• 21 جون, 2025

زندگی احساس کا نام ہے

مشکل وقت روکا نہیں جا سکتا ۔ کبھی بیماری ہے تو کبھی حادثہ اور کبھی کسی قریبی رشتے کا ٹوٹ جانا یا دنیا سے چلے جانا ایسا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تکلیف کم کرنے کے لئے دلجوئی اور ہر طرح کی مدد کی خاطر۔

لیکن ایسے مشکل وقت میں لوگوں کا ارد گرد جمع ہو ہو کر ہجوم بنا لینا کافی نہیں ہوتا جو صرف افسوس کا اظہار کریں اور بجائے کام آنے کے مشکل میں اضافے کا باعث بنیں ۔ ان ساتھ دینے والوں اور مدد کے لئے آنے والوں کی بھی کچھ تربیت کی ضرورت ہے چاہے وہ عام رشتہ دار ہوں یا پھر دوست احباب یا پھر والدین خاص طور پر والد کے لئے ان کی اپنی اولاد ہو۔

ایک کامل بزرگ سے ایک شخص نے شکایت کی کہ میرے والد مجھ سے خفا رہتے ہیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ہوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ہیں۔

مگر میں یہ بات برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ میرے کما ئے ہوئے مال اور جائیداد کو از خود اپنے تصرف میں لائیں۔

بزرگ نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ہے کہ جو وہ مانگتے ہیں تم انکو لا کر دیتے ہو۔

نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہیں سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں۔

فرمانے لگے، ابھی جاؤ اپنے والد کو ساتھ لے کر آؤ ۔جب وہ شخص اپنے والد کو ساتھ لے کر پہنچا تو اس عظیم اور کامل بزرگ نے استفسار کیا کہ کیا معاملہ ہے؟ تو اس شخص کے والد کے اپنے بیٹے کی طرف درد بھری نگاہوں سے دیکھا اور چند شعر پڑھے اور ان کا لب لباب سمجھانے کے لئے کہا ، ” بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ہے کہ
جب تم دنیا میں ابھی آئے بھی نہیں تھے تو تمہارے آنے سے پہلےہی تمہارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی۔ تمہارے لئے کپڑے، تمہاری خوراک کا انتظام، تمہاری حفاظت کا انتظام، تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ہے تو گرمی نہ لگے ، تمہارے آرام کا بندوبست،تمہاری قضائے حاجت تک کا انتظام تمہارے دنیا میں آنے سے پہلےہی کر رکھا تھا ۔ تمہیں بولنا کیا تمہارے کہنے پر سکھایا ؟ یا تمہیں اپنے کندھے پر یا پیٹھ پر بٹھا کر سیر تمہارے کہنے پر کرائی ؟

تمہیں چلنا پھرنا، کھانا پینا، کپڑے پہننا بغیر کہے سکھایا اور جو کچھ ہو سکتا تھا بغیر مانگے مہیا کرتا رہا۔ کیا وہ سب میرا مال اور جائیداد نہیں تھا جس کو تم بنا سوچے سمجھے بے دھڑک تصرف میں لاتے رہے ؟ اور میں اب بھی اس بات کو فرض اور ذمہ داری بلکہ سعادت سمجھ کر نبھاتا ہوں۔

پھر آگے چلو ! کیا تم سے کبھی پوچھا تھا کہ بیٹا! تم کو اسکول میں داخل کروائیں یا نہ۔

اسی طرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ہو؟ بلکہ تمہارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ہی اسکول اور کالج میں داخلے کا بندوبست کردیا ۔ تمہارے کردار کی تعمیر جس پر اب لوگ رشک کرتے ہیں۔ کیا تم سے پوچھ کر کی؟

تمہاری ٹرانسپورٹ کیلئے، تمہاری یونیفارم اور کتابوں کیلئےتم سے نہیں پوچھا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمہارے مانگنے سے پہلے ہی تمہیں لاکر دی ۔

تمہیں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ہو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمہارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی ڈھونڈنی شروع کر دی جو تمہارے مزاج کے مطابق بھی ہو ،نیک ہو ،جو اچھی طرح تمہاری خدمت کر سکے اور تمہارا خیال رکھ سکے ۔

لڑکی تلاش کرتے ہوئے بھی ترجیح تمہاری خدمت ہی رہی کبھی یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ہم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ہماری خدمت بھی کرے اور بیٹے کی بھی ۔

تمہارے لئے کپڑے ۔تمہاری پہلی سائیکل۔تمہارا اسکول ۔تمہارے کھلونے ۔تمہاری بول چال ۔تمہاری تربیت۔تمہارا رہن سہن، چال چلن، رنگ ڈھنگ ، گفتگو کا انداز، یہاں تک کہ تمہارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمہیں بلا کسی بدلے کی امید کےفرض اور ذمہ داری جان کر سکھایا اور تمہارے مطالبے کے بغیر سیکھایا۔

