• 28 اپریل, 2024

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات (قسط سوم)

یونانی فلسفے کے مسلمان مفکرین پر گہرے اثرات
اور نظریہٴ وحدت الوجود کا تدریجی ارتقاء
(قسط سوم)

4. حسین بن منصور حلاج

آپ کی ولادت 244ھ میں فارس میں ہوئی۔ آپ نے جنید بغدادی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ بھی بظاہر وحدت الوجود کے قائل تھے۔ اور اپنے قول ’’ اَنَا الْحَقّ‘‘ کی وجہ سے قتل کئے گئے۔ روایت کے مطابق منصور حلاج نے کہا:۔
’’جو شخص اطاعت میں اپنے نفس کو پختہ کر لیتا ہے، اپنے دل کو اعمال و اشغال صالحہ کا خوگر بنا لیتا ہے، ترک لذت کا عادی ہو جاتا ہے، شہوات اور خواہشات نفسانی پر اقتدار حاصل کر لیتا ہے، وہ مقام مقربین تک پہنچ جاتا ہے۔ پھر جب اس کے نفس کا تزکیہ زیادہ ہو جاتا ہے تو بشریت کی حدود سے گزر جاتا ہے اور جب اس میں بشریت کا شائبہ نہیں رہتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی روح پاک میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ پھر وہ مطیع سے مطاع بن جاتا ہے یعنی وہ روحانیت کی اس منزل پر ارتقاء کر جاتا ہے جہاں وہ کسی کی اطاعت نہیں کرتا بلکہ لوگ اس کی اطاعت کرنے لگتے ہیں۔ پھر وہ جس چیز کا ارادہ کرتا ہے وہی واقع ہو جاتی ہے جو پہلے سے مشیت الہٰی بن چکی ہوتی ہے۔ پھر اس کا قول و فعل اس کا نہیں رہتا بلکہ خود خدا کا قول و فعل بن جاتا ہے۔‘‘

5. ابو بکر شبلی

آپ بھی جنید بغدادی کے مرید تھے۔ 247ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارہ میں جنید بغدادی نے کہا: ’’ہر قوم کا ایک تاج ہوتا ہے اور اس قوم کا تاج شبلی ہے۔‘‘ آپ بھی وحدت الوجود کے قائل تھے۔ وفات کے وقت لوگوں نے ان سے کہا کہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھ لیجئے تو شبلی نے کہا: ’’کہ جب غیر کا وجود ہی نہیں تو نفی کس کی کروں۔‘‘ شبلی کے نزدیک تصوف بھی شرک تھا۔ فرماتے ہیں: ’’تصوف شرک ہے اس لئے کہ تصوف نام ہے دل کو مشاہدہٴ غیر سے محفوظ رکھنے کا۔ حالانکہ یہاں غیر کا کوئی وجود ہی نہیں۔‘‘

6.شیخ محی الدین ابن عربی
اور نظریہٴ وحدت الوجود

اب آئیے اُس عظیم ہستی کی طرف جس کا نام نظریہ وحدت الوجود کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی جنہیں صوفیا کے گروہ میں شیخ اکبر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اندلس کے علاقے مرسیہ میں 560ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ ابن رُشد کے ہم عصر تھے۔ ابن عربی کا فکر و تدبر اور معرفت کی طرف رجحان ابن رُشد کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا۔ آپ کی وفات 638ھ میں ہوئی۔ فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ ان کی دو عظیم الشان تصنیفات ہیں (اگرچہ تصنیفات کی کل تعداد پانچ سو تک بتائی جاتی ہے)۔ ابن عربی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ہی ان کا نام محی الدین تجویز فرمایا اور ان کے عظیم المرتبت مقام پانے کی پیشگوئی فرمائی۔

مسلمان فلسفہ دانوں اور صوفیا کا یہ مشترکہ مسئلہ رہا ہے کہ کسی طرح یونانی فلسفے اور اسلامی تعلیمات میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ الکندی سے لے کر محی الدین ابن عربی تک سب نے اس پر زور لگایا مگر پھر بھی وہ مقصد حاصل نہ ہو سکا۔ اس کے لئے انہوں نے مستعار لئے گئے یونانی فلسفے میں اسلامی اصطلاحات کا تڑکا لگا کر اسے اسلامی فلسفہ بنانے کی کوشش کی۔

اس سے پہلے کہ ابن عربی کے نظریہٴ وحدت الوجود کا جائزہ لیا جائے بہتر ہو گا کہ مختصرا افلاطون اور فلاطینوس کے نظریات کو ذہن میں مستحضر کر لیا جائے۔ افلاطون (Plato) نے پارمینیڈیز (Parmenides) کے دو دنیاؤں کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے اس مادی اور حسی دنیا کو غیر حقیقی قرار دیا اور ایک غیر مادی اور غیر حسی دنیا کا نظریہ پیش کیا جسے اس نے عالم مثال کا نام دیا۔ افلاطون کے نزدیک اس مادی دنیا میں پائے جانے والی ہر شے کا ایک مکمل سانچہ غیر حسی دنیا میں موجود ہے اور وہی اصلی اور حقیقی، لازوال اور غیر متبدل دنیا ہے۔ مثلا حسی دنیا میں پائے جانے والے تمام گھوڑوں کی نسل کا ایک مثالی گھوڑا عالم امثال میں موجود ہے اسی طرح باقی ہر Species کا ایک اعلی اور اکمل ترین نمونہ عالم امثال میں ہے۔ ان کو افلاطون نے Forms کا نام دیا۔

