نے وہ حکیم صاحب (مراد حکیم فضل الدین صاحب بھیرویؓ) کے پیش کیے انہوں نے مسجد میں سے کسی کو طلب کرکے وہ پہلے ان حباب کو پہنچا دیے جن کے نام سیاہی سے لکھے ہوئے تھے اس کے بعد پھر دروازہ کھلا پھرحضرت صاحب دو پیالے پکڑا گئے وہ بھی جن کے نام کے تھے ان کو پہنچا دیے گئے اس طرح حضرت صاحبؑ خود دس گیارہ دفعہ پیالے لاتے رہے اور ہم ان اشخاص کو مہمان خانہ میں پہنچاتے رہے آخری دفعہ میں جو دوپیالے حضورؑ نے دیے ان میں سے ایک پرحکیم صاحب کا نام اور دوسرے پر میرا نام تحریر تھا حکیم صاحب نے کھیر کھا کر کہا کہ آج تو مسیح کا من و سلویٰ اترآیا‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت1088)

غریب مہما ن کی دلجوئی

منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ کی روایت ہے ’’کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کے بعد مسجد مبارک کی دوسری چھت پرمع چند احباب کھانا کھانے کے لئے تشریف فرما تھے ایک احمدی میاں نظام الدین ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے حضورؑ سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلے پر بیٹھے تھے اتنے میں کئی دیگر اشخاص خصوصاً وہ لوگ جو بعد میں لاہوری کہلائے آتے گئے اورحضورؑ کے قریب بیٹھتے گئے جس کی وجہ سے میاں نظام الدین کو پرے ہٹنا پڑتا رہا حتّٰی کہ وہ جوتیوں کی جگہ تک پہنچ گئے اتنے میں کھانا آیا تو حضورؑ نے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھا لیں اور میاں نظام الدین کو مخاطب کرکے فرمایا آوٴ میاں نظام الدین! آپ اور ہم اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں اور یہ فرما کر مسجد کے صحن کے ساتھ جو کوٹھڑی ہے اس میں تشریف لے گئے اور حضورؑ نےاورمیاں نظام الدین نے کوٹھری کے اندرایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا اور کوئی اندرنہ گیا جو لوگ قریب آ کر بیٹھ گئے تھے ان کے چہروں پرشرمندگی ظاہر تھی۔

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت1067)

ناراض مہمانوں کو منا کر واپس لانا

منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلویؓ نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ دو شخص منی پور آسام سے قادیان آئے اور مہمان خانہ میں آ کر انہوں نے خادمان مہمان خانہ سے کہا کہ ہمارے بستر اتارے جائیں اور سامان لایا جائے چارپائی بچھائی جائے خادمان نے کہا کہ آپ خود اپنا اسباب اتروائیں چارپائیاں بھی مل جائیں گی دونوں مہمان اس بات پر رنجیدہ ہو گئے اور فورا ًیکہ میں سوارہوکر واپس روانہ ہو گئے میں نے مولوی عبدالکریم صاحب سے یہ ذکر کیا تو مولوی صاحب فرمانے لگے ’جانے بھی دو ایسے جلد بازوں کو‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کا علم ہوا تو نہایت جلدی سے ایسی حالت میں کہ جوتا پہننا مشکل ہوگیا حضورؑ ان کے پیچھے نہایت تیز قدم چل پڑے چند خدام بھی ہمراہ تھے میں بھی ساتھ تھا نہر کے قریب پہنچ کران کا یکہ مل گیا اورحضورؑ کو آتا دیکھ کروہ یکہ سے اتر پڑے اور حضورؑ نے انہیں واپس چلنے کے لئے فرمایا کہ آپ کے واپس ہونے کا مجھے بہت درد پہنچا چنانچہ وہ واپس آئے۔ حضورؑ نے یکہ میں سوار ہونے کے لئے انہیں فرمایا کہ میں ساتھ ساتھ چلتا ہوں مگر وہ شرمندہ تھے اور وہ سوار نہ ہوئے اس کے بعد مہمان خانہ میں پہنچے حضورؑ نے خود ان کے بستر اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا مگر خدام نے اتار لیا۔ حضورؑ نے اسی وقت دو نواڑی پلنگ منگوائے اوران پران کے بستر کروائے اور ان سے پوچھا کہ آپ کیا کھائیں گے اور خود ہی فرمایا کیونکہ اس طرف چاول کھائے جاتے ہیں اور رات کو دودھ کے لئے پوچھا۔ غرض یہ کہ ان کی تمام ضروریات اپنے سامنے پیش فرمائیں اور جب تک کھانا آیا وہیں ٹھہرے رہے اس کے بعد حضورؑ نے فرمایا کہ ایک شخص جو اتنی دور سے آتا ہے راستے کی تکالیف اور صعوبتیں برداشت کرتا ہوا یہاں پہنچ کر سمجھتا ہے کہ اب میں منزل پر پہنچ گیا اگر یہاں آ کربھی اس کو وہی تکلیف ہوتویقینا اس کی دل شکنی ہوگی ہمارے دوستوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے اس کے بعد جب تک وہ مہمان ٹھہرے رہے حضورؑکا یہ معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹے کے قریب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور تقریروغیرہ فرماتے جب وہ واپس ہوئے تو صبح کا وقت تھا حضورؑ نے دو گلاس دودھ کے منگوائے اور انہیں فرمایا یہ پی لیجئے اورنہرتک انہیں چھوڑنے کے لئے ساتھ گئے راستہ میں گھڑی گھڑی ان سے فرماتے رہے کہ آپ تو مسافر ہیں آپ یکہ میں سوار ہولیں مگر وہ سوار نہ ہوئے نہر پر پہنچ کر انہیں سوارکراکے حضورؑ واپس تشریف لائے‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت 1068)

