آرکٹک میں درجہ حرارت منفی 30 ڈگری تک گر چکا ہے۔ ہر چیز پر برف کی دبیز تہ چڑھ چکی ہے۔ تا حد نگاہ برف کی سفید چادر کفن کی مانند بچھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ بادی النظر میں یہاں کسی ذی روح کی موجودگی محالات میں سے معلوم ہوتی۔ ابھی موسم سرما کا آغاز ہے، اگلے چند ماہ میں سردی میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور صرف سخت جان جانور ہی اس ماحول میں رہ سکیں گے۔ یہاں موجود جانور بھی برف کی مانند بالکل سفید ہوتے ہیں۔ ماحول سے یہ مطابقت ہی انکی بقاء کی ضامن ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی برفانی خرگوش یا لومڑی حتی کہ برفانی ریچھ بھی چند میٹر کے فاصلے سے آپ کو نظر نہ آئے۔ برفانی لومڑی کی قوت سماعت حیرت انگیز ہوتی ہے۔ یہ ایک جگہ بے سدھ ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور برف کی تہ میں موجود چوہوں کی موجودگی کا پتہ ان کی آوازوں سے لگاتی ہے۔ چوہے کی موجودگی کا پتہ چلتے ہی لومڑی چند فٹ تک فضاء میں بلند ہوتی ہے اور ناک کے بل عین اس جگہ برف میں غوطہ لگاتی ہے جہاں چوہا موجود ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح شکار کرتی ہیں اور شکار کیے ہوئے اضافی چوہوں کو برف کی تہ میں چھپا دیتی ہیں۔ نیشنل جیو گرافک چینل کے لیے آرکٹک میں برفانی لومڑی کو فلمانے والے ایک فوٹو گرافر نے برفانی لومڑی کو ایک دن میں 90 چوہوں کا شکار کرتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سےلومڑی نے کچھ کھائے اور باقی برف میں چھپا دیے۔
یہیں برفانی خرگوش بھی موجود ہیں۔ انہوں نے برف میں خود کو چھپانا اچھی طرح سیکھ لیا ہے۔ یہ کوئی بھی غیر ضروری حرکت نہیں کرتے کیونکہ اس طرح آسانی سے برفانی لومڑی یا فضاء میں اڑتے باز کی نظروں میں آ سکتے ہیں۔ ان کی دونوں آنکھیں 360 ڈگری تک گھوم سکتی ہیں۔ چنانچہ انہیں ارد گرد سے چوکنا رہنے کے لیے گردن گھمانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ برفانی خرگوش آرکٹک کا تیز ترین جانور ہے جو برف پر 37 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آرکٹک کی فضاء میں اڑنے والے باز بھی سر سے پاؤں تک بالکل سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ یہ بنا کوئی آواز پیدا کیے انتہائی خاموشی سے اڑتے ہیں۔ ان کی نظر بلا کی تیز ہوتی ہے۔ یہ برف پر ہونے والی معمولی سی حرکت کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ نظروں میں آتے ہی چوہے پر جھپٹتے ہیں اسے دبوچ کر تقریباً سالم ہی نگل لیتے ہیں۔ باز کے علاوہ یہاں Ptarmigan نامی پرندے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ جسامت میں عام گھریلو مرغی جتنا ہوتا ہے اور مرغی سے مشابہ ہونے کی وجہ سے اسے برفانی مرغی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ بھی بالکل سفید ہوتا ہے۔ اس کے پاؤں چھوٹے چھوٹے پروں سے ڈھکے ہوتے ہیں۔ اس طرح یہ جما دینے والی سردی میں محفوظ رہتے ہیں۔
آرکٹک میں جاڑا بہت بے رحم ہو جاتا ہے۔ دن مختصر راتیں لمبی اور سرد ترین ہوتی ہیں۔ ایسے ماحول میں زندہ رہنے کے لیے خوراک کا حصول ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اپنی بقاء کے لیے یہ جانور مسلسل جدو جہد کرتے نظر آتے ہیں۔ جب سورج کئی کئی ماہ کے لیےنظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے پھر بھی یہ جدو جہد رکتی نہیں۔ یہاں پرندے اڑتے ہیں۔ خرگوش کھودتے ہیں اور لومڑیاں اسی طرح برف میں غوطے لگا کر خوراک تلاش کرتی ہیں۔ آرکٹک میں بود و باش رکھنے والے ان جانوروں نے نسل در نسل اپنی بقاء کے لیے ایسے سخت موسم میں خود کو زندہ رکھنا سیکھا ہے اور بہترین جینز اپنی اگلی نسلوں میں منتقل کیے ہیں۔ نظروں سے اوجھل زمین کے مشکل ترین ماحول میں دوڑتی بھاگتی یہ ننھی منی خوبصورت مخلوق خالق کی ایسی صناعی ہے جن کے کارنامے دیکھ کر دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے ’’فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔‘‘
(مدثر ظفر)