نیشنل عاملہ مجلس انصار اللہ کینیڈا کی حضور انور کے ساتھ آن لائن ملاقات کے دوران قائد صاحب عمومی نے حضور انور سے سوال کیا کہ بعض دوستوں کو جب کوئی ذمہ داری دینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ آگے سے معذرت کر لیتے ہیں۔
حضورِانور نے فرمایا کہ آپ ذمہ داری دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ معذرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب یہی تو آپ کے لیے چیلنج ہے کہ کس کی کوشش کامیاب ہوتی ہے۔ بات یہ ہے کہ پہلے دیکھا کریں کہ انسان کوئی ذمہ داری اٹھانے والا ہے بھی کہ نہیں۔ قحط الرجال تو کوئی نہیں پڑا ہوا۔ وہاں لوگوں کی کمی تو کوئی نہیں ہے۔ کینیڈا میں لوگ تلاش کریں۔ بعض لوگ، آپ سمجھتے ہیں کہ باتیں کرنے والے بڑے ہیں تو ان کو ذمہ داری دو۔ بعض لوگ ہوتے ہیں صرف باتیں کرنے والے۔ دوسروں کے کام پہ تنقید کرنے والے اور مشورے دینے والے کہ اس کو اس طرح ہونا چاہیے اور اس کو اس طرح ہونا چاہیے۔ جب آپ ان کو کہیں کہ اچھا آؤ بھئی سامنے آؤ، تم کام کرو۔ توکہتے ہیں نہیں نہیں میرے پاس وقت نہیں ہے۔ ان لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔ صرف انہوں نے باتیں کرنی ہیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی ضرورت کوئی نہیں۔ ہاں نئے نئے لوگ تلاش کریں، نئے آنے والے تلاش کریں۔ اب یہاں بھی میں نے دیکھا ہے بعض انصارآپ نے صف دوم کے لیے ہوئے ہیں۔ اگر بڑی عمر کے نہیں آتے تو صف دوم کے انصار کو کہیں کہ وہ آگے آئیں، ان سے کام لیں۔ آپ کی سیکنڈ لائن بھی تیار ہو جائے گی اور ان کی ٹریننگ بھی ہو جائے گی۔ اسی طرح آپ نے جو ایڈیشنل لگائے ہوئے ہیں ان کے ساتھ بہت سارےنائبین بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ تو اس طرح بھی تربیت ہو جائے گی۔ تو آئندہ آپ کو کام کرنے والے لوگ مل جائیں گے۔ تو زبردستی تو آپ کسی سے کام نہیں لے سکتے۔ اور معیار کیا ہے آپ کا، کیوں آپ ان کو زبردستی دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ جس کی خواہش ہی نہیں کہ دینی خدمت کرے اس سے زبردستی آپ خدمت نہیں لے سکتے اس لیے ایسے لوگ تلاش کریں جو واقعی دین کی خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہوں، صرف باتیں کرنے والے نہ ہوں۔ آپ لوگ باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں، باتوں سے متاثر نہ ہوا کریں لوگوں کا، ہرشخص کا پہلےاچھی طرح گہرائی میں جا کے غور سے مطالعہ کیا کریں اور پھر دیکھیں کہ ہاں اس سے کس قسم کا کام لیا جاسکتا ہے اور پھر کام لینے کی کوشش کریں۔
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 23 نومبر 2021ء صفحہ3)
مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر فضیلت
اللہ تعالیٰ نے مومنین کے دو گروہوں کا ذکر اس آیت میں بیان کیا ہے۔
لَا یَسۡتَوِی الۡقٰعِدُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ غَیۡرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الۡمُجٰہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ ؕ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ دَرَجَۃً ؕ وَ کُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الۡحُسۡنٰی ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰہُ الۡمُجٰہِدِیۡنَ عَلَی الۡقٰعِدِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا۔ دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ وَ مَغۡفِرَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا۔
(النساء: 96-97)
’’مومنوں میں سے بغیر کسی بیماری کے گھر بیٹھ رہنے والے اور (دوسرے) اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ اللہ نے اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ذریعہ جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک نمایاں مرتبہ عطا کیا ہے۔ جبکہ ہر ایک سے اللہ نے بھلائی کا ہی وعدہ کیا ہے۔ اور اللہ نے مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجرِعظیم کی فضیلت عطا کی ہے۔ (یہ) اس کی طرف سے درجات اور بخشش اور رحمت کے طور پر (ہے)۔ اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے۔‘‘
