آؤ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 33
ضمیر: Pronoun
قاعدہ: اگر ایک فقرے میں ایک اسم (نام، شخص) یا ضمیر فاعل ہو یعنی فقرے کا سبجیکٹ ہو اور وہی اس فقرے کا مفعول یعنی آبجیکٹ بھی ہو تو ضمیر کی مفعولی حالت یعنی آبجکٹیو کیس استعمال کرنے کی بجائے، آپ کو، اپنے تیئں، اپنے آپ کو، خود کو وغیرہ میں سے کوئی ایک استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً اکبر اپنے آپ کو لوگوں سے دور رکھتا ہے۔ اس فقرے میں کام کرنے والا بھی اکبر ہے یعنی فاعل اور جس پر کام ہورہا ہے وہ بھی اکبر ہے یعنی مفعول تو یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ اکبر اِس کو یا اُس کو لوگوں سے دور رکھتا ہے یہ کہیں گے کہ اکبر اپنے آپ کو لوگوں سے دور رکھتا ہے۔ پھر ایک اور فقرہ دیکھتے ہیں۔ اکبر اپنے تئیں بڑا آدمی سمجھتا ہے۔ جدید اردو میں اس کو اس طرح کہتے ہیں کہ اکبر خود کو بڑا آدمی سمجھتا ہے، اکبر خود کو لوگوں سے دور رکھتا ہے۔
پس جب فاعل ہی مفعول ہو تو ضمیر مفعولی کی بجائے مندرجہ بالا الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
قاعدہ: اگر فقرے میں فاعل ہی مفعول ہو یعنی ایک انسان یا چیز خود اپنے ہی بارے میں بات کررہی ہو اور اس کی ملکیت ظاہر کرنی ہو تو ضمیر کی اضافی حالت کی بجائے اپنا، اپنی، اپنے حسب موقع استعمال ہوں گے۔ مثلاً اکبر اپنی حرکت سے باز نہیں آتا۔ تم اپنا کام کرو۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ تم تمھارا کام کرو۔ یا اکبر اس کی حرکت سے باز نہیں آتا۔ پھر دیکھیے فقرہ مجھے اپنے کام سے فرصت نہیں۔ ایک اور فقرہ دیکھتے ہیں۔ وہ خود تو چلے گئے مگر اپنا کام مجھ پہ چھوڑ گئے۔
لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جب کہ فقرے میں کام کرنے والا یعنی فاعل جسے انگریزی میں سبجیکٹ کہتے ہیں ایک ہو اگر فاعل الگ الگ ہیں تو اپنے کی ضمیر نہیں آئے گی، بلکہ جس ضمیر کا موقع ہوگا اسی کی اضافی حالت آئے گی اور یہ آپ کو یاد ہوچکا ہوگا کہ اضافی حالت ملکیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اب اس نکتے کو آسان مثال سے سمجھتے ہیں۔
وہ تو چلے گئے مگر ان کا کام مجھ پر آن پڑا۔ اس فقرے میں دو فاعل ہیں ایک (وہ) اور دوسرا (ان کا کام) اس لئے لفظ اپنا استعمال نہیں ہوا بلکہ ضمیر اضافی ان کا، استعمال ہوئی۔ اگر یہاں ہوتا کہ وہ تو چلا گیا تو پھر ضمیر ہوتی اس کا کام۔ پس چلے گئے سے فاعل کا جمع ہونا ظاہر ہے یعنی ایک سے زائد لوگ چلے گئے اس لئے ضمیر جمع کی آئی یعنی ان کا کام۔ اردو میں عزت کے لئے بھی جمع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ تم تو چلے گئے مگر تمھارا کام انہوں نے مجھے سونپ دیا۔ اس فقرے میں بھی دو فاعل ہیں تم اور انہوں نے۔ یہاں سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ضمائر بھی بطور فاعل استعمال ہوتی ہیں اور یہ انگریزی زبان میں بھی ہوتا ہے۔یہ تو آپ کو یاد ہوگیا ہوگا کہ ضمیر کو انگریزی میں پروناؤن کہتے ہیں۔
قاعدہ: اس کا فیصلہ کہ اپنا، اپنی، اپنے میں سے کون سا لفظ کب اور کہاں آئے گا مضاف کے لحاظ سے حسبِ ترتیب کیا جاتا ہے۔ اگر مضاف واحد مذکر ہے تو ’اپنا‘ آئے گا۔ جیسے علی اپنا کھانا ساتھ لایا۔ اگر علی کوئی مونث چیز لایا ہے تو فقرہ اس طرح ہوگا۔ علی اپنی سائیکل لایا۔ اگر وہ چیز جو علی لایا وہ جمع اور مذکر ہو تو فقرہ اس طرح ہوگا۔ علی اپنے جوتے لایا۔ اگر علی کوئی مونث جمع چیز یں لایا تو فقرہ اس طرح ہوگا۔ علی اپنی کتابیں لایا۔ مضاف سے مراد وہ لفظ ہے جس کے متعلق بات ہورہی ہو۔ جیسے گلاب کا پھول میں گلاب مضاف ہے۔ علی اپنا کھانا ساتھ لایا میں کھانا مضاف ہے۔