افلاطون کے شاگرد ارسطو نے افلاطون کے اس نظریے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مادی دنیا ہی حقیقی اور اصلی دنیا ہے اور کسی غیر حسی دنیا کا کوئی وجود نہیں ہے اور مادہ اور اس کی شکل دو علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ مادہ کے اندر ہی اس کی آخری اور مکمل شکل موجود ہوتی ہے۔

فلاطینوس (Plotinus) تیسری صدی عیسوی کا وہ عیسائی فلسفی ہے جس نے Emanation کا نظریہ پیش کیا جسے نظریہ صدور بھی کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ اسلامی نظریہ تخلیق کی نفی کرتا ہے۔ مگر افسوس کہ الکندی سے لے کر ابن سینا تک سب اسی فلسفے کی بنیاد پر اپنی اپنی حاشیہ آرائی کرتے نظر آتے ہیں اور اب سب نے اسے ارسطو کے فلسفے کے طور پر پیش کیا جبکہ اس کا ارسطو سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔

ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کے ماخذ

  1. ذاتی کشوف
  2. یونانی فلسفہ
  3. فرقہ باطنیہ کے نظریات
  4. قرآن و حدیث (کی تشریح اپنے کشوف کی بناء پر)

ابن عربی نے اپنے فلسفے کی بنیاد اپنے کشوف سے اُٹھائی ہے اور باقی تمام ذرائع علم کو وہ اپنے کشوف کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ اپنی مشہور کتاب ’’فتوحات مکیہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں:
’’ہم اپنے ایسے اور دوسرے علوم میں جو دعوی کرتے ہیں ان سب کا اعتماد ہمارے ذاتی کشف پر ہے اور کبھی یہ علوم فکری نظر سے بھی حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ پس جس کی علمی فکر صحیح ہو گی وہ ارباب کشف کے ساتھ بھی موافقت کرے گا اور جس کی فکری نظر غلط ہوگی وہ ارباب کشف کے ساتھ بھی مخالفت کرے گا۔‘‘

(فتوحات مکیہ، صفحہ224)

یونانی فلسفے کے بارے میں میں اوپر تفصیل سے لکھ آیا ہوں۔

ابن عربی قرآن و حدیث کی جو تشریح اپنے نظریے کے حق میں کرتے ہیں اس میں باطنیت کا فلسفہ کارفرما نظر آتا ہے۔ مثلا سورت طٰہٰ کی مندرجہ ذیل آیت کو دیکھئے:

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی

(طٰہٰ: 56)

’’ہم نے تمہیں اس زمین سے ہی پیدا کیا اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں ہم دوسری مرتبہ نکالیں گے۔‘‘

اب ابن عربی کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ لکھتے ہیں: ’’ہم سب احدیت سے نکلے تھے، فنا ہو کر پھر احدیت میں جا چُھپیں گے۔ پھر لقا ملے گی اور دوبارہ نمودار ہوں گے۔‘‘

(فصوص الحکم)

سورت النازعات کی ایک آیت جس میں فرعون نے کہا تھا ’’اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی‘‘ (آیت 25) کی تفسیر میں ابن عربی لکھتے ہیں:
’’پس فرعون کو ایک طرح سے حق تھا کہ کہے انا ربکم الاعلی کیونکہ فرعون ذات حق سے جُدا نہ تھا اگرچہ اس کی صورت فرعون کی سی تھی‘‘ (فصوص الحکم)۔ یعنی دوسرے الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابن عربی کے مطابق موسی اور فرعون میں کوئی فرق نہیں۔

وحدت الوجود کے حق میں
پیش کردہ قرآنی آیات

اس سے قبل کہ میں وہ آیات قرآنی پیش کروں جو وجودی نظریہ وحدت الوجود کے حق میں پیش کرتے ہیں میں قرآنی اسلوب سمجھنے کے لئے وہ راہنما اصول بیان کردوں جسے خود قرآن مجید نے پیش فرمایا ہے۔ سورت آل عمران میں ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَمَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَالرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ

(آل عمران: 8)

ترجمہ: وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اسی میں سے محکم آیات بھی ہیں وہ کتاب کی ماں ہیں اور کچھ دوسری متشابہ(آیات) ہیں۔ پس وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ چاہتے ہوئے اور اس کی تاویل کی خاطر اُس میں سے اس کی پیروی کرتے ہیں جو باہم مشابہ ہے حالانکہ اللہ کے سوا اور ان کے سوا جو علم میں پختہ ہیں کوئی اس کی تاویل نہیں جانتا۔

