• 20 جون, 2025

آؤ! اُردو سیکھیں (سبق نمبر 32)

آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 32

ضمیر: Pronoun

وہ الفاظ جو کسی اسم کی بجائے استعمال کئے جاتے ہیں اردو زبان میں ضمیر کہلاتے ہیں۔ ان کے استعمال کی وجہ اکثر زبانوں میں تقریباً ملتی جلتی ہے۔ یعنی کسی اسم یا نام کو بار بار استعمال کرنے سے بچنا کیونکہ اس طرح تحریر و تقریر میں روانی قائم نہیں رہتی اور پڑھنے والوں اور سننے والوں پہ بھی کسی نام کا بار بار لیا جانا ناگوار گزرتا ہے۔

ضمیر کی مثالیں: وہ، تم، میں آپ وغیرہ ہیں۔

ضمیر کی اقسام

1۔ شخصی2۔ موصولہ3۔ استفہامیہ4۔ اشارہ،5۔ تنکیر

شخصی ضمیر: یہ اشخاص یعنی انسانوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کی تین صورتیں ہیں(Forms)

جو بات کرتا ہے، ضمیر متکلم (کلام یعنی بات کرنے والا): First Person

جس سے بات کی جاتی ہے(مخاطب یعنی جس کو مخاطب کیا جائے): Second Person

جس کی بات کی جاتی ہے (غائب): Third Person

جبکہ اس کی تین حالتیں ہیں: Three Cases

فاعلی، مفعولی، اضافی:, objective, Possessive Subjective

ضمیر متکلم : میں اور ہم۔ میں واحد کے لئے اور ہم جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

(میں) حالت فاعلی: Subjective Case

(مجھے یا مجھ کو) حالت مفعولی: Objective Case

(میرا) حالت اضافی یعنی ملکیت: Possessive Case

(ہم) حالت فاعلی: Subjective Case

(ہمیں یا ہم کو) حالت مفعولی: Objective Case

(ہمارا) حالت اضافی یعنی ملکیت: Possessive Case

یعنی جب انسان خود اپنی بات کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میں نے یہ کہا یا میں یہ لکھا وغیرہ تو یہ ضمیر متکلم کی فاعلی حالت ہوتی ہے۔ جب کوئی اس انسان سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے یہ کہا گیا یا مجھ کو بتایا گیا وغیرہ تو یہ ضمیر متکلم کی مفعولی حالت ہوتی ہے۔ اسی طرح جب وہ کہنا چاہتا ہے کہ یہ چیز میری ملکیت ہے تو وہ کہتا ہے میری تحریر، میرا کھانا، میرا کام وغیرہ او ر یہ ضمیر متکلم کی اضافی حالت ہوتی ہے۔ یہی معاملہ ہم کے ساتھ ہے۔

ضمیر مخاطب: تو اور تم

(تُو) حالت فاعلی: Subjective Case

(تجھے یا تجھ کو) حالت مفعولی: Objective Case

(تیرا) حالت اضافی: Possessive Case

جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو مخاطب کرتا ہے تو وہ اسے تُو، تم یا آپ کہتا ہے۔ جدید اردو میں تُو کا استعمال جب کسی انسان کے لئے کیا جائے تو یہ حقارت کے معنوں میں ہوگا لیکن جب تُو خدا تعالیٰ کے لئے آئے تو اس کی وحدانیت کی شان کو ظاہر کرتا ہے۔ پس انسانوں کو بے تکلفی کی صورت میں، کم عمری، کم مرتبہ ہونے کی صورت میں تم کہا جاتا ہے۔ تاہم انتہائی محبت کے لئے بھی تم استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم تم واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے تم اچھے انسان ہو۔ تم لوگ اپنی تعلیم پہ توجہ دو۔ جب تم جمع کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اس کے ساتھ بعض الفاظ استعمال ہوتے ہیں جیسے تم لوگ، تم سب، تم سارے وغیرہ۔ اسی طرح جدید اردو میں آپ بھی واحد، جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ آجکل کی مہذب دنیا میں کم عمر، ماتحتوں کو بھی مہذب انداز میں مخاطب کرنے کے لئے آپ کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ عزت اور مرتبے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جس طرح تُو سے تجھے یا تجھ کو اور تیرا بنتے ہیں اسی طرح تم سے تمھیں یا تم کو اور تمھارا بنتے ہیں اور یہ بالترتیب حالت فاعلی، حالت مفعولی اور حالت اضافی کو ظاہر کرتے ہیں۔ اردو میں جس حالت کو حالت اضافی کہا جاتا ہے وہ دراصل ملکیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اور اس کے لئے درست اصطلاح حالت ملکیت ہونی چاہئے۔

ضمیر غائب : وہ

(وہ) حالت فاعلی:Subjective Case

اسے یا اس کو حالت مفعولی :Objective Case

(اس کا) حالت اضافی یعنی ملکیت: Possessive Case

بس ’وہ‘ مذکر اور مونث دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وہ لڑکا، وہ عورت، وہ مرد، وہ مکان، وہ دکان وغیرہ۔ اسی طرح جمع کے لئے بھی ’وہ‘ ہی استعمال ہوتا ہے جیسے وہ لڑکے، وہ عورتیں، وہ مکانات، وہ دکانیں۔ تاہم جب حالت مفعولی ہو تو واحد اور جمع میں فرق آجاتا ہے۔ جیسے واحد کے لئے اسے یا اس کو استعمال ہوتا ہے۔ یہ کتاب اس لڑکے کو دے آؤ۔ یہ بچہ اس عورت کا ہے۔

