حضرت آدم ؑ کو خلافت عطا ءہونے سے بنی نوع انسان کی روحانی تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتے کرتے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔ تو آپ پر نوع انسان کی راہنمائی کے لئے قرآن کریم نازل ہوا۔ اس مقدس کتاب میں خدا تعالیٰ نے اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي کا اعلان فرمایا۔ اسلام مکمل دین اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کامل نبی اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اب کوئی نیا دین نہیں آئے گا۔ لیکن ان اعزازات میں یہ تو کوئی گارنٹی نہیں دی گئی کہ تمام مسلمان بھی قیامت تک راہ ہدایت پر اسی طرح قائم رہیں گے جس طرح اصحاب رسول ؐ قائم تھے۔ بلکہ اس کے بر عکس مسلمانوں کے بگڑنے، فرقوں میں تقسیم ہونے اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہونے کی خبریں بھی دی گئیں تھیں۔ ہاں ! چونکہ اسلام خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ اس لئے مسلمان قوم کی اصلاح کے لئے ایک طرف ہر صدی کے سر پر مجدد کھڑے کرنے اور آخری زمانہ میں جب دجال اور یا جوج ماجوج کے فتنہ کی خبر دی گئی تو اس کے مقابل پر خدا ئے ذوالجلال کی طرف سے دین اسلام کی تائید و نصرت کے لئے امام مہدی اور ایک مسیح کے آنے کی خوشخبریاں بھی سنائی گئیں تھیں۔
ستم کی بات ہے کہ قرون ِوسطی میں جب مختلف اقوام فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئیں تو وہ اپنے پرا گندہ عقائد اور خیالات بھی ساتھ لے آئے۔ انہی میں کثرت کے ساتھ آنے والے عیسائی عقیدہ کو بھی عام سادہ مسلمانوں تک خوب رسائی ملی۔ قرآن کریم پر غور و فکر کی عادت نہ رہی تھی۔ بلکہ صورت حال وہی تھی کہ وہ قرآن کی تلاوت تو خوب کریں گے۔ لیکن قرآن میں دی گئی تعلیم اور روشنی انکے گلے سے اتر کر انکے دلوں کو منور نہ کرے گی۔ چنانچہ عیسائیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تراشے ہوئےغلط عقائد کہ جب یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صلیب دینا چاہا تو خدا نے اس صلیب سے بچانے کے لئے حضرت عیسٰی ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب تک وہاں زندہ موجود ہیں اور یہ کہ اب آخری زمانہ میں جس مسیح کے آنے کی خبر دی گئی ہے وہ وہی عیسیٰ ابن مریم ہیں۔
ہماری خوش قسمتی ہے کہ اب سائنس کا دور ہے اور سائنسدان آسمان کی تحقیق میں دن رات لگے ہوئے ہیں۔ یہ سائنسدان آسمان کاجو نقشہ بتاتے ہیں۔ اس نقشے میں تو ہمیں کوئی ایسی جگہ نظر نہیں آتی جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو ہزار سال سے رہ رہے ہوں۔ یا جہاں کوئی انسان بھی اپنی زمینی خوراک کےبغیر چند منٹ بھی زندہ رہ سکے۔ اگر کوئی کہے کہ خدا قادر ہے۔ تو میرے بھائی ہم تو خدا کی قدرت سے ہر گز انکاری نہیں ہیں۔ آپ یا عیسائی قوم خدا کی قدرت کو نہیں مانتے۔ کیونکہ ہمارا تو یقین ہے کہ وہ خدائے قادر جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر کے سخت محاصرہ سے نکال لایا اور غارِ ثور میں دشمن کو جھانک کر غار میں دیکھنے کی اجازت نہ دی۔ قوم یہود اُس خدا سے ہر گز طاقت ور نہ تھی کہ اسے اپنے بندے کو ان کے ہاتھوں سے بچانے کی طاقت نہ تھی۔ اس لئے وہ اپنے بندے کو اٹھا کر آسمان پر لے گیا۔ یہاں میں اپنے سب مسلمان بھائیوں اور عیسائی صاحبان سے گذارش کرتا ہوں کہ دنیا کی حالت بگڑ چکی ہے۔ اجرام ِفلکی پر کام کرنے والے سائنس دانوں سے درخواست کریں کہ وہ مریخ اور زحل وغیرہ پر کام کے ساتھ ہمارے عیسیٰ کابھی کسی جگہ سراغ لگائیں اور ان کی خدمت میں درخواست کریں کہ دنیا بگڑ چکی ہے وہ آئیں اور آکر اپنی دنیا کو سنبھالیں۔
لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ کیونکہ مسیح کے نام سے جس نے آنا تھا وہ تو آچکا اور اس نے گزرے ہوئے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی وفات کا اعلان کر کے یہ بھی بتا دیا کہ خدا ئے قادر نے اپنی قادرانہ تجلی سے اپنے مسیح کو یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہونے یا صلیب پر مارے جانے سے بچا لیا تھا۔ وہ اپنی طبعی عمر پا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ اور انکی قبر آج بھی سری نگر کشمیر محلہ خان یار میں موجود ہے۔ آپ ؑ نے بتایا کہ قرآن پر غور کرو۔ قرآن کریم کی ایک نہیں دو نہیں تیس آیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا اعلان کر رہی ہیں۔ اگر کہو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود آخری زمانہ میں مسیح ابن مریم کے آنے کی خبر دی ہے۔ تو میرے بھائیو ! سن لو کہ اسی پیارے نبی حضرت اقدس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فیصلہ کن ارشاد ہے۔ کہ لو کان موسیٰ وعیسیٰ حیین لما وسعھما الاتباعی ’’اگر موسیٰ اور حضرت عیسیٰ زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔‘‘
