• 15 جولائی, 2025

طارق احمد اعوان مرحوم کا ذکر خیر

جماعت احمدیہ اسلام آباد کے دیرینہ اور مخلص خادم محترم طارق احمد اعوان مختصرعلالت کے بعد مورخہ 13 اپریل2021 بروز منگل انتقال کر گئے۔ وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً 66 سال تھی۔ محترم طارق احمد اعوان کافی عرصہ سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے۔ طبیعت خراب ہونے پر انہیں ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ Covid-19 اور دیگر عوارض بالخصوص سانس کی تکلیف اور کمزوری کے باعث انہیں ہسپتال میں کئی روز وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ وفات سے ایک روز قبل ڈاکٹروں نے انکی زندگی سے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے وینٹی لیٹر ہٹانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ صبح وینٹی لیٹر ہٹاتے ہی ہسپتال ہی میں انکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

ہوا میں اڑ گئے نالے گئیں بے کار فریادیں

تجہیزو تکفین کے لئے جسد خاکی جب بیت الذکر لایا گیا تو جس طارق صاحب کی مسکراہٹ دیکھنے کے لئے انتظار رہتا تھا اس حالت میں ان کا سامنا بھی کرنے کی جرات نہ پڑ سکی۔ بڑی مشکل سے خاکسارغسل والی جگہ پر پہنچا اور بہت تکلیف اور درد سے چہرہ دیکھ پایا۔ ہر کوئی دنیا میں آتا ہی جانے کے لئے ہے۔ مگر بے وقت موت کے سامنے بھی انسان عاجز اور بے بس ہے۔ یہ آ نکھوں کورلانے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، بچو ں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دلوں کو توڑنے والی اور بستیوں کو اجاڑنے والی حقیقت ہے۔ نہ چھوٹوں پہ شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم، باہر ہوں یاگھر میں حفاظت میں بیٹھے ہوں موت نہیں چھوڑتی۔ ہر کسی نے اپنی باری پر حقیقی گھر جاناہے۔ بس دیر ہے کل یا پرسوں کی۔
تم ٹھنڈے ٹھنڈے گھر جاؤ ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں

نماز جنازہ اسی روز بعد نماز ظہر ادا کی گئی جس میں محترم امیر صاحب اور دونوں نائب امرا ءسمیت کثیر تعداد میں احباب جماعت نے شرکت کی۔ مکرم مربی ضلع نے نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد احمدیہ قبرستا ن میں آپ کی تدفین ہوئی بڑی تعداد میں احباب تدفین کے موقع پر بھی موجود تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مرحوم طارق احمد اعوان موصی تھے اور انکا چندوں کا حساب بھی بالکل صاف تھا تا ہم پسماندگان کی خواہش کے مطابق انہیں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ اگر یہ رسم دنیا نہ ہوتی تو کب کسی کا اپنے پیارے پر مٹی ڈالنے کا دل کرتا۔

پھول کیا ڈالو گے تربت پر مری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

محترم طارق احمد اعوان یکم جنوری 1955 کو بر سلز (بیلجیئم) میں پیدا ہوئے تھے جہاں انکے والد محترم سعید احمد اعوان وزارت خارجہ میں ملازمت کےسلسلہ میں مقیم تھے۔ دسمبر 1965 میں آپ اسلام آباد شفٹ ہوئے سکول کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے PWD میں سرکاری ملازمت جائن کی اور یکم جنوری 2015 کو ریٹائرڈ ہوئے۔ محترم طارق احمد اعوان پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے پڑدادا کے ماموں حضرت ولی داد خان کے ذریعہ آئی جنہیں 1902 میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے دست مبارک پر بیعت کرنے کی توفیق ملی اور حضور ؑ کے صحابی ہونے کا شرف پایا۔