پس ایسے لوگ جو مومنوں میں سے بیٹھ رہنے والے ہیں اور وہ مجاہدین جو اللہ کی خاطر اپنے اموال، اپنی جانوں اوروقت کے ذریعے جہاد میں مصروف ہیں درجات میں ایک جیسے نہیں ہیں۔ حالانکہ ویسے تو سب مومنین کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے حسن سلوک کا وعدہ فرمایا ہے لیکن مجاہدین کے ساتھ جو غیر معمولی فضلوں کاسلوک ہے بیٹھ رہنے والوں کو اس کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ یہ ایسے عظیم درجات ہیں جو ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے ہیں۔
ان آیات میں ایک گروہ. جو خدا کی خاطر ہر قسم کی قربانی کرنے والے صف اوّل کے خدمت دین کرنے والوں کا ذکر ہے۔ ہر خدمت کے میدان میں آگے بڑھنے والے ہیں اور کسی قسم کے بھی حالات ان کے اخلاص اور ان کے جذبہ خدمت پر برے رنگ میں اثر انداز نہیں ہوتے۔ دوسرے اس گروہ کا ذکر ہے جو اپنے دین کی تو حفاظت کرتا ہے، اپنے ایمان کو نقصان بھی نہیں پہنچنے دیتا لیکن عملاً غیر معمولی طور پر خدمت دین میں آگے نہیں بڑھتا، خاموش بیٹھا رہتا ہے۔ جو خدمت کرنے والے ہیں ان کو تعریف کی نظر سے بھی دیکھتا ہے، ان کے حق میں دعاؤں کی توفیق بھی ملتی ہوگی مگر خود خدمت دین کے لئے سامنے نہیں آتے۔
خدمت دین کے لئے
آگے آنے والوں کےفقدان کی وجوہات
ہمارے بہت سے عہدیداران جو مختلف حیثیتوں میں خدمت کی توفیق پارہے ہوتے ہیں جن کے ذمے اپنی عاملہ کو تشکیل دینے کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے ان کو یہ امر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ مومنوں کے پہلے دو درجات جن کو صف اول اور صف دوم کے درجے کے مومن قرار دیا جاسکتا ہے جن کا اس آیت میں ذکر ہے۔ ایک وہ ہیں جو ہر عسر اور یسر میں بحر حال سابقون میں شامل رہتے ہیں اور خدا کی خاطرخدمت دین سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ بہت سے عہدیدار ہیں جو ان کے حال پر نظررکھ کر راضی ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ خدمت دین کر رہے ہیں بس یہی کافی ہے اور ان پر متعدد ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ حالانکہ ایک اور طبقہ بھی ہے جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ ہیں بیٹھ رہنے والے جو ایمان کے لحاظ سے مضبوط بھی ہوتے ہیں لیکن عملاً خدمت دین سے محروم ہوتے ہیں۔ ہمارے منتظمین ایسے لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور ان پر محنت نہیں کرتے۔ اور وہ منتظمین جو مسلسل یہ خیال رکھتے ہیں کہ نسبتاً پیچھے رہنے والوں کومحنت کرکے آگے لایا جائے اور ان کو عظیم الشان درجات سے محروم نہ رکھا جائے۔ چنانچہ روز بروز ان جماعتوں کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ عموماً اکثر صورتوں میں بنے بنائے مخلصین پر اکتفا کر لیا جاتا ہے اور اضی رہتے ہیں اور منتظمین کو خود سے مخلصین بنانا نہیں آتا۔
تو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ یہ جو چند خدمت گزار ہیں جو خود بخود اخلاص کے ساتھ جھولی میں آگرتے ہیں جن کا ذکر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر حالت میں انہوں نے خدمت کرنی ہی کرنی ہے وہ ہمیشہ صف اول میں ہی رہیں گے۔ وقت و مال کی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہیں گے۔ ان پر بنا کرتے ہوئے راضی رہنا اس سوچ کے ساتھ کے ہماری مستقبل کی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں گے یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔
قحط الرجال تو نہیں ہے
خاکسار نے حضور انور کا جو حوالہ شروع میں درج کیا ہے اس میں آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ
’’قحط الرجال تو کوئی نہیں پڑا ہوا۔ وہاں لوگوں کی کمی تو کوئی نہیں ہے۔‘‘