(کنزالعمال جلد4 صفحہ120 حج الکرامہ صفحہ428، تفیسر جامع البیان للطبری جلد3 صفحہ164)
ایک اور جگہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا اس طرح ذکر ہے۔ لو کان عیسٰی حیًا لما وسعہ الاتباعی‘‘ اگر عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو میری اتباع کے بغیر چارہ نہ تھا۔
ایک مرتبہ اپنے کچھ غیر از جماعت مسلمانوں کے ساتھ بات ہو رہی تھی۔ اور وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی اور آسمان پر زندہ موجودگی نیز آخری زمانہ میں اس دنیا میں واپس آکر اصلاح خلق کا کام سر انجام دینے پر پختگی سے قائم اور مصر تھے۔ خاکسار نے اس کے سامنے سورۃ الانبیاء کی یہ آیت رکھی جس میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا جَعَلۡنَا لِبَشَرٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ الۡخُلۡدَ ؕ اَفَا۠ئِنۡ مِّتَّ فَہُمُ الۡخٰلِدُوۡنَ۔ یعنی ہم نے تجھ سے پہلے کسی بشر کو غیر معمولی لمبی زندگی نہیں دی۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ تو فوت ہو جائے اور کوئی دوسرا زندہ رہے۔ یہاں ہمارے پیارے مولیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مخاطب کر کے جو بات کی ہے۔ وہی بات ہر محبت کرنے والے دل کی ترجمان ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اس بات کو اپنی طرف سے یوں تحریر فرمایا ہے۔
غیرت کی جا ہے عیسیٰ زندہ ہو آسماں پر
مدفون ہو زمیں میں شاہ جہاں ہمارا
سورۃ الانبیاء کی مندرجہ بالا آیات سن کر ان دوستوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اور چند منٹ کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ بات سمجھ میں آگئی ہے۔ بات در اصل یہی ہے کہ آجکل مسلمانوں میں عوام الناس کیا بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی قرآن کو سمجھنا تو در کنار تلاوت تک نہیں کرتے۔ اگر قرآن کریم کی طرف توجہ ہو تو سورۃ المائدہ میں درج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خدا کے ساتھ مکالمہ ہی بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ جس میں ہمارے خدا نے جو علام الغیوب ہے بتایا ہے کہ قیامت کے روز خدا تعالیٰ عیسیٰ ؑ سے سوال کرے گا۔ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَاُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ۔ کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے علاوہ مجھے اور میری والدہ کو بھی معبود بنا لو تو حضرت عیسیٰ عرض کریں گے۔ مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا أَمَرْتَنِیْ بِہِ۔ نہیں میرے مولیٰ میں نے تو ان کو وہی کچھ کہا تھا اور وہی تعلیم دی تھی جو تیرا حکم تھا۔ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلاَ أَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ۔ میرے اللہ تُو تو میرے دل کے راز بھی جانتا ہے۔ لیکن میں تیرے دل کی بھید نہیں جانتا۔ اگر میں نے کوئی ایسی بات کی ہوتی تو تُو جانتا ہے۔ کُنۡتُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا مَّا دُمۡتُ فِیۡہِمۡ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّیۡتَنِیۡ کُنۡتَ اَنۡتَ الرَّقِیۡبَ عَلَیۡہِمۡ
(المائدہ: 118)
میں جب تک ان میں تھا ان کا نگران تھا۔ لیکن جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کا نگران تھا۔
اس آیت کریمہ پر سر سر ی نظر سے چند منٹ بھی غور کریں۔ تو ساری بات روشن ہو جاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے آخری زمانہ میں بعثت کی اغراض میں ایک غرض صلیب کو توڑنا بھی مذکور ہے۔ اب اگر وہی عیسیٰ نے آنا تھا تو یہاں جو جواب مذکور ہے۔ اُن کاجواب اس کے بہت مختلف ہونا چاہئے تھا۔ کہ اے خدا وند بزرگ و برتر یہ درست ہے۔ کہ میری قوم گمراہ ہو گئی تھی۔ اور انہوں نے مجھے اور میری والدہ کو بھی معبود بنا لیا تھا۔ لیکن میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے دوبارہ بھجوایا تو میں نے ان کی مکمل اصلاح کر دی۔ اور ان کی تمام صلیبیں توڑ دی ہیں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسلمانان عالم کو مخاطب کرکے فرمایا۔
’’خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی۔ سو اس سے فائدہ کیسا کہ بر خلاف تعلیم قرآن اس کو زندہ سمجھا جائے اس کو مرنے دو تا یہ دین زندہ ہو۔‘‘
(کشتی نوح صفحہ15)