مرحوم طارق احمد اعوان نے بچپن سے بڑھاپے تک ہمیشہ جماعت سے گہری وابستگی رکھی۔ پنجوقتہ نمازوں کے پابند تھے۔ بیماری کے ایام میں بھی نمازیں باقاعدگی سے لیٹے لیٹے پڑھتے رہے۔ زندگی کے آخری دم تک جماعت کے ایک فعال اور سر گرم رکن رہے۔ آپ کو کئی سال خدام الاحمدیہ میں ناظم مال اور جماعتی نظام میں G-6 اور PWD کے حلقہ جات کے سیکرٹری مال کی حیثیت سے خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ 2010 میں آپ جماعت کے سہ سالہ جماعتی انتخابات میں سیکرٹری تحریک جدید منتخب ہوئے اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے تا حیات یعنی تقریباًگیارہ سال تک اس ذمہ داری کو انتہائی احسن طور پر ادا کیا۔ اور خدمت دین کا حق ادا کر دیا۔ تحریک جدید کے وعدوں اور پھر مرکز کی طرف سے مقرر کردہ ٹارگٹ کے حصول کے لئے آپ دن رات کام کرتے اور ہر سال مرکز سے خوشنودی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے۔ وفات سے قبل بھی بچوں کو کہتے رہے کہ مجھے دفتر سے تحریک جدید کی لسٹیں منگوا دو تا کہ میں رمضان سے پہلے حلقہ جات میں تقسیم کر سکوں۔ جب بچے انہیں منع کرتے کہ ٹھیک ہونگے تو آجائیں گی۔ تو جواباً کہتے کہ لسٹیں نہ ملیں تو میں مر جاؤں گا۔ آپ کو کئی سال بیت الذکر کے کمپیوٹر سیکشن میں بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ جہاں آپ نے اپنی استطاعت سے بڑھ کر کام کیا اور حضرت مصلح موعود ؓ کے فرمان پر من و عن عمل کیا۔

؎خدمت دین کو اک فضل الہٰی جانو
اس کے بدلےمیں کبھی طالب انعام نہ ہو

مرحوم طارق احمد اعوان کو 1974 اور 1984 کے احمدیہ مخالف فسادات کے دوران بیت الذکر اور بیت الفضل میں حفاظتی ڈیوٹی دینے کی سعادت بھی نصیب ہوئی 1974 میں فسادات کے دوران شر پسندوں نے زیر تعمیر بیت الذکر کو آگ لگادی جس کے نتیجہ میں قرآن کریم کے کئی نسخہ جات شہید ہونے کے علاوہ ڈیوٹی پر موجود مکرم طارق احمد اعوان اور ایک خادم وسیم احمد شاہد کے بستر بھی جل گئے تا ہم خوش قسمتی سے یہ دونوں خادم محفوظ رہے۔ بیت الذکر کی تعمیر کے دوران جب بھی وقار عمل ہوتا۔ محترم طارق احمد اعوان صاحب ہمیشہ پیش پیش ہوتے۔ آپ کو چند بار خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں سائیکل پر مرکز جانے اور انعام حاصل کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اسی طرح آپ کو اسیران راہ مولا سے ملاقات کے لئے اسلام آباد سے ساہیوال جانے والے وفد میں شامل ہونے کی بھی توفیق ملی۔ بیماروں کے لئے کئی بار خون کا عطیہ دینے کی توفیق پانے کے علاوہ آپ کو سالہا سال وفات پا جانے والے احمدی احبا ب کی میتوں کو غسل دینے کا منفرد اعزاز بھی حاصل رہا۔ اسلام آباد میں جہاں کہیں بھی کوئی احمدی فوت ہو جاتا تو میت کو غسل دینے کے لئے اکثر طارق احمد اعوان صاحب کی خدمات حاصل کر نا پڑتیں اور آپ ہمیشہ خوشدلی اور خندہ پیشانی سے یہ خدمت بجا لاتے۔

جب سیکرٹری تحریک جدید بنے تو اس شعبہ میں اپنی جماعت کا نام پیدا کرنے کے لئے اور حضور انور کی زبان مبارک سے اپنے ضلع کا نام سننے کے لئے انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اپنے دوستوں اور عزیزوں کو کہتے کہ اسلام آباد کو بھی تحریک جدید میں یاد رکھنا۔ پھر ان سے اس مد میں وعدہ لے کے وصولی کرنا ان کا معمول ہو جاتا۔ جب سے انہوں نے سیکرٹری تحریک جدید کا چارج سنبھالا۔ اس کے بعد یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ اول ہی آتی رہی۔ الحمد للّٰہ۔ حضور انور کی زبان مبارک سے یہ اعلان سن کر آپ بہت خوش ہوتے۔ خود بھی ہمیشہ مالی قربانی میں پیش پیش رہے اور دوسروں کو بھی تلقین کرتے رہے۔ اسلام آباد کی تجنید میں تقریبا ًننانوے فیصد لوگوں کو ذاتی طور پرجانتے تھے اور بعض کا وصیت کا حساب بھی خود رکھا ہو اتھا۔ اگر میں کہوں کہ آپ اسلام آباد کے داعی تھے تو غلط نہ ہو گا۔ میرے پیارے بھائی اور مخلص خادم سلسلہ ہمیشہ کے لئے ہم سے جد اہو گئے۔ یقین نہیں آتا کہ وہ اب ہم میں نہیں۔ روزانہ مسکراتا چہرہ یاد آجاتا ہے۔ پیار سے کہنا السلام علیکم بھٹی صاحب نہیں بھولتا۔

وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا، اب اس کا حال بتائیں کیا

طارق احمد اعوان صاحب بہت ملنسار اورطبیعت کے بہت سادہ تھے۔ بعض اوقات صبح صبح جبکہ میں سویا ہوتا تو فون آجاتا میں 10 منٹ تک کلثوم ہسپتال کے سٹاپ پر پہنچ جاؤں گا۔ مجھےPick کرنا اور میں انہیں موٹر سائیکل پر وہاں سے لے لیتا۔ دس منٹ کے راستے میں تمام گھر کے حالات سے آگاہ کرتے۔ امی کی طبیعت کیسی ہے۔ نواسے سے میں اس طرح کھیلتا رہا۔ ٹینکی بھری۔ پودوں کو پانی لگایا۔ وغیرہ۔

مکرم طارق صاحب بہت خوش اخلاق تھے ہر چھوٹے بڑے سے بہت محبت سے بات کرتے۔ ان کے چہرہ پر ہمیشہ خوبصورت مسکراہٹ رہتی۔ دوستوں کو لطائف اور چٹکلوں سے محظوظ کرتے۔ لطائف سن کراور سنا کر جو مسکان اُن کے چہرے پر آتی اس میں شرارت بھری ہوئی ہوتی اور یہ مسکان تھی بھی بہت کمال کی۔ اگرچہ بہت کم گو تھے مگر جو اُن کے ساتھ گھل مل جاتااسے بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ زندہ دل انسان تھے۔ بقول ان کے مکرم ناصر صاحب سیکرٹری مال کے ساتھ کام میں بھی بہت مزا آتا تھا۔ گو ناصر صاحب عمر میں ان سے چھوٹے تھے مگر ایک دوسرے کی بہت عزت بھی کرتے۔ ناصر صاحب کے کینیڈا شفٹ ہونے پر وہ پہلے والی رونق اور مسکراہٹ نہ رہی۔

افسوس دن بہار کے یونہی گزر گئے

طارق اعوان صاحب کینیڈا میں بھی ان سے رابطہ میں رہے اور ہر معاملے میں ان سے مشورہ کرتے۔ اپنی عمر رسیدہ والدہ کا بہت ذکر کرتے اور ان کی صحت کے لئے دعا کی درخواست کرتے۔ میں نے اس عمر میں آپ جیسا فرمانبردار اور اطاعت گزار بیٹا نہیں دیکھا۔ اللہ میاں آپ کی والدہ کو صحت والی لمبی عمر عطا فرمائے۔ آمین

کبھی کبھی کام کی زیادتی کی وجہ سے انہیں دفتر وقت کے بعد بھی ٹھہرنا پڑتا۔ میں کہیں باہر ہوتا تو بے تکلفی سے میری بیگم کو کہہ دیتے کہ ایک کپ چائے بنا دیں۔ بیگم کو اکثر مہمانوں کو کھانا کھلانے میں حجاب ہی رہتا ہے کہ پتا نہیں ان کو کیا پسند ہوگا ہمارے معیار کا بھی ہو گا یا نہیں۔ مگر جب کبھی میں کہتا کہ آج طارق صاحب بھی ہونگے۔ تو فورا ًکھانا بنا دیتی اُس کو پتہ تھا کہ طارق صاحب بہت سادہ طبیعت کے مالک ہیں جو روکھا سوکھا ہوگا کھا لیں گے۔ ان کی معصوم طبیعت کے بارے میں آج بھی ہمارے گھر میں ذکر ہوتا ہے۔

میں نے بیٹے کی شادی کرنی تھی ان سے مشورہ لیا تو بڑے بھائی کی حیثیت سے مشورہ دیا۔ اور کہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ غریبوں کے ہمدرد اور مددگار، انسانیت دوست خدمت خلق کرنے والے طارق صاحب ہمیشہ یاد رہیں گے۔

ہرصبح نما زکے بعد ہی آپ کی طرف سے واٹس ایپ آجا تا۔ کبھی کوئی مسیج نہ آتا تو پریشانی ہو تی کہ خدا خیر کرے۔ پھرواٹس ایپ کر کے پوچھا بھی جاتا۔ آج خیریت کا میسج نہیں آیا۔ ان کی وفا ت سے جماعت ایک مخلص اور بے لوث خادم سلسلہ سے محروم ہو گئی ہے۔ مکرم طارق صاحب نے اپنی والدہ محترمہ اور اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں، دو بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان اور سب لواحقین کو صبر ِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین

(مبارک ا حمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

فقہی کارنر