اس آیت میں خدا تعالیٰ نے محکم آیات کو کتاب کی ماں قرار دیا ہے۔ اور جو متشابہ آیات ہیں انہیں محکم آیات کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ اگر کوئی متشابہ آیت بظاہر محکم آیت سے مختلف معانی دیتی ہے تو اس کی تاویل کرنی ہوگی اور تاویل کا کام صرف وہی کر سکتا ہے جو علم میں پختہ ہو۔ اور علم میں پختہ ہمارے نزدیک ایک ہی عظیم شخصیت ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل کیا گیا اور جو سب سے بڑے اور سب سے پہلے مفسر قرآن ہیں۔ متشابہ آیات کی وہی تفسیر قابل قبول ہے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔ محکم آیات سے متضاد تاویل کو دلوں کی کجی قرار دیا گیا ہے اور ایسی حالت سے بچنے کی دعا سکھائی گئی۔ فرمایا

رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ۔

(آل عمران: 9)

اے ہمارے رب ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:
’’بینات کو چھوڑ کر متشابہات کی پیروی کرنا کج دل آدمیوں کا کام ہے۔ اگر قرآن شریف کا حصہ کثیر جو حقیقی طور ہر عابد اور معبود اور خالق اور مخلوق میں دائمی فرق کر کے دکھلاتا ہے ایک طرف اکٹھا کیا جاوے اور دوسری طرف وہ چند آیات متشابہات دکھلائی جائیں جن کو وجودی محض تعصب اور نادانی کی وجہ سے اپنے دعوی کی دستاویز بنانا چاہتے ہیں تو طالب حق کو واضح ہو کہ کس قدر ان کے دلوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور کیسے وہ طریق انصاف اور طلب حق سے دور جا پڑے ہیں۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ647 مکتوب بنام منشی مظہر حسین صاحب)

ابن عربی اور ان کے معتقدین مندرجہ ذیل قرآنی آیات سے استنباط کرتے ہیں۔

1. ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ

(الحدید: 4)

وہی اول اور وہی آخر، وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا دائمی علم رکھتا ہے۔

2. وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ

(قٓ: 17)

اور ہم اس سے (اس کی) شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں۔

3. اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰـہًا وَّاحِدًا

(صٓ: 6)

کیا اُس نے بہت سے معبودوں کو ایک ہی معبود بنا لیا ہے۔

4. وَلِلّٰہِ یَسۡجُدُ مَنۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ

(الرعد: 16)

اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔

5. مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَفِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَمِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی

(طٰہٰ: 56)

اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے اور اسی میں ہم تمہیں لوٹا دیں گے اور اسی سے تمہیں ہم دوسری مرتبہ نکالیں گے۔

قرآنی آیت ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ سے وجودی استنباط کرتے ہیں کہ جیسے خدا دیکھتا اور سنتا ہے اسی طرح ہم بھی دیکھتے اور سنتے ہیں اس لئے ہم خدا کی صفات میں شریک ہیں اور محی الدین ابن عربی کے نزدیک چونکہ صفات خداوندی خدا کا عین ہیں اس لحاظ سے ہم بھی خدا کا عین ہیں۔

اس طرح مندرجہ ذیل حدیثوں کو وہ اپنے مؤقف کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔

خَلَقَ الْاٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ۔
اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِیْ۔
لَوْ لَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ۔
کُنْتُ کَنْزاً مَّخْفِیّاً فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ۔

فلسفہء وحدت الوجود کے تین ستون

محی الدین ابن عربی کے نظریہٴ وحدت الوجود کے تین ستون ہیں اور اگر ان کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے تو سارا مسئلہ سمجھ میں آ جائے گا۔

  1. اعیان ثابتہ
  2. وجود مطلق
  3. صفات باری تعالیٰ اور عینیت

اعیانِ ثابتہ (صورِ علمیہ)

معلومات الہٰی جو علم الہٰی میں ہیں انہیں اعیان ثابتہ کہتے ہیں۔ ابن عربی کی اصطلاح میں وجود علمی کو ثبوت اور وجود خارجی کو وجود کہا جاتا ہے۔ ان اعیان ثابتہ یا صور علمیہ پر جو کہ قدیم سے خدا کے علم میں موجود تھیں جب خدا کی تجلی پڑی تو وہ اپنے ظلی وجودوں کے ساتھ خارج میں ظاہر ہو گئیں۔ ابن عربی تحریر فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک کے لئے علم الہی میں ایک مقام ہے جس سے تجاوز کرنا ممکن نہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس کے ساتھ تُم ثبوت علمی میں تھے اور پھر اسی مقام کے ساتھ تم اپنے وجود خارجی میں ظاہر ہوئے۔‘‘

(فصوص الحکم، فص ابراہیمیہ)