حکم عدل مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کے اس فیصلہ کے پیچھے عیسائی پادریوں کی وہ یلغار ہے۔ جو وہ مسلمانوں کے عقیدہ حیات مسیح کی وجہ سے مسلسل اسلام کے خلاف اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کر رہے تھے۔ اور عام مسلمان سادہ مسلمان کیا بڑے بڑے علماء اپنے غلط عقیدہ کی وجہ سے ان کے آگے ہتھیار ڈال رہے تھے۔ عیسائی گرجا نے ہزار ہا واعظ دنیا میں پھیلا دئیے تھے۔ خونخوار پادری نہتے اور بے بس مسلمانوں پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑے کہ آپ کو خدا وند یسوع مسیح کلمۃ اللہ اور حضرت محمد بن عبداللہ میں سے ایک کو پسند کرنا ہے دیگر تمام انبیاء وفات پا گئے لیکن قرآن بتاتا ہے کہ خدا وند یسوع مسیح کو زندہ ہی آسمان پر اٹھایا لیا گیا۔ اور مسلمان مسیحیوں کے ساتھ متفق ہو کر اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ ہے۔ قریش نے حضرت محمد ؐ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ طلب کیا تھا۔ اس کے جواب میں حضرت محمد ؐ کو یہ کہنے کا حکم ملا۔ کہ آپ محض انسان تھے اس لئے انکامطلوبہ معجزہ دکھانے سے قاصر تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ کوئی معجزہ نہ دکھا سکے۔ یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ اور مدینہ میں انکی قبر موجود ہے۔ ہاں وہاں مدینہ میں ایک قبر خالی ہے جس کو مسلمان ہمارے خداوند یسوع مسیح کی قبر کہتے ہیں۔ اس قبر میں کوئی دفن نہیں کیا گیا اور اس کا خالی ہونا یاد دلاتا ہے کہ مسیح زندہ ہے۔ اور حضرت محمدؐ مردہ ہیں۔ بتاؤ دونوں میں کون آپ کی مدد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آپ مانتے ہیں کہ خدا وند مسیح پھر آئے گا اور آپ کس کی آمد کا انتظار کر رہے ہو۔ یسوع مسیح خدا وند ہے کسی نہ کسی روز آپ کو ضرور اس کے آگے گھٹنے ٹیکنے ہیں۔
(ملحض از ترجمہ اردو ’’میزان الحق‘‘ مؤلفہ پادری فینڈ 1839ء)
ایک پادری غلام مسیح پاسٹر انبالہ شہر چرچ نے اپنی کتاب ’’مذھب اسلام‘‘ میں نہایت بے باکی سے عقیدہ حیات مسیح کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر دیاکہ در اصل خدا وند یسوع مسیح ہی ختم المرسلین ہے۔ ایک اور پادری آر۔ اوس نے مسیح یا محمد نامی رسالہ میں یہاں تک لکھا کہ یسوع مسیح سب سے بر تر اور خاتم المرسلین ہے اور اس کے وسیلہ سے نجات ہو سکتی ہے۔
(مسیح یا محمد صفحہ2 مطبوعہ 1900ء ناشر کرسچن لٹریچر سوسائٹی لدھیانہ)
یہ وہ زمانہ اور ماحول تھا۔ جب خدا نے اپنے محبوب اور پاک نبی حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عاشق صادق کو قادیان سے کھڑا کیا۔ جس نے قادیان کی غیر معروف بستی سے یہ آواز بلند کی کہ حضرت مسیح ابن مریم فوت ہو چکے ہیں۔ اور زندہ نبی تمام سلسلہ انبیاء میں صرف اور صرف حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے ببانگ دہل اعلان فرمایا کہ
’’اے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو اور اے تمام وہ انسانی روحو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو ! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذھب صرف اسلام ہے۔ اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے۔ جو قرآن نے بیان کیا ہے۔ اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور جلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
(تریاق القلوب صفحہ7)
آپ نے فرمایا ! ’’….. پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمد یہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا۔ اب کہاں ہیں وہ پادری تا میرے مقابل پر آویں۔ میں بے وقت نہیں آیا۔ میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی نہیں کی۔ یاد رکھو وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گذر گیا۔ اب وہ زمانہ آگیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی ؐ جس کو گالیاں دی گئیں جس کے نام کی بے عزتی کی گئی جس کی تکذیب میں بد قسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں۔ وہی سچا اور سچوں کا سردار ہے۔ اس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا مگر آخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیا۔ اس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ273، 274)
آپ نے فرمایا! ’’خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی سو اس سے فائدہ کیا کہ بر خلاف تعلیم قرآن کو زندہ سمجھا جائے اس کو مرنے دو تا یہ دین زندہ ہو‘‘
(کشتی نوح صفحہ15)
پھر فرمایا! ’’تم عیسیٰ کو مرنے دو اس میں اسلام کی حیات ہے ایسا ہی عیسیٰ موسوی کی بجائے عیسیٰ محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے۔
(ملفوظات جلد10 صفحہ458)
(ابو الکوثر۔ فرانس)