• 29 اپریل, 2024

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 31)

آؤ ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 31

اسم صفت اس کی اقسام اور ان اقسام کی تفاصیل زیر بحث ہیں۔ گزشتہ سبق میں ہم نے اسم صفت کی قسم صفت نسبتی پہ بحث مکمل کی تھی۔ آج ہم اسم صفت کی قسم صفت مقداری پہ بات کریں گے۔

صفت مقداری: یہ کسی اسم کی ایسی صفت ہوتی ہے جو کسی چیز کی مقدار یا جسامت کو ظاہر کرتی ہے۔

Quantitative Adjective (صفت مقداری): A word that modifies (اثر ڈالنا) a noun (اسم) by indicating a number/quantity is called a quantitative adjective.

مقدار دو قسم کی ہے۔ ایک معین (یعنی جو مقرر ہو، فکسڈ ہو) دوسری غیر معین۔

غیر معین: یہ ایک ایسی مقدار ہوتی ہے جو مقرر نہیں ہوتی۔ جیسے بہت، تھوڑا، کم، کچھ، زیادہ وغیرہ۔

(ا)۔ یہ الفاظ تعداد(یعنی جو چیز گنی جاسکے) اور مقدار (جو چیز گنی نہ جاسکے مگر وزن کی جاسکے) دونوں کے لئے آتے ہیں۔ اور یہ کب مقدار کے لئے استعمال ہورہے ہیں اور کب تعداد کے لئے اس کا فیصلہ اس اسم سے ہوتا ہے جس کے لئے یہ استعمال ہورہے ہوں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ چیز جس کے لئے یہ استعمال ہورہے ہوں کیا وہ گنی جاسکتی ہے یا اسے تولا جاتا ہے۔ جیسے بہت سے آدمی ہیں(تعداد ی)۔ اور بہت سا گڑ رکھا ہے (مقداری)۔

(ب)۔ ان کے علاوہ کتنا، جتنا، اتنا بھی صفات مقداری کے لئے آتے ہیں۔

مثالیں: دیکھو برتن میں کتنا (یعنی کتنی مقدار ہے)پانی ہے۔ جتنا (مقدار)کھانا کھا سکو کھاؤ۔ اتنا پانی مت پیو۔ اُف اتنا بڑا کیڑا۔

بعض موقعوں پہ (یہ اور وہ ) ان معنوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے یہ بڑا بچھو، اب کی برسات کا وہ زور ہے کہ خدا کی پناہ، یہ ڈھیر کتابوں کا پڑا ہے۔

صفات ضمیری: یہ ایسی ضمائر ہوتی ہیں جو صفت کا کام دیتی ہیں۔

There are pronouns ضمائر that work as adjectives.

صفت ضمیری کی امثال جیسے وہ، کون، کون سا، جو، کیا یہ الفاظ جب تنہا آتے ہیں تو ضمیر ہیں اور جب کسی اسم کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں تو صفات ہیں۔

وہ عورت آئی تھی۔ یہ کام مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ کون شخص ایسا کہتا ہے۔ جو کام تم سے نہیں ہوسکتا اسے ہاتھ کیوں لگاتے ہو۔ کیا چیز گر پڑی۔

صفت کی تذکیر و تانیث: اردو زبان میں اسم صفت پہ اس چیز کی جنس کا اثر پڑتا ہے جس چیز کی وہ صفت ہوتی ہے۔ اگر وہ چیز واحد یعنی ایک ہوگی تو صفت کی تحریری شکل اور ہوگی جیسے اچھا لڑکا۔ یہاں ایک لڑکا ہے تو صفت ہے ‘اچھا’ دوسری مثال دیکھیے۔ اچھے لڑکے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے لڑکا سے لڑکے بنا اسی طرح اسم صفت اچھا سے اچھے بن گیا۔ تو چیز کے واحد یا جمع ہونے کا بھی اسم صفت پہ اثر پڑتا ہے۔ اب مذکر اور مونث کا اسم صفت پہ اثر دیکھتے ہیں۔ اچھا لڑکا۔ میں اچھا اسم صفت ہے اور لڑکا مذکر ہے۔ اچھی لڑکی۔ یہاں اچھی اسم صفت ہے اور لڑکی مونث ہے۔ پس آپ نے دیکھا کہ اسم کی جنس تبدیل ہوتے ہی اسم صفت کی شکل بھی بدل گئی۔

قاعدہ: اگر مذکر کے آخر میں (الف) ہوتا ہے تو یہ (الف) بدل کر (ی) سے بدل جاتا ہے۔ اسی طرح جمع میں بھی(الف) کو (ی) سے بدل دیتے ہیں۔ مگر جمع مونث میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اچھا مرد (واحد مذکر)، اچھے (تبدیل ہوگیا) مرد (جمع مذکر)، اچھی عورت (واحد مونث)، اچھی (کوئی تبدیلی نہیں ہوئی) عورتیں (جمع مونث)۔

دیوانہ انسان (واحد مذکر)، دیوانے (تبدیل ہوگیا) انسان (جمع مذکر)، دیوانی عورت (واحد مونث)، دیوانی (کوئی تبدیلی نہیں ہوئی)عورتیں(جمع مونث)۔

یہی اثرات عددی صفات پہ بھی پڑتے ہیں جب چیز کی جنس بدل جاتی ہے۔ جیسے پانچواں مرد (واحد مذکر)، پانچویں عورت (واحد مونث)

However, when a preposition (حرف ربط) comes after a masculine noun (اسم مذکر) then adjective’s (اسم صفت کی شکل) form will be changed and become a passive (مجہول) form.