شیخ ابن عربی نے وحدت سے کثرت کا جو نظریہ پیش کیا اُسے نظریہٴ عرفان (Manifestation Theory) کہا جاتا ہے یعنی کہ تجلیات الہٰیہ ہیں جو خدا سے ظہور پزیر ہوئیں اور جو پہلی تجلی ظاہر ہوئی وہ اس کائنات کا اجمالی خاکہ تھا جسے ابن عربی نے حقیقت محمدیہ کا نام دیا۔ دوسرے لفظوں میں جسے فلاطینوس نے عقل اول کہا تھا اسے ابن عربی نے حقیقت محمدیہ کہہ کر یونانی فلسفہ پر اسلامی رنگ چڑھانے کی کوشش کی۔

پہلی تجلی جو اجمالی تھی اس کے بعد دوسری تجلی جو ظاہر ہوئی وہ مفصل تھی اس میں کائنات کا تفصیلی خاکہ تھا۔ اس خاکے میں کائنات کی ہر چیز کی تفصیل تھی۔ ابن عربی نے ان اشیاء کے خاکوں کو اعیان ثابتہ یا صور علمیہ کا نام دیا یعنی جنہیں افلاطون غیر حسی دنیا میں امثال قرار دیتا ہے ابن عربی نے انہیں اعیان ثابتہ کی اصطلاح دے دی۔ فرق یہ ہے کہ افلاطون کی امثال اس مادی دنیا میں اپنے اصلی وجودوں کے ساتھ موجود ہیں جبکہ ابن عربی کا کہنا تھا ’’اَلْاَعْیَانُ مَا شَمَّتْ رَآئِحَۃَ الْوُجُوْدِ‘‘ کہ اعیان ثابتہ نے خارج کی بُو تک نہیں سونگھی۔ یہ بات بے انتہا اہم ہے اور ابن عربی کے نظریہٴ وحدت الوجود کا خلاصہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کائنات میں جو بھی چیز موجود ہے وہ صرف خدا تعالیٰ کا ایک خیال ہے اور خارج میں اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہے۔ جو بھی مادی اشیاء ہیں وہ سب ظلی اور اعتباری ہیں ان کا اپنا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ واجب الوجود کے سہارے قائم ہیں۔ اس کائنات میں حقیقی وجود صرف ایک ہی ہے اور وہ خدا کا وجود ہے باقی کسی شے کا کوئی وجود سرے سے ہے ہی نہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کائنات میں جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے یہ سب کیا ہے؟ ابن عربی کہتے ہیں کہ یہ اعیان ثابتہ کے اظلال وعکوس ہیں ان کا خارجی کوئی وجود نہیں اور یہ کائنات صرف خدا کے خیال میں قائم ہے۔ مثلا ًاگر ہم اپنے ذہن میں کوئی عمارت تصور کر لیں جو کہ خارجی طور پر موجود نہیں تو وہ عمارت اُس وقت تک موجود رہے گی جب تک ہمارے خیال میں ہے اور جونہی ہمارا خیال اس سے ہٹ جائے گا وہ عمارت بھی ختم ہو جائے گی۔ اب یہ عمارت جو ہم نے اپنے تصور میں قائم کی ہے یہ عین ثابت ہے اور اگر اس طرح کی بہت سی اشیاء خیال میں لے آئیں جن کا کوئی حقیقی وجود موجود نہیں تو یہ اعیان ثابتہ کہلائیں گی۔

ابن عربی کے نزدیک اعیان ثابتہ علم الٰہی میں ازل سے موجود ہیں۔ اگر اعیان ثابتہ موجود نہیں تھے تو خدا کی صفت علیم پر حرف آتا ہے۔ علم کے واسطے معلوم کا ہونا ضروری ہے۔ اعیان ثابتہ خارج میں اُس وقت اپنے ظلی وجودوں کے ساتھ ظاہر ہوئے جب اُن پر خدا کی تجلی پڑی یا دوسرے لفظوں میں کُنْ فَیَکُوْنُ کا عملی اظہار سامنے آ گیا۔ ایک اور اہم بات یہ کہ ابن عربی کے نزدیک اعیان ثابتہ غیر مبدل ہیں اور جیسے خدا کے علم میں ہیں ویسے ہی ظہور پزیر ہو رہے ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ بھی تبدیل نہیں کر سکتا کیونکہ خدا کا ارادہ بعد میں ہے اور اس کا علم پہلے ہے۔ اعیان ثابتہ خدا تعالیٰ کے کُنْکہنے سے عدم سے وجود میں نہیں آئے بلکہ یہ علم الٰہی میں اپنی Potential حالت میں پہلے سے موجود تھے اور پھر خدا کے ارادہ سے اور کن کہنے سے اپنے اعتباری وجود کے ساتھ ظاہر ہو گئے۔

اسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے غالب کہتا ہے:

؎ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسد
عالم تمام حلقہء دامِ خیال ہے

