حضرت مصلح موعود ؓ کے خواب کی تعبیر اور دُعاؤں کا اثر
روزنامہ الفضل آن لائن کا تعارف
برصغیر کے مسلسل شائع ہونے والے قدیم ترین روزنامہ کی لازوال داستان اور انقلابی روئداد
سیّدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ (خلیفۃ المسیح الثانی )نے مورخہ 18جون 1913ء بروز بدھ قادیان سے ایک ایسا اخبار جاری فرمایا جو بعد میں خلافت کا دست و بازو ثابت ہوا اور خلافت کی آواز بنا۔ جس کا نام حضرت مولوی نور الدین ؓ خلیفۃ المسیح الاوّل کو رؤیا میں ’’الفضل‘‘ بتایا گیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔‘‘
(انوار العلوم جلد8 صفحہ371)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ ہی اس کے پہلے ایڈیٹر، پرنٹراور پبلشر تھے۔ پہلے اخبار کے 16صفحات تھے۔ اور عربی اعتبار سے 12 رجب 1331ھ کا دن تھا۔ آج انگریزی کیلنڈر کے اعتبار سے اس کو 108سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور اور ربوہ سے اشاعت کی توفیق پاتا رہا۔ اسے پاکستان میں مخالفین احمدیت اور حکومتی سطح پر مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ دسیوں دفعہ حکومتی پابندیوں اور قدغنوں کی زد میں آکر جبری بند رہا۔ اس کے ایڈیٹر مکرم مولانا نسیم سیفی، مینیجر مکرم آغا سیف اللہ اور پرنٹر مکرم قاضی منیر احمد کو قید کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ آخری بار جب 6دسمبر 2016ء کو اس پر حکومت کی طرف سے جبری پابندی لگی تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ بعد خاکسار کو الفضل ربوہ کا ایڈیٹر مقرر فرما کر الفضل کے متبادل کے طور پر کوئی پرچہ نکالنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ ’’گلدستہ علم و ادب‘‘ کے نام سے آن لائن ایک اخبار جاری کیا گیا جو کم وبیش پونے دو سال تک تشنہ روحوں کو سیراب کرتا رہا۔ بالآخر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2019ء کے موقع پر اصل نام اور تشخص یعنی روزنامہ الفضل کا آن لائن پرچہ جاری کرنے کی ہدایت فرمائی۔ چنانچہ انتظامیہ کے ساتھ تمام معاملات طے کر کے اور تمام ابتدائی ضروری امور طے کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 13دسمبر 2019ء کو مسجد مبارک ٹلفورڈ اسلام آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے اس اخبار کا تعارف فرما کر دنیا بھر کے احمدی احباب کو اسے پڑھنے، اس کی ترویج اور مضامین لکھ کر بھجوانے کی تلقین فرمائی اور نمازوں (جمعہ و نماز عصر) کی ادائیگی کے بعد اس کی ویب سائٹ کا افتتاح بھی فرمایا۔
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے الفضل کا تعارف بیان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا :
’’الفضل کے 106 سال پورے ہونے پر لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا آغاز ہو رہا ہے اور یہ اخبار روزنامہ الفضل آج سے 106 سال پہلے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی اجازت اور دعاؤں کے ساتھ 18؍جون 1913ء کو شروع فرمایا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کچھ عرصہ لاہور سے شائع ہوتا رہا۔ پھر حضرت مصلح موعودؓ کی قیادت میں یہ ربوہ سے نکلنا شروع ہوا۔ اس قدیم اردو روزنامہ اخبار کا لندن سے الفضل آن لائن ایڈیشن کا مؤرخہ 13؍دسمبر 2019ء سے آغاز ہو رہا ہے۔ آج اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تعالیٰ آغاز ہو جائے گا جو بذریعہ انٹرنیٹ دنیا بھر میں ہر جگہ بڑی آسانی کے ساتھ دستیاب ہو گا۔ اس کی ویب سائٹ alfazlonline.org تیار ہو چکی ہے اور پہلا شمارہ بھی اس پر دستیاب ہے۔ یہاں ہماری آئی ٹی کی جو مرکزی ٹیم ہے انہوں نے اس کے لیے بڑا کام کیا ہے۔