مہمانوں کے جذبات کا خیال

محترمہ سیدہ زینب بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی روایت ہے کہ ’’میری موجودگی میں ایک دن کا ذکر ہے کہ باہر گاؤں کی عورتیں جمعہ پڑھنے آئی تھیں تو کسی عورت نے کہہ دیا کہ ان میں سے پسینہ کی بوآتی ہے کیونکہ گرمی کا موسم تھا جب حضور علیہ السلام کو معلوم ہوا تو اس عورت پر ناراض ہوئے کہ تم نے ان کی دل شکنی کیوں کی؟ ان کو شربت وغیرہ پلایا اور ان کی بڑی دل جوئی کی حضور علیہ السلام مہمان نوازی کی بہت تاکید فرمایا کرتے تھے‘‘

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1540)

’’انہوں نے جو تم کو برا بھلا کہا ہے
وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے‘‘

استانی رحمت النساء بیگم صاحبہ اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ موسمی تعطیلات میں قادیان آئیں حضور علیہ السلام کے گھر کی دو نوکرانیاں ان کے بچوں سے تنگ آکر ان کو اوران کے بچوں کو برا بھلا کہتی تھیں بالآخر انہوں نے حضورؑ کوان کی شکایت لگائی تو آپؑ نے محبت آمیز لہجہ میں جو باپ کو بیٹی سے ہوتی ہے بلکہ اس سے زیادہ محبت کے ساتھ فرمایا ’تم ان کی باتوں سے غم نہ کرو‘ انہوں نے جو تم کو برا بھلا کہا ہے وہ تم کو نہیں مجھ کو کہا ہے۔ پھر آپؑ نے ان عورتوں کو خوب ڈانٹا اور ان میں سے ایک کو تو فوراًنکل جانے کا حکم دیا اور دوسری کو خوب ڈانٹا اور فرمایا کیا میرے مہمان جو اتنی گرمی میں اپنے گھروں کو چھوڑ کر اپنے آراموں کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں تم ان کو برا بھلا کہتی ہو کیا وہ صرف لنگر کی روٹیاں کھانے آتے ہیں؟ اور میرے متعلق کہا کہ اس لڑکی کو آئندہ کچھ تکلیف نہ ہو‘‘

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت1506)

مہمانوں کی مالی مدد

محترمہ صفیہ بیگم بنت مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جناب والد صاحب کہیں باہر دورہ تبلیغ کے لیے گئے ہوئے تھے پیچھے سے مصلحت کی وجہ سے منتظموں نے لنگر خانے کا یہ انتظام کیا کہ جو مہمان آویں صرف ان کو تین دن تک کا کھانا ملا کرے باقی گھروں کا بند کر دیا ہمیں بھی لنگر خانہ سے دونوں وقت روٹی آتی تھی جب بند ہوگئی تو نہ آئی۔ ہم سب بہن بھائی ایک دن رات بھوکے رہے۔ کسی کو نہ بتایا۔ دوسرے دن ان سب کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی کہ حضرت صاحب نے دو رکابیاں کھیر اور دوپیالے گوشت کے ان کے گھر بھیجے۔ جب وہ برتن واپس کرنے گئیں تو حضرتؑ صاحب نے فرمایا ’’صفیہ کل کیوں نہیں آئی؟ میں نے کہا کل ہم کو لنگر سے کھانا نہیں آیا تھا اس لئے ہم سب گھر ہی رہے ہیں آپؑ نے افسوس والی صورت سے فرمایا کہ کل تم سب بھوکے رہے کیا تمہیں لنگر خانہ سے روٹی آتی تھی؟ بہت افسوس فرمایا اور کہا کہ آج جو مجھے کھانا آیا تھا میں نے تمہارے گھر بھیج دیا مجھے یہ علم نہ تھا کہ تم کو کل سے کھانا نہیں ملا پھر مجھے دس روپے دیے اور فرمایا کہ نیچے کوٹھی میں جتنے دانے گندم کے ہیں گھر لے جاؤ اور خرچ کرو۔ جب تک حضرت مولوی صاحب نہیں آتے مجھے خرچ کے لیے بتایا کرو۔

