• 15 جولائی, 2025

قرآنی انبیاء (قسط 2)

قرآنی انبیاء
حضرت ادریس علیہ السلام
قسط 2

اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کے لئے بہت سے انبیاء کو اس دنیا میں بھیجا۔ انہیں انبیاء میں سے ایک حضرت ادریس ؑ بھی ہیں جنہیں بائیبل کی زبان میں حنوک اور انگلش میں ENOCH کہا جاتا ہے۔ آپ کا زمانہ چونکہ بہت پرانا ہے اس لئے معین طور پر آپ کے حالات زندگی کم ہی ملتے ہیں۔ البتہ اسرائیلی افسانوں میں ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ حضرت ادریسؑ کو خدا تعالیٰ نے وفات دیئے بغیر ان کے ظاہری جسم کے ساتھ آسمان پر اُٹھا لیا۔ حقیقت میں یہ عقیدہ نہایت غلط ہے اور خود مسلمان علماء میں سے بھی اکثر نے اس عقیدے پر اعتراض کیا ہے اور اسے اسرائیلی عقیدہ قرار دیا ہے کیونکہ قرآن کریم کی رو سے کسی بشر کے لئے کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ زندہ اسی جسم کے ساتھ آسمان پر جا سکے۔ جیسا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ سے منکرین نے آسمان پر جانے اور وہاں سے ایک کتاب لانے کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا ’’ہَلۡ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا‘‘ یعنی میں تو صرف ایک بشر ہوں اور اللہ کا رسول ہوں (پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آسمان پر جا کر تمہارے لئے ایک کتاب لے آؤں)

قرآن کریم نے اس واقعہ کو محفوظ کر کے یہ بتلا دیا ہے کہ کوئی انسان اپنے دنیاوی جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی جنتوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہر ایک انسان کے لئے اسی دنیا میں زندہ رہنا اور اسی زمین پر مرنا مقدر ہے اور کوئی انسان بھی اس سنت الہی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا ورنہ پھر اسے انسانوں سے اعلیٰ وجود قرار دینا پڑے گا۔

پس حضرت ادریسؑ کے متعلق آسمان پر جانے کی روایتیں غلط اور ناقابل اعتبار ہیں اور خود مسلمان مفسرین نے انہیں اسرائیلی قصے قرار دیا ہے۔

جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ آپ کے حالات زندگی میں سے بہت کم حالات محفوظ ہیں لیکن مختلف محققین کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا تعلق عراق کے شہر بابل سے تھا۔ جہاں سے بعد میں آپ ہجرت کر کے مصر میں آباد ہو گئے۔ آپ حضرت نوحؑ کے بزرگوں میں سے تھے اور حضرت نوحؑ کے متعلق تحقیق یہ بتاتی ہے کہ آپ عراق میں رہنے والے تھے۔

حضرت ادریسؑ کو خدا تعالیٰ نے نبوت کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور قرآن کریم میں دو مقامات پر آپ کا ذکر ملتا ہے۔ سورۃ مریم آیت نمبر 56-57 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

یعنی اس کتاب میں ادریسؑ کا بھی ذکر کرو۔ بے شک وہ ایک صدیق نبی تھا اور ہم نے اسے بلند مرتبہ عطا کیا تھا۔

اسی طرح سورۃ الانبیاء میں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ کو صبر کرنے والا قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ان دونوں مقامات پر آپ کے ذکر سے پتہ چلتا ہے کہ صبر اور سچائی آپ کی خاص صفات ہیں۔ گو کہ یہ صفات ہر نبی میں ہی ہوتی ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں ان صفات کا خاص ظہور ہوا ہو گا اور آپ کے حالات ایسے ہوں گے کہ صبر اور سچائی خاص طور پر نمایاں ہو کر سامنے آئی ہو گی۔

نبوت کی نعمت پانے کے بعد آپ نے لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلانا شروع کیا اور بہت سے لوگوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور ایک جماعت آپ کے متبعین کی تیار ہو گئی۔ دیگر انبیاء کی طرح آپ نے بھی لوگوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیوں کی تلقین کی۔ عبادت کے طور طریق بھی مقرر کیے گئے اور عیدیں وغیرہ رکھی گئیں۔ جیسے آج کل اسلامی عیدیں چاند کی تاریخوں کے حساب سے منائی جاتی ہیں۔ ویسے ہی اس وقت بھی عیدوں اور قربانیوں کے لئے ستاروں اور سورج وغیرہ سے مدد لی جاتی تھی۔ اسی بناء پر بعض تحقیق کرنے والوں نے یہ بیان کر دیا ہے کہ علم نجوم اور حساب وغیرہ ان کی ایجاد ہے۔ خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی اصل بات یہی ہے کہ آپ نے دیگر انبیاء کی طرح اپنی قوم کو توحید کا درس دیا۔ اعمال صالحہ بجا لانے کی تلقین کی اور آخرت کے متعلق بتایا اور قریباً 82 برس کی عمر پا کر اس عالم فانی سے کوچ فرمایا اور وفات پر کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ مختلف عرب مصنّفین نے حضرت ادریسؑ کو حکمت اور طب کا بانی قرار دیا ہے نیز لکھا ہے کہ آپ سے پہلے لوگ کھالیں پہن کر گزار کرتے تھے۔ آپ نے پہلی مرتبہ لوگوں کو کپڑا بننے کی طرف راغب کیا اور یوں کپڑا بننے کا علم رائج ہوا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چونکہ آپ کے مکمل حالات محفوظ نہیں ہیں اس لئے یہ تمام باتیں خیال اور ظن کا درجہ تو پا سکتی ہیں لیکن انہیں مکمل حقیقت قرار دینا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی یہ درست ہو گا۔ تا ہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے نیک صالح اور برگزیدہ نبی تھے جو حضرت نوحؑ کے آباؤ اجداد میں سے تھے اور حضرت نوحؑ سے کچھ عرصہ قبل مبعوث ہوئے تھے۔

(فرید احمد نوید ۔پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