اس میں الفضل کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے جو ارشاد باری تعالیٰ کے عنوان کے تحت قرآن کریم کی آیات بھی آیا کریں گی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت احادیث نبویؐ بھی ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے اقتباسات بھی ہوں گے۔ اسی طرح بعض احمدی مضمون نگاروں کے مضمون اور دوسرے جو اہم مضامین ہیں وہ بھی ہوں گے۔ نظمیں بھی احمدی شعراء کی ہوں گی۔ یہ اخبار ویب سائٹ کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی موجود ہے اور اینڈرائڈ (Android) کا ایپ (app) بھی بن گیا ہے۔ یہ کیونکہ اب روزانہ شروع ہو گیا ہے تو سوشل میڈیا کے ان ذرائع سے بھی اردو پڑھنے والے احباب کو استفادہ کرنا چاہئے اور اسی طرح مضمون نگار اور شعراء حضرات بھی اس کے لیے اپنی قلمی معاونت کریں تا کہ اچھے اور تحقیقی مضامین بھی اس میں شائع ہوں۔ اس ویب سائٹ میں روزانہ کے شمارہ کی پی ڈی ایف کی شکل میں امیج فائل بھی موجود ہو گی جس کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کیا جا سکے گا جو پرنٹ کی شکل میں پڑھنا چاہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ بہرحال اس کا آج اِنْ شَآءَ اللّٰہُ آغاز ہو جائے گا۔ اسی طرح پیر کے روز اس میں خطبہ جمعہ کا مکمل متن جو ہے وہ شائع کیا جائے گا اور تازہ خطبے کا خلاصہ بھی بیان ہو جائے گا۔ تو اِنْ شَآءَ اللّٰہُ جمعے کے بعد اس کا افتتاح ہو جائے گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13دسمبر 2019ء)
اور اب اللہ کے فضل سے دو سال کے قلیل عرصہ میں (یہ دورانیہ قوموں کی زندگی میں آنکھ جھپکنے کے برابر بھی نہیں ہوتا) اس اخبار نے دنیا بھر کے اردو میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ میں اپنی موجودگی کی اہمیت کا لوہا منوایا ہے۔ پاکستان کے ملاؤں اور شر پسند عناصر کو اس کی پاکستان میں 9ہزار کی تعداد میں اشاعت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ اب اس تعداد سے تیس گنا سے زائد تعداد میں یہ پڑھا اور سراہا جاتا ہے، اس کے عقیدت مند اور قدر دان دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بعض جبری پابندیوں کے علاوہ اردو صحافت کے میدان کار زار میں مسلسل شائع ہونے والا برصغیر پاک و ہند اور اب دنیا کا سب سے پرانا روزنامہ اخبار ہے جو نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ لاکھوں نیک روحوں کواعلیٰ روحانی زندگی فراہم کر رہا ہے۔
مکرم محمد عمر تیما پوری، کوآرڈینیٹر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے خاکسار کے نام ایک مکتوب میں لکھا۔ ’’مغربی دنیا میں اخبار الفضل کا ادبی معیار یقیناً قابلِ فخر ہے جو کبھی متحدہ ہندوستان کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔ نیز لکھا کہ اس اخبار کے ذریعہ مغربی دنیا میں اردو زبان کے پھیلاؤ کے امکانات روشن ہوئے ہیں اور اس کی خوشبو سرحدوں کو مضبوط کر رہی ہے۔ ایک طرف احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی اشاعت، دوسری طرف اردو زبان کی خدمت بہت خوبصورت سنگم ہے یہ صرف اور صرف الفضل آن لائن کا ہی کارنامہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ ا لسلام اور آپ کے بعد قریب کے دور میں جو اردو کے اخبارات برصغیر میں شائع ہوتے تھے وہ قریباً قریباً ما سوائے ایک آدھ کے (جیسے تہذیب الاخلاق گو ہفت روزہ رسالہ تھا مگر ماہوار کے طور پر اشاعت پاتا ہے) باقی سب بند اور معدوم ہو چکے ہیں۔ مگر روز نامہ الفضل، قادیان، لاہور اور ربوہ سے ہوتا ہوا اب لندن سے پوری آب و تاب کے ساتھ روزانہ آن لائن طلوع ہوتا اور اپنی کرنوں کی روشنی سے لاکھوں کو فیض یاب کرتا ہے۔ اور اب مخالفین کی زمینی حدو بست اور ان کی شرارتوں سے بہت دور محفوظ ہو کر آسمانی لامحدود وسعتوں میں داخل ہو چکا ہے۔ اور بقول مکرمہ امۃ الشافی رومی سیکرٹری لجنہ اماء اللہ بھارت تازہ دودھ بطور مائدہ روزانہ آسمان سے اُتر کر ہم پیاسی روحوں کو سیراب کرتا ہے۔ انتہائی محدود عرصہ میں یہ اتنا مقبول ہوا کہ
