انفاق فی سبیل اللہ کی پُر حکمت تعلیم
’ہر چہ داری خرچ کن دَر راهِ او‘
آج اس اداریہ کا عنوان ایک معروف فارسی محاورہ ہے جس کے معانی ہیں کہ جو کچھ تیرے پاس ہے اُس کی راہ میں خرچ کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے اِس مضمون کو قرآن کریم کے آغاز میں سورۃ البقرہ کے ابتدائی حصہ میں آنے والی آیت مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (البقرہ: 4) میں بیان فرمایا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے متقیوں کی علامات اور مراتب کے طور پر تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کچھ پُر معارف ارشادات پیش ہیں:
*حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کے متعلق اپنا نقطہ نظر اس طرح بیان فرماتے ہیں۔
’’مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ کے یہ معنی ہیں کہ جو کچھ ہم نے اُن کو عقل، فکر، فہم، فراست اور رزق اور مال وغیرہ عطا کیا ہےاس میں سے خدا کی راہ میں اس کے لیے صَرف کرتے ہیں یعنی فعل کے ساتھ بھی کوشش کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد پنجم صفحہ347 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)
فرمایا: ’’علم، مال اور دوسرے قویٰ ظاہری اور باطنی جو کچھ دیا ہے سب کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صَرف کرتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد ہفتم صفحہ118 ایڈیشن 1984ء)
فرماتے ہیں: ’’رزق سے مراد صِرف مال نہیں بلکہ جو کچھ ان کو عطا ہوا۔ علم، حکمت، طبابت یہ سب کچھ رزق میں ہی شامل ہے اس کو اسی میں سے خدا کی راہ میں بھی خرچ کرنا ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول ص27 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، اس کو مختلف قویٰ، استعدادوں اور قوتوں سے نواز کر اس کو ہدایت فرمائی کہ وہ ان کو درست استعمال میں لاکر اللہ تعالیٰ کے لیے اور اس کی مخلوق کے لیے خرچ کرے۔ کیونکہ انسان اپنے ساتھ تو کچھ نہ لایا، پیدائش کے وقت اس کے تَن پر کپڑے بھی نہ تھے۔ جب وہ پنگھوڑے میں تھا تو فیڈر تک نہیں پکڑ سکتا تھا۔ وہ تو آغاز میں روٹی کا نوالہ لینے کے قابل تک نہ تھا۔ جو کچھ ملا وہ محض اس خدا ئے واحد و یگانہ نے بِن مانگے اپنے فضل سے دیا، جس نے اسے پیدا کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو اپنے منظوم کلام کے ایک مصرعہ میں خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے۔
سب کچھ تیری عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے
بعض لوگ اپنی خوبیوں، استعدادوں اور قویٰ کی غیر معمولی خاصیتوں کو چھپا کر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اُن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اور اس کی استعدادوں سے مستفید نہ ہو جائے۔ اس لیے وہ اپنے قویٰ کو بروئے کار نہیں لاتے۔ اور یوں کسی کو فائدہ نہ پہنچاتے ہوئے خود اپنی صلاحیتوں کے نفع سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اپنے دماغ کی مفید سوچوں اور قویٰ کے مثبت استعمال کو لاک لگا لیتے ہیں۔
یہاں ان تمام عنایات، استعدادوں اور قویٰ کو گننا اور ان کی تفصیل قرطاس ابیض پر لانا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن چند چیدہ چیدہ مفید ِ مطلب باتوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں تزکیہ کے لئے خرچ کرنا ضروی ہے۔
اول۔ صحت ہے۔ جس کے متعلق سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی قدر نہ کر کے بہت سے لوگ نقصان اٹھاتے ہیں۔ ایک ان میں سے صحت ہے اور دوسری فارغ البالی۔
