واقعہ افک میں مومنوں کے لیے سبق
(دوسری آخری قسط)
واقعہ افک کے پس منظرکے گزشتہ مضمون میں اس سے حاصل ہونیوالے سبق کا مختصر ذکر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ میں مومنوں کے لئے گہرے معاشرتی، اخلاقی اور قانونی سبق موجودہیں۔ جن کا سورۃ نور میں بالعموم اور واقعہ افک پر نازل ہونے والی آیات میں بالخصوص ذکر ہے۔
پہلا سبق
اس واقعہ کے قرآنی نام ’’افک‘‘ میں (جس کے معنے جھوٹ تراشنے کے ہیں) یہ ہے کہ خلاف حقیقت الزام لگانیوالوں کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لیے جھوٹوں کا خطاب دے دیا (النور: 14) اور ان کی گواہی اسلامی معاشرہ میں ہمیشہ کےلیے ناقابل قبول ٹھہرادی گئی۔ (النور: 5)
دوسرا سبق
واقعہ افک کےقومی ابتلاء میں (جس نے مسلمانان اہل مدینہ پر ایک زلزلہ طاری کر دیا) یہ تھا کہ یہ آزمائش مسلمانوں کو اپنے لیے موجب شرّ خیال نہیں کرنی چاہیے بلکہ یہ ان کے لیے بہتر ہے۔ ظاہر ہے یہ خیر ایک تو نیک انجام کے لحاظ سے توتھی ہی،آئندہ کےلیےاسلامی معاشرہ کو پاک رکھنے کےلیےمعصوموں کے دفاع کے اصول و ضوابط اس واقعہ کے نتیجہ میں تعلیم ہوئے جس کےلیے ہماری ماں حضرت عائشہؓ نے ایک طویل ذہنی اذیت قبول کرتے ہوئےبڑی جذباتی قربانی دی اور اس ابتلاء میں کمال برداشت،حوصلہ اور استقامت کا نمونہ دکھایا جس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ خدا کے فضلوں کی وارث ہوئیں بلکہ ان کاپورا گھرانہ خداکی رحمتوں اور فضلوں کا مورد ہوا اور حضرت عائشہؓ کے بزرگ والد صدیق اکبرؓ کو منافقوں کے علی الرغم خلافت کی ردا پہنائی گئی۔
تیسرا سبق
اس واقعہ میں تیسرا بنیادی سبق یہ ہےکہ کسی پاک د امن عورت یا مرد پر بلا ثبوت بدکاری کاالزام لگانا ایک قابل سزا جرم ہے۔ ثبوت الزام کے لیے کم از کم چار مسلمان دیانت دار گواہ ضر وری ہیں۔ اگر الزام لگانے والے ایسے گواہ پیش نہ کر سکیں تو ان کے لیے اسّی کوڑے کی سزا مقررکی گئی۔ (النور: 5)
چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر الزام لگانے والے بعض صحابہ اور صحابیات پر یہ حدّ قذف جاری ہوئی جن میں حسان بن ثابت،حمنہ بنت جحش اور مسطح بن اثاثہ تھے۔ عبداللہ بن ابی سردار منافقین کواس موقع پر ان تینوں کے ساتھ حد قذف جاری کرنے کا ذکر بخاری میں نہیں ہے۔ س پر بعض علماء کا خیال ہے کہ اسے اس لیے سزا نہیں دی گئی کہ اس کےلیے عذاب عظیم کی وعید ہے۔ تاہم صحاح ستہ کے علاوہ بعض دیگر روایات اور کتب تاریخ میں عبد اللہ بن ابی پر بھی حدقذف جاری کرنے کا ذکر ہے۔ جسے حضرت مصلح موعودؓ نے بھی قبول فرمایا ہے۔
(بحوالہ سیرة الحلبیہ جزء2 صفحہ 318، تفسیر کبیر سورة نور صفحہ327)
چوتھا سبق
اس واقعہ میں یہ ہے کہ ایسی اخلاقی الزام تراشی کے حل کے لیے ’’لعان‘‘ کا اصول ہمیشہ کےلیےبیان فرما دیا گیا یعنی الزام لگانے والے میاں بیوی کے پاس ثبوت نہ ہوتو وہ قسم کھا کر اپنی چار حلفیہ گواہیوں کے ساتھ پانچویں مرتبہ لعنة اللہ علی الکاذبین کہہ دے اور مدّمقابل اگر اقرار نہ کرے توسزا سے بچنے کےلیےوہ مدعی کے جھوٹا ہونے کی چار گواہیاں دے کرپانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر اسکے خلاف یہ الزام درست ہوتو اس پر اللہ کا غضب ہو۔ (النور7تا10)
ہرچندکہ ان آیات میں شوہر کے بیوی پر الزام کی صورت میں لعان کایہ اصول مذکور ہے تاہم ایسی بعض صورتوں میں حضرت مسیح موعودؑ نے یہی اصول ایسےمردوں یاعورتوں پربھی قیاس کرنے کا استنباط فرمایا ہے جن پر ایسا الزام ہو کہ وہ لعنت ڈال کرمؤکد بعذاب قسم سے اس جرم یا الزام سے بری ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ خط کشیدہ جملہ سے ظاہر ہے ۔حضورؑسورة نور کی آیت 8کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اسلام میں لعنت اللہ علی الکاذبین کہنا ایک بد دُعا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ جو شخص کاذب ہے وہ خدا کی رحمت سے نومید ہو اور اُس کے قہر کے نیچے آجائے۔ اِسی لئے قرآن شریف میں ایسے مردوں یا ایسی عورتوں کے لئے جن پر مجرم ہونے کا شبہ ہو اور اُن پر اَور کوئی گواہ نہ ہو جس کی گواہی سے سزاد ی جائے۔ ایسی قسم رکھی ہے جو مؤکّد بہ لعنت ہوتا اِس کا نتیجہ وہ ہو جو گواہ کے بیان کا نتیجہ ہوتا ہے یعنی سزا اور قہر الٰہی۔ منہ‘‘