جیسے پانچواں اونٹ کے بعد اگر حرفِ ربط آجائے تو پانچواں بدل کر پانچویں ہوجائے گا۔ جیسے پانچویں اونٹ پر (حرف ربط) سامان زیادہ لادا گیا۔ لیکن اگر اسم مونث ہو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیسے پانچویں منزل۔ اور وہ لوگ پانچویں منزل پہ رہتے ہیں۔ یہاں منزل مونث ہے اور اس مراد بلڈنگ کا پانچواں لیول ہے۔

صفات کی تصغیر: اردو زبان میں جیسےاسم یا چیز کی جنس اسم صفت پہ اثر انداز ہوتی ہے اسی طرح چیز کا چھوٹا یا بڑا ہونا بھی بعض اوقات اسم صفت پہ اثر انداز ہوتا ہے۔ لمبی چیز اگر کچھ زیادہ ہی لمبی ہو اور اس کا حلیہ عجیب و غریب ہو تو اسے لمبوتری یا لمبوترا بھی کہا جاتا ہے اس میں کسی قدر حقارت یا تنقید بھی پائی جاتی ہے۔ اسی طرح چھوٹے سے چھٹکا وغیرہ۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
جبکہ ہر جوہر قابل کے لئے خدا نے یہی قانون رکھا ہے وہ اپنے خاص بندوں کو مٹی میں پھینک دیتا ہے اور لوگ ان کے اوپر چلتے ہیں اور پیروں کے نیچے کچلتے ہیں مگر کچھ وقت نہیں گزرتا کہ وہ اس سبزہ کی طرح (جو خس و خاشاک میں دبے ہوئے دانے سے نکلتا ہے ) نکلتے ہیں اور ایک عجیب رنگ اور آب کے ساتھ نمودار ہوتے ہیں جو ایک دیکھنے والا تعجب کرتا ہے۔ یہی قدیم سے برگزیدہ لوگوں کے ساتھ سنت اللہ ہے کہ وہ ورطہٴ عظیمہ میں ڈالے جاتے ہیں۔ لیکن نہ اس لئے کہ غرق کئے جاویں بلکہ اس لئے کہ ان موتیوں کے وارث ہوں جو دریائے وحدت کی تہ میں ہیں۔ وہ آگ میں دالے جاتے ہیں نہ اس لئے کہ جلائے جائیں بلکہ اس غرض کے لئے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا تماشا دکھایا جاوے۔ غرض ان سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے اور ہنسی کی جاتی ہے۔ ان پہ لعنت کرنا ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا جلوہ دکھاتا ہے اور اپنی نصرت کی چمکار دکھاتا ہے۔ اس وقت دنیا کو ثابت ہوجاتا ہے اور غیرت الہیٰ اس غریب کے لئے جوش مارتی ہے اور ایک ہی تجلی میں اعداء کو پاش پاش کردیتی ہے۔ سو اوّل نوبت دشمنوں کی ہوتی ہے اور آخر میں اس کی باری آتی ہے۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 177 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

جوہر: ہنر، کمال، لیاقت، عطر، قیمتی پتھر مثلاً ہیرا، یاقوت، یہاں مراد ہے ان خوبیوں کا حامل انسان۔

قابل: قیمتی، نایاب

قانون: Law

مٹی میں پھینک دینا: مشکلات میں سے گزارنا، بظاہر نظر انداز کردینا۔

خس و خاشاک: گھاس پھوس

آب و تاب: چمک دمک، شان و شوکت۔

قدیم سے: جب سے دنیا بنی ہے۔

ورطہ: وہ زمین جہاں راستہ نہ ہو، ہلاکت کا مقام نیز گڑھا، کنواں، غار، بھنور، گرداب پانی کا چکر، مصیبت، تباہی، بربادی۔

عظیمہ: عظیم کی مونث، سخت، شدید۔

غرق: ڈوبنا، تباہ ہونا۔

دریائے وحدت: خدائے واحد کی ہستی کا علم، محبت ِ الہیٰ کا عرفان۔

ٹھٹھا: مذاق، تمسخر۔

جلوہ: تجلی، نظارہ، تائید و نصرت۔

چمکار: چمک، تجلی۔

اعداء: دشمن۔

پاش پاش کرنا یا ہونا: تباہ و برباد کردینا۔

نوبت: وقت، زمانہ، باری۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

اطاعت امام میں معروف کی شرط کا مطلب اور حکمت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