- مکرم سلیم الحق ایڈوکیٹ نے لندن سے مجھے بتایا کہ: الفضل ان دنوں Talk of the Town بن گیا ہے بلکہ ایک دوست نے تاثر دیا کہ الفضل آن لائن کا گھر گھر چرچا ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو؟ اس علمی اخبار اور روحانی نہر کی اہمیت و افادیت ازل سے مقدرتھی۔ بانی الفضل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا۔
’’یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا۔ اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش۔ نہ وہ ممکن تھی نہ یہ۔ آخر دل کی بے تابی رنگ لائی۔ امید بر آنے کی صورت ہوئی اور کامیابی کے سورج کی سرخی افق مشرق سے دکھائی دینے لگی۔‘‘
(انوار العلوم جلد8 صفحہ369)
مندرجہ بالا ارشاد سے الفضل کا بلند مقام اظہر من الشمس ہے۔ یہ مدتوں سےثریا میں تھا اور حضرت فضل عمرؓ اس کو ثریا سے لانے کا موجب ہوئے اور یوں لَنَا لَہُ رَجُلٌ اَوْ رِجَالٌ مِّنْ اَبْنَآءِ الْفَارِسِ کی پیشگوئی کا ان معنوں میں بھی مصداق ٹھہرے۔
- پھر آپ ؓ نے اس کی اہمیت یوں بیان فرمائی۔
’’سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع ہونے والے اخبارات میں سے سب سے مقدم الفضل ہے۔‘‘
(الفضل 16نومبر 1960ء)
- پھر فرمایا۔
’’الفضل ہمارا مرکزی اخبار ہے۔‘‘
(مشعلِ راہ جلد اوّل صفحہ701)
الفضل تریاق ہے
حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں۔
’’ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے۔ میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے تو انہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتا ہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اور وہ آزادانہ طور پر اس پر غور کر سکے۔ میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اور مذہبی آزادی نہیں رہے گی۔ لیکن کیااس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کر لیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سارے اثر ڈال رہے ہیں تو کیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر تو کھانے دیں اور تریاق سے بچا یا جائے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ329)
اخبار کا نام اور اجراء
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی اجازت اور دُعاؤں سے خود استخارہ کرتے ہوئے اس تاریخی اور انقلابی اخبار کو 18جون 1913ء بمطابق 12رجب1331ھ بروز بُدھ قادیان سے ہفت روزہ جاری فرمایا۔ یہ پہلا اخبار 26×20/4 کے 16صفحات پر مشتمل تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ نے اس اخبار کا نام ’’الفضل‘‘ رکھا جو آپؓ کو ایک رؤیا میں بتایا گیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ الفضل نام رکھو۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔‘‘
(انوار العلوم جلد8 صفحہ371)
گویا کہ فضل عمر کے نام سے معنون کرتے ہوئے جماعت اور دنیا کے لئے یہ اخبار فضل ثابت ہوا ہے۔ اور یہ وہی فضل ہے جس کا ذکر پیشگوئی مصلح موعود میں ان الفاظ میں ملتا ہے۔
