• 18 جولائی, 2025

جہانگیر خان

صدی کا سب سے بڑا اور عظیم کھلاڑی
جہانگیر خان

اسکواش کے پاکستانی کھلاڑی جہانگیر خان کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں اسکواش کے میدان میں فتوحات کے ناقابل یقین ریکارڈ قائم کئے اور لمبا عرصہ تک اسکواش کے بادشاہ کے طور پر حکمرانی کی اور دنیا کے کسی بھی قوم کے کھلاڑی کو اپنے مقابل پر کھڑا نہ ہونے دیا اور سالوں تک عالمی نمبر1 کھلاڑی کے طور پر کھیلتے رہے۔ ان کو بلاشبہ کھیلوں کی دنیا کا عظیم ترین کھلاڑی تسلیم کیا گیا جو پاکستان کے لئے بھی ایک بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے نام کو عالمی سطح پر روشن کرنے میں بھی جہانگیر خان پہلے نمبر پر رہے ہیں۔ جہانگیر خان نے صرف اسکواش ہی نہیں بلکہ ہر کھیل کے حوالے سے بھی حیرت انگیز ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔ انہوں نے ورلڈ اوپن اسکواش کے ساتھ ساتھ دنیا کا ہر چھوٹا بڑا اہم ٹورنامنٹ جیت رکھا ہے اور ہر قسم کی چیمپئین شپ جیتی۔ صرف 17سال کی عمر میں ورلڈ اوپن کا ٹائٹل جیت کر انہوں نے نہ صرف کم عمر ورلڈ چیمپئین ہونے کا آغاز اپنے نام کیا بلکہ دنیا کے دوسرے کھلاڑیوں کے لئے خطرے کی ایک ایسی گھنٹی بجائی تھی جو پھر برسوں تک بجتی ہی رہی۔ 1981ء سے لیکر 1986ء تک جہانگیر خان اسکواش کے ہر عالمی اور ایشیائی ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہے جو ایک ناقابل یقین اور نہ ٹوٹنے والا ریکارڈ دکھائی دیتا ہے۔ جہانگیر خان نے اپنے عروج اور اسکواش پر حکمرانی کے دور میں 10 مرتبہ برٹش اوپن جیتی اور یہ اب تک ایک عالمی ریکارڈ ہے، 6 مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش میں فتح حاصل کی۔ ورلڈ اوپن میں انہوں نے پہلے پانچ سال 1981ء تا1985ء مسلسل ورلڈ ٹائٹل اپنے نام کئے تھے۔ برٹش اوپن چیمپئین شپ جیتنے کی ابتداء 1982ء میں پہلی بار جیتنے سے ہوئی اور پھر1991ء تک مسلسل جیتتے رہے اور ناقابل شکست رہے۔ ان تمام عالمی ٹورنامنٹ میں فتوحات کے بعد ایک اور غیر معمولی کامیابی جس نے ان کو کھیلوں کی دنیا کا ناقابل تسخیر کھلاڑی بنادیا تھا وہ جہانگیر خان کی 555 مقابلوں میں مسلسل فتوحات تھیں، یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے جو شاید ہی کبھی ٹوٹ سکے۔ جہانگیر خان کی انہی غیر معمولی کامیابیوں کے نتیجہ میں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کو پرائڈ آف پرفارمنس اور سول ایوارڈ ہلال امتیاز دیئے جا چکے ہیں لیکن خود جہانگیر خاں عوامی خطاب ’’اسپورٹس مین آف دی میلینیم‘‘ یعنی ’’دی کا سب سے بڑا کھلاڑی‘‘ کو بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔ جہانگیر خان کے دور میں ناکامیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ قانون قدرت کے مطابق کسی بھی کھیل کے کھلاڑی کو عمر کے ایک حصہ میں پہنچ کر کھیل کے میدان کو خیر باد کہنا ہوتا ہے، لہٰذا جہانگیر خان نے بھی 1993ء میں ریٹائرمنٹ لیکر اسکواش کے باقی کھلاڑیوں کو جیتنے کے مواقع فراہم کردیئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جہانگیر خان کو عالمی تنظیموں پروفیشنل اسکواش اور ورلڈ ااسکواش فیڈریشن کی صدارت کرنے کے بھی مواقع ملے۔ آخری دور میں پاکستانی جان شیر خان ان کے سخت حریف کے طور پر سامنے آئے تھے۔

