• 16 جولائی, 2025

سوشل میڈیا ہماری سماجی دوری کا سبب ہے

معاشرتی و سماجی حیوانوں، یعنی انسانوں میں دوری کی وجہ در اصل سوشل میڈیا ہے ۔ وہ وقت کب کا گزر چکا جب سارا خاندان کھانے کی میز پر اکٹھے بیٹھا آپس میں خوش گپیوں میں مشغول نظر آتا تھا۔

آج کے دور میں تو آپ کو ریستوران میں لوگ تو نظر آ رہے ہوتے ہیں مگر زیادہ تر اپنے اپنے فون ،ٹیبلٹ یا لیپ ٹاپ کی سکرینوں پر محو، آپس میں کوئی بات نہیں کرتا ۔ یہاں تک کہ ویٹرز بھی موقع ہو تو اپنا فون نکال کر ٹیکسٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

گھروں میں بچے ویڈیو گیمز یا پھر یو ٹیوب پراپنا پسندیدہ پروگرام دیکھنے میں مگن رہتے ہیں اور بڑے ویب سائٹس اور ای میل دیکھنے میں مشغول ۔ کوئی آپس میں بات نہیں کرتا جیسے کبھی گھنٹوں یونہی گپ شپ میں لگا رہنا بھی ایک مرغوب مشغلہ ہوتا تھا ۔ میں نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ دو لوگ ایک ہی میز پر ریستوران میں آمنے سامنے بیٹھے اپنے اپنے فون پر گیمز کھیل رہے ہیں کھانے کے انتظار میں اور آپس میں کوئی بات نہیں ہو رہی۔

ایک مشہور مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ اسپیشلسٹ نے بتایا کہ وہ ایک آن لائن کانفرنس میں شریک تھے مگر افسوس کہ اس میں کسی کو بھی ان سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں تھے۔ یہ سب صرف اپنے سوشل میڈیا رابطے میں اضافہ چاہتے تھے۔ براہ راست تعلق پیدا کرنے میں بالکل دلچسپی نہیں تھی ۔ یعنی انسانی رشتہ اور تعلقات کوئی نہیں چاہتا تھا۔

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا اصلی انسانی رشتوں کی جگہ لے سکتا ہے؟ کیا آپ سوشل میڈیا پر کسی کا ہاتھ تھام کر اس کی دلجوئی کر سکتے ہیں یا گلے لگا سکتے ہیں اور کیا وہ احساس اور جذبات جو کسی کے چہرے اور آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں یا حرکات و سکنات ظاہر کرتی ہیں وہ سوشل میڈیا دکھا سکتا ہے ؟

مصنوعی ذہانت انسانیت، جذبات ، محسوسات معاشرتی قدروں اور اخلاقیات کی جگہ نہیں لے سکتی مگر انہیں تباہ ضرور کر رہی ہے اور اس کے نتیجے میں انسانی تعلقات اور رشتے برباد ہو رہے ہیں۔

کیا آپ کے خیال میں ٹیکنالوجی دنیا میں بہتری لا رہی ہے یا پھر غیر انسانی رویوں اور بے حسی کو فروغ دے رہی ہے؟

یا پھر دراصل اسے بنایا ہی اس لئے گیا تھا کہ سماجی تعلقات کے فروغ کے بہانے ہم سب پر گہری نظر رکھی جا سکے، ہماری سوچوں کا دھارا اپنے حق میں موڑ کر ہمیں ہراساں، کمزور اور لالچی بنایا جا سکے تاکہ ہم ایک اچھا خریدار بنے رہیں جو ہر وقت پیسے اور طاقت کی دوڑ میں بھاگتا رہے۔

سوشل میڈیا مینجر یا آپکا کوئی آن لائن اسٹور ہے جہاں ہر لمحے کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے تو یہ ایک کاروباری ذمہ داری ہے لیکن اگر ایسی کسی ضرورت کے بغیر آپ وہاں پھنس کر رہ گئے تو آپ اپنی تعلیم، اپنا روزگار اور اپنے تعلقات تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

ہر ایک چیز خصوصاً سوشل میڈیا کو اتنا ہی وقت دینے کی ضرورت ہے جتنی انکی اہمیت ہے ۔فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا کمپنیز تو چاہیں گی زیادہ سے زیادہ لوگ انکی ویب سائٹ پر رہیں اور آپکے وہاں ہونے ہی کو وہ سیل کرتی ہیں اور اس سے پیسہ کماتی ہیں مگر آپ اگر اس سے پیسہ نہیں کما رہے اور اپنے کاروبار کا نقصان کر رہے ہیں تو یہ تشویشناک بات ہے۔ کسی بھی چیز کی ایسے عادت جو آپکو اس طرح وقت برباد کروانے پر مجبور کرے در اصل ایک نشہ ہی ہوتا ہے ۔ یہ نشہ ایک خاص طرح کے ہارمون کے اخراج سے ہوتا ہے جسے ڈوپامین کا نام دیا گیا ہے اور یہ ہارمون وہی ہے جو کسی بھی خطرناک نشے جیسے شراب، چرس، ہیروئن اور دیگر ایسے نشوں کی صورت میں ہمارے دماغ میں خارج ہو کر نشے کی حالات پیدا کرتا ہے۔

