سرد راتوں میں ردائے آرزو اوڑھے ہوئے
سر برہنہ، دل شکستہ، جام کو توڑے ہوئے
اب دیے جلتے کہاں ہیں مندروں میں یاد کے
کاش وہ آ کر کہیں لو آج ہم تیرے ہوئے
کچھ خدا خوفی کرو اہلِ وطن پر ’دوستو!‘
اب کھڑا بھگوان بھی یوں ہاتھ ہے جوڑے ہوئے
کوئی تو ہاتھوں میں لے انسانیت کا یہ عَلم
کاش لوٹ آئیں سبھی، ایمان سے دوڑے ہوئے
بے گناہوں کے لہو کا کون دے گا اب حساب
خطۂ ارضِ وطن پر قتل جو میرے ہوئے
اور کیا بیّن نشاں ہو گا تمہارے واسطے
اب تو مدت ہو گئی ہے مائدہ کھاتے ہوئے
اب خلافت ہی مقدر ہے تمہارا ’دوستو!‘
کیا بھلا جی پاؤ گے؟ اس فیض کو چھوڑے ہوئے
کب کے مٹ جاتے ہم اپنے آپ سے لڑتے ہوئے
گر نہ ہوتی یہ خلافت یوں ہمیں جوڑے ہوئے
دست بستہ اب درِ مولیٰ پہ ہوں میں ملتجی
ہوں خلافت کا یہ سایہ ہم سبھی اوڑھے ہوئے
(صفوان احمد ملک۔جرمنی)