• 17 جولائی, 2025

احمدیت کا ورثہ

احمدیت کا ورثہ
میں دوڑتا چلا آیا!

(نوٹ از ایڈیٹر:۔ ادارہ ’’احمدیت کا ورثہ‘‘ کے نام سے یہ ایک نیا سلسلہ شروع کرنے جا رہا ہے۔ جس میں نو مبائعین کے بیعت کرنے کی داستانیں دی جائیں گی ۔اس میں الفضل کے قارئین اپنے آباؤواجداد کی بیعت کے واقعات بھی دے سکیں گے۔

قارئین کو اس کالم کی رونق بننے کی درخواست ہے کہ وہ دل و دماغ میں احمدیت کے مدفون خزانوں کو اپنے بھائیوں کے ازدیاد ایمان و علم کے لئے نکال باہر کریں۔ یہ جماعت احمدیہ کا ایک لازوال ورثہ ثابت ہو گا۔ ان شاء اللہ

مکرم انصر رضا اور ان کے قبول احمدیت کے واقعہ کو خاکسار لاہور سے جانتا ہے اور خاکسار نے یہ داستان برادرم موصوف سے فرمائش بلکہ درخواست کر کے لکھوائی ہے۔ کان اللّٰہ معہ و مع اھلہ)

قبول احمدیت کی میری اس داستان کا عنوان سورۃ یٰسین کی آیت 21، وَ جَآءَ مِنۡ اَقۡصَا الۡمَدِیۡنَۃِ رَجُلٌ یَّسۡعٰی سے لیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ رسولوں کی آواز پر لبیک کہتا ہوا دور کے شہر سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور ایمان لے آیا۔ خاکسار کے ساتھ بھی ایسا ہوا کہ جب فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ کے نشان کے مظہر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی نورانی صورت دیکھی تو دل بے اختیار پکار اُٹھا کہ اگر یہ نورِ مجسم شخص کافر ہے تو دنیا بھر میں کوئی بھی مسلمان نہیں۔

دشمن مبلغ

مشہور معاند احمدیت مولوی ثناءاللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
’’مرزائی اخبار اور مرزائی لیڈر خاکسار کو اپنا بدترین دشمن لکھا اور کہا کرتے ہیں۔ میں اس کے جواب میں کہا کرتا ہوں۔میں دشمن نہیں بلکہ مرزا قادیانی اور امت مرزائیہ کا آنریری مبلغ ہوں جو کلام مرزا کو ناواقفوں تک بے تنخواہ پہنچاتا ہوں۔‘‘

(تعلیمات مرزا۔ صفحہ3 بحوالہ ردِّ قادیانیت جلد نہم صفحہ۔159)

سیّدنا حضرت مصلح موعود ؓ نے اسی قسم کا واقعہ تفسیر کبیر میں درج فرمایا ہے۔ حضورؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی بیعت کی۔ بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی۔ وہ بے ساختہ کہنے لگے کہ مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حیرت سے فرمایا وہ کس طرح؟ وہ کہنے لگے میں مولوی صاحب کا اخبار اور ان کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور میں ہمیشہ دیکھتا کہ ان میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی۔ ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلہ کی کتابیں دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے اور جب میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا۔ تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الٰہی سلسلہ کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آ جاتی ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ487)

خاکسار کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ 1974ء میں، جب میری عمر 16 برس تھی، مولویوں نے ملک گیر فساد برپا کرکے میرے جیسے احمدیت سے ناواقف لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا۔

