• 21 جولائی, 2025

اردو زبان اور صحبتِ صالحین

اسی ضمن میں جب سیاق و سباق سے خاکسار نے حوالہ پڑھا تو باعثِ فرحت یوں ہوا کہ جو حوالہ تحت الشعور میں گزشتہ 8-9 برس سے گردش میں تھا مگر توجہ اس جانب مبذول نہ ہوئی تھی تاہم جیسے ہی یہ اقتباس پڑھا تو دل چاہا کہ غلامِ احمدِ مجتبیٰﷺ حضرت حجة اللہ کے اس اقتباس کو قارئینِ کی خدمت میں پیش کیا جائے۔

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ آنجناب حضرت محمد مُصطفیٰﷺ کی بعثتِ ثانیہ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’سو اس وقت حسبِ منطُوق آیت وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ (الجمعہ: 4) اور نیز حسبِ منطُوق آیت قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا (الاعراف: 159) آنحضرتﷺکے دوسرے بعث کی ضرورت ہوئی اور اُن تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور باہمی زبانوں کا علم اور خاص کر مُلک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہوگئی تھی آنحضرتﷺ کی خدمت میں بزبانِ حال درخواست کی کہ یا رسُول اللہﷺ ہم تمام خُدّام حاضر ہیں اور فرضِ اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل و جان سرگرم ہیں۔ آپؐ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پُورا کیجئے کیوں کہ آپؐ کا دعویٰ ہے کہ میں تمام کافہ ناس کیلئے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپؐ اُن تمام قوموں کو جو زمین پر رہتی ہیں قرآنی تبلیغ کرسکتے ہیں اور اشاعتِ کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمامِ حُجّت کیلئے تمام لوگوں میں دلائلِ حقّانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں۔ تب آنحضرت ﷺ کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ صفحہ262-263)

اسی ضمن میں خاکسار عرض کرتا چلے کہ اردو زبان کی اہمیت از روئے ارشادِ امام الزمان اظہر من الشمس ہے۔

ابتدائے آفرینش سے ایں دم اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس نبی یا رسول کو جس قوم کی طرف مبعوث فرمایا وہ اُسی قوم کی زبان میں آیا تا لوگ اس فرستادہ کے پیغام کو بخوبی سمجھ سکیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ

(ابراہیم: 5)

اور ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان دیکر بھیجا۔

بعینہٖ اس سُنتِّ مستمرہ کے مطابق اللہ تبارک و تعالیٰ نے مسیحِ آخرالزمان حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو مُلکِ ہند کی مشترکہ زبان اُردو میں پیغام پہنچاتے ہوئے مبعوث کیا۔

اب لُطف کی بات یہ ہے کہ حوالہ متذکرہ بالا تحفہ گولڑویہ اُردو زبان کی نسبت از روئے تصریح مترشح و مُترشِّدہ ہے۔ مضمون ہٰذا اپنی حیثیت میں اس قدر وسیع و بسیط و عمیق ہے کہ جس کا ایک ہی نشست میں قارئین کے سامنے پیش کرنا بعد از اختیار ہے، تاہم یہ ہیچ مداں کوشش کرے گا کہ مضمون ہٰذا کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کی بھرپُور کوشش کرے۔ برسبیلِ تذکرہ اردو زبان کی اہمیّت از روئے اقتباساتِ خلفاء کرام مسیح الزّماں ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ
’’میں آپ کو نصیحت کروں گاکہ اردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہئے کہ ہمیشہ اسی زبان ہی میں گفتگو کیا کریں… پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ تم اردو زبان کو اپناؤ اور اس کو اتنا رائج کرو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لب و لہجہ اردو دانوں کا سا ہو جائے۔‘‘

(روزنامہ الفضل 6 دسمبر 1966)

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے ادبی دُنیا(ایک رسالہ) کیلئے 1931ء میں ایک مضمون تحریر فرمایا۔ عنوان تھا ’’اردو رسائل زبان کی خدمت کس طرح کرسکتے ہیں‘‘ یہ مضمون معہ آپؓ کے فوٹو کے ساتھ شائع ہوا۔ آپؓ نے اپنے اس مضمون میں اردو کی ترقّی کیلئے ایک نہایت مُفید سکیم پیش کی بُہت پسند کیا گیا۔