اگر ایک وقت میں پاکستان سے ہی بیس لاکھ لوگ فیس بک پر ہیں یا موبائل سے لاگ ان ہیں تو فیس بک یہ بیس لاکھ نگاہیں ہی فروخت کر رہی ہے . ان لوگوں کو جو فیس بک پر اشتہار دینا چاہتےہیں کہ، ان بیس لاکھ لوگوں کو آپکا اشتہار نظر آنے کے لیے فیس بک زیادہ رقم مانگتی ہے اور اور اسی بیس لاکھ کے مختلف سیگمنٹ کو الگ الگ فروخت کرتی ہے، کسی کو فلاں شہر سےلاگ ان، ایسے حضرات کی توجہ اور نگاہیں درکار ہیں جو بیس سے تیس سال کے ہیں اور کوئی اسپورٹس کھیلتے ہیں تاکہ وہ جوتوں کے اشتہار انکو دیکھا سکیں اور کسی کو کسی اور بڑے شہرکی لڑکیوں کی نگاہوں کی خریداری کرنی ہے کہ انکو شیمپو یا چاکلیٹ کے اشتہار دکھائیں جائیں۔

فیس بک ہر ممکن کوشش کرے گا کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فیس بک پر نہ صرف لائے بلکہ ہر وقت رہنے پر مجبور کرے مگر آپکو فیصلہ کرنا ہے کہ آپکے لیے کیا اہم ہے ؟

آپکے لیے اہم ہے آپکی صحت، آپ کا کاروبار، آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا، فیملی سے باتیں کرنا، انکے ساتھ وقت گزارنا، مگر آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں اگر دن کے دس گھنٹے سوشل میڈیا پر لگا رہے ہیں تو؟

اس چنگل سے نکلنے کا راستہ

کیا کیا جائے عادت سی ہو گئی ہے ؟ کیسے نکلوں اس چنگل سے؟

اگر آپ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ باہر نکلنا ہے ، صحت مند زندگی گزارنی ہے تو اس سے نکلنے کے بہت سے راستے مل سکتے ہیں جن پر چل کر آپ دوبارہ ایک صحت مند زندگی میں واپس آسکتے ہیں۔

*پہلے مرحلے میں اپنے موبائل پر جاکر نوٹفیکیشن کو بند کر دیں کہ یہ آپکو بار بار سوشل میڈیا پر نہ بلائے۔

سوچ لیں کہ میں جب بھی اکاونٹ پر لاگ ان کرونگا تو دس منٹ یا پانچ منٹ کے بعد استعمال روک دونگا، چاہے آپکو اسکے لیے اسٹاپ واچ ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے مگر وقت کا تعیین کر کے ہی یہ استعمال کریں۔

*اگر سوشل میڈیا کی بیماری کا مستقل علاج کرنا ہی ہے تو کوئی نئی ہابی تلاش کریں جس میں آپکو لطف آئے اور جس میں وقت لگاکر آپ فرحت محسوس کریں، نئی مصروفیت اپنا کر آپ اسکے بارے میں زیادہ سوچیں گے بجائے بار بار سوشل میڈیا پر آنے کے، کوئی دلچسپ پروجکٹ کا سوچیں، ہوسکے تو کچھ دوستوں کو بھی اس میں شامل کر لیں تاکہ آپ بھر پور طریقے سے اسکو اپنا سکیں۔

*سب کچھ بھلا کر زندگی کے لمحات کو اور خوبصورت بنائیں، اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزاریں، پرانی باتیں کریں، ساتھ گھومیں پھریں اور ہر چیز کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لیے سلفی لینے سے پرہیز کریں۔ زندگی کا مزہ لیں اور سب کچھ کسی سے شیر کرنےکے خیال سے دور رہکر کریں۔

*دوستوں کو پیغام دیں کہ آپ کچھ دنوں کے لیے سوشل میڈیا سے چھٹیوں پر جا رہےہیں اگر انہیں آپ سے رابطہ کرنا ہو تو وہ آپکو فون کر لیں یا ملاقات کر لیں – دیکھیے کہ آپ یہ تعطیلات کتنی لمبی کر سکتے ہیں اور کبھی کبھار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تعطیلات بہترین کام کرتی ہیں۔

*چھٹیوں کے دنوں میں فون کم سے کم یا بالکل بند کر دیں اور جی کر دیکھیں اپنی اس بیماری کے بغیر، اگر آپ اسکے بغیر رہ سکتے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ آپ اس نشے سے دور ہیں۔

*کچھ لوگوں نے یہ طریقہ آزمایا کہ موبائل فون سے سوشل میڈیا استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا، فیس بک کو موبائل سے مستقل طور پر لاگ آف کر لیا اور کچھ نے مستقل اپلیکیشن ہی ریموو کر دیا اور صرف ڈیسکٹاپ سے ہی استعمال کرنا شروع کیا اس سے وہ ہر جگہ اور ہروقت استعمال کرنے سے بچ گئے اور اپنا وقت دیگر کاموں میں لگانے لگے۔

*مشغلوں میں سب سے بہتر مشغلہ جماعت کی خدمت ہے۔ اگر سیر کا شوق ہو تو دوستوں کو ساتھ لے کر جماعتی دوراجات کریں۔ لا تعلق یا کم تعلق رکھنے والوں سے ملیں انکو دوست بنائیں اور جماعتی پرگراموں میں شمولیت پر راغب کریں۔

اس طرح نہ صرف آپکو بہتر مصروفیت ملے گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ فضل اور کرم حاصل ہوگا جس سے آپ کو نقصان دہ عادات سے الگ ہونے میں آسانی ہوگی۔

(کاشف احمد)

پچھلا پڑھیں

حالات حاضرہ میں حلم، تحمل اور وسعت حوصلہ کی ضرورت

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