پہلی نظر میں عشق

اس کے دو تین برس بعد میں نے ایک رات سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو خواب میں دیکھا۔ خواب کچھ یوں تھا کہ میں ایک ہسپتال کے ایک بڑے سے کمرے میں کھڑا ہوں جس کی اونچی چھت ہے۔ میں ایک دم وہاں سے نکل کر دوڑتا ہوا ایک ہال کے دروازہ تک پہنچا اور اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ دائیں طرف اسٹیج پر حضورؒ تشریف فرما ہیں اور مجھے دیکھ کر فرماتے ہیں ’’انصر! تم بڑی دیر سے آئے ہو‘‘ میں نے عرض کیا کہ حضور! میرے بھائی کا آپریشن تھا۔ اگلے ہی روز ایک احمدی دوست تشریف لائے اور کہا کہ حضورؒ لاہور تشریف لائے ہیں تم ان سے ملنا چاہوگے؟ میں نے خوشی سے کہا کہ ضرور۔ میں نے تو ابھی کل رات ہی انہیں خواب میں دیکھا ہے۔ اس وقت تک میں احمدیت کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا اور یقینِ کامل حاصل نہیں تھا۔بہرحال خواب کا یہ دوسرا حصہ تو فورًا ہی پورا ہوگیا۔ پہلا حصہ یعنی ہسپتال کے کمرے والا بھی چند دنوں بعد پورا ہوگیا جب مجھے اپنے ایک کزن کی عیادت کے لئے سی ایم ایچ لاہور جانا پڑا۔ وہ جس کمرے میں تھا اسے دیکھ کر میں ہکابکا رہ گیا کیونکہ وہ بعینہ وہی کمرہ تھا جسے میں نے خواب میں دیکھا تھا۔یاد رہے کہ اس سے پہلے خاکسار کبھی بھی سی ایم ایچ نہیں گیا تھا اور وہ کمرہ تو دور، وہ ہسپتال بھی نہیں دیکھا تھا۔

اب آتے ہیں اس ملاقات کی طرف جس نے میری زندگی بدل دی۔ میرے احمدی دوست میاں مظفر صاحب سنت نگر سے مجھے سائیکل پر بٹھا کر کینٹ میں واقع مکرم حمید نصراللہ خان مرحوم امیر جماعت احمدیہ لاہور کے گھر لے گئے۔جو لوگ لاہور سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں علاقے ایک دوسرے سے کتنے دور ہیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو حضورؒ احباب جماعت سے مختصر خطاب کے بعد گھر کے اندر تشریف لے جا چکے تھے اور احباب حضورؒ سے مصافحہ کے لئے قطار میں کھڑے تھے۔ ہم دونوں بھی قطار میں کھڑے ہوگئے اور جب اپنی باری پر اندر پہنچے تو وہی منظر تھا جس کا شروع میں خاکسار نے بیان کیا ہے کہ ایک نہایت نورانی وجود پر نظر پڑی اور وہی ہوا جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ He came he saw and he conquered۔ پہلی نظر میں اسیرِ محبت ہونے کا سنا تھا لیکن تجربہ اس دن ہوا۔ میرے پاؤں تو اسی جگہ تھے لیکن میری روح دوڑتی ہوئی اپنے پیارے آقا کے قدموں میں جا گری اور مجھے یقین کامل ہوگیا کہ وہی دین سچا ہے جس کے نمائندہ اور داعی حضورؒ ہیں۔

1979ء میں خاکسار نے پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کی۔ وہاں خاکسار کے احمدی دوست میرا تعارف غیراحمدی کی حیثیت سے کرواتے تھے جس پر میں ناراض ہوتا تھا کہ میں غیراحمدی نہیں، احمدی ہوں۔ اس پر وہ کہتے کہ تم نے ابھی بیعت نہیں کی تو میں کہتا کہ اگر بیعت فارم پر دستخط کرنے سے ہی کوئی احمدی ہوتا ہے تو لائیں ابھی مجھ سے دستخط کروائیں۔ تب ان کا بہانہ یہ ہوتا تھا کہ تم ابھی چھوٹے ہو ابھی مزید مطالعہ کرو ،سوچو، سمجھو پھر بیعت کرنا۔ لاہور میں بھی احبابِ جماعت مجھے یہی کہتے کہ ابھی تم چھوٹے ہو یہاں تک کہ جنوری 1982ء میں ہمارے مقامی سیکرٹری اصلاح و ارشاد مکرم عبداللطیف ستکوہی مرحوم نے خاکسار سے پوچھا کہ کیا تم بیعت فارم پر دستخط کے لئے تیار ہو۔ خاکسار نے فورًا کہا کہ ملک صاحب !میں تو کب سے کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے بیعت فارم پر دستخط کروالیں۔ دل سے تو میں اس دن سے احمدی ہوں جس دن سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ پر پہلی نظر پڑی تھی۔ چنانچہ اس روز خاکسار نے بیعت فارم پر دستخط کردیئے۔ فالحمد للہ علیٰ ذٰلک! اس کے بعد پھر وہی ہوا جو اس شعر میں کہا گیا ہے۔