(صحیح بخاری کتاب الرقاق)
ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ آج کل کھادی بیماریوں (ایسی بیماریاں جومشینی کھادوں کی کثرت سے استعمال میں لانےاور پھر ایسی فصلوں کے استعمال کے بعد پیدا ہو رہی ہیں) کی وجہ سے انسان جلدلاغری اور خرابی صحت کی طرف جا رہا ہے۔ کسی کوہڈیوں کے کمزور ہوجانے کے باعث گھٹنوں اور جوڑوں میں درد (arthritis) کی تکلیف ہے اور کسی کو کمر اور پٹھوںمیں تکلیف اور کھنچاؤ (muscle cramps) کی۔ جس کی وجہ سے یہ مریض عبادت کا وہ حق ادا نہیں کر پاتےاور اللہ کے آگے سجدہ میں جھکنے کا لُطف نہیں اٹھا سکتے جو وہ جوانی میں کر لیتے تھے۔ دو زانو بیٹھنے میں مشکل کی وجہ سے صرف کرسی پر ہی نماز پڑھ سکتے ہیں۔
اس لیےصحت کو غنیمت جانتے ہوئے اگر مسجد یا نماز سینٹرقریب ہے تو پیدل چل کر باجماعت نماز پڑھنا، بھر پور صحت عطا ہونے کا اللہ تعالیٰ سے شکرانہ کا بہترین طریق ہے۔ گھر میں بھی پوری شرائط کو مدِنظر رکھتے ہوئے عبادت بجا لانا لازمی ہے۔ جس میں نوافل بھی شامل ہیں۔ باہر جماعتی کاموں کے لیے صحت میں سے حصہ دینا اور اپنے بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا نیز بازار سے سودا سلف ودیگر ضروریات کا خیال بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔
آنکھ کا حصہ دینا
انسانی جسم کے اعضاء میں آنکھ کا درست استعمال بھی انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کی مقدس کتاب قرآن کریم کی تلاوت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ، ایم ٹی اے پر خلیفۃ المسیح کا خطبہ سنناو دیگر پروگرام دیکھنا انفاق فی سبیل اللہ میں آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ کی تفسیر میں فرماتے ہیں۔
’’قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اُس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ387)
اللہ تعالیٰ نے اسلام میں جو عبادت یعنی نماز رکھی ہے اس میں انسان کے تقریباً سبھی اعضاء حصہ دار ہوتے ہیں جو ان کی طرف سے انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ دیگرمذاہب کی عبادتوں میں اللہ تعالیٰ کامطیع اور فرمانبردار یعنی submissive ہونے کے جو طریق ہیں اللہ تعالیٰ نے ان تمام کو اسلامی عبادت میں جمع کر دیا ہے۔ یوں تمام اعضاء کی طرف سے اللہ کی خاطر خرچ کرنا شامل ہو جاتا ہے۔
*حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، سورۃ البقرہ کی آیت کے اس حصہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں۔ جو حضور کے بیان شدہ موقف کی تائید کر رہا ہے کہ ’’وہ ہمارے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ یعنی کوئی رزق اور نان ونفقہ کی قید نہیں۔ خدا کی تمام عنایات اور دین میں سے خرچ کرتے ہیں۔
*حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس حصہ کا ترجمہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
(ترجمہ از:تفسیر صغیر)
*حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے اپنے ترجمہ قرآن میں اس کا ترجمہ اس طرح فرمایا ہے کہ۔ جو کچھ ہم انہیں رزق دیتے ہیں اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام رزق کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’جو کچھ دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ عام لوگ رزق سے مراد اشیاءِ خوردنی لیتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ جو کچھ قویٰ کو دیا جاوے وہ بھی رزق ہے۔ علوم وفنون وغیرہ معارف حقائق عطا ہوتے ہیں یا جسمانی طور پر معاش مال میں فراخی ہو۔ رزق میں حکومت بھی شامل ہے اور اخلاق فاضلہ بھی رزق ہی میں داخل ہیں۔ یہاں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں یعنی روٹی میں سے روٹی دیتے ہیں۔ علم میں سے علم اور اخلاق میں سے اخلاق۔ علم کا دینا تو ظاہر ہی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلداول صفحہ393 کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن)