جمع کی صورت میں ’ان کو یا انھیں‘ استعمال ہوگا۔ یہ کتابیں ان بچوں کو دے دو۔ ان بچوں سے ان کا نام پوچھو۔ ان عورتوں کو ادویات پہنچادو۔ یہ خط انھیں دے دیں۔ ’انھیں‘ عزت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور جمع کے لئے بھی۔

حالت اضافی یا ملکیت میں بھی واحد اور جمع کا فرق ہے مگر مذکر اور مونث کا کوئی فرق نہیں۔ اس لڑکےیا لڑکی سے اس کا نام پوچھو۔ یہ گھر اس کا ہے۔ ان لڑکوں سے ان کا نام پوچھو۔ ہمارے محلے میں غیر ملکی رہتے ہیں یہ گھر ان کا ہے۔ چند خاص باتیں ضمائر سے متعلق:

تُو جو واحد مخاطب کی ضمیر ہے۔ عام بول چال میں صرف اس وقت استعمال کی جاتی ہے جب غصہ، نفرت یا حقارت کا اظہار کرنا ہو۔

تُو خدا تعالیٰ کے لئے اس کی وحدانیت کی شان کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس میں شدید محبت اور اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ کوئی تیرے جیسا نہیں۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔

تُو شاعری اور ادبی نثر میں بھی محبت کے لئے یا انتہائی توقع کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے کہیں اے میرے پیارے بیٹے مجھے تجھ سے یہ امید نہ تھی۔ تو یہاں حقارت نہیں انتہائی توقع کا اظہار ہے جو ٹوٹ گئی۔

تم بھی شاعری اور نثر میں بعض اوقات انتہائی محبت، بے تکلفی یا دوستی کے رشتے کے اظہار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

ہم جو کہ ضمیر متکلم کی جمع ہے واحد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کی وجہ انداز ِگفتگو ہو سکتا ہے جیسے بعض علاقوں میں لوگ میں کی بجائے خود کو ہم کہتے ہیں۔ اسی طرح طاقتور اور امیر لوگ یا علم و معرفت اور روحانیت میں بہت بڑے مقام پہ فائز لوگ بھی خود کو ہم کہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ جیسے بادشاہ کہتے ہیں کہ ہمارے حکم کی تعمیل کیوں نہیں ہوئی، اردو کے مشہور ادیب اور شعرا ءبھی میں کی بجائے ہم کا لفظ استعمال کرتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے مقدس ملفوظات میں بھی خود کے لئے ہم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ہم کا استعمال بات کرنے والا اس صورت میں بھی کرتا ہے جب وہ بات کو عمومیت کا رنگ دینا چاہے۔ جیسے ہم سب نے ہی ایک دن دنیا سے چلے جانا ہے۔ ہماری قوم ترقی نہیں کرسکتی وغیرہ۔

آپ عزت و ا حترام کے لئے واحد غائب کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے آپ نے فرمایا، آپ نے صبر کا نمونہ دکھایا وغیرہ۔ باقی آئندہ ان شاء اللہ

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:
اُس انسان کی طرف سے اگر تکاہل اور تساہل ہوگا تو اِدھر سے بھی حرکت نہ ہوگی۔ اُدھر سے مجاہدہ ہوگا تو اِدھر سے بھی حرکت ہوگی۔ مجاہدہ ایک ایسی شے ہے کہ اس کے بدوں انسان کسی ترقی کے بلند مقام کو پا نہیں سکتا۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا

(العنکبوت: 70)

جو لوگ ہم میں ہوکر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ غرض مجاہدہ کرو اور خدا میں ہوکر کرو تاکہ خدا کی راہیں تم پر کھلیں اور ان راہوں پر چل کر تم اس لذت کو حاصل کرسکو جو خدا میں ملتی ہے۔ اس مقام پر مصائب اور مشکلات کی کچھ حقیقت نہیں رہتی۔ یہ وہ مقام ہے جس کو قرآن شریف کی اصطلاح میں شہید کہتے ہیں۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ180 ایڈیشن 2016)

اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی

اُس طرف سے: انسان کی طرف سے۔

تکاہل: کاہلی، سستی۔

تساہل: سستی، بے پروائی، غفلت۔

حرکت نہ ہونا: کوئی رد عمل نہ ہونا، جواب نہ ملنا، محبت کا اظہار نہ ہونا، نتیجہ نہ نکلنا۔

مجاہدہ: سخت محنت، کوشش۔

اس کے بدوں: اس کے بغیر، اس کے بنا۔

راہیں کھول دینا: عرفان، فہم و ادراک عطا فرمانا۔

خدا میں ہوکر: خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے۔

مصائب: مصیبت کی جمع

مشکلات: مشکل کی جمع، جو کام آسان نہ ہو۔

کچھ حقیقت نہ رہنا: غیر اہم ہوجانا، بے اثر ہوجانا۔

(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