(نزول المسیح صفحہ 75 طبع اول روحانی خزائن جلد 18)
یہاں ضمناً زنا بالجبر کے الزام کی صورت میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ وہ الزام وقوعہ کے کتنے عرصہ بعد کا ہے۔یہ مسئلہ مجلس افتاء میں بھی تفصیل سے زیرغور آچکا ہے جس کی یہ رپورٹ 23اپریل1998ء کو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی خدمت میں پیش ہوئی کہ
’’عورت کو حتی الامکان جلدازجلد حکام کو اس زیادتی سے مطلع کرنا چاہیے لیکن اگر کسی مجبوری یا بدنامی کے خوف کی وجہ سے وہ اس میں تاخیر کرتی ہے تو اس وجہ سے اس کی سماعت کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اگر اس عرصہ میں بعض ثبوت ضائع ہوتے ہیں تو اس کا نقصان مدعیہ کو ہی ہوگا اور اس کی ذمہ دار وہ خود ہی ہے۔ تاہم عدالت کے فرائض میں یہ شامل ہونا چاہیے کہ وہ اس تاخیر کی وجوہ کو زیر غور لاکر فیصلہ کرے۔‘‘
مجلس کی اس رپورٹ پر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ارشاد فرمایا:
‘‘رپورٹ میں تاخیر کی وجہ سے سماعت کو ردّ کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں تو رسول اللہﷺ نے فوراً قدم اٹھایا ہے۔ اور تاخیر کے اندر تو توبہ بھی ہوجاتی ہے۔ تاخیر کے ساتھ جب وہ شکایت کا فیصلہ کرتی ہے تو گزشتہ کسی حوالے کا حق اسے نہیں ہونا چاہیے۔ زیادتی کرنے والے کو منع کرنے کے باوجود اگر وہ آخری وقت بھی کرتا ہے تو صرف اس کی شکایت کرے تاکہ اسے فوری شکایت سمجھاجائے۔ورنہ کیا پتہ دونوں باہمی رضامندی سے کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔‘‘
(ارشاد حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ مورخہ 7 مئی 1998ء)
پانچواں سبق
واقعہ افک سے پانچواں سبق بدظنی سے بچنے اورمومن بھائیوں سےحسن ظن کرنےکا حاصل ہوتا ہےجو معاشرے کی پاکیزگی وطہارت اور قیام امن کے لیے ایک نہایت اہم خلق ہے۔ جیسا کہ سورۃ النور میں بیان ہے کہ جب مومنوں نے واقعہ افک والاالزام سنا تو یہ کیوں نہ ہوا کہ تمام مومن مرد اور عورتیں اپنے ان افراد پر حسن ظن کرتے ہوئے یہ کہہ کر اسے ردّ کر دیتے کہ یہ ایک کھلا کھلا جھوٹ ہے (النور: 13) اور اگلی آیت میں مزید تاکید بلکہ تاسف کے انداز میں فرمایا کہ یہ کیوں نہ ہوا کہ سب مومن یہ کہتے کہ ہمارے لیے اس الزام کا زبان پر لانا ہرگز مناسب نہیں۔ اے اللہ! تو پاک ہے یہ تو ایک بہتان عظیم ہے۔ (النور: 17)
چھٹا سبق
اس واقعہ کا یہ ہے کہ جس بات کا مکمل علم نہ ہو،اسے آگے ہرگزبیان نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’تمہارے نزدیک یہ چھوٹی بات تھی مگر اللہ کے نزدیک بہت بڑی تھی۔‘‘ (النور: 16)
ساتواں سبق اس واقعہ سے یہ ملتا ہے کہ ایسے بے بنیاد الزامات معاشرہ میں اشاعت فاحشہ کا موجب اور بہت بڑا جرم ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں نیکی کا رعب کم اور بدی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور معاشرہ بدامنی کا شکار ہوتا ہے۔اس لیے ایسے الزام تراشوں کی سزا دونوں جہانوں کا عذاب ہے۔اس دنیا میں بھی درد ناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔
آٹھواں سبق