’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کےآنے کے ساتھ آئے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اوّل صفحہ101 ایڈیشن 1989ء)
الفضل کا ابتدائی سرمایہ
حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ میرا الفضل نکالنے کا پہلے ارادہ تھا مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے نہ نکال سکا اور پیغام صلح پہلے نکل گیا۔
ابتدائی سرمایہ جس نے الفضل کی بنیادوں میں کنکریٹ کی سی مضبوطی کا کام کیا کے بارہ میں خود حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ تحریر فرماتے ہیں۔
1913ء میں حضرت مصلح موعود نے الفضل جاری کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت ام ناصر صاحبہ نے ابتدائی سرمائے کے طو رپر اپنا کچھ زیور پیش کیا۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اس طرح تحریک کی جس طرح خدیجہؓ کے دل میں رسول کریمؐ کی مدد کی تحریک کی تھی۔ انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو (یہ بھی ایک عاجزی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی) جو اس زمانے میں شاید سب سے بڑا مذموم تھا۔ (آپ نے) اپنے دو زیور مجھے دے دئیے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کر دوں۔ ان میں سے ایک تو ان کے اپنے کڑے تھے (سونے کے) اور دوسرے ان کے بچپن کے کڑے (سونے کے) تھے جو انہوں نے اپنی اور میری لڑکی عزیزہ ناصرہ بیگم کے استعمال کیلئے رکھے ہوئے تھے۔ میں زیورات کو لے کر اسی وقت لاہور گیا اور پونے پانچ سو کے وہ دونوں کڑے فروخت ہوئے اور اس سے پھر یہ اخبار الفضل جاری ہوا۔‘‘
(انوار العلوم جلد8 صفحہ369)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’قارئین الفضل حضرت مصلح موعود کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعائوں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گو بے شک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا اور یہ الفضل جو ہے، آج انٹرنیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں۔‘‘
(الفضل 20ستمبر 2011ء)
اغراض و مقاصد
- پھر ایک دفعہ آپ ؓ نے جماعت میں جاری اخبارات و رسائل جیسے بدر، الحکم اور ریویو کا ذکر کرنے کے بعد الفضل کے ذکر میں فرمایا۔
’’(ان حالات میں) اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے۔ ان کی سستی کو جھاڑے۔ ان کی محبت کو اُبھارے۔ ان کی ہمتوں کو بلند کرے۔‘‘
(انوار العلوم جلد8 صفحہ369)
- پھر بانی الفضل فرماتے ہیں۔
’’الفضل کا اجراء اس غرض سے بھی ہوا تھا کہ جب کوئی امر من الخوف و الا من پیش آئے تو خلیفۃ المسیح کی زبان بن کر گائیڈ کرنے کے لئے ایک اخبار ضروری چاہئے‘‘
(الفضل 3دسمبر 1913ء)
خلفاء الفضل کا مطالعہ کرتے ہیں
جماعت احمدیہ کی مبارک تاریخ بتاتی ہے کہ خلفائے عظام جماعتی آرگن الفضل کا باقاعدگی سے مطالعہ فرماتے رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے متعلق الفضل میں شائع ہوا کہ حضور (خلیفۃ المسیح الاوّل) اخبار الفضل کو بڑے شوق سے مطالعہ فرماتے ہیں۔
(الفضل 8؍اکتوبر 1913ء)
بانی الفضل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ مسندِ خلافت پر متمکن ہونے سے قبل خود ہی ایڈیٹر تھے۔ اخبار کا تمام مواد آپ کی نظروں سے گزر کر اور ایڈٹ ہو کر منظرِ عام پر آتا تھا۔ اگرچہ مسندِ خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آپ اس کے ایڈیٹر تو نہ تھے لیکن آپ باقاعدگی سے اس کو زیرِ مطالعہ رکھتے تھے۔ آپ ؓ فرماتے ہیں۔