وجود مطلق

ابن عربی نے اپنی کتب فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ میں وحدت فی الوجود کا نظریہ پیش کیا جسے بعد میں ان کے متبعین اور شارحین داؤد القیصری وغیرہ نے وحدت الوجود کا نام دے دیا۔ اور اب یہی ابن عربی کے نظریے کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس کے پیرو کار وجودی کہلاتے ہیں۔

دوسرے شارحین میں صدرالدین قونوی، عبد الکریم جیلی، عبد الرحمٰن جامی اور عبد الغنی النابلسی کے نام بہت نمایاں ہیں۔

وجودیوں کا کہنا ہے کہ وحدت الوجود کا مطلب ہے:

لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ
لَا وَجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ

یعنی اللہ کے علاوہ نہ کوئی موجود ہے اور نہ ہی کسی کا کوئی وجود ہے۔ وجودیوں پر جب شرک کا الزام لگایا جاتا ہے کہ ان کے نزدیک مخلوق بھی خالق کا حصہ ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں تو ان کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ شرک تب بنتا ہے جب خدا کے سوا کوئی وجود تسلیم کیا جائے جب ہم خدا کے علاوہ کسی وجود کے قائل ہی نہیں تو شرک کیسے ہو گیا۔ ان کے نزدیک ابن عربی کا نظریہ وحدت الوجود توحید کی بلند ترین اور حقیقی تشریح ہے۔ وحدت الوجود کے بعض پیرو شرک کا یہ دھبہ مٹانے کے لئے یہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی وجود نہیں اور کوئی موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے مقابل پر کسی بھی وجود کی کوئی حیثیت نہیں اور وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جیسا کہ سورج کے سامنے چراغ کی روشنی کی کوئی حیثیت نہیں چنانچہ خدا کے سامنے کوئی بھی شے اتنی بے وقعت اور بے حقیقت ہے کہ جیسے اس کا وجود ہے ہی نہیں۔ وجودیوں کی یہ تشریح ایک مغالطہ دہی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ یہ ابن عربی کے نظریہ کی غلط تشریح ہے۔ ابن عربی کے نزدیک کوئی شے خواہ کتنی ہی چھوٹی اور بے حقیقت ہی کیوں نہ ہو اپنا ایک وجود رکھتی ہے اور یہ ثنویت ہے اور توحید حقیقی کے خلاف ہے۔ ابن عربی خدا کے وجود کے علاوہ کسی اور کے وجود کے سرے سے قائل ہی نہیں۔ وہ وحدت الوجود کے عقیدے کو اسلام کی اساس اور توحید حقیقی قرار دیتے ہیں۔

اب ذرا وحدت الوجود کے مبلغین کا نقطہٴ نظر بھی پڑھ لیں۔ علامہ احمد سعید کاظمی تحریر کرتے ہیں:
’’وحدت الوجود کا مسئلہ تو عین ایمان ہے۔ تمام انبیاء کرام اور اولیاء یہی سبق دیتے آئے تھے اور یہی ہمارا کلمہ ہے جس کے معنی یہ ہیں‘‘

لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ، لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود، مطلوب، مقصود اور موجود نہیں ہے۔ ان میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں پہلا معنیٰ عوام کے لئے ہے اور دوسرا معنیٰ خواص کے لئے ہے اور تیسرا معنیٰ خاص الخاص افراد کے لئے ہے اور چوتھا معنیٰ مقربین کے لئے۔ ایمان کا دارومدار کلمے کے پہلے مفہوم پر ہے اور اصلاح کا دارومدار دوسرے مفہوم پر ہے اور سلوک کا دارومدار کلمے کے تیسرے مفہوم پر ہے اور وصال اور تقرب کا دارو مدار کلمے کے چوتھے یعنی لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ پر ہے۔ وحدت الوجود کا انکار کلمہ شریف کا انکار ہے۔ اُمت محمدیہ اس پر متحد اور متفق ہے۔ بعض لوگوں نے حسد اور عناد کی وجہ سے وحدت الوجود سے انکار کیا ہے ورنہ تمام صحابہ کرام، اہل بیت عظام، تمام صوفیا، اولیا اور علماء شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور ان کا سارا خاندان اور حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی حتی کہ تمام اکابر علما ء دیو بند بھی اسی وحدت الوجود کے قائل ہیں‘‘۔

(مناقب کاظمی صفحہ151)

3۔ صفات باری تعالیٰ اور عینیت

ابن عربی کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات اُس کا عین (ہو بہو) ہیں۔ چونکہ کائنات کا ظہور خدا کی صفت علم میں ہوا ہے اس لئے اس کا خدا سے تعلق عینیت کا ہے۔ مطلب یہ کہ اعیان ثابتہ خدا کے علم میں پہلے سے موجود تھے اور چونکہ خدا کی صفات ازلی اور ابدی ہیں اس لئے اعیان ثابتہ بھی ازلی اور ابدی ہیں۔ علم کے ساتھ معلوم کا ہونا لازم ہے۔ اگر اعیان ثابتہ خدا کے علم میں نہیں تھے تو اس کی صفت علم ناقص ٹھہرتی ہے۔ آپ فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں: فَسُبْحَانَ مَنْ اَظْھَرَ الْاَشْیَآءَ وَھُوَ عَیْنُھَا ’’پاک ہے وہ ذات جس نے کائنات کو اپنے وجود سے ظاہر کیا اور وہ کائنات اس کی عین تھی۔‘‘