اپنے ہنر میں سے انفاق فی سبیل اللہ کرنا
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو اس کی استعدادوں کے مطابق مختلف ہنر سےنواز اہے۔ کوئی ہومیو پیتھی یا ایلو پیتھی ڈاکٹر ہے تو کوئی یونانی طبیب اور حکیم۔ کوئی انجینئر ہے تو کوئی پروفیسر یا ٹیچر کوئی مکینک ہے یا کوئی اور ہنر جانتا ہے۔ علوم و فنون کا ماہر ہے۔ کوئی مربی یا مبلغ سلسلہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنا فن، اپنا علم اور اپنا ہنر آگے لوگوں کو بانٹنا چاہیے۔ یہ سب انفاق فی سبیل اللہ ہے جو نسل در نسل بلکہ خاندان سے باہر لوگوں کی نسلوں میں جاری رہتا ہے۔ جسے صدقہ جاریہ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ لیکن ہم نے بالعموم دیکھا ہے کہ ہم میں سے ہنر جاننے والے بعض لوگ کنجوس واقع ہوتے ہیں اور وہ اپنے خدا داد علم اورملکہ سےدوسروں کو مستفید نہیں کرنا چاہتے۔ حتی کہ ان میں سے بعض پرانے زمانے کے حکیموں کی طرح قیمتی نسخہ جات اور ٹونے ٹوٹکے اپنی وفات پر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور یہ علم زمین کی تہہ در تہہ اور نہاں در نہاں گہرائیوں میں دفن ہوکر رہ جاتا ہے۔
معارف و حقائق کی تقسیم
اللہ تعالیٰ کی خدا دادنعمتوں میں سےانسان کو عطا ہونے والے معارف و حقائق بھی ہیں۔ جو روحانی رموزواسرار آگے پہنچانے کے لیے کھول کر بیان کر دینے چاہئیں۔ ایک وقت تھاکہ یہ صفحہ قرطاس پر ہاتھ سے رقم ہوتے تھے اور آج ہم ان قلمی نسخہ جات کوتبرکات کا نام دے کر انہیں اپنے سینے سے لگاتے ہیں، اپنے عزیزوں میں اس کا ذکر کرتے اور اسے بانٹتے ہیں۔ (ادارہ الفضل آن لائن بھی اپنی سابقہ اشاعتوں کا حصہ بننے والے بعض اہم تربیتی، اصلاحی، علمی اور تحقیقی تاریخی مضامین وتحریرات نشر مکرر کے طور پر ’تبرکات‘ کے نام سےازسرنو شائع کرنے جا رہا ہے۔ وباللہ التوفیق) اس طرح علم بانٹنے والے لوگوں کا نام تا قیامت زندہ رہتا ہے۔ ایک انسان کےالفاظ، تقریر یا گفتگو کی صورت میں چند ایک نسلوں تک جاری رہتے ہیں پھر بھول جاتے ہیں جبکہ تحریرتادیر موجود رہتی ہےاور رہے گی۔ آج کل تو سوشل میڈیا کی وجہ سے تحریر تو ویسے ہی محفوظ رہنے لگ گئی ہےاور شیئر ہونے والی تحریر وں سے زیادہ لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ بطور تحدیثِ نعمت اور بغرض حصول دعا مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ میں لاہور میں بطور مربی ضلع خدمت بجا لا رہا تھا کہ میرے ایک دوست اور کلاس فیلو مکرم ہادی علی چوہدری لندن سے پاکستان آئے۔ مجھے بھی ملنے دارالذکر تشریف لے آئے۔ اس وقت تک خاکسار تین کتب کا مصنف بن چکا تھا۔ گفتگو کے دوران مجھے کہنے لگے کہ آپ کی کتب جب تک جماعت ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تاقیامت رہےگی تو اس وقت تک آپ کا نام جماعتی لٹریچر میں زندہ رہے گا۔ کیونکہ آپ کی تحریرات گھروں میں اور لائبریریوں میں موجود ہوں گی۔
اوپر ایک حوالے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےعقل، فکر، حکمت، فراست کو بھی رزق قرار دیا ہے۔
رزق میں حکومت بھی ہے