’’میرے سامنے جب کوئی کہتا ہے کہ الفضل میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اسے خریدا جائے تو میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ مجھے تو اس میں کئی باتیں نظر آجاتی ہیں آپ کا علم چونکہ مجھ سے زیادہ وسیع ہے اس لئے ممکن ہے کہ آپ کو اس میں کوئی بات نظر نہ آتی ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ جب کسی کے دل کی کھڑکی بند ہوجائے تو اس میں کوئی نور کی شعاع داخل نہیں ہو سکتی پس اصل وجہ یہ نہیں ہوتی کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کے اپنے دل کا سوراخ بند ہوتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اخبار میں کچھ نہیں ہوتا۔
اس سستی اور غفلت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری اخباری زندگی اتنی مضبوط نہیں جتنی کہ ہونی چاہئے حالانکہ یہ زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے اور اس زمانہ میں اشاعت کے مراکز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہئے۔
(انوارالعلوم جلد14 صفحہ543)
- ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں روز کا الفضل پیش ہوتا ہے۔ حضور باوجود بہت زیادہ مصروفیات کے اس کا مطالعہ فرماتے اور رہنمائی فرماتے رہتے ہیں۔ نیز ہر اخبار پر مطالعہ کے بعد Tick mark کا نشان لگا کر دستخط رقم ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں جب ’’چھوٹی مگر سبق آموز بات‘‘ عنوان کے تحت درج ہوا کہ موٹاپے سے بچنے کے لئے ’’چ‘‘ سے تیار ہونے والی اشیاء جیسے چاول، چینی، چکنائی، چپاتی وغیرہ سے پر ہیز کریں۔ یہ حصہ حضور کے سامنے سے گزرا تو خاکسار کے نام خط میں تحریر فرمایا کہ ’’پھر کیا کھائیں۔ اعتدال ضروری ہے۔‘‘
پھر آپ نے 8مئی 2009ء کے خطبہ جمعہ اور 19جولائی 2009ء کے جلسہ سالانہ پر خطاب کرتے ہوئے دو مخلصین کے واقعات کا ذکر الفضل کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ: میں نے الفضل کا ایک مضمون پڑھا، یا میں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 8مئی 2009ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
’’گزشتہ دنوں مَیں الفضل میں ایک مضمون دیکھ رہا تھا۔ مالی قربانی پہ کسی لکھنے والے نے لکھا۔ ربوہ میں کسی احمدی کا واقعہ تھا کہ وہ صاحب گوشت کی دکان پر کھڑے گوشت خرید رہے تھے۔ وہاں سے سیکرٹری مال کا سائیکل پرگزر ہوا تو اس شخص کو دیکھ کر جو سودا خرید رہا تھا، سیکرٹری مال صاحب وہاں رک گئے اور صرف یاددہانی کے لئے بتایا کہ آپ کا فلاں چندہ بقایا ہے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ کتنا بقایا ہے؟ جب سیکرٹری مال نے بتایاتو وہ کافی رقم تھی۔ تو انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے وہ سیکرٹری مال کو ادا کر دی اور رسید لے لی۔ اور قصائی سے جو گوشت خریدا تھا وہ اس کو واپس کر دیا کہ آج ہم گوشت نہیں کھا سکتے۔ سادہ کھانا کھائیں گے۔‘‘
(الفضل 23جون 2009ء)
احباب کو مطالعہ کی تلقین
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے بحیثیت قوم ترقی کرنے کے لئے الفضل کے مطالعہ کی طرف یوں توجہ دلائی۔
’’لوگ کہہ دیتے ہیں الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا ہونا چاہئے۔ میں بھی کہتا ہوںالفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کاہونا چاہئے۔ وہ کہتے ہیں (بعض لوگ) کہ اگر الفضل کا ہر مضمون اعلیٰ پایہ کا نہیں ہوگا تو اس کو لے کے پڑھنے کی کیا ضرورت۔ میں کہتا ہوں کہ اگر الفضل کا ایک مضمون بھی اعلیٰ پایہ کا ہے تو اسے لے کے اسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ میں اس سے بھی آگے جاتا ہوں میں کہتا ہوں اگر الفضل میں ایک ایسا مضمون ہے جس میں ایک بات ایسی لکھی ہے جو آپ کو فائدہ پہنچانے والی ہے تو اس فائدہ کو ضائع نہ کریں آپ۔ اگر آپ نے بحیثیت قوم ترقی کرنی ہے۔