اس مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے رسالہ کے ایڈیٹر نے آپؓ کی اُردو نوازی کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور لکھا؛
’’حضرت میرزا بشیرالدّین محمود احمد صاحب امام جماعتِ احمدیہ کی توجّہاتِ بیکراں کا میں سِپاس گُزار ہوں کہ وہ ادبی دُنیا کی مُشکلات میں ہماری اِمداد فرماتے ہیں۔ میں نے انکی جناب میں اِمداد کی نہ کوئی درخواست کی تھی نہ مجھے احمدی ہونے کا شرف حاصل ہے اور نہ (ادبی دُنیا) کوئی مذہبی پرچہ ہے۔ مگر حضرت میرزا صاحب اپنی عزیز مصروفیتوں میں سے علم و ادب اور علم و ادب کے خدمت گزاروں پر توجّہ فرمائی کیلئے بھی وقت نکال لیتے ہیں۔ مُلکی زبان و ادب سے جناب موصوف کا یہ اعتناء اِن عُلماء کے لئے قابلِ توجّہ ہے جو اردو ادب کی خدمت کو تضیُّع اوقات سمجھتے ہیں۔‘‘

(ادبی دُنیا مارچ 1931 بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد ششم صفحہ 297)

اپنے اگلے شُمارہ میں اس رسالہ نے لکھا ’’پچھلے نمبر میں حضرت امام جماعتِ احمدیہ قادیان کی توجّہ بیکراں کا حال آپ نے پڑھ لیا ہوگا۔ امام جماعتِ احمدیہ مرزا غُلام احمد صاحب مسیح موعود کے خلف الرشید اور اِن کے خلیفہ ہیں۔ مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف اردو ادب کا ایک ذخیرہ بیکراں ہیں الولد سرلابیہ کے مطابق انکے نامور فرزند کے دل میں بھی اردو زبان کیلئے ایک لگن اور اردو کے خدمت گُزاروں سے ایک لگاؤ موجود ہے۔‘‘

(ادبی دُنیا اپریل 1931ء بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد ششم)

اردو کے مشہور مزاح نِگار شوکت تھانوی جب پہلی بار حضورؓ سے ملے تو آپؓ کے ادبی ذوق سے متاثر ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں؛
’’ادبی معاملات میں جو گفتگو آپ نے فرمائی وہ خالص ادبی رنگ لئے ہوئے تھی اور معلوم ہوتا تھا کہ منجھا ہوا ادیب یہ باتیں کررہا ہے۔‘‘

(مابدولت صفحہ 140)

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کو بھی اردو زبان سے خاص لگاؤ تھا۔ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے آپؒ نے جو خطبہ استقبالیہ ارشاد فرمایا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو آپؒ کو دل و جان سے پیاری تھی۔ آپؒ نے فرمایا؛
’’اردو زبان عربی زبان کے بعد ہماری محبوب ترین زبان ہے اسی لئے ساری دنیا میں جہاں جہاں احمدیہ مشن یا احمدی مسلمان موجود ہیں وہاں اردو سیکھی اور سکھلائی جاتی ہے۔ اردو ہماری مذہبی زبان ہے یہ ہماری قومی زبان ہے یہ ہماری آئندہ نسلوں کی زبان ہے‘‘

پھر فرمایا ’’اردو ایک زندہ قوم کی زندہ زبان ہے۔ اردو زبان کا یہ بھی حق ہے کہ شعر و ادب کے روایتی اور محدود دائرے سے باہر نکلے اور زندگی کے ہر شعبے پر حاوی ہوجائے۔ ساری دنیا کے دلوں پر اسکی حکومت ہو۔ قومیں اسے لکھیں، اسے بولیں اور اس پر فخر کریں اور بین الاقوامی زبانوں کی محفل میں اردو بھی عزّت کے بُلند مقام پر سرفراز ہو‘‘