ابن عربی کے اس نظریے کے مطابق کائنات بھی خدا کی طرح ازلی اور ابدی ہے۔ اقبال اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

؎ہیں صفاتِ ذاتِ حقِ، حق سے جُدا یا عین ذات؟
اُمت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات

عینیت کو اس مثال سے سمجھ لیں۔ جب آپ آئینہ دیکھتے ہیں تو اس میں آپ ہی کی شبیہ نظر آتی ہے جو کہ آپ ہی کا عکس ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ آئینے کے سامنے کھڑے ہوں اور آئینے میں کسی اور شے کا عکس نظر آنا شروع ہو جائے۔ اس لحاظ سے آئینے میں نظر آنے والا عکس اور شبیہ آپ کی عین ہے غیر نہیں ہے۔

لا عین ولا غیر

فصوص الحکم میں ابن عربی نے لکھا ہے کہ یہ کائنات ایک لحاظ سے خدا کا عین ہے اور ایک لحاظ سے غیر ہے۔ اپنی ماہیئت کے لحاظ سے عین ہے مگر جب تعیین ہو جائے تو غیر ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑھئی لکڑی سے مختلف چیزیں بناتا ہے جیسے میز، کرسی، الماری، دروازہ وغیرہ۔ چونکہ ان سب میں لکڑی کا استعمال ہوا ہے تو یہ سب چیزیں لکڑی کا عین ہے مگر تعیین کے لحاظ سے غیر ہیں۔ اسی طرح کائنات بحیثیت مجموعی خدا کا عین ہے مگر تعیین کی صورت میں (انسان، حیوان، چرند، پرند، پہاڑ، دریا وغیرہ) غیر ہے۔

’’ہمارے اعیان نفس الامر میں اُسی کے اظلال ہیں۔ اُس سے غیر نہیں ہیں۔ حق تعالیٰ باعتبار اطلاق و حقیت کے ہماری عین ذات ہے اور باعتبار تقید و تشخص وہ ہماری ہویت و ذات نہیں۔ پس وہ ایک اعتبار سے عین ہوا اور ایک اعتبار سے غیر ہوا۔‘‘

’’عالم محض وہمی امر ہے۔ اس کا حقیقی و بالذات وجود نہیں۔ خیالی و وہمی کے یہی معنیٰ ہیں یعنی یہ ایک وہمی و خیالی بات ہو گی۔ اگر تم سمجھو کہ عالم ایک شے زائد ہے اور حق تعالیٰ سے خارج اور بنفسہ قائم ہے مگر بنفس الامر میں اور دراصل عالم حق تعالیٰ سے جدا نہیں۔ دیکھو ظل ذی ظل سے ملا ہوا ہے اور ظل کا انفکاک و جدائی ذی ظل سے محال، کیونکہ ہر شے کا اپنی ذات سے انفکاک و جدائی جائز نہیں۔ اب تم اپنے آپ کو پہچانو کہ تم کون ہو اور تمہاری ہویت و حقیقت کیا ہے اور تم کو حق تعالیٰ سے کیا نسبت ہے۔ اور کس جہت سے تم حق ہو اور کس جہت سے تم عالم ہو اور کس اعتبار سے تم اُس کے غیر ہو۔‘‘

(فصوص الحکم۔ فص حکمت نوریہ در کلمہء یوسفیہ)

تثلیث کے عقیدے میں تین خداؤں کا تصور ہے جبکہ ابن عربی کے نظریے کی ہمہ گیریت ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر خدا کے وجود کا حصہ ہونے کا اطلاق ہوتا ہے اور یہی ہمہ اوست کا نظریہ ہے۔ اسی مضمون کو غالب نے اس طرح بیان کیا ہے:

؎دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر
ہم اُس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

اسی لئے ڈاکٹر وحید عشرت نے اپنی کتاب فلسفہ وحدت الوجود میں اس تصور کو ایک Fantasy قرار دیا ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے وجود کا حصہ سمجھنے لگتا ہے اور اس کے خیال میں مرنے کے بعد وہ دوبارہ خدا کے وجود کا حصہ بن جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں یہ Pantheism کا تصور ہے جو دین اسلام میں صریحا شرک اور کُفر ہے۔

مراتب اور تنزیلات

ابن عربی نے ربط الحادث بالقدیم کا جو خاکہ پیش کیا وہ درج ذیل چارٹ سے واضح ہے۔

اس اجمالی خاکے میں وجود باری تعالیٰ سے انسان تک کے سفر کو مراتب سبعہ اور تنزیلات ستہ کے ذریعہ ظاہر کیا گیا ہے۔