دس دسمبر1963ء کو پیدا ہونے والے جہانگیر خان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس نے اسکواش کے میدان میں پہلے ہی نام کما رکھا تھا۔ ان کے والد روشن خان کئی سال برٹش اوپن جیت چکے تھے جس میں 1951ء – 1955ءتک پانچ سال مسلسل جیتی تھی، ان کے بڑے بھائی طورسم خان بھی اسکواش کے انٹرنیشنل کھلاڑی تھے اور انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہتے تھے۔ آٹھ سال کی عمر میں ان کے والد نے ان کو ایک اسکواش ریکٹ دیا جس کی لمبائی کاٹ دی گئی تھی، 8 سالہ جہانگیر خان کو یہ ریکٹ کھلونا سمجھ کردیا گیا تھا لیکن جہانگیر خان نے اس کو بعد میں ناقابل تسخیر اعزاز میں بدل ڈالا تھا۔

اسی طرح ان کے ایک چچازاد بھائی رحمت خان نے بھی متعدد بارعالمی اعزاز حاصل کر رکھے تھے جہانگیر خان کے ایک بھائی رستم خان بھی اسکواش کے نامور کھلاڑی تھے۔ اسکواش کو اپنی زندگی قرار دینے والے جہانگیر خان کی ابتدائی زندگی ایسی تھی کہ کوئی سوچ نہیں سکتا کہ جسمانی کمزوری کا شکار ایک لڑکا سخت ترین کھیل اسکواش کے میدان میں نئی تاریخ رقم کردیگا۔ جب وہ چودہ سال کے تھے تو بہت کمزور تھے اور بیماری کا شکار ہو گئے تھے اور اس وقت تک جہانگیر خان کے ہرنیا کے دو اپریشن بھی ہو چکے تھے، ان کے بڑے بھائی رستم خان نے جہانگیر خان سے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ایک دن ان کا چھوٹا بھائی ورلڈ چیمپئین بنے۔ اس بات کے کچھ ہی مہینوں یا ہفتوں بعد رستم خان آسٹریلیا میں اسکواش کھیلتے ہوئے کورٹ میں ہی ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گئے تھے، اس حادثہ نے جہانگیر خان پر گہرا اثر کیا اور اپنے بھائی کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے وہ یکدم بدل گئے اور دوڑنا اور اسکواش کھیلنا شروع کردی اس وقت جہانگیر خان کی عمر پندرہ، سولہ سال کے لگ بھگ تھی اور جسمانی طور پر دبلے پتلے کمزور تھے۔ 17 برس کی عمر میں وہ پہلی بارورلڈ اوپن کھیلنے کینیڈا پہنچے اور تمام مقابلے جیت کر تجربہ کار عالمی کھلاڑی جوف ہنٹ کیساتھ فائنل میں پہنچے اور پہلی گیم ہارنے کے باوجود سترہ سالہ جہانگیر خان نے ہمت نہیں ہاری اور پھر اگلی تینوں گیمز جیت کر دنیا کے کم عمر ترین عالمی چیمپئین ہونے کا منفرد اعزاز اپنے نام کرلیا اور پھر وہ اسکواش اور کھیلوں کی دنیا کی نئی تاریخ رقم کرتے چلے گئے اور واپس پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور ریکارڈ پر ریکارڈ بناتے چلے گئے۔ وہ اسکواش کی دنیا میں کامیابی کی بنیاد ٹرپل ایس یعنی ’’اسپیڈ، اسٹیمنا اور اسکل‘‘ کو قرار دیتے ہیں جہانگیر خان بلاشبہ نہ صرف عظیم کھلاڑی ہیں بلکہ وہ عظیم انسان بھی ہیں اور آج کل کراچی میں قیام پذیرہیں۔

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