(ماخوذ از مضمون مکرم ملک محمد سلیم جامعہ احمدیہ ربوہ – اشاعت روزنامہ الفضل ربوہ مورخہ 6 دسمبر 1966ء)

3 جولائی 1933ء کو طلباء جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثانی ؓنے تحریک فرمائی کہ احمدی طلباء کو اردو سیکھنے کے لیے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب پڑھنی چاہئیں اس تعلق میں یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ’’انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا ہے۔

زمانہ خود اردو کو اس طرف لے جارہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی۔‘‘

مندرجہ بالا حوالہ جات سے اردو زبان کی اہمیت مثلِ آفتاب روشن و عیاں ہے۔ اب جبکہ قارئین کو اردو زبان کی اہمیت واضع کرنا مقصود ہے ساتھ ہی خاکسار یہ بھی عرض کرتا چلا جائے کہ آج کل کے وبائی حالات اور قرنطینہ میں ہونے کے باعث اردو زبان ہماری حصولِ صحبت صالحین میں کس قدر ممد و معاون ہوسکتی ہے یہ امر قابلِ غور ہے۔ حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی تصانیف اردو زبان میں ہیں اگرچہ انکا ترجمہ باقی زبانوں میں بھی ہورہا ہے تاہم جس زبان میں خود حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے تحریر فرمایا ہے ان سے فیضیاب ہونا اور حظ اُٹھانا اردو کے جانے بغیر ناممکن ہے۔

ایک طالب علم جامعہ احمدیہ برطانیہ نے ہمارے پیارے آقا حضرت امیرالمؤمنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله بنصرہ العزیز سے سوال کیا کہ آج کے دور میں صحبتِ صالحین کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں حضورِ انور ایدہ الله بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ؛
’’آج کے دور میں صحبتِ صالحین حاصل کرنے کا ذریعہ جماعتی کُتب ہیں حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ اور بزرگانِ اُمّت کی کتب کا مطالعہ کرکے ایک انسان صحبتِ صالحین حاصل کرسکتا ہے۔‘‘

مِثل مشہور ہے کہ ’’کتاب بہترین ساتھی ہے‘‘ اب جبکہ مسیح الزماںؑ کی کُتب کا مطالعہ جو بندہ اپنا ہر روز کا معمول بنا لے گا، تو کیسے ممکن ہے کہ ایسا شخص صحبتِ صالحین نہ پا سکے؟ مطالعہ کتب حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی اہمیت آج کل کے مادی دور میں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں اور شیطان اور رحمان کے مابین اس دور میں ہمارے لئے آہنی ڈھال کے طور پر ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ہی پاکیزہ الفاظ سے مشاہدہ کرتے ہیں کہ اِن رُوحانی خزائن کی اہمیت کیا ہے؟

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں؛
’’یہ رسائل جو لکھے گئے ہیں تائیدِ الٰہی سے لکھے گئے ہیں۔ میں انکا نام وحی اور الہام تو نہیں رکھتا مگر یہ تو ضرور کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی خاص اور خارق عادت تائید نے یہ رسالے میرے ہاتھ سے نکلوائے ہیں۔‘‘

(سرّالخلافہ، روحانی خزائن جلد8 صفحہ415-416)

حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ فرماتے ہیں؛
’’اس نے مجھے متوجّہ کیا ہے کہ میں قلمی اسلحہ پہن کر اس سائنس اور علمی ترقّی کے میدانِ کارزار میں اُتروں اور اسلام کی روحانی شُجاعت اور باطنی قوّت کا کرشمہ بھی دکھلاؤں۔ میں کب اس میدان کے قابل ہوسکتا تھا۔ یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی بے حد عنایات ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ میرے جیسے عاجز انسان کے ہاتھ سے اس کے دین کی عزّت ظاہر ہو۔ اور درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جہاں نابینا معترض آکر اٹکا ہے، وہیں حقائق و معارف کا مخفی خزانہ رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ جلد اوّل صفحہ38 ایڈیشن2003ء)