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت1563)

مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا

ایک دفعہ 1903ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں کثرت سے مہمان آگئے حضرت میر ناصر نواب صاحب جو اس وقت لنگر خانہ کے افسر اعلی تھے آئے اور فرمایا ’’حضرت مہمان تو کثرت سے آگئے ہیں معلوم ہوتا ہے اب کے دیوالہ نکل جائے گا حضور علیہ السلام کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور لیٹے لیٹے فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا میر صاحب آپ نے یہ کیا کہا آپ کو نہیں معلوم کہ مومن کا کبھی دیوالہ نہیں نکلتا جو آتا ہے وہ اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے جب جاتا ہے تو برکت چھوڑ کر جاتا ہے یہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ دیوالہ نکل جائے گا پھر ایسی بات نہ کریں‘‘

(سیرت المہدی حصہ پنجم روایت 1288)

مہمان نوازی میں کمی کے خدشہ پر حضورؑ کی فکر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آخری دفعہ لاہور گئے تو لاہور میں قیام کے دوران ہی آپؑ نے خصوصی طور پرخط لکھ کرمولوی محمد علی صاحب کو جو پیچھے قادیان میں لنگر خانہ کے انچارج تھے بلایا اور آپؑ نے انہیں فرمایا ’’اس وقت حضورؑ نے مولوی صاحب سے لنگر کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا ذکر کیا اور فرمایا کے میں اس کی وجہ سے بہت فکرمند ہوں کہ لنگر کی آمد کم ہے اور خرچ زیادہ اور مہمانوں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے اوران حالات کو دیکھ کر میری روح کو صدمہ پہنچتا ہے‘‘

(سیرت المہدی حصہ چہارم روایت1208)

حضرت بھائی عبدالرحمان قادیانیؓ کی گواہی

حضرت بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانیؓ جن کو مرد خادموں میں سے حضورؑ کے سب سے زیادہ قریب رہ کر خدمت کا موقع ملا۔ آپؑ کی مہمان نوازی کے متعلق گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’آہ،آہ،آہ شہنشاہوں کا شہنشاہ جس کا یہ حال جس کی تصدیق حضورؑ کے وصال کے بعد کے واقعات نے کردی جب کہ واقعی حضورپرنور نے بجائے مال و منال کے قرض کی بھاری رقم ترکہ میں چھوڑی مگر مہمان نوازی میں سرموفرق نہ آنے دیا اور نہ ہی کسی کو جتایا۔ جاننے والے جانتے اور دیکھنے والے یقین رکھتے ہیں کہ حضورؑ کو مہمان نوازی میں کتنا کمال اورشغف تھا حضورؑ اس میں ذرہ بھر کوتاہی کو بھی پسند نہ فرماتے۔ قرض تک لے کر مہمانوں کی خدمت کرتے خود اپنے ہاتھوں کھلاتے اور مہمانوں کی ضروریات کا پورے اہتمام سے ان کے حالات وعادات کے لحاظ سےانصرام کرتے۔ چارپائی، بستر حتی کہ حقہ تک بھی جس سے حضورؑ کو طبعی نفرت تھی مہمان کی خاطر مہیا فرماتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضورؑ نے کھانا تناول فرماتے ہوئے بھی اپنا کھانا اٹھا کر مہمانوں کو بھیج دیا اور خود دوگھونٹ پانی پر ہی کفایت فرمائی۔ کسی مہمان کو چارپائی نہ ملی تو اپنی چارپائی بھیج دی یا فورا ًتیار کروا دی اور نیا بستر بنوا کر بھیج دیا‘‘

(سیرت المہدی جلد دوم تتمہ صفحہ398)

(عدنان اشرف ورک)

پچھلا پڑھیں

اعلان برائے خصوصی شمارہ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 دسمبر 2021