(خطاب جلسہ سالانہ 27دسمبر 1979ء، الفضل 2فروری 1980ء)
شکر گزاری کے لئے الفضل پڑھیں
سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ 15؍اکتوبر 1971ء کے خطبہ جمعہ میں فرماتے ہیں:
’’بڑا افسوس ہے کہ جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو الفضل کو پڑھتے نہیں ایک نظر ڈالا کریں شاید اس میں دلچسپی کی کوئی چیز مل جائے اور خصوصاً اللہ تعالیٰ کے جو فضل جماعت پر نازل ہورہے ہیں ان کو پڑھا کریں، اس کے بغیر آپ شکر نہیں ادا کرسکتے کیونکہ جس شخص کویہ احساس ہی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کتنی رحمتیں اور برکتیں اس پر نازل کررہا ہے وہ اللہ کا شکر کیسے ادا کرے گا اور احساس کیسے پیدا ہوگا جب تک آپ اپنے علم کو up to date نہ کریں یعنی آج تک جو فضل نازل ہوئے ہیں اس کا پورا علم نہ ہو۔‘‘
(خطبات ناصر جلد3 صفحہ463)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ، یو۔کے کی کلاس سے 17 مارچ 2007ء کو خطاب کرتے ہوئے دریافت فرمایا اور الفضل کے پہلے صفحے کے مطالعہ کی طرف یوں توجہ دلائی:۔
’’الفضل ربوہ آتا ہے؟‘‘ اور تلقین فرمائی کہ الفضل کا پہلا صفحہ ملفوظات والا پڑھا کرو۔ اگر کوئی کتاب نہیں پڑھ رہے تو وہی پڑھو، رسالوں میں کوئی نہ کوئی اقتباس چھپا ہوتا ہے۔ اس میں سے پڑھا کرو۔ ابھی سے یادداشت میں فرق پڑ جائے گا اور عادت پڑ جائے گی‘‘۔
(الفضل 18؍جون 2008ء)
- نیشنل مجلس عاملہ فن لینڈ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ورچوئل ملاقات مورخہ 12نومبر 2021ء کے دوران ایک ممبر نے حضور سے سوال کیا کہ حضور لوگوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب پڑھنے کا شوق کیسے پیدا کریں؟
حضور انور نے فرمایا:۔ الفضل میں جو اقتباسات آتے ہیں۔ روز نامہ الفضل اور انٹرنیشنل الفضل کے شروع ہی میں پہلے صفحہ پر جو حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے اقتباسات آتے ہیں وہی نکال کے ان کو دے دیا کریں۔ اس سے کم از کم کچھ نہ کچھ تو ان لوگوں کو پتہ چل جائے گا۔‘‘
(روزنامہ الفضل آن لائن 14دسمبر 2021ء)
13دسمبر 2019ء کو الفضل کے اجراء کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔
’’اس میں الفضل کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سے بہت کچھ موجود ہے جو ارشاد باری تعالیٰ کے عنوان کے تحت قرآن کریم کی آیات بھی آیا کریں گی اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تحت احادیث نبویؐ بھی ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے اقتباسات بھی ہوں گے۔ اسی طرح بعض احمدی مضمون نگاروں کے مضمون اور دوسرے جو اہم مضامین ہیں وہ بھی ہوں گے۔ نظمیں بھی احمدی شعراء کی ہوں گی۔‘‘
الفضل کے ذریعہ الہام
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کی تکمیل:
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ کئی طریق پر پورا ہوا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ روزنامہ الفضل آن لائن کو بھی اس کا ایک ذریعہ بننے کی توفیق ملی۔ دنیا کے مشہور کناروں جیسے تائیوان، کریباتی، ناروے، پرتگال وغیرہ میں ہمارے مبلغین کو جب اخبار الفضل ملتا ہے تو وہ کئی ذرائع سے اس الہام کی تکمیل کا موجب ہوتے ہیں۔ جیسے
- الفضل کو دنیا کے کنارے پر بیٹھ کر اس سے خود مستفید ہوتے ہیں۔
- ان علاقوں میں موجود دیگر اردو بولنے والے احمدی و غیر احمدی حضرات تک Share کرتے ہیں۔