یہاں حکومت سے مراد کسی دائرہ میں بھی سربراہی اور انچارج شپ ہے۔ ورنہ ملکوں کی حکومت تو لاکھوں، اربوں میں سے کسی ایک کو ملتی ہے۔ اس لیے اگر ہماری جماعت میں ذیلی تنظیموں میں چھوٹے سے چھوٹے عہدہ سائق پر فائز ہے تو وہ حکومت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اور وہ خداوندکریم ورحیم کی طرف سے ایک رزق ہے جو اسے دیا گیا ہے۔ اس کے حقوق ادا کرنا اور اپنے ماتحتوں سے شفقت اور پیا رسے پیش آنا بھی ضروری ہے۔
عہدیداروں کے فرائض بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’عہدیداروں کو تو ایک اصولی ہدایت قرآن نے دے دی ہے کہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے ہیں۔ اگر کوئی غور کرے اور سوچے کہ انصاف کے کیا کیا تقاضے ہیں تو اس کے بعد کچھ بات رہ نہیں جاتی۔ لیکن ہر کوئی اس طرح گہری نظر سے سوچتا نہیں۔ اس طرح سوچا جائے جس طرح ایک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والا سوچتا ہے تو پھر تو اس کی یہ سوچ کر ہی روح فنا ہو جاتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ لیکن نصیحت کیونکہ فائدہ دیتی ہے جیسا کہ میں نے کہا باتوں سے اور جگالی کرتے رہنے سے یا ددہانی ہوتی رہتی ہے۔ بعض باتوں کی وضاحت ہو جاتی ہے اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ مزید ذرا وضاحت کھول کر کر دی جائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ عہدیدار اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو یہ حکم فرمایا ہے کہ وَ الۡکٰظِمِیۡنَ الۡغَیۡظَ وَ الۡعَافِیۡنَ عَنِ النَّاسِ (آل عمران: 135) یعنی غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوں۔ تو اس کے سب سے زیادہ مخاطب عہدیداروں کو اپنے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت میں جو پوزیشن ہے جو ان کا نمونہ جماعت کے سامنے ہونا چاہئے وہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکمل طور پر اپنے آپ کو عاجز بنائیں۔ اگر اصلاح کی خاطر کبھی غصے کا اظہار کرنے کی ضرورت پیش بھی آجائے تو علیحدگی میں جس کی اصلاح کرنی مقصود ہو، جس کا سمجھانا مقصود ہواس کو سمجھا دینا چاہئے۔ تمام لوگوں کے سامنے کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرنا چاہئے اور ہر وقت چڑ چڑے پن کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ یا کسی بھی قسم کے تکبر کامظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ اصلاح کبھی چڑنے سے نہیں ہوتی بلکہ مستقل مزاجی سے درد رکھتے ہوئے اور دعا کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جانے سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے اور ایک آدھ دفعہ کی جو غلطی ہے، اگر کوئی عادی نہیں ہے تو اصلاح کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ عفو سے کام لیا جائے۔ معاف کر دیا جائے، درگزر کر دیا جائے۔
اس لئے یہاں بھی (مراد فرانس۔ ناقل) اور دنیا میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہیں، جماعتی عہدیدار بھی اور ذیلی تنظیموں کے عہدیدار بھی اپنے رویوں میں ایک تبدیلی پیدا کریں۔ لوگوں سے پیار اور محبت کا سلوک کیا کریں۔ خاص طور پر بعض جگہ لجنہ کی طرف سے شکایات زیادہ ہوتی ہیں اور ان میں بھی خاص طور پر بچیوں یا نوجوان بچیوں اورنئے آنے والیوں جنہوں نے نظام کو پوری طرح سمجھا نہیں ہوتا، ان کے لیے تربیت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس لیے ان کے لئے بہت خیال رکھنا چاہئے۔ کیونکہ تربیت کرنے کی جیسی آپ چھاپ لگا دیں گے بچوں پر بھی اور نئے آنے والوں پر بھی۔ آئندہ نمونہ بھی ویسے ہی نکلیں گے، آئندہ عہدیدار بھی ویسے ہی بنیں گے۔ تو خلاصہ یہ کہ غصے کو دبانا ہے اور عفو سے کام لینا ہے درگزر سے کام لینا ہے۔ لیکن یہ نرمی بھی اس حد تک نہ ہو کہ جماعت میں بگاڑ پیدا ہو جائے۔ ایسی صورت میں بہرحال اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہے …
حضور مزید فرماتے ہیں: پھر عہدیداروں میں جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر اپنے خلاف ہی شکایت ہو تو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ ہمیشہ سچی بات کہنے سننے کرنے کی عادت ڈالیں۔ چاہے جتنا بھی کوئی عزیز یا قریبی دوست ہو اگر اس کی صحیح شکایت پہنچتی ہے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اگر یہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتے تو بہتر ہے کہ معذرت کر دیں کہ فلاں وجہ سے مَیں اس کام سے معذرت چاہتا ہوں۔ کیونکہ کسی ایک شخص کا کسی خدمت سے محروم ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے کہ پوری جماعت میں یا جماعت کے ایک حصے میں بے چینی پیدا کی جائے۔ یاد رکھیں جو عہد ہ بھی ملا ہے چاہے وہ جماعتی عہدہ ہو یا ذیلی تنظیموں کا عہدہ ہو اس کو ایک فضل الٰہی سمجھیں۔ پہلے بھی بتا آیا ہوں اس کو اپنا حق نہ سمجھیں۔ یہ خدمت کا موقع ملا ہے تو حکم یہی ہے کہ جو لیڈر بنایا گیا ہے وہ قوم کا خادم بن کر خدمت کرے۔ صرف منہ سے کہنے کی حد تک نہیں۔ چار آدمی کھڑے ہوں تو کہہ دیا جی میں تو خادم ہوں بلکہ عملاً ہربات سے ہر فعل سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ واقعی خدمت کرنے والے ہیں اور اگر اس نظریے سے بات نہیں کہہ رہے تو یقیناپوچھے جائیں گے۔ جو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو پوری طرح ادانہ کرنے کی وجہ سے یقیناً جواب طلبی ہوگی۔‘‘
(خطبہ جمعہ31دسمبر 2004ء۔ خطبات مسرور جلد2 صفحہ947 تا 949)
فرمایا: ’’اسی طرح عہدیداروں کا بھی کام ہے کہ لوگوں کے لئے ابتلاء کا سامان نہ بنیں۔ لوگوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں اور سچی خیر خواہی سے ہر ایک سے سلوک کریں۔‘‘
(خطبہ جمعہ 23 اپریل 2010ء۔ خطبات مسرور جلد8 صفحہ194)
اخلاق فاضلہ بھی رزق میں سے ہے
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر بچے کو فطرت صحیحہ پر پیدا کرتا ہے پھر والدین اسے یہودی، نصرانی اور مسلمان بناتے ہیں۔ اس ناطے اگر کوئی انسان اخلاق فاضلہ سے مزین ہے تو اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام، اس کی دین اور فضل الٰہی ہے۔ نیک اخلاق کا چونکہ معاشرہ پر اچھا اثر پڑتا ہے اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسے رزق الٰہی قرار دیتے ہوئے معاشرہ میں مقیم باسیوں کو اپنے اخلاق سے آراستہ کرنا اور دوسرے وجودوں میں منتقل کرنے کو رزق قرار دے کر انفاق فی سبیل اللہ کہا ہے۔
ویسے تو اس حکم کا ایک مسلمان بدرجہ اولیٰ مخاطب ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان اخلاق حسنہ کے حوالہ سے روبہ زوال ہیں۔ اور مغربی قوموں نےاسلامی اخلاق اپنا لیے ہیں۔ اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ اگر اسلام دیکھنا ہے تو مسلمان ممالک میں دیکھ لو لیکن اگر مسلمان دیکھنے ہیں تو مغربی ممالک کو دیکھ لیں۔
