• 17 جولائی, 2025

آسٹریلیا میں سال نو پر بدرسومات اور جماعت احمدیہ کی تعلیم

دیگر مغربی معاشروں کی طرح آسٹریلوی معاشرے میں بھی نئے سال کی آمد پر نیو ایئر منانے کے نام پر شراب نوشی، ہلٹر بازی اور بےحیائی کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔رات بارہ بجے کے بعد سال نو کے آغاز پرنائٹ کلبس،گلیوں اور بازاروں اور نجی تقریبات میں شور شرابا اور بے حیائی برپا کی جاتی ہے۔

سٹرکوں، بسوں، پارکوں اور ہوٹلوں میں نشے میں دھت افراد کہیں مدہوش، کہیں لڑائی جھگڑا اور کہیں الٹیاں کرتے نظر آتے ہیں۔ نئے سال کا آغاز دنیا پرستی کی جانورروں سے بدتر شکل رسومات سے کیا جاتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
غیر قوموں کی تقلید نہ کرو کہ جو بکلی اسباب پر گر گئی ہیں۔وہ خدا سے بہت دور جا پڑے۔انسانوں کی پرستش کی اور خنریر کھایا اور شراب کو پانی کی طرح استعمال کیا اور حد سے زیادہ اسباب پر گرنے اور خدا سے قوت نہ مانگنے سے وہ مر گئے اور آسمانی روح ان میں سے نکل گئی۔ اُن کے اندر دنیا پرستی کا جذام ہے جس نےان کے تمام اندرونی اعضاء کاٹ دیے ہیں پس تم اس جذام سے دور رہو۔خبردار تم غیر قوموں کو دیکھ کر ان کی ریس مت کرو۔کہ انھوں نے دنیا کے منصوبوں میں بہت ترقی کرلی ہے۔آؤ ہم بھی ان ہی کے قدم پر چلیں۔سنو اور سمجھو وہ اس خدا سے سخت بیگانہ اور غافل ہیں جو تمہیں اپنی طرف بلاتا ہے۔ان کا خدا کیا چیز ہے صرف ایک عاجز انسان اس لیے وہ غفلت میں چھوڑے گئے۔

(کشتی نوح)

دنیا بھر کےاحمدیوں کی طرح آسٹریلیا میں نئے شمسی سال کا آغاز مساجد اور گھروں میں نماز تہجد اور نماز فجر کے بعد نئے سال میں کامیابیوں، خدمت انسانیت اورتقویٰ میں ترقی کی دعاؤں کے ساتھ ہوتا ہے۔یکم جنوری کے دن خدام،انصار اوراطفال رضا کار ٹاؤن سینڑز میں خدمت خلق کے جذبے سے معمور ہو کر صفائی کی غرض سےنکلتے تھے مگر بعد میں مقامی کونسل کے منع کرنے پر اس کو ترک کرنا پڑا۔

سال نو جیسے موقعہ پر اس کے استقبال اور اس کے منانے کے لیے جماعت احمدیہ کی تعلیم انتہائی حسین، جامع اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
دو دن بعد ان شاءاللہ نیا سال شروع ہو رہا ہے۔ ہم مسلمان تو قمری سال سے بھی سال شروع کرتے ہیں اور شمسی سال سے بھی۔ لیکن دنیا والے چاہے وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلموں میں سے دونوں کا مہینوں اور سالوں کو دنیاوی غل غیاڑے اور دنیاوی تسکین کے کاموں میں گزار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ نئے سال کے آغاز پر جو یکم جنوری سے شروع ہو تا ہے دنیا والے کیا کچھ نہیں کرتے۔مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میں خاص طور پر اور باقی دنیا میں بھی 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی شب کیا کچھ شور و غل نہیں ہوتا۔آدھی رات تک خاص طور پر جاگا جاتا ہے بلکہ ساری رات صرف شور شرابے کے لیے، شراب کباب کے لیے، ناچ گانے کے لیے جاگتے ہیں۔گویا گذشتہ سال کا اختتام بھی لغویات اور بیہودگیوں کے ساتھ ہوتا ہے اور نئے سال کا آغاز بھی لغویات کے ساتھ ہوتا ہے۔ دنیا کی اکثریت کی دین کی آنکھ تو اندھی ہو چکی ہے اس لیے ان کی نظر تو وہاں تک پہنچ نہیں سکتی جہاں مومن کی نظر پہنچتی ہے اور پہنچنی چاہیے۔ ایک مومن کی تو شان یہ ہے کہ نہ صرف لغویات سے بچے اور بیزاری کا اظہار کرے بلکہ اپنا جائزہ لے اور غور کرے کہ اُس کی زندگی میں ایک سال آیا اور گزر گیا اس میں وہ ہمیں کیا دے کر گیا اور کیا لے کر گیا۔