پہلا مرتبہ خود ذات خداوندی ہے اور یہ غیب مطلق ہے۔ اسے احدیت کا نام دیا گیا ہے۔ دوسرے مرتبے میں ذات خداوندی کا پہلا نزول ہوا یا پہلی تجلی ظاہر ہوئی جسے وحدت کا نام دیا گیا اور یہ تنزل حقیقت محمدیہ کی صورت میں ظاہر ہوا اور یہ خدا کے ہاں تخلیق کائنات کا اجمالی تصور تھا۔ تیسرے مرتبے میں خدا تعالیٰ نے دوسرا تنزل فرمایا جسے ابن عربی وحدیت کا نام دیتے ہیں اور یہ کائنات کی تخلیق کا تفصیلی تصور تھا جو خدا تعالیٰ کی صفت علم میں تھا۔ ابن عربی اس تفصیل کو اعیان ثابتہ کہتے ہیں۔

یہ پہلے تین مراتب اور دو تنزلات ہیں جو ذات الٰہی میں ہی ہوئے ہیں اسی لئے انہیں مراتب الٰہیہ کا نام دیا گیا۔ اسی طرح چوتھا مرتبہ اور تیسرا تنزل روح کی صورت میں، پانچواں مرتبہ اور چوتھا تنزل امثال کی صورت میں، چھٹا مرتبہ اور پانچواں تنزل جسم کی صورت میں اور ساتواں مرتبہ اور چھٹا تنزل انسان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ چوتھے، پانچویں اور چھٹے مرتبے کو مراتب کونیہ یا امکانیہ کا نام دیا گیا اور آخری ساتویں مرتبے کو مرتبہ جامعہ کی اصطلاح سے نوازا گیا۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب فلسفیانہ اور ذہنی اختراعات ہیں ان کا مذھب اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔

5.مولانا روم

ابن عربی کی وفات 638ھ میں ہوئی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے نظریات اور فلسفہٴ وحدت الوجود کے اثرات بڑی تیزی سے اسلامی دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے۔ وحدت الوجود کے تصور کی سرشاریت نے ہر طبقے کو اپنی گرفت میں لیا مگر خاص طور صوفیا کے گروہ نے اسے توحید حقیقی کی اصلی تشریح سمجھ کر قبول کر لیا۔ جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ مولانا روم نے اپنی مثنوی لکھ کر پوری کر دی۔ مثنوی مولانا روم کو فتوحات مکیہ کا گویا فارسی ترجمہ ہی سمجھنا چاہئے۔

مولانا روم 605ھ میں بلخ میں پیدا ہوئے۔ اپنی جوانی میں دمشق پہنچے اور ابن عربی کی صحبت اور ان کے نظریات سے فیض یاب ہوئے۔ بعد میں ابن عربی کے شاگرد صدرالدین قونوی کی شاگردی اختیار کی۔ فلسفہٴ وحدت الوجود کو جس جمال آفرینی سے مولانا روم نے مثنوی میں پیش کیا ہے اس کا جواب نہیں۔ ابن عربی کا فلسفہ پیچ در پیچ، دقیق اور اصطلاحات سے پُر ہے جو عام آدمی کی سمجھ سے بالا ہے۔ اس کا عشق صوفیاء کے گروہ تک محدود تھا مگر مولانا روم نے وحدت الوجود کو شعر کی زبان میں ایسے عام فہم، دلکش اور افسانوی رنگ میں پیش کیا کہ اسے عوام الناس میں قبولیت عام حاصل ہوئی اور منبر و محراب اور مدرسوں اور خانقاہوں تک اس کی رسائی ہوگئی۔

رومی کہتے ہیں۔

؎بیضہ را چوزیر پر خویش پرورد از کرم؟
کفر و دیں فانی شد و شد مرزغ وحدت پُر فشاں

’’جب اُس نے اس انڈے کو اپنے کرم کی حرارت سے سیا، تو زردی اور سفیدی (کفر و ایمان) کا امتیاز ختم ہو گیا اور مرغ وحدت پر فشاں نمودار ہو گیا۔‘‘ پھر لکھتے ہیں:

؎اتصالے بے تکیف، بے قیاس
ہست رب الناس رابا جان ناس

خدا اور بندہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ نہ انسانی عقل و قیاس اس کا احاطہ کرسکتے ہیں نہ کیف و کم کے ذریعے اُسے بیان کیا جا سکتا ہے۔

نظریہ وحدت الوجود تنقید کی زد میں

تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں یونانی فلسفے کا زہر مسلمان مفکرین کی رگوں میں اتر چکا تھا اور نظریہ وحدت الوجود اپنے ارتقائی مراحل میں تھا۔ اس وقت تجدید دین کی ضرورت تھی سو مسلمانوں کو امام غزالی جیسا مجدد اور عالم دین نصیب ہوا جنہوں نے پانچویں صدی ہجری میں اسلام کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ جارحانہ انداز میں یونانی فلسفے کا رد کرتے ہوئے مسلم دنیا کو اس کے چنگل سے آزادی دلائی۔

ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں ابن عربی کا تخلیق کردہ نظریہ وحدت الوجود مسلمان علماء اور صوفیاء کو اپنے سحر میں جکڑ چُکا تھا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس نظریے کو اسلام کی اساس سمجھ بیٹھی تھی۔ اس دور میں جو سب سے توانا آواز اس کے خلاف اُٹھی وہ امام ابن تیمیہ کی تھی۔

امام ابن تیمیہ: (661ھ – 728ھ)

امام ابن تیمیہ کو حنبلی فقہ کے شارع کے طور پر جانا جاتا ہے۔ آپ بڑے عالم، فقیہ اور محدث تھے۔ اگرچہ ابن تیمیہ نے اپنے زمانے میں پائے جانے والی بدعتوں اور غیر اسلامی نظریات کے خلاف سخت مؤقف اپنایا لیکن آپ کا اصل ہدف اور مخالفت کا نشانہ ابن عربی اور ان کا نظریہ وحدت الوجود تھا۔

ابن تیمیہ نے ایک رسالہ ’’ابطال وحدت الوجود والرد علی القائلین بہا‘‘ کے نام سے لکھا اور بڑی وضاحت سے بڑے قوی دلائل سے نظریہ وحدت الوجود کو غیر اسلامی اور مشرکانہ قرار دیا اور لکھا کہ اس دور میں اسلام کو جتنا نقصان نظریہ وحدت الوجود نے پہنچایا ہے کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ ابن تیمیہ نے اپنے ایک اور رسالے ’’رسالہ حقیقت مذہب الاتحادیین‘‘ میں ابن عربی کا یہ شعر نقل کیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں:۔

؎اَلرَّبُّ حَقٌّ، وَالْعَبْدُ حَقٌّ
یَا لَیْتَ شَعْرِیْ مَنِ الْمُکَلّفِ

اس کا مطلب ہے کہ رب بھی حق ہے اور انسان بھی حق ہے۔ کاش مجھے یہ معلوم ہوتا کہ ان میں سے مکلف (یعنی دوسرے کو احکام کی پابندی کا حکم دینے والا) کون ہے۔ اس شعر کی بنا پر ابن تیمیہ نے ابن عربی کو کافر قرار دیا۔

ملا علی قارئ

فقہ اور حدیث کے بڑے عالم ملا علی قاری اپنی کتاب ’’الرد علی القائلین بوحدت الوجود‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’پھر اگر تم سچے مسلمان اور پکے مومن ہو تو ابن عربی کی جماعت کے کفر میں شک نہ کرو اور اس گمراہ قوم اور بے وقوف اکٹھ کی گمراہی میں توقف نہ کرو… ان لوگوں کی لکھی ہوئی کتابوں کو جلانا واجب ہے اور ہر آدمی کو چاہئے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ علما کا سکوت اور راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کا سبب بنا ہے۔‘‘

(الرد علی القائلین بوحدت الوجود، صفحہ155 – 156)

امام شعرانی

اپنی کتاب ’’لطائف المنن‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’دیکھئے کفار کے عقیدے میں صرف حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت عزیر علیہ السلام کی اللہ کے ساتھ عینیت ثابت ہو رہی ہے لیکن یہ کفار ابن عربی اور مشائخ وجودیہ کی طرح کائنات کو اللہ کا عین نہیں مانتے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد امام شیخ الاسلام سراج الدین البلیقی سے ابن عربی کے بارہ میں پوچھا تو انہوں نے فوراً جواب دیا کہ وہ کافر ہے۔ (لسان المیزان)

حافظ ابن کثیر: تفسیر ابن کثیر کے مصنف حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’اور اس کی کتاب جس کا نام فصوص الحکم ہے اس میں بہت سی چیزیں ہیں جن کا ظاہر صریح کفر ہے۔‘‘ (البدا یہ والنہایہ)

یہ صرف چند مثالیں پیش کی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے علماء اور مشائخ نے ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجود کو صریح کفر قرار دیا۔ لیکن اس مخالفت اور کفر کے فتووں کے باوجود یہ نظریہ مسلمانوں میں پروان چڑھتا رہا اور اس کے آگے وہ دیوار کھڑی نہ کی جا سکی جو امام غزالی نے فلسفہ کے بد اثرات کے آگے کھڑی کر کے اس کی پیش قدمی روک دی تھی۔

جماعت احمدیہ کا مؤقف

جماعت احمدیہ گزشتہ تمام بزرگان اُمت کو احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ابن عربی بھی بڑے جلیل القدر صوفی اور صاحب رویائے صادقہ و کشوف بزرگ تھے۔ اگرچہ نظریہ وحدت الوجود کے ہمہ اوست تصور کو جماعت درست نہیں سمجھتی اور اس معاملے میں ہم انہیں غلطی خوردہ سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود ان پر کفر کے فتووں کی حمایت نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

(ڈاکٹر فضل الرحمن بشیر۔ موروگورو، تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 24 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