اور آج تم کہتے ہو کہ جو کچھ مجھ سے مانگتے ہیں میں انکو لا کر دیتا ہوں۔ اسکے باوجود خفا خفا سے کیوں رہتے ہیں اور خود سے میرے مال اور جائیداد کو اپنے تصرف میں لاتے ہیں ۔

اس پر ان بزرگ کا چہرہ شدت جذبات سے سرخ ہو گیا اور فرمایا جاؤ۔ والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو تم اور جو کچھ تمہارا ہے سب تمہارے باپ کا ہے۔ جس طرح ماں کے قدموں تلے جنت ہے، باپ اسی جنت کا دروازہ ہے اور اس کی خوشنودی کے بغیر تو جنت میں کبھی داخل نہیں ہوسکتا۔

انکی ضروریات کا خیال، اپنے بچوں کی ضروریات کی طرح کرنا شروع کرو۔انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔گھر کی ذمہ داریاں سعادت سمجھ کر خود لو ۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ہو ویسے ہی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو اور انکو بن مانگے دینا شروع کروجیسے وہ خالق کائنات تمہیں دیتا ہے اور اسی طرح انہوں نے کیا۔

اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ انکو کبھی تمہاری کمی محسوس ہی نہ ہو ۔ کم سے کم۔اتنا وقت تو انکو عطا کردو ۔انکے مسائل ان کے کہنے سے قبل جان لیا کرو ۔اگر ان کی مالی مدد نہیں کر سکتے تو انکی خدمت کرو ۔

کیا کبھی ان کا دکھتا دل نہیں تو دکھتا جسم اور پھٹی ایڑھییاں کبھی دیکھی تم نے؟ کیا کبھی ان پر مرہم یا تیل اپنے ہاتھوں سے لگایا جیسے وہ تم کو چھوٹے ہوتے وقت لگاتے تھے؟

کیا کبھی ان کے سر میں تیل لگایا ہو؟ کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمہارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے تمہارے بال سنوارتے کبھی سو نہیں پاتے تھے تو گود میں بٹھا کر سلاتے تھے۔ کبھی ان کے بال بھی سنوار کر تو دیکھو ۔

کیا کبھی باپ کے پاؤں دبا ئے حالانکہ تمہارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ دبایا ہو گا۔

کیا کبھی ماں یاباپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ہوئے ہو؟ جیسے وہ تمہارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے،کچھ کرو تو سہی، انہیں بغیر مانگے لا کر دو، ذمہ داریاں سعادت سمجھ کر اٹھا کر دیکھو، انہیں وقت دے کر دیکھو، خدمت کر کے دیکھو، انہیں اپنے ساتھ رکھو ہمیشہ،اپنے آپ پر کبھی بوجھ نہیں نعمت سمجھ کر دیکھو نہ ہی کسی اور کو ایسا سوچنے دو ۔

جس طرح انہوں بوجھ نہیں سمجھا بغیر کسی بدلے کے دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ۔کم سے کم انکی وہی خدمات کا صلہ سمجھتے ہوئے ان سے حسن سلوک اختیار کرو ۔پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔

یہ صرف والدین کی حد تک کی کہانی تھی مگر کیا ہم ایسا باقی سب لوگوں کے ساتھ بھی کر سکتے ہیں؟

بزرگان کا کہنا ہے کہ جب تو کسی ایک فرد کی محبت میں خود سے محبت چھوڑ دے تو یہ عشق مجازی ہے اور اگر تو سب کی محبت میں خود سے محبت کو ترک کر دے تو یہ عشق حقیقی ہے۔

کہتے ہیں خاموشی کے الفاظ غلط بولنے سے زیادہ آواز رکھتے ہیں۔

کسی کی خاموشی کبھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے ۔ مگر کبھی کبھی تکلیف میں ہمیں الفاظ کی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر کسی موقع پر آپ کو درست الفاظ کا چناؤ نہیں آتا تو کم از کم کچھ اچھا اور مناسب بولنا با لکل ہی احمقانہ شکل بنا کر بیٹھے رہنے سے بہتر ہے۔ کسی دیرینہ تعلق کی خاطر کم از کم ‘‘مجھے افسوس ہے ’’ یا پھر ‘‘مجھے آپ کا خیال آ رہا تھا ’’یا پھر ‘‘میں آپ کے لئے دعاگو ہوں ’’ جیسے الفاظ بھی کبھی کبھی مرہم کا کام کرتے ہیں۔

اپنے ارد گرد کے لوگوں کا احساس اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت ہے ۔ اکثر لوگ مدد کی جو اشد ضرورت کے باوجود سوال نہیں اٹھاتے کیونکہ یہ خود کو کمزور ظاہر کرنے کