ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
نا صرِ دین کے لئے دعا کی قبولیت
قسط8
رسالت کا ابتدائی زمانہ تھا حضرت رسولِ اکرم ﷺ نے خدائے واحد کا پیغام دینا شروع کیا تو قریشِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد ہونے لگا جس میں وقت کے ساتھ شدّت آنے لگی۔ دارِارقم میں چھپ کر رہنے سے تو اسلام نہیں پھیل سکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اسلام کی کھل کےتبلیغ کے لئےاور مسلمانوں کی عزّت و طاقت میں اضافے کےلئے غلافِ کعبہ کو تھام کر اللہ تعالیٰ سے ان الفاظ میں دعا کی:
اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِأَحَبِّ ہٰذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِیْ جَہْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ اے اللہ! تو ان دو اشخاص ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے اپنے زیادہ محبوب شخص کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے اللہ کو زیادہ محبوب حضرت عمرؓ تھے۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب حدیث 3681)
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَللّٰہُمَّ أَیِّدِ الدِّیْنَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعہ سے دین کی تائید فرما۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَللّٰہُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً کہ اے اللہ! خاص طور پر عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو عزت عطا کر۔
(مستدرک للحاکم علی الصحیحین جلد3 صفحہ89 کتاب معرفۃ الصحابہ باب من مناقب امیر المومنین عمر بن الخطابؓ حدیث نمبر4483 – 4485 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے ایک دن پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی تھی۔ اَللّٰہُمَّ أَیِّدِ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ، عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَوْ عَمْرِو بْنِ ہِشَامٍ اے اللہ! ان دو لوگوں میں سے جو تجھے زیادہ محبوب ہے اس کے ذریعہ سے اسلام کی تائید فرما۔ عمر بن خطابؓ یا عمرو بن ہشام۔ ۔ جب حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور کہا اے محمدؐ! عمرؓ کے اسلام لانے سے آسمان والے بھی خوش ہیں۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ143 باب اسلام عمرؓ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی دعا کو شرفِ قبولیت سے نوازا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کے چھٹے سال حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے یہی وجہ ہے کہ آپ کو مرادِ رسول ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کے قبولِ اسلام سے مسلمان مَردوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’جب سے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لائے، یہ دین روزبروز ترقی کرتا چلا گیا‘‘۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر ؓ کا اپنی بہن کے گھر قرآن پاک سن کر کلمۂ شہادت پڑھنے کا واقعہ لکھنے کے بعد تحریر فرمایا:
’’حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آج کل کہاں مقیم ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخالفت کی وجہ سے گھر بدلتے رہتے تھے۔ انہوں نے بتا یا کہ آج کل آپؐ دارِ ارقم میں تشریف رکھتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فوراً اسی حالت میں جب کہ ننگی تلوار انہوں نے لٹکائی ہوئی تھی اس گھر کی طرف چل پڑے۔ بہن کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ شاید وہ بُری نیت سے نہ جا رہے ہوں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر کہا خدا کی قسم! مَیں تمہیں اس وقت تک نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھے اطمینان نہ دلا دو کہ تم کوئی شرارت نہیں کرو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ مَیں پکا وعدہ کرتاہوں کہ مَیں کوئی فسادنہیں کرونگا۔ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے۔‘‘ یعنی اس جگہ جہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تھے ’’اور دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ اندر بیٹھے ہوئے تھے دینی درس ہو رہاتھا۔ کسی صحابیؓ نے پوچھا کون؟ حضرت عمرؓ نے جواب دیا عمر! صحابہؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! دروازہ نہیں کھولنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی فساد کرے۔ حضرت حمزہؓ نئے نئے ایمان لائے ہوئے تھے وہ سپاہیانہ طرز کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا دروازہ کھول دو۔ مَیں دیکھوں گا وہ کیا کرتا ہے۔ چنانچہ ایک شخص نے دروازہ کھول دیا۔ حضرت عمرؓ آگے بڑھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! تم کب تک میری مخالفت میں بڑھتے چلے جاؤ گے؟ حضرت عمرؓ نے کہا یا رسول اللہؐ! مَیں مخالفت کیلئے نہیں آیا مَیں تو آپؐ کا غلام بننے کیلئے آیا ہوں۔ وہ عمرؓ جو ایک گھنٹہ پہلے اسلام کے شدید دشمن تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارنے کیلئے گھر سے نکلے تھے ایک آن میں اعلیٰ درجہ کے مومن بن گئے۔ حضرت عمرؓ مکہ کے رئیسوں میں سے نہیں تھے لیکن بہادری کی وجہ سے نوجوانوں پر آپ کا اچھا اثر تھا۔ جب آپ مسلمان ہوئے تو صحابہؓ نے جوش میں آکر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے۔ اس کے بعد نماز کا وقت آیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھنی چاہی تو وہی عمرؓ جو دو گھنٹے قبل گھر سے اس لئے نکلا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے۔ اس نے دوبارہ تلوار نکال لی اور کہا۔ یارسول اللہؐ! خداتعالیٰ کا رسول اور اس کے ماننے والے تو چھپ کر نمازیں پڑھیں اور مشرکین مکہ باہر دندناتے پھریں یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ مَیں دیکھوں گا کہ ہمیں خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنے سے کون روکتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جذبہ تو بہت اچھا ہے لیکن ابھی حالات ایسے ہیں کہ ہمارا باہر نکلنا مناسب نہیں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ143)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبولِ اسلام پر دارِ اَرقم میں موجود مسلمانوں نے خوشی میں اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہلِ مکہ نے سنا۔ پھر تمام مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور ایک میں حضرت عمر ؓ تھے اس طرح مسلمان مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کفار مکہ کو سخت صدمہ پہنچا۔ اس دن سے رسول کریم ﷺ نے حضرت عمر ؓ کو ’فاروق‘ کا لقب عطا فرمایا کیونکہ اسلام ظاہر ہو گیا اور حق وباطل میں فرق پیدا ہو گیا۔
’’ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور انہوں نے دارِ ارقم سے نکل کر برملا مسجد حرام میں نماز ادا کی۔ حضرت عمرؓ آخری صحابی تھے جو دار ارقم میں ایمان لائے اور یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے۔ اس وقت مکہ میں مسلمان مردوں کی تعداد چالیس تھی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیین از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ ایم اے صفحہ159)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ناصرِ دین کے لئے دعا کی قبولیت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میں رات دن خدا تعالیٰ کے حضور چلّاتا اور عرض کرتا تھا کہ اے میرے رب! میرا کون ناصر و مدد گار ہے۔ میں تنہا ہوں اور جب دعا کا ہاتھ پے در پے اٹھا اور فضائے آسمانی میری دعاؤں سے بھر گئی تو اللہ تعالیٰ نے میری عاجزی اور دعا کو شرف قبولیت بخشا اور رب العالمین کی رحمت نے جوش مارا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص صدیق عطا فرمایا…اس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے… جب وہ میرے پاس آکر مجھے ملا تو میں نے اسے اپنے رب کی آیتوں میں سے ایک آیت پایا… اور مجھے یقین ہو گیا کہ یہ میری دعا کا نتیجہ تھا۔ میں ہمیشہ دعا کیا کرتا تھا اور میری فراست نے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ کے منتخب بندوں میں سے ہے … میرا کلام سُننے کے لئے اس پر اپنے وطن کی جدائی آسان ہے اور میرے مقام کی محبت کے لئے اپنے وطن اصلی محبت کی یاد کو بھلا دیتا ہے اور ہر ایک امر میں میری اس طرح پیروی کرتا ہے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے۔‘‘
(ترجمہ از عربی عبارت مندرجہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ581 تا586)
حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین خلیفہ المسیح اوّلؓ اللہ تعالیٰ کا انتخاب تھے اللہ تعالیٰ نے آپؓ کا ایک نام عبد الباسط رکھا تھا
(تذکرہ الہام 13؍فروری 1887ء صفحہ117)
ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک نشیب گڑھے میں کھڑا ہوں اور اوپر چڑھنا چاہتا ہوں مگر ہاتھ نہیں پہنچتا۔ اتنے میں ایک بندۂ خدا آیا اُس نے اُوپرسے میری طرف ہاتھ لمبا کیا اور میں اُس کے ہاتھ کو پکڑ کر اوپر کو چڑھ گیا اور میں نے چڑھتے ہی کہا کہ خدا تجھے اس خدمت کا بدلہ دیوے۔
آج آپ کا خط پڑھنے کے ساتھ میرے دل میں پختہ طور پر یہ جم گیاکہ وہ ہاتھ پکڑنے والا جس سے رفع تردّد ہوا آپ ہی ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے خواب میں ہاتھ پکڑنے والے کے لئے دعا کی ایسا ہی برقّت ِ قلب خط کے پڑھنے سے آپ کے لئے منہ سے دلی دعا نکل گئی۔
مستجابٌ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ۔
(تذکرہ صفحہ117 ایڈیشن دوم)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور متعدد مقامات پراپنے مرید با صفا، عالم باعمل حاجی الحرمین حافظ علامہ نورالدین ؓ کے متعلق تعریف و توصیف کے الفاظ استعمال فرمائے۔ موصوف بھی اپنی فدائیت میں ترقی کرتے چلے گئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اس ناصرِ دین کا بہت محبت سے ذکر فرماتے۔ چند اقتباس ملاحظہ ہوں:
(عربی سے ترجمہ)
’’میرے سب دوست متقی ہیں ان میں سب سے زیادہ صاحبِ بصیرت، صاحبِ علم، اکمل الایمان والاسلام، محبت، معرفت، خشیت اور یقین اثبات والا بزرگ فرد۔ متقی عالم، صالح، فقیہ، عظیم الشان محدث و ماہر طبیب، حکیم حاجی الحرمین، حافظ قرآن، قریشی فاروقی جس کا اسم گرامی حکیم نور الدین بھیرویؓ ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے دین دنیا میں اجر عظیم سے نوازے۔ صدق و صفا، اخلاص ومحبت اور وفاداری میں میرے سب مریدوں سے وہ اوّل نمبر پر ہے اور ایثار و انقطاع اور خدمت دین میں عجیب حال میں ہیں۔
اس نے خدمت دین میں بہت خرچ کیا ہے اور میں نے انہیں ایسا مخلص پایا ہے جو اولاد و ازواج پر اللہ تعالیٰ کی رضا کومقدم رکھتے ہیں اور ہمیشہ اسی کی رضا کے خواہاں رہتے ہیں اور ہر حال میں شکر گزار رہتے ہیں۔ وہ شخص رقیق القلب، صاف طبع، حلیم، کریم اورجامع الخیرات، دنیوی لذّات سے بہت دور، بھلائی اور نیکی کے کسی موقع کو ضائع نہ کرنے والا۔ وہ پسند کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خاطر اپنا خون پانی کی طرح بہا دیں اور اپنی جان اس راہ میں قربان کر دیں اور دین میں فتنوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنا آپ قربان کر دیں۔‘‘
(حمامۃ البشریٰ، روحانی خزائن جلد7 صفحہ180)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا:
مولوی حکیم نوردین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور لِلّٰہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں کثرت مال کے ساتھ کچھ قدرِ قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا مگر خود بھوکے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولیٰ میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی۔ یا ان میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثرہے…اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے۔ اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں…خدائے تعالیٰ اس خصلت اور ہمّت کے آدمی اس امّت میں زیادہ سے زیادہ کرے۔ آمین ثم آمین۔
چہ خوش بو دے اگر ہر یک ز امت نور دین بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پُر از نور یقین بودے
(نشان آسمانی، روحانی خزائن جلد4 صفحہ430 – 434)
ایک اورمقام پر حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:
ان کے مال سے جس قدرمجھے مدد پہنچی ہے میں کوئی ایسی نظیر نہیں دیکھتا جو اس کے مقابل پر بیان کر سکوں۔ میں نے ان کو طبعی طور پر اور نہایت انشراح صدر سے دینی خدمتوں میں جان نثار پایا۔ اگرچہ ان کی روزمرہ زندگی اسی راہ میں وقف ہے کہ وہ ہر یک پہلو سے اسلام اور مسلمانوں کے سچے خادم ہیں مگر اس سلسلہ کے ناصرین میں سے وہ اول درجہ کے نکلے…میں یقیناًدیکھتا ہوں کہ جب تک وہ نسبت پیدا نہ ہو۔ جو محب کو اپنے محبوب سے ہوتی ہے۔ تب تک ایسا انشراح صدر کسی میں پیدا نہیں ہو سکتا۔ ان کو خدائے تعالیٰ نے اپنے قوی ہاتھوں سے اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ اور طاقت بالانے خارق عادت اثر ان پر کیا ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں بلا تردّد مجھے قبول کیا کہ جب ہر طرف سے تکفیر کی صدائیں بلند ہونے کو تھیں اور بہتیروں نے باوجود بیعت کے عہد بیعت فسخ کر دیا تھا۔ اور بہتیرے سست اور متذبذب ہو گئے تھے۔ تب سب سے پہلے مولوی صاحب ممدوح کا ہی خط اس عاجز کے اس دعویٰ کی تصدیق میں کہ میں ہی مسیح موعود ہوں۔ قادیان میں میرے پاس پہنچا جس میں یہ فقرات درج تھے۔ آمَنَّا وَ صَدَّقْنَا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاھِدِیْنَ … مولوی صاحب نے وہ صدق قدم دکھلایا جو مولوی صاحب کی عظمت ایمان پر ایک محکم دلیل ہے دل میں از بس آرزو ہے کہ اور لوگ بھی مولوی صاحب کے نمونہ پر چلیں مولوی صاحب پہلے راستبازوں کا ایک نمونہ ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ520 – 522)
ایک دفعہ حضرت اماں جانؓ اور بعض دوسری خواتین میں یہ بات ہوئی کہ بھلا حضرت اقدسؑ کو سب متبعین میں سے زیادہ کون محبوب ہے۔ اس پر حضرت اماں جانؓ نے فرمایا کہ میں حضورؑ سے کچھ بات کروں گی جس سے اس بات کا پتہ چل جائے گا۔ حضرت اماں جانؓ، حضرت اقدسؑ کے پاس کمرہ میں تشریف لے گئیں اور حضورؑ کو مخاطب کر کے فرمانے لگیں کہ: ’’آپ کے جو سب سے زیادہ پیارے مرید ہیں وہ …‘‘ اتنا فقرہ کہہ کر حضرت اماں جانؓ چپ ہو گئیں اس پر حضرت اقدسؑ نے نہایت گھبرا کر پوچھا ’’مولوی نورالدین صاحب کو کیا ہوا جلدی بتاؤ۔‘‘ اس پر حضرت اماں جان ؓہنسنے لگیں اور فرمایا:
’’آپ گھبرائیں نہیں مولوی نور الدین صاحب اچھی طرح ہیں میں تو آپ کے منہ سے یہ بات کہلوانا چاہتی تھی کہ آپ کے سب سے پیارے مرید کون سے ہیں چنانچہ آپ نے وہ بات کہہ دی اب میں جاتی ہوں آپ اپنا کام کریں۔‘‘
(لطائف صادق صفحہ12-13)
خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار
جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار
اِسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب
کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب؟
اُسے دے چکے مال و جاں بار بار
ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار
لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک سے
وہی پاک جاتے ہیں اِس خاک سے
(درثمین)
(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)