- الفضل کے بعض حصوں با لخصوص پہلے صفحہ کو بطور درس و تدریس و خطبات مساجد میں پڑھ کر سناتے ہیں۔
- اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روز کی بنیاد پر الفضل کے کسی حصہ کا لوکل زبان میں ترجمہ کر کے اپنی ویب سائٹ، فیس بک، انسٹا گرام ٹوئٹر پر لگاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کا ایک اہم اور بڑا ذریعہ ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک
الفضل کا نیا ہدف
الفضل کی تعداد میں اضافہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ ’’اگر جماعت کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی بھی اخبار کی اشاعت ہوتی تو 10ہزار اخبار (الفضل) چھپنا چاہئے تھا۔
(مشعلِ راہ جلد اوّل صفحہ701)
گو کہ بسیار کوشش کے جماعت یہ ہدف پورا نہیں کر پائی۔ لیکن آن لائن اجراء پر نہ صرف یہ گول عبور ہوا بلکہ اس سے کہیں زیادہ الفضل دنیا بھر میں پڑھا جانے لگا۔ لاکھوں کی تعداد میں احمدی احباب و خواتین کے Cellphones میں روزانہ کا اخبار موجود ہوتا ہے۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذالک
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے اوپر بیان فرمودہ فارمولہ کو آج دنیا بھر میں پھیلی جماعت کی کل تعداد کے اردو بولنے اور پڑھنے والوں کا احاطہ کریں تو اس تعداد کا پانچواں حصہ 7لاکھ کے لگ بھگ بنتا ہے۔ جن تک الفضل پہنچنا ضروری ہے۔ تب جا کر بانی الفضل حضرت مصلح موعود ؓ کا ٹارگٹ حاصل ہوتا ہے۔ اگر دنیا بھر میں پھیلے لاکھوں الفضل سے دل و جان سے پیار و محبت کرنے والے قارئین اپنے تمام وسائل الفضل کی اشاعت کے لئےلگا دیں یعنی سوشل میڈیا کے تمام وسائل جیسے واٹس ایپ، فیس بک، انسٹا گرام، ٹوئٹر پر الفضل کو چسپاں کرنے کے علاوہ Status پر لگانے اور اپنے حلقہ احباب، عزیز و اقارب کو اس کے Links روزانہ کی بنیاد پر کثرت سے بھیجیں تو یہ ٹارگٹ کوئی مشکل نہیں۔ اس لئے مشکل نہیں کہ حضرت مصلح موعود ؓ نے اس جماعتی آرگن کے اجراء کے وقت یہ دعا کی تھی کہ
’’اے میرے مولا! اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس سبب سے بہت سی جانوں کوہدایت ہو۔‘‘
(الفضل 18جون 1913ء)
شکر خداوندی
آج اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے الفضل کی تابناک تاریخ کے آن لائن کے دور میں حضرت مصلح موعود ؑ کی اس با برکت دعا کو پورا ہونے کے دن ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے کہ الفضل کے فیض کو لاکھوں تک پہنچا ہوا دیکھا۔ اے اللہ! ہم گواہ ہیں کہ تونے رِجَالٌ مِّنْ ھُوْلَاءِ الْفَارِسِ کے ایک با برکت شخص کی دعاؤں کو سنتے ہوئے الفضل کی تعداد کو لاکھوں تک پہنچایا اور ہم یقین محکم رکھتے ہیں کہ آئندہ ہماری نسلوں میں یہ پیارا الفضل کروڑوں کو فیض پہنچا رہا ہو گا۔
یہاں وہ دُعا دینی مناسب معلوم ہوتی ہے جو سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ؓ (مصلح موعود) نے 18 جون 1913ء کو ہفتہ وار الفضل جاری فرماتے ہوئے کی۔
’’خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے میں الفضل جاری کرتا ہوں… میں بھی اپنے ایک مقتدر اور راہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحر ناپیدا کنار میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز و انکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ بِسۡمِ اللّٰہِ مَجۡرٖٮہَا وَ مُرۡسٰٮہَا۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے۔ اے میرے قادر مطلق خدا! اے میرے طاقتور بادشاہ! اے میرے رحمان، رحیم مالک! اے میرے رب!میرے مولا!