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری
تنہا پسِ زنداں کبھی رسوا سرِ بازار

چونکہ ہر نومبائع پر ایک ہی قسم کے حالات وارد ہوتے ہیں جن کی تفصیلات میں فرق ہوسکتا ہے لہٰذا اسے بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔

پھر آگ بجھ گئی

اس کے تقریبًا تین سال بعد خاکسار کی شادی ہوگئی۔ اس وقت خاکسار کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو خاکسار کے احمدی ہوجانے کا علم نہیں تھا۔ خاکسار کی چھوٹی عمر میں ہی نسبت طے پاچکی تھی جس سے سرمو انحراف کی نہ جرأت تھی نہ اجازت۔چنانچہ ایک غیراحمدی مولوی صاحب نے نکاح پڑھایا۔شادی کے کچھ عرصہ بعد خاکسار نے اپنی اہلیہ کو بتایا کہ خاکسار احمدی ہوچکا ہے۔ اس پر انہیں کافی پریشانی ہوئی کیونکہ وہ بچپن سے یہی سنتی آئی تھیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ستم بالائے ستم یہ کہ خاکسار نے انہیں تبلیغ کرنی شروع کردی جس پر وہ مزید پریشان ہوگئیں اور ایک دن تنگ آکر کہا کہ آئندہ سے انہیں تبلیغ نہ کروں۔اور یہ کہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دوں۔ اس دوران تقریبًا تین سال بیت گئے جس عرصہ میں خاکسار کے ہاں دو بیٹیاں پیدا ہوگئیں۔اس سے خاکسار کو یہ پریشانی لاحق ہوگئی کہ ایک غیراحمدی ماں بیٹیوں کی احمدی طریق پر کیسے پرورش کرسکتی ہے۔خاکسار نے اپنی اس پریشانی کا ذکر ایک بزرگ احمدی دوست سے کیا جنہوں نے سمجھایا کہ اگر تختی یا سلیٹ صاف ہو تو اس پر لکھنا آسان ہوتا ہے لیکن اگر پہلے سے اس پر کچھ لکھا ہو تو پہلے اسے صاف کرنا پڑتا ہے پھر لکھا جاتا ہے۔ خاکسار نے کہا کہ بیٹیاں بڑی ہورہی ہیں لہٰذا اتنا وقت نہیں ہے۔ اس پر اس بزرگ دوست نے دعا کا ایک طریق بتایا جو کہ خاکسار نے اگلے ہی روز شروع کردیا۔ اس کے دو ہفتے بعد ایک دن جب خاکسار کام سے واپس گھر آیا تو میری اہلیہ مجھے ایک طرف لے گئیں اور بولیں کہ حضور کو میری بیعت کا خط لکھ دو۔ میری حیرانگی کی انتہا نہ رہی اور پوچھا کہ یہ تبدیلی اچانک کیسے واقع ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جب سے آپ نے مجھے اپنے احمدی ہونے کا بتایا ہے میں بہت بے چین تھی اور میرے سینے میں ایک آگ لگی ہوئی تھی۔ لیکن اب دو ہفتے سے میرے سینے میں نہ صرف وہ آگ بجھ چکی ہے بلکہ ایک ٹھنڈک سی محسوس ہوتی ہے۔ پہلے میں نے سمجھا کہ یہ عارضی ٹھنڈک ہے لیکن اب یہ مستقل طور پر قائم ہے۔ لہٰذا مجھے یقین ہوگیا کہ اللہ نے میری دعا کو قبول کرتے ہوئے وہ بے چینی کی آگ بجھادی ہے اور ٹھنڈک عطا فرمادی جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ احمدیت سچی ہے الحمد للہ۔ اس میں مزید حیرت کی یہ بات ہے کہ جس روز خاکسار نے اپنی اہلیہ کے لئے دعا شروع کی اسی روز اللہ تعالیٰ نے اس کی بے چینی کی آگ بجھا کر ٹھنڈک عطا کردی۔ الحمدللہ!

