اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعۡلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۷﴾
(یوسف: 87)
ترجمہ: میں تو اپنے رنج واَلَم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں اور اللہ کی طرف سے میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔
یہ حضرت یعقوبؑ علیہ السلام کی خدا کے حضور اپنے رنج وغم کو بیان کرنے کی دردمندانہ دعا ہے۔
ہمارے پیارے امام عالی مقام سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
حضرت عبداللہ بن شدّاد کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرؓ کی ہچکیاں سنیں اور میں آخری صف میں تھا۔ آپ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: 87) یعنی میں تو اپنے رنج و اَلم کی صرف اللہ کے حضور فریاد کرتا ہوں۔
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب اِذَا بَکَی الْاِمَامُ فِی الصَّلوٰۃِ)
اس روایت کو ایک خطبہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی بیان فرمایا تھا اور اس کی کچھ تفصیل اپنے الفاظ میں بھی اس طرح بیان کی تھی کہ حضرت عبداللہ بن شدّاد کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے اور میں آخری صف میں تھا لیکن حضرت عمرؓ کی گریہ و زاری کی آواز سن رہا تھا۔ وہ یہ تلاوت کر رہے تھے۔ اِنَّمَاۤ اَشۡکُوۡا بَثِّیۡ وَ حُزۡنِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: 87) کہ میں تو اپنے اللہ ہی کے سامنے اپنے سارے دکھ رویا کروں گا۔ کسی اور کے سامنے مجھے ضرورت نہیں ہے۔ پس جو ذکرِ الٰہی میں گم رہتے ہیں ان کو خدا کے سوا کسی اَور کا دربار ملتا ہی نہیں جہاں وہ اپنے غم اور دکھ روئیں اور اپنے سینوں کے بوجھ ہلکے کریں۔ یہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ پچھلی صف میں تھا وہاں تک مجھے حضرت عمرؓ کے سینے کے گڑگڑانے کی آواز آ رہی تھی۔
(ماخوذ از خطبات طاہر جلد13 صفحہ248-249)
(خطبہ جمعہ 19؍نومبر 2021ء)
(مرسلہ: مریم رحمٰن)