میرے ہادی! میرے رازق! میرے حافظ! میرے ستار! میرے بخشنہار! ہاں اے میرے شہنشاہ جس کے ہاتھوں میں زمین و آسمان کی کنجیاں ہیں اور جس کے اذن کے بغیر ایک ذرہ اور ایک پتہ نہیں ہل سکتا جو سب نفعوں اور نقصانوں کا مالک ہے۔ جس کے ہاتھ میں سب چھوٹوں اور بڑوں کی پیشانیاں ہیں۔ جوپیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے۔ جو مار کر پھر جلائے گا اور ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔ جو ایک ذلیل بوند سے انسان کو پیداکرتا ہے۔ جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت اگاتا ہے۔ ہاں اے میرے دلدار میرے محبوب خدا تو دلوںکا واقف ہے۔ اور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔ میرے حقیقی مالک۔ میرے متولی تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔ تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے۔ تو میرے ارادوں کا واقف ہے۔ میری پوشیدہ باتوں کا راز دار ہے۔ میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امیدوار ہوں۔ تو جانتا ہے کہ میں کمزور ہوں میں ناتواں ہوں۔ میں ضعیف ہوں۔ میں بیمار ہوں۔ میں تو اپنے پہلے کاموں کا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا۔ پھر یہ اور بوجھ اٹھانے کی طاقت مجھ میں کہاں سے آئے گی۔ میری کمر تو پہلے ہی خم ہے۔ یہ ذمہ داریاں مجھے اور بھی کبڑا کر دیں گی۔ ہاں تیری ہی نصرت ہے جو مجھے کامیاب کر سکتی ہے۔ صرف تیری ہی مدد سے میں اس کام سے عہدہ برآ ہو سکتا ہوں۔ تیرا ہی فضل ہے۔ جس کے ساتھ میں سرخرو ہو سکتا ہوں اور تیرے ہی رحم سے میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہوں۔ دین کی ترقی اور اس کی نصرت خود تیرا کام ہے اور تو ضرور اسے کرکے چھوڑے گا مگر ثواب کی لالچ اور تیری رضا کی طمع ہمیں اس کام میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ پس اے بادشاہ ہماری کمزوریوں پر نظر کر اور ہمارے دلوں سے زنگ دور کراسلام کی ترقی کے دن پھر آئیں اور پھر یہ درخت بارآور ہو اور اس کے شیریں پھل ہم کھائیں اور تیرا نام دنیا میں بلند ہو تیری قدرت کا اظہار ہو۔ نور چمکے اور ظلمت دور ہو۔ ہم پیاسے ہیں اپنے فضل کی بارش ہم پر برسا اور ہمیں طاقت دے کہ تیرے سچے دین کی خدمت میں ہم اپنا جان و مال قربان کریں اور اپنے وقت اس کی اشاعت میں صرف کریں۔ تیری محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو اور تیرا عشق ہمارے ہر ذرہ میں سرایت کر جائے۔ ہماری آنکھیں تیرے ہی نور سے دیکھیں اور ہمارے دل تیری ہی یاد سے پُرہوں اور ہماری زبانوں پر تیرا ہی ذکر ہوتو ہم سے راضی ہو جائے اور ہم تجھ سے راضی ہوں تیرا نور ہمیں ڈھانک لے اے میرے مولا اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس سبب سے بہت سی جانوں کوہدایت ہو۔ میری نیتوں کا تو واقف ہے، میں تجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے دل میں خیال آنے سے پہلے تجھے اس کی اطلاع ہوتی ہے۔ پس تو میرے مقاصد و اغراض کو جانتا ہے اور میری دلی تڑپ سے آگاہ ہے لیکن میرے مولا میں کمزور ہوں اور ممکن ہے کہ میری نیتوں میں بعض پوشیدہ کمزوریاں بھی ہوں تو ان کو دور کر اور ان کے شر سے مجھے بچالے اور میری نیتوں کو صاف کر اور میرے ارادوں کو پاک کر تیری مددکے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ پس اس ناتوان و ضعیف کو اپنے دروازہ سے خائب و خاسر مت پھیریو کہ تیرے جیسے بادشاہ سے میں اس کا امیدوار نہیں تو میرا دستگیر ہو جا اور مجھے تمام ناکامیوں سے بچالے۔ آمین ثم آمین‘‘۔
(الفضل 18جون 1913ء صفحہ3)
اللہ تعالیٰ ان دُعاؤں کا الفضل کو اور ہم سب کو وارث بنائے۔ آمین
(ابو سعید)