ایک مشہور دیوبندی عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ احمدیہ مسلم جماعت ختم نبوت کے ایک پہلو ’’خاتمیت مرتبی‘‘ کی قائل ہے جبکہ خاتمیت زمانی کا انکار کرتی ہے۔ یعنی وہ یہ تو مانتی ہے کہ نبی اکرم ؐ کا مرتبہ و مقام سب سے آخری اور بلند ترین ہے لیکن یہ نہیں مانتی کہ نبی اکرم ؐ کے زمانہ کے بعد کوئی اور نبی نہیں آسکتا۔
’’مرزا غلام احمد قادیانی نے ختم نبوت کے عنوان سے انکار نہیں کیا نہ کہیں یہ کہا کہ وہ اور اس کی جماعت حضور ؐ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ اس نے ختم نبوۃ کا یہ معنی بیان کیا کہ حضور ؐ نبوت کا مرکز ہیں جن سے آگے نبوت پھیلتی ہے اور جو بھی نبوت پائے گا اس پر آپؐ کی نبوت کی مہر ہوگی۔ مرزا غلام احمد اپنی تشریح میں ختم نبوت مرتبی کا عقیدہ رکھتا تھا اور ختم نبوت مرتبی کو ختم نبوت زمانی کے متوازی سمجھتے ہوئے ختم نبوت مرتبی کا اقرار اور ختم نبوت زمانی کا انکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن کے مطابق یہ دو متقابل نظریات تھے۔ چنانچہ مرزا غلام احمد کے پیروختم نبوت مرتبی کا اقرار اور ختم نبوت زمانی کے منکر ہیں۔‘‘
(مقدمہ تحذیر الناس از علامہ ڈاکٹر خالد محمود صفحہ16)
علامہ صاحب کے بقول خاتمیت زمانی میں چونکہ عقیدت زیادہ ہے اس لئے لوگ احمدیہ مسلم جماعت کے جھانسے میں آکر اس نظریہ کو قبول کرتے ہوئے اس جماعت میں شامل ہوجاتے ہیں۔
’’مسلم عوام حضور اکرم ؐ کے مرتبہ و شان سے والہانہ عقیدت رکھتے ہیں۔ جب وہ قادیانی مبلغین سے سنتے ہیں کہ ختم نبوت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ حضور اکرم ؐ پر سارے کمالات ختم مانے جائیں اور یہی حضور ؐ کی ختم نبوت ہے تو کئی عوام جوشِ عقیدت میں قادیانیوں کے پنجۂ الحاد میں آجاتے ہیں۔ ختم نبوت زمانی کتنا پختہ عقیدہ کیوں نہ ہو ختم نبوت مرتبی میں عقیدت بہرحال زیادہ ہے اور وہ ظاہر میں لوگوں کو زیادہ کھینچتی ہے۔‘‘
(مقدمہ تحذیر الناس از علامہ ڈاکٹر خالد محمود۔ صفحہ17)
خاتمیت زمانی سے اگر ان علماء کی یہ مراد ہے کہ نبی اکرم ؐ کی وفات کے ساتھ ہی ان کا زمانہ بھی، نعوذ باللہ، ختم ہوگیا اور اب ان کے زمانہ کے اختتام کے بعد کسی بھی طرح کا کوئی اور نبی نہیں آسکتا تو یقینًا احمدیہ مسلم جماعت اس مفہوم کا انکار کرتی ہے جیسا کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ کا زمانہ تو قیامت تک ممتد ہے:
’’چونکہ آنحضرت ؐ کی نبوت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور آپ خاتم الانبیاء ہیں اس لیے خدا نے یہ نہ چاہا کہ وحدت اقوامی آنحضرتؐ کی زندگی میں ہی کمال تک پہنچ جائے کیونکہ یہ صورت آپؐ کے زمانے کے خاتمہ پر دلالت کرتی تھی۔ یعنی شبہ گزرتا تھا کہ آپؐ کا زمانہ وہیں تک ختم ہوگیا۔ کیونکہ جو آخری کام تھا وہ اس زمانہ میں انجام تک پہنچ گیا۔ اس لیے خدا نے تکمیل اس فعل کی جو تمام قومیں ایک قوم کی طرح بن جائیں اور ایک ہی مذہب پر ہوجائیں زمانہ محمدی کے آخری حصہ پر ڈال دی جو قرب قیامت کا زمانہ ہے۔ اور اس کی تکمیل کے لئے اسی امت میں سے ایک نائب مقرر کیا جو مسیح موعود کے نام سے موسوم ہے اور اس کا نام خاتم الخلفاء ہے۔ پس زمانہ محمدی کے سر پر آنحضرت ؐ ہیں اور اس کے آخر میں مسیح موعود ہے۔‘‘
(چشمۂ معرفت صفحہ82-83 روحانی خزائن جلد23 صفحہ 90-91)
لیکن ایک ذرا سے مطالعہ سے معلوم ہوجاتا ہے کہ خاتمیت زمانی کا یہ عقیدہ ان علماء کا خودساختہ ہے کیونکہ اس مکتبہ فکر کے بانی یا کم از کم جن سے یہ علماء خود کو منسوب کرتے ہیں یعنی مولانا قاسم نانوتوی صاحب خاتمیت زمانی سے کچھ اور ہی مراد لیتے ہیں:
’’غرض خاتمیت زمانی سے یہ ہے کہ دینِ محمدیؐ بعد ظہور منسوخ نہ ہو۔ علوم نبوت اپنی انتہاء کو پہنچ جائیں۔ کسی اور نبی ؑ کے دین یا علم کی طرف پھر بنی آدم کو احتیاج باقی نہ رہے۔‘‘
(مناظرہ عجیبہ صفحہ58۔ ناشر مکتبہ قاسم العلوم کراچی)
یعنی ان کے نزدیک تکمیل شریعتِ اسلامیہ ہی دراصل خاتمیت زمانی ہے جس کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کی ضرورت و احتیاج باقی نہیں ہے۔ بفضلہٖ تعالیٰ احمدیہ مسلم جماعت بھی اسی خاتمیت زمانی کا اقرار کرتی ہے لہٰذا وہ کسی بھی پہلو سے ختم نبوت کی منکر نہیں ٹھہرتی۔
(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، کینیڈا)