اس کے بعد سے بفضل اللہ تعالیٰ خاکسار کی اہلیہ دن بدن احمدیت پر ایمان و ایقان میں ترقی کرتی رہیں اور جب 1998ء میں کینیڈا آنے کے بعد خاکسار نے وقف کا ارادہ کیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ اب ہمیں اسی الاؤنس میں گزارا کرنا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ مجھے جھونپڑے میں بھی رکھیں گے تو میں بخوشی وہاں رہ لوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہمارے بچوں سے کہا کہ تمہارا باپ احمدیت کے لئے پاگل ہے اور اب اس کی آمدن بہت محدود ہونے والی ہے۔ لہٰذا آج کے بعد آپ نے ان سے کوئی فرمائش نہیں کرنی۔ اور بحمدللہ ایسا ہی ہوا۔ خاکسار کے بچوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا اور ناجائز تو کیا کبھی جائز فرمائشیں بھی نہیں کیں۔ جو کچھ خاکسار ان کے لئے مہیا کرسکتا تھا وہ سب اسی میں خوش رہے اور کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے۔

’’بیعت کرلیں گے ان شاءاللہ!‘‘

اہلیہ کی بیعت کے چند سال بعد اسی طرح کا ایک واقعہ ہوا۔ ہم گھر میں سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ویڈیو کیسٹس دیکھا اور سنا کرتے تھے۔ والدہ صاحبہ جو پہلے شدید مخالف تھیں اور جماعت کو بُرا بھلا کہا کرتی تھیں کہ انہوں نے ہمارے گھر کا سکون برباد کردیا ہے، وہ ایک دن میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ میری بیعت کا مرزا صاحب کو خط لکھ دو۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا کہ اماں! آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔ تو وہ بولیں کہ مرزا طاہر احمد صاحب جب بھی نبی اکرم ﷺ کا نام لیتے ہیں تو ﷺ کہتے ہیں، میرے آقا! میرے آقا !کہتے ہیں اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوتے ہیں تو ایسا شخص اور اس کی جماعت ہرگز کافر نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ بیعت کا خط لکھنے کے بعد غالبًا 1994ء میں ایم ٹی اے پرپہلی عالمی بیعت میں شامل ہوئیں۔ اس کے چند سال بعد بحمد للہ والد صاحب نے بھی بیعت کرلی۔

والدین کی بیعت کے متعلق ایک ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ ایم ٹی اے پر ایک پروگرام بنام ’’ملاقات‘‘ مؤرخہ 10 جولائی 1994ء میں مکرم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری دنیا بھر سے آئے ہوئے خطوط پڑھتے تھے اور سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ان کے جوابات مرحمت فرمایا کرتے تھے۔ ایک پروگرام میں پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا کہ حضور! لاہور سے ایک دوست کا خط ہے جس میں انہوں نے ایک نکتہ لکھ کر بھیجا ہے۔ حضورؒ نے فورًا فرمایا ’’دیکھو یہ انصر رضا کا خط ہوگا‘‘ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خط کے آخر پر نام دیکھا اور کہا کہ جی حضور! یہ انہی کا خط ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ یہ اکثر لکھا کرتے ہیں کہ میرے والدین کے لئے دعا کریں کہ وہ بیعت کرلیں۔ کیا اس میں لکھا ہے کہ انہوں نے بیعت کرلی ہے؟ منیر جاوید صاحب نے ایک نظر پھر خط پر دوڑائی اور کہا کہ حضور! اس میں تو نہیں لکھا۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ کرلیں گے ان شاءاللہ۔ اس پر خاکسار کو یقین ہوگیا کہ ان شاءاللہ ایک دن میرے والدین ضرور بیعت کرلیں گے۔ چنانچہ حضورؒ کی بات پوری ہوئی اور ایسا ہی ہوا۔ فالحمدللہ علیٰ ذٰلک!

آج الحمد للہ مجھ ناچیز کو بطور مبلغ سلسلہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے۔ اس سے قبل جامعہ احمدیہ میں پڑھانے کی سعادت بھی پا چکا ہوں۔ اللہ خاتمہ بالخیر کرے۔ آمین

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی، نمائندہ الفضل آن لائن برائے کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 14؍جنوری 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