• 16 جولائی, 2025

ربط ہے جان محمد ؐ سے مری جاں کو مدام (قسط 8)

ربط ہے جان محمد ؐ سے مری جاں کو مدام
انداز نشست میں عمومیت
قسط 8

انبیاء علیہم السلام کے مزاج اور فطرت میں نمودونمائش کی خواہش نہیں ہوتی۔ وہ اللہ تبارک تعالیٰ کے آستانے پر جھکا رہنا پسند کرتے ہیں اور ایمان یہ ہوتا ہے کہ تمام تر عزت و عظمت اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ وہ اہل دُنیا کی مدح و ثنا کو بے حقیقت سمجھتے ہیں۔ حقیقی تعریف وہ ہوتی ہے جو اللہ پاک کے دربار سے ملے۔ وہ فنا فی اللہ ہوتے ہیں ہوائے نفس قریب بھی نہیں آتی۔ ذات ’نفسانیت‘ انانیّت کو کچل کر ہی دربارِ الٰہی میں رسائی ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عزت ملتی ہے وہ آسمان اور زمین کی وسعتوں پر حاوی اور لازوال ہوتی ہے۔ انبیا ئے کرام ایک ہی منبع نور سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ آنحضورؐ سراج منیر ہیں اور بدر منیر آپ کے انوار منعکس کرتا ہے۔ اسی لئے دونوں کی ادائیں مماثل ہیں۔

شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے
احمدؑ کو محمدؐ سے تم کیسے جدا سمجھے

حضرت صوفی عبدالرزاق کاشانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب فرمایا ہے:
’’تمام انبیائے گزشتہ علوم و معارف میں امام موعود ؑ کے تابع ہوں گے اس لئے کہ امام موعود ؑ کا باطن دراصل محمد مصطفی ؐ کا باطن ہے‘‘

آنحضور ؐ کی سیرت و سوانح کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ اپنے لئے کوئی خصوصی اہتمام پسند نہ فرماتے۔
’’آنحضرت ؐ اور حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو پہلے مدینہ کی نواحی بستی قباء میں قیام فرمایا۔ مدینہ کے لوگ فرطِ اشتیاق سے جوق در جوق آپؐ کے دیدار کے لئے حاضر ہوئے انہوں نے آپ کو پہلے دیکھا نہیں ہوا تھا۔ محفل میں سردار دو جہاںؐ کے لئے کوئی مخصوص شاندار نشست اور کوئی معیّن ترتیب نہیں تھی۔ حضرت ابو بکر ؓعمر میں آپ ؐسے چھوٹے ہونے کے باوجود بال سفید ہونے کی وجہ سے نسبتاًبڑے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ حضرت ابوبکرؒ کو ہی رسول اللہ ؐ سمجھتے رہے۔ سورج بلند ہوا دھوپ نکلی تو حضرت ابو بکر ؓ نے اپنی چادر سے آنحضور ؐ پر سایہ کیا۔‘‘

(بخاری باب الہجرت)

تعظیم کے اس انداز سے لوگوں کی غلط فہمی دور ہوئی۔

آپؐ نے کبھی بھی اپنے لیے کوئی امتیازی نشان، وضع قطع، لباس اور نشست پسند نہیں فرمائی حتیٰ کہ ایک محفل میں داخل ہونے پر احتراماًکھڑے ہونے سے بھی منع فرمایا۔
’’میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمی کھڑے ہوتے ہیں‘‘

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب الرجل یقوم للرجل یعظمہ بذالک)

آپؐ نے فرمایا یہ تو ایرانیوں کا رواج ہے میں بادشاہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے نبی بنایا ہے

(تفسیر کبیر جلد 20 صفحہ348)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوانح میں بھی اپنی ذات کے لئے کوئی امتیاز نہیں ملتا۔

جب سے یہ نور ملا نور پیمبر ؐسے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیٰ ؐپر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اُس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے

نشست کے انداز میں عمومیت کا ایک واقعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ڈیرہ بابانانک کے دورے میں پیش آیا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعٰیل ؓ کی تحریر ملاحظہ کیجئے:
’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مع چند خدام کے بابا صاحب کا چولہ دیکھنے کے لئے ڈیرہ بابانانک تشریف لے گئے تو وہاں ایک بڑ کے درخت کے نیچے کچھ کپڑے بچھا کر جماعت کے لوگ مع حضور ؑ کے بیٹھ گئے مولوی محمد احسن صاحب بھی ہمراہ تھے۔ گاؤں کے لوگ حضور ؑ کی آمد کی خبر سن کروہاں جمع ہونے لگے تو ان میں سے چند آدمی جو پہلے آئے تھے مولوی محمد احسن سے مصافحہ کر کرکے بیٹھتے گئے تین چار آدمیوں کے مصافحہ کے بعد یہ محسوس کیا گیا کہ ان کو دھوکا ہوا ہے اس کے بعد مولوی محمد احسن صاحب ہر ایسے شخص کو جو ان سے مصافحہ کرتا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی طرف متوجہ کردیتے کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ یہ ہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ بعض اوقات آنحضور ؐ کی مجلس میں بھی ایسا دھوکا لگ جاتا تھا دراصل چونکہ انبیاء کی مجلس بالکل سادہ اور ہر قسم کے تکلفات سے پاک ہوتی ہے اور سب لوگ محبت کے ساتھ باہم ملے جلے بیٹھے رہتے ہیں۔ اور نبی کے لئے کوئی خاص شان یا مسند وغیرہ کی صورت نہیں ہوتی اس لئے اجنبی آدمی بعض اوقات عارضی طور پر دھوکا کھا جاتا ہے

دروازے پر دربان ’نہ پہلے سے وقت لینے اور داخلے کے لئے اجازت کی ضرورت نہ کوئی مخصوص نشست اللہ والوں کی سادگی کا انداز دیکھئے

حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’کرنل الطاف علی صاحب نے مجھ سے کہا کہ میں حضور ؑسے تخلیہ میں ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا تم اندر چلے جاؤ باہر سے ہم کسی کو اندر نہیں جانے دیں گے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ کرنل صاحب اندر چلے گئے اور آدھے گھنٹے بعد جب باہر آئے تو چشم پر آب تھے۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ جب میں اندر گیا تو حضرت صاحب اپنے خیال میں ایک بورئیے پر بیٹھے تھے مگر بورئیے پر حضور کا ایک گھٹنا ہی تھا باقی زمین پر بیٹھے تھے میں نے کہا حضور زمین پر بیٹھے ہیں تو حضور نے سمجھا کہ غالباً میں (یعنی کرنل صاحب) بورئیے پر بیٹھنا پسند نہیں کرتا اس لئے حضور ؑنے اپنا صافہ بورئیے پر بچھا دیا اور فرمایا ’آپ یہاں بیٹھیں‘ یہ حالت دیکھ کر میرے آنسو نکل آئے میں نے عرض کی کہ اگرچہ میں ولایت میں بپتسمہ لے چکا ہوں مگر اتنا بھی بے ایمان نہیں ہوں کہ حضور ؑکے صافہ پر بیٹھ جاؤں۔ حضورؑ فرمانے لگے کوئی مضائقہ نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں میں صافہ ہٹا کر بورئیے پر بیٹھ گیا اور اپنا حال سنانے لگا کہ میں شراب پیتا ہوں اور دیگر گناہ بھی کرتا ہوں لیکن میں آپ کے سامنے اس وقت عیسائیت سے توبہ کرکے احمدی ہوتا ہوں‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 29۔ اپریل تا 5 مئی 2005)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

(امۃ الباری ناصر۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 21 جنوری 2022