جب بھی عاملہ بنانے کا مرحلہ پیش آتا ہے تو اکثر یہی سننے کو ملتا ہے کہ جی یہاں تو قحط الرجال ہے۔ کام کرنے والے ملتے ہی کوئی نہیں۔ مگر قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط الرجال نہیں ہوتا۔ بہت سے لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں تمہیں نظر نہیں آرہے ہوتے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیاری جماعت میں کثرت سے ایسے مخلصین ملیں گے جن میں الرجال بننے کی خاصیت موجود ہے جن کو ہم نظر انداز کئے بیٹھے ہیں۔ سب سے زیادہ خطرناک دور جسے قحط الرجال کا دور کہا جاسکتا ہے وہ انبیاء کے ظہور کادور ہوتا ہے ایک دفعہ تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ خدا تعالیٰ نےہر دوسرے شخص کو رد فرمافرما دیا ہے۔ ایک وجود ابھرتا ہے اس کے ارد گرد فساد کی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ وہ لوگ جو انتہائی ذلالت کی اتھاہ گہرائیوں میں دبے ہوئے ہوتے ہیں وہ پاک وجود ان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کردیتا ہے۔ پس حضرت اقدس محمد ﷺ کے زمانے میں جتنا قحط الرجال بظاہر ممکن ہو سکتا تھا وہ تھا لیکن اللہ کی تقدیر نے ثابت کردیا کہ ایک جری اللہ کے سامنے قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو اللہ پر توکل کرتے، دعاؤں سے مدد مانگتے رہتے ہیں ان کو خدا توفیق بخشتا ہے کہ جہاں مرد نظر نہ آرہے ہوں وہاں سے مرد پیدا کرکے دکھا دیتے ہیں پس ہم سب بھی تو اسی کے غلام ہیں اور اس کی محبت کا دم بھرتے ہیں، اس کے کام آگے بڑھانے کاعہد کرتے ہیں تو قحط الرجال کہہ کر ہم خاموش بیٹھ رہنے والوں کی تلاش ترک نہیں کرسکتے۔
خاموش پیچھے بیٹھ رہنے والوں کی تلاش کا طریقہ
چنانچہ تمام عہدیداران، امراء، صدران، قائد ین یا زعماء کو چاہئے کے کچھ پیچھے ہٹنے والے کمزور بھائیوں پر تھوڑی تھوڑی ذمہ داریاں ڈالنا شروع کریں۔ ان کو اپنے ساتھ پیار ومحبت کا سلوک کرتے ہوئے جوڑیں۔ ان پر اعتماد کریں۔ ان سے کہیں کہ یہ کام جماعت کے ہونے والے ہیں چند ہی آدمی ہیں جن پر بار بار بوجھ ڈالے جاتے ہیں خطرہ ہے کہ وہ تھک نہ جائیں ان کی طاقت سے بوجھ بڑھ نہ جائے اس لئے آپ تھوڑا ساان کو سہارا دیں۔ بعض اچھےکام کرنے والوں کےساتھ بعض کمزور آدمی لگائے جائیں۔ نوجوانوں کو بھی پکڑا جائے اور کچھ نہ کچھ کام دیا جائے۔ کام اگر دیاجائےاور کوئی کام کر لے تو اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ کسی شخص کا یہ احساس کہ میں نے اچھا کام کیا ہے یہ ہی اس کی جزا ہوا کرتی ہے اور آئندہ کام کرنے کی دل میں طلب پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا اہم نفسیاتی نقطہ ہے جس کو بھلا دینے کے نتیجے میں ہم بہت سے ایسے آدمیوں کو ضائع کردیتے ہیں۔ کسی آدمی کو پکڑ کر کوئی اچھا کام لیں اور پھر دیکھیں اس کے اندر کتنی بشاشت پیدا ہوجاتی ہے اور آئندہ اس سےبھی زیادہ کام کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعا لیٰ کے فضل سے رفتہ رفتہ ترقی ہوتی چلی جاتی ہے۔ مگر یہ کام ایک دو دنوں میں ہونے والا نہیں ہے۔ بعض دفعہ مہینوں بلکہ سالوں لگ جاتے ہیں ایسے مخلصین کو تراشنے میں۔ لیکن ایسی جماعتیں، مجالس جو اس طرح اپنے کمزوروں کو طاقتوروں میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں ان کی حالت دن بدن بدلتی چلی جاتی ہے۔
حرف آخر
پس اس نقطہ نگاہ سے حضور انور کی مندرجہ بالا نصائح کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی، صوبائی، جماعتی اور مجالس ہر سطح پر ایسے افراد جماعت جن کی بہت سی صلاحیتیں ابھی پوشیدہ ہیں، ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ نہیں ڈالے گئے، ان کے متعلق منصوبے بنائے جائیں کہ کس طرح ان کو آہستہ آہستہ جماعت کے غیر معمولی فعال اورخداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے وجودوں میں تبدیل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(خالد محمود شرما۔ ایڈیشنل قائد تعلیم مجلس انصاراللہ کینیڈا)