• 29 اپریل, 2024

ایمانوں کو جلا بخشنے والا ایک عظیم الشان نشان

ایمانوں کو جلا بخشنے والا
ایک عظیم الشان نشان

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
157 نشان۔ صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی شہادت بھی میری سچائی پر ایک نشان ہے کیونکہ جب سے خدا نے دنیا کی بنیاد ڈالی ہے کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا کہ کوئی شخص دیدہ ودانستہ ایک جھوٹے مکّار مفتری کے لئے اپنی جان دے اور اپنی بیوی کو بیوہ ہونے کی مصیبت میں ڈالے اور اپنے بچوں کا یتیم ہونا پسند کرے اور اپنے لئے سنگساری کی موت قبول کرے یوں تو صدہا آدمی ظلم کے طور پر قتل کئے جاتے ہیں مگر مَیں جو اِس جگہ صاحبزادہ مولوی عبداللطیف صاحب کی شہادت کو ایک عظیم الشان نشان قرار دیتا ہوں وہ اِس وجہ سے نہیں کہ ظلم سے قتل کئے گئے اور شہید کئے گئے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ شہید ہونے کے وقت انہوں نے وہ استقامت دکھائی کہ اس سے بڑھ کر کوئی کرامت نہیں ہو سکتی۔ ان کو تین مرتبہ امیر نے مختلف وقتوں میں نرمی سے سمجھایا کہ جو شخص قادیان میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اُس کی بیعت توڑ دو تو آپ کو چھوڑ دیا جائے گا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی عزّت ہوگی ورنہ سنگسار کئے جاؤگے۔ اُنہوں نے ہر ایک مرتبہ میں یہی جواب دیا کہ میں اہل علم ہوں اور زمانہ دیدہ ہوں میں نے بصیرت کی راہ سے بیعت کی ہے میں اس کو تمام دنیا سے بہتر سمجھتا ہوں ۔اور کئی دن اُن کو حراست میں رکھا گیا اور سخت دُکھ دیا گیا اور ایک بھارا زنجیر ڈالا گیا جو سر سے پاؤں تک تھا۔ اور بار بار سمجھایا اور ترکِ بیعت پر عزّت افزائی کا وعدہ کیا کیونکہ ان کو ریاست کابل سے پُرانے تعلقات تھے اور ریاست میں اُن کے حقوق خدمات تھے مگر انہوں نے بار بارکہاؔ کہ میں دیوانہ نہیں میں نے حق پالیا ہے۔ میں نے بخوبی دیکھ لیا ہے کہ مسیح آنے والا یہی ہے جس کے ہاتھ پر میں نے بیعت کی ہے۔ تب نومید ہو کر ناک میں اُن کے رسی ڈال کر پابہ زنجیر سنگساری کے میدان میں لے گئے اور سنگسار کرنے سے پہلے پھرا میرنے اُن کو سمجھا یا کہ اب بھی وقت ہے آپ بیعت توڑ دیں اور انکار کر دیں۔ تب انہوں نے کہا کہ یہ ہر گز نہیں ہوگا اب میرا وقت قریب ہے۔ میں دنیا کی زندگی کو دین پر ہر گز مقدم نہیں کروں گا۔ کہتے ہیں کہ اُن کی اِس استقامت کو دیکھ کر صدہا آدمیوں کے بدن پر لرزہ پڑ گیا اور اُن کے دل کانپ اُٹھے کہ یہ کیسا مضبوط ایمان ہے ایسا ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ اور بہتوں نے کہا کہ اگر وہ شخص جس سے بیعت کی گئی ہے خدا کی طرف سے نہ ہوتا تو صاحبزادہ عبد اللطیف یہ استقامت ہر گز دکھلانہ سکتا۔ تب اس مظلوم کو پتھروں کے ساتھ شہید کیا گیا اور اُس نے آہ نہ کی اور چالیس40 دن اُن کی لاش پتھروں میں پڑی رہی اور آخری مقولہ اُن کا یہ تھا کہ میں 6دن سے زیادہ مُردہ نہیں رہوں گا تب امیر نے ان کی سنگساری کی جگہ پر ایک پہرہ بٹھا دیا کہ شاید یہ بھی فریب ہوگا مگراس مقولہ سے ان کی مُراد یہ تھی کہ 6دن تک میری روح ایک نئے جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھائی جائے گی۔

اب ایمان اور انصاف سے سوچنا چاہئے کہ جس سلسلہ کا تمام مدار مکر اور فریب اور جھوٹ اور افترا پر ہو کیا اس سلسلہ کے لوگ ایسی استقامت اور شجاعت دکھلا سکتے ہیں ؟کہ اس راہ میں پتھروں سے کچلا جانا قبول کریں اور اپنے بچوں اور بیوی کی کچھ بھی پروا نہ کریں اور ایسی مردانگی کے ساتھ جان دیں اور بار بار رہائی کا وعدہ بشرط فسخ بیعت دیا جاوے مگر اِس راہ کو نہ چھوڑیں۔ اِسی طرح شیخ عبد الرحمن بھی کابل میں ذبح کیا گیا اور دم نہ مارا اور یہ نہ کہا کہ مجھے چھوڑ دو میں بیعت کو توڑتا ہوں اور یہی سچے مذہب اور سچے امام کی نشانی ہے کہ جب کسی کو اس کی پوری معرفت حاصل ہوجاتی ہے اور ایمانی شیرینی دل و جان میں رچ جاتی ہے تو ایسے لوگ اس راہ میں مرنے سے نہیں ڈرتے۔ ہاں جو سطحی ایمان رکھتےہیںؔ اور اُن کے رگ وریشہ میں ایمان داخل نہیں ہوتا وہ یہودا اسکر یوطی کی طرح تھوڑے سے لالچ سے مُرتد ہو سکتے ہیں ایسے ناپاک مُرتدوں کے بھی ہر ایک نبی کے وقت میں بہت نمونے ہیں سو خدا کا شکر ہے کہ مخلصین کی ایک بھاری جماعت میرے ساتھ اور ہر ایک اُن میں سے میرے لئے ایک نشان ہے یہ میرے خدا کا فضل ہے۔ ربّ انّک جَنّتی و رحمتک جُنّتی واٰیاتک غذائی وفضلک ردائی۔ (اے میرے رب! تو میری جنت ہے اور تیری رحمت میری ڈھال ہے اور تیرے نشانات میری غذاء ہیں اور تیرا فضل میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ناقل)

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ359-361)

(مرسلہ: داؤد احمد عابد۔ جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

واقعہ افک اور اس کا پس منظر (قسط اول)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