واقعہ افک کا آٹھواٍں سبق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں اس واقعہ کے بداثرات سے مسلمانوں کومحفوظ رکھا اور اس شرّ کو خیر سے بدل دیا۔ الزام لگانیوالے سزائیں پاکر توبہ تائب ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت و رأفت کے نتیجہ میں ان کی توبہ قبول فرمائی (النور: 11) پھر آئندہ ایسے واقعات کے راستے بند کرنے کےلیے جواصول مقرر فرمادئیے۔ یہ بھی اس کے فضل و رحم کا ہی نتیجہ تھا۔ (النور: 20) اور قبول توبہ کے بعد مسطح جیسے ضرورت مندوں کا امدادی وظیفہ بحال کرنے کےلیے صدیق اکبرؓ جیسے صاحب فضل کو نصیحت کی گئی کہ ایسے نادان رشتہ داروں سے ازراہ انسانی ہمدردی عفو درگذر اور احسان کا سلوک جاری رکھیں۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب واقعہ افک سے مستنبط ہونے والے قانونی اصولوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اول ہر انسان کے متعلق اصل قیاس عصمت و عفت کا ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ ہر انسان عفیف سمجھا جانا چاہیے۔ جب تک اس کی عصمت و عفت کے خلاف کوئی یقینی اور قطعی ثبوت موجود نہ ہو۔
دوسرے یہ کہ انسان کی عزت و آبرو ایک نہایت ہی قیمتی چیز ہے جس کی حفاظت دنیا کی تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ضروری ہے۔
تیسرے یہ کہ فحشاء کا چرچا بدی کے رعب کو مٹاتا اور سوسائٹی کے اخلاق کو تباہ کر دیتا ہے۔ اس لئے اس کا سدباب ہونا ضروری ہے۔
چوتھے یہ کہ جہاں یہ نہایت ضروری ہے کہ زنا کا جرم عبرتناک سزا پائے۔وہاں یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا بغیر سخت سزا کے نہ چھوڑا جاوے۔۔۔
جھوٹا الزام لگانے والے کی سزا کا سوال بعض سادہ مزاج انسانوں کے لئے قابل اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی سخت سزا کیوں تجویز کی گئی ہے۔ سو اس کی حقیقت یہ ہے کہ دراصل اس معاملہ میں کسی پر چھوٹا اتہام باندھنا ایک نہایت خطرناک اور ضرر رساں فعل ہے کیونکہ اس میں ایک بے گناہ انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز پر ناجائز اور مفتریانہ حملہ ہونے کے علاوہ سوسائٹی کے اخلاق پر بھی ایک نہایت گندہ اثر پیدا ہوتا ہے اور وہ اس طرح پر کہ جب اس قسم کی باتوں کے متعلق کسی سوسائٹی میں میں آزادانہ چرچا ہوگا تو لازماً زنا کی بدی کارعب طبائع سے کم ہونے لگے گا اور کمزور طبیعتیں گندے خیالات کی طرف مائل ہونے لگیں گی اور ملک اور قوم کی اخلاقی فضا زہر آلود ہو جائے گی۔ پس ضروری تھا کہ اس معاملہ میں جھوٹے الزام لگانے والوں کے واسطے سخت سزا تجویز کی جاتی تاکہ سوائے سچے آدمی کے کسی کو اس قسم کے الزام لگانے کی جرات نہ پیدا ہو اور صرف وہی شخص اتہام لگانے میں آگے آسکے جو واقعی اپنے پاس یقینی ثبوت رکھتا ہو۔ اور اگر کسی کو یہ شبہ گزرے کہ اسلام نے اس معاملے میں ثبوت کے متعلق نا واجب سختی سے کام لیا ہے یعنی چار چشم دید گواہوں کو ضروری قرار دیکر ثبوت کے قیام کو بہت ہی مشکل بنا دیا ہے تو یہ ایک عامیانہ شبہ ہوگا۔ جب ہر جرم کے ثبوت کے لئے لیے کوئی نہ کوئی تسلی بخش طریقِ ثبوت مقرر کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ تو پھے ایک ایسے الزام کے ثبوت کے لیے جس میں انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیز پر حملہ ہو اور جس کے غلط اور جھوٹے استعمال سے سوسائٹی کے امن و امان اور قوم کے اخلاق و عادات پر ایک سخت خطرناک اور گندہ اثر پڑتا ہو ایک نہایت زبردست اور یقینی طریق ثبوت کیوں نہ مقرر کیا جاتا ہے۔ خصوصاً جبکہ دنیا بھر میں قانون سازی کا یہ ایک مسلم اصول ہے کہ کسی بے گناہ کے کے مجرم قرارپا جانے سے یہ بہت بہتر ہوتا ہے کہ ایک مجرم بے گناہ سمجھا جاوے۔‘‘
(سیرت خاتم النیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صفحہ568تا570)
(علامہ ایچ ایم طارق)