نیز آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا کہ میں اُن خزائنِ مدفونہ کو دُنیا پر ظاہر کروں اور ناپاک اعتراضات کا کیچڑ جو اُن درخشاں جواہرات پر تھوپا گیا ہے اُس سے اُن کو پاک کروں‘‘

(ملفوظات حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ جلد اوّل 38 صفحہ ایڈیشن 2003ء)

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے
اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

(دُرِّثمین)

اسی جانب ایک حدیثِ مبارکہؐ میں آنجناب محمدِ مُصطفیٰﷺ فرماتے ہیں؛
وَیُفِیضُ الْمَالَ حتّٰی لَا یَقبَلَهُ اَحَدٌ یعنی ’’وہ (آنے والا مسیح) مال بھی لٹائیں گے لیکن کوئی اسے قبُول نہیں کرے گا۔‘‘

(بُخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم، حدیقةالصالحین صفحہ 899)

اس ضمن میں حضرت خلیفة المسیح الاوّل حکیم مولوی نُورالّدینؓ فرماتے ہیں؛
’’اب میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم نے مرزا صاحب کو امام مانا، صادق سمجھا، بہت اچھا کیا لیکن کیا اس غرض و غایت کو سمجھا کہ امام کیوں آیا ہے؟ وہ دنیا میں کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس کی غرض یا اسکا مقصد میری تقریروں سے یا مولوی عبدالکریم کے خطبوں سے یا کسی اور مضمون نویسوں سے معلوم نہیں ہوسکتی۔ اور نہ ہم اس غرض اور مقصد کو پورے طور پر بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور نہ ہمارے بیان میں وہ زور اور اثر ہوسکتا ہے جو خُود اس رسالت کے لانے والے کے بیان میں ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد دوم صفحہ314)

مطالعہ کتب حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی نسبت حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ
’’جو کتابیں ایک ایسے شخص نے لکھی ہوں جس پر فرشتے نازل ہوتے تھے ان کے پڑھنے سے بھی ملائکہ نازل ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحب کی کتابیں جو شخص پڑھے گا اس پر فرشتے نازل ہونگے۔ یہ ایک خاص نکتہ ہے کیونکہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے ہوئے نکات اور معارف کھلتے ہیں اور جب پڑھو جب ہی خاص نکات اور برکات کا نزول ہوتاہے۔‘‘

(ملائکۃ اللہ صفحہ 56)

حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’ہر گھرانہ میں کتب حضرت مسیح موعودؑ موجود ہوں اور زیر مطالعہ ہوں اور انہیں بچوں کو پڑھانے کا انتظام ہو‘‘

(الفضل 29 اکتوبر 1977ء)

آپ رحمہ اللہ احبابِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’وہ راسخ فی العلم بنیں۔ حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرتے رہیں کیونکہ یہ ایسے روحانی خزائن ہیں کہ جو انسان کی روحانی ترقی اور ہر قسم کے فتنہ اور وسوسہ سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ 10 جون 1978ء)

نیز آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ کی کتب کے اندر بڑی برکت ہے وہ ہمیں صحیح قرآنِ کریم کا مقام، قرآنِ کریم کی تفسیر کرنے کا صحیح طریق، قرآنِ کریم کی عظمت، یہ یقین کہ ہر چیز قرآنِ کریم میں سے نکل آتی ہے بتاتی ہیں۔

(خطبہ جمعہ 22 جون 1979ء)

حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں؛
’’حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ اگر تم میری کتب کا مطالعہ نہیں کروگے۔ اگر تم اسلام کے بارہ میں تیارکردہ نئے لٹریچر کا مطالعہ نہیں کروگے۔ اور اگر تم دوسری کتب پڑھتے رہے تو تم اُن سے غلط طور پر متاثر ہوجاؤ گے۔ تمارے دفاع کا ایک ہی طریق ہے کہ پہلے خُود کو قرآنِ کریم کی تعلیمات اور روایات کے مطابق ڈھالو جیسا کہ میں ابھی کہہ چُکا ہوں۔ جب میری نظر سے آپ اسلام کی تعلیمات کا اتنا خُوبصُورت مُشاہدہ کریں گے تو کوئی بھی شخص جو اسلام کو بگاڑنا چاہتا ہے اس میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ جہاں تک آپ لوگوں کی بات ہے کیونکہ آپ نے اسلام کا مُشاہدہ میری نظر سے کیا ہوگا۔ اسلام کی تمام تر خُوبصُورتی آپ پر اسی طرح واضح ہوجائے گی جیسا کہ مُجھ ہر ہوئی ہے۔ اس کے بعد غلط فہمی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ یکم اکتوبر 1982ء)