قاعدہ: اگر مضاف کے بعد حروف ربط یعنی پریپوزیشن آجائیں تو ’اپنا‘ بدل کر ’اپنے‘ ہوجاتا ہے۔ جیسے وہ (مذکر، مونث واحد) اپنے کام (مضاف)سے (حرفِ ربط) پریشان ہے۔ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے۔ آپ اپنے بچوں کو کس طرح پڑھاتے ہیں۔ ان تمام مثالوں میں سے، میں اور کو حرف ربط ہیں جنھیں انگریزی میں پریپوزیشنز کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ان تمام مثالوں میں کام، ہوش اور بچوں مضاف ہیں۔
تاکید کے لئے: آپ اور اپنا دوسرے ضمائر کے ساتھ تاکید کے لئے بھی آتا ہے جبکہ وہ انسان کی اپنی مرضی اور پسند کا اظہار کرتا ہے۔ جیسے میں وہاں آپ گیا تھا۔ اس کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ میں خود اپنی مرضی سے وہاں گیا تھا۔ دوسرے یہ کہ میں نے خود وہاں جاکر مشاہدہ کیا ہے۔ یعنی سنی سنائی بات نہیں ہے بلکہ ذاتی تجربہ کیا ہے۔ اس میں ایک تیسرا معنی بھی ہے وہ یہ کہ میں نے اس جگہ کو اہمیت دی اور وہاں خود گیا۔ اس طرح یہ مثالیں دیکھیں۔ ہم آپ آئے تھے۔ یعنی ہم اپنی مرضی سے آئے تھے اور ہم خود گواہ ہیں کیونکہ ہم نے خود مشاہدہ کیا۔ تم آپ گئے تھے۔ یعنی تم اپنی مرضی سے گئے تھے کسی نے تمھیں جانے پر مجبور نہیں کیا وغیرہ۔
ایک اور اصول دیکھتے ہیں۔ ملکیت کے اظہار کے لئے لفظ ا پنا کا استعمال کس طرح ہوتا ہے۔ یہ میرا اپنا کام تھا۔ یعنی یہاں بتانے والا یہ بتانا چاہتا ہے کہ کام پوری طرح میرا ذاتی تھا تو تاکید کے لئے بجائے میرا کی تکرار کے اپنا استعمال ہوگا۔ جیسے یہ کہنا کہ یہ میرا میرا کام تھا۔ غلط ہوگا بلکہ اس طرح کہیں گے کہ یہ میرا اپنا کام تھا۔ پس یہاں اپنا ضمیر کی حالت اضافی کے طور پہ استعمال ہوا ہے۔ یہ تو آپ کو یاد ہوچکا ہوگا کہ ضمیر کی حالت اضافی کا مطلب ہے پروناؤن کا پوزیسو کیس۔ایک اور مثال دیکھتے ہیں۔ یہ ان کا اپنا باغ ہے۔ یہاں بھی بات میں زور پیدا کیا گیا ہے کہ یہ باغ نہ صرف ان سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ان ہی کی ملکیت ہے نہ کے کرائے یا سمجھوتے پہ لی گئی جگہ۔
خود کا استعمال:
یہ ایک فارسی لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’آپ یا اپنے‘۔ مثال کے طور پہ، انہوں نے خود فرمایا۔ خود بعض لحاظ سے زیادہ واضح معنی دیتا ہے۔ خاص طور پہ جب بات کرنے والا ہی مفعول ہو تو ’آپ‘ سے زیادہ بہتر معنی لفظ خود دیتا ہے۔ مثال دیکھتے ہیں۔ میں نے خود اسے یہ کتاب دی۔ اب اگر خود کی جگہ آپ استعمال کریں جیسے میں نے آپ اسے یہ کتاب دی۔ تو یہ عجیب لگتا ہے۔
مشکل: ایک مشکل کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کیا خود کا تعلق میں نے سے ہے یا اسے سے ہے۔ لہذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ خود کا تعلق جس سے ہو اس لفظ سے پہلے خود لگانا چاہیے۔ جیسے اگر خود کا تعلق میں نے سے ظاہر کرنا ہو تو اس طرح کہا جائے گا کہ، خود میں نے اسے یہ کتاب دی۔ یہاں زور میں نے پہ ہے۔ مزید یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب حالت اضافی ہو تو خود غیر مناسب ہوگا بلکہ اپنا کا ستعمال زیادہ بہتر ہوگا۔ جیسے، میں نے اسے اپنا نام بتایا کو اگر کہیں کہ میں نے اسے خود کا نام بتایا تو یہ معنوں کو واضح نہیں کرے گا۔ یا یہ کہنا کہ یہ مکان میرا خود کا ہے درست طریق نہیں بلکہ کہنا چاہئے کہ یہ مکان میرا اپنا ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :
میں اس بات کی کچھ پرواہ نہیں کرتا۔ مومن کا ہاتھ اوپر ہی پڑا ہے یَدُاللّٰہِ فَوقَ اَیْدِیْہِمْ کافروں کی تدبیریں ہمیشہ الٹی ہوکر ان پر ہی پڑا کرتی ہیں۔ وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیرُ المٰکِرِینَ۔
(اٰل عمران: 55)
میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو میرے ساتھ ذاتی عداوت اور بغض ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ملل باطلہ کے ردّ اور ہلاک کرنے کے لئے مامور کیا گیا ہوں۔ میں جانتا ہوں اور میں اس میں ہرگز مبالغہ نہیں کرتا کہ ملل باطلہ کے ردّ کرنے کے لئے جس قدر جوش مجھے دیا گیا ہے میرا قلب فتویٰ دیتا ہے کہ اس تردید و ابطال ملل باطلہ کے لئے اگر تمام روئے زمین کے مسلمان ترازو کے ایک پلّہ میں رکھے جاویں اور میں اکیلا ایک طرف تو میر پلّہ ہی وزن دار ہوگا۔ آریہ، عیسائی اور دوسری باطل ملتوں کے ابطال کے لئے جب میرا جوش اس قدر ہے پھر اگر ان لوگوں کو میرے ساتھ بغض نہ ہو تو اور کس کے ساتھ ہو۔ ان کا بغض اسی قسم کا ہے جیسے جانوروں کا ہوتا ہے۔ تین دن ہوئے مجھے الہام ہوا تھا اِنّیِ مَعَ الاَفواجِ اٰتیکَ بغتۃ ً میں حیران ہوں یہ الہام مجھے بہت مرتبہ ہوا ہے اور عموماً مقدمات میں ہوا ہے۔ افواج کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مقابل میں بھی بڑے بڑے منصوبے کئے گئے ہیں اور ایک جماعت ہے کیونکہ خداتعالیٰ کا جوش نفسانی نہیں ہوتا ہے، اس کے تو انتقام کے ساتھ بھی رحمانیت کا جوش ہوتا ہے۔ پس جب وہ افواج کے ساتھ آتا ہے تو اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مقابل میں بھی فوجیں ہیں۔ جب تک مقابل کی طرف سے جوش انتقام کی حد نہ ہوجاوے خداتعالیٰ کی انتقامی قوت جوش میں نہیں آتی۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 183 ایڈیشن 2016)
اقتباس کے مشکل الفاظ کے معنی
ہاتھ اوپر پڑنا: غالب رہنا۔
تدبیر الٹی پڑنا: کوشش کا نتیجہ وہ نہ نکلنا جس کی توقع کی جائے۔
عداوت: دشمنی
بغض: پوشیدہ نفرت جو دل و دماغ میں بڑھتی رہے۔
ملل: ملت کی جمع، ملت یعنی قوم۔
ملل باطلہ: دنیا کی وہ قومیں جو جھوٹے نظریات پہ قائم ہیں اور ان کو فروغ دیتی ہیں۔
ردّ: توڑ کرنا، جھوٹے دلائل کو توڑنا۔
مبالغہ: بات کو حد سے، عقلی تقاضوں سے بڑھا کے پیش کرنا۔
جوش: عزم و ہمت۔
قلب: دل۔
فتویٰ: رائے، گواہی۔
تردید و ابطال: دلیل کے ساتھ غلط نظریات کی حقیقت واضح کرنا اور ان کا جھوٹا ہونا ثابت کرنا۔
روئے زمین: زمین کا چہرہ، مراد ہے ہر ایک مسلم آبادی۔
ترازو: پرانی طرز کا وزن تولنے کا آلہ جس کے دو حصے ہوتے ہیں جنہیں پلہ یا پلڑا کہا جاتا ہے۔ سکیل
وزن دار: بھاری۔
جانوروں جیسا بغض: یعنی انتقامی جذبہ جو عقل و فہم سے عاری یعنی خالی ہو محض جذبات پہ اس کی بنیاد ہو۔
مقدمات: مقدمہ کی جمع، یعنی عدالت میں چلنے والا کیس۔
افواج: فوج کی جمع۔
مقابل: یعنی جواب میں یا مقابلہ کرنے کے لئے۔
نفسانی: جو نفس سے متعلق ہو، جیسے ذاتی دشمنی ہونا۔
رحمانی: خدا تعالیٰ کی صفت رحمٰن سے متعلق۔
حد ہوجانا: یعنی ایک چیز کا انتہائی نکتہ تک پہنچ جانا۔
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)