ہم احمدی خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیم کا نچوڑ یا خلاصہ نکال کر رکھ دیا اور ہمیں کہا کہ تم اس معیار کو سامنے رکھو گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ تم نے اپنی زندگی کا مقصد پورا کیا ہے یا تقریبا کرنے کی کوشش کی ہے یا نہیں۔ اس معیار کو سامنے رکھو گے تو صیحح طور پر اپنے ایمان کو پرکھ سکتے ہو۔ ہر احمدی سے آپ نے عہد بیعت لیا اور اس عہد بیعت میں شرائط بیعت ہمارے سامنے رکھ کر لائحہ عمل ہمیں دے دیا جس پر عمل اور اس عمل کا ہر روز ہر ہفتے، ہر مہینے اور ہر سال ایک جائزہ لینے کی ہر احمدی سے امید اور توقع بھی کی۔

پس ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو عاقبت سنوارنے والے ہوں گے اور اگر ہم بھی ظاہری مبارک بادوں اور دنیا داری کی باتوں سے نئے سال کا آغاز کریں گے تو ہم نے کھویا بہت کچھ اور پایا کچھ نہیں یا بہت تھوڑا پایا۔ اگر کمزوریاں رہ گئیں ہیں اور ہمارا جائزہ ہمیں تسلی نہیں دلا رہا تو ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ ہمارا آنے والاسال گذشتہ سال کی طرح روحانی کمزوری دکھانے والا سال نہ ہو۔ بلکہ ہمارا ہر قدم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اٹھنے والا قدم ہو۔ ہمارا ہر دن اُسوہ رسول ﷺ پر چلنے والا دن ہو۔

(خطبہ جمعہ 30 دسمبر 2016ء)

ایک اور خطبہ جمعہ یکم جنوری 2010ء میں ارشاد فرمایا:
نئے سال کے پہلے دن کو ہی اس طرح دعاؤں سے سجاؤ کہ سارا سال قبولیت دعا کے نظارے نظر آتے چلے جائیں۔اپنی زندگی کے سال کے پہلے دن کو ہی ہمیں بلکہ زندگی کے ہر دن کو بابرکت بنانے کے لیے دعاؤں اور اعمال صالحہ کی ضرورت ہے ہم ہر سال کی مبارک باد ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن ایک مومن کے لیے سال اور دن اس صورت میں مبارک ہوتے ہیں جب وہ اُس کی توبہ کی قبولیت کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی روحانی ترقی کا باعث بن رہے ہوں اور اس کی مغفرت کا باعث بن رہے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک جگہ فرمایا ہے کہ اصل عید اور خوشی کا دن اور مبارک دن وہ ہوتا ہے جو انسان کی توبہ کا دن ہوتا ہے۔اس کی مغفرت اور بخشش کا دن ہوتا ہے۔ جوانسان کی روحانی منازل کی طرف نشاندہی کروانے والا دن ہے۔جو دن ایک انسان کو روحانی ترقی کے راستوں کی طرف راہنمائی کرنے والا دن ہوتا ہے۔ جو دن حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے جو دن اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی تمام تر صلاحتیوں اور استعددوں کو بروئے کار کی طرف توجہ دلانے والا دن ہوتا ہے۔جو دن اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے عملی کوششوں کا دن ہوتا ہے۔پس ہمارے سال اور دن اسی صورت میں ہمارے لیے مبارک بنیں گے۔جب ان مقاصد کے حصول کے لیے ہم خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے ہوئے،اس کے آگے جھکیں گے۔اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ دنیا وآخرت کے حسنہ سے نوازتا رہے۔ دنیوی اور اخروی ہر قسم کی آگ کے عذاب سے ہمیں بچائے۔ نیکیوں پر قدم مارنے کی توفیق دے اور (آنے والا) یہ سال بھی اور آئیندہ آنے والا ہر سال بھی جماعت کے لیے، افراد جماعت کے لیے ہر قسم کے دکھوں اور تکلیفوں سے محفوظ رکھتے ہوئے ہر قسم کے حسنہ لے کرآئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حقیقی رنگ میں تقویٰ پر چلتے ہوئے اس نور سے حصہ پاتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے جو حضرت مصطفیٰ ﷺ لے کر آئے تھے۔ آمین

(محمد امجد خان۔ نمائندہ الفضل آن لائن آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

امبور ہسپتال میں جماعت احمدیہ کی طرف سےسرجیکل اشیاء کی تقسیم

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 دسمبر 2021