ہمارے پیارے آقا خلیفة المسیح الخامس ایدہ الله بنصرہ العزیز افرادِ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اب تو دنیا کے اور ممالک میں بھی چھپ رہی ہیں۔ ویب سائٹ پر بھی میسر ہیں۔ آڈیو میں بھی بعض کتب میسر ہیں اور باقی بھی ان شاء اللہ تعالیٰ جلدی مہیا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ایک زمانہ تھا جب یہ فکر تھی کہ اشاعت پر پابندی سے نقصان ہو سکتا ہے۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علم و معرفت کے خزانے جو ہیں یہ فضاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں جو ایک بٹن دبانے سے ہمارے سامنے آ جاتے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور کتب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ ایم ٹی اے پر بھی میں نے اب سوچا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا درس پہلے سے زیادہ وقت بڑھا کر دیا جائے گا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 2015ء)

جیسا کہ حضورِ انور نے فرمایا کہ اب یہ جماعتی کُتب الاسلام کی ویب سائٹ www.alislam.org پر موجود ہیں اور ساتھ ساتھ انکی آڈیو بھی دستیاب ہے۔ تو آجکل کے مادی دور اور نفسا نفسی کے عالم میں جس شخص کے پاس آرام سے بیٹھ کر پڑھنے کا وقت میسّر نہیں وہ اپنے موبائل پر کام کے دوران، چلتے پھرتے، شاپنگ کرتے ہوئے ان کتب کو سُن سکتا ہے۔ قارئین کی خدت میں انہی کتب کے کچھ مُفید لِنک پیشِ خدمت ہیں؛

1.https://www.alislam.org/urdu/audio-books/
2.https://www.alislam.org/podcast/
3.https://open.spotify.com/show/0c4E9YxYFaWBbc3H3DfXaI?si=so6uHe5GRvWRSXczZCQutQ

آخر میں خاکسار حضرت حُجّتُہ اللہ کے الفاظ بابت اہمیّت تصانیفِ لطیف حضرت اقدس مسیحِ موعودؑ پیش کرنا چاہے گا۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا۔ اس میں ایک قسم کا کِبر پایا جاتا ہے۔‘‘

(سیرت المہدیؑ جلد اوّل حصّہ دوم صفحہ365)

نیز آپؑ فرماتے ہیں:
’’وہ جو خُدا کے مامُور اور مُرسل کی باتوں کو غور سے نہیں سُنتا اور اس کی تحریروں کو غور سے نہیں پڑھتا اس نے بھی تکبُّر سے حصّہ لیا ہے۔ سو کوشش کرو کہ کوئی حصّہ تکبُّر کا تم میں نہ ہو تاکہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تُم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ403)

اپنی وفات کے قریب 2 مئی 1908 کو بعد نماز ِعصر حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے تمام تصانیف و تقاریر اور سفروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’معقولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب اپنا کام ختم کرچکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔‘‘

(الحکم 16 مئی 1908ء)

اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم بطور احمدی مسلمان، جو ہم نے مسیح الزّماں مرزا غلام احمد قادیانیؑ کی بیعت کی ہے انکے احکامات پر کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں؟ اللہ تبارک و تعالیٰ سے ہم دُعا گوہ ہیں کہ اللہ ہمیں اِن رُوحانی خزائن سے مُستفید ہونے، کُونُو مَعَ الصَّادِقِیْنَ ہونے اور صحبتِ صالحین اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یاربَّ العٰلمین۔

(عبدالحئى۔ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 7 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