انسان کی خداداد استعدادوں اور قویٰ کا تو کوئی حد حساب ہی نہیں۔ مضمون کی طوالت سے بچتے ہوئے صرف مال کا ذکر کرتے ہیں۔ بعض امیرزادے تو مالی قربانی میں زیادہ حصہ لے سکتے ہیں لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نےقوت لا یموت سے نواز رکھا ہے وہ بھی اللہ کی راہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ آنحضور ﷺ کے پاس کچھ غریب صحابہ تشریف لائے اور عرض کی کہ حضور یہ صحابہ ہم جیسی عبادات بھی ادا کرتے ہیں مگر مالی فراخی ہونے کی وجہ سے وہ ہم سے زیادہ قربانی کر جاتے ہیں تو حضور ﷺ نے ان غریب صحابہ کو یہ نسخہ بتایا کہ ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سبحان اللہ 33، دفعہ الحمدللہ اور 34 دفعہ اللہ اکبر باقاعدگی سے پڑھ لیا کریں۔ چند دنوں کے بعد یہ نسخہ کیمیائی دوسرے صحابہ کو بھی پتہ چل گیا اور انہوں نے بھی اس کو استعمال کرنا شروع کر دیا مالی لحاظ سے غریب مگر دلوں کے لحاظ سے فیاض صحابہ نے پھر دربار رسول ﷺ میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! اس نسخہ پر تو اور صحابہ نے بھی عمل کرنا شروع کر دیا ہے تو فرمایا ’’ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیہِ مَنْ یَّشَاءُ‘‘
(مسلم۔ کتاب المساجد و مواضع الصلوٰة)
آج جماعت احمدیہ کے جاں نثار اور وفادار، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی اس مبارک روش پر چلتے ہوئے مالی قربانی کرتے ہیں۔ موصی حضرات و خواتین انکم اور جائیداد کا 10/ 1 جبکہ ایک احمدی 16/ 1 انکم پر چندہ ادا کرتا ہے۔ تحریک جدید، وقف جدید، ذیلی تنظیموں کے چندہ جات و دیگر اس کے علاوہ ہیں۔ یہ خدا کی عنایت ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہیں۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
میں نے یہاں بعض اہم اور وسیع پیمانے پر بنائے گئے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز کے باہر بڑے سائز کے بکس پڑے دیکھے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے کہ محتاج افراد کے لئے۔ اور لوگ خریداری کے بعد چیزیں اس میں ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ یہی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے رزق کا انفاق فی سبیل اللہ ہے۔
بزرگوں کی پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ آپ نے بھی تو ’’دِتّے وچون دینا اے، پلیوں تے نئیں دینا‘‘ یعنی اللہ کی طرف سےملنے والے رزق میں سے دینا ہے کون سا اپنی طرف سے بنائے گئے میں سے دینا ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’جو کچھ خدا نے اس کو دیا اس میں سے کچھ خدا کے نام کا دیا۔ حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں سب خداتعالیٰ کا ہی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ26)
پھر ان استعدادوں کو مخلوق کے لیے خرچ کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں۔
’’یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے، وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے۔ مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون بنے۔ اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے۔ تعظیم لامر اللہ اور شفقت علیٰ خلق اللہ۔ پس مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُونۡ شفقت علیٰ خلق اللہ کی تعلیم ہے۔ دینی خدمات کے لیے متمول لوگوں کو بڑے بڑے موقعے مل جاتے ہیں۔‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 497-498)
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے تمام خدادادقویٰ، عنایات اور استعدادوں کو حقیقی معنوں میں خرچ کرنے کی توفیق دے اور اس انفاق فی سبیل اللہ کو قبولیت کا درجہ دے کر ہمیں مزید انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق دیتا رہے۔ آمین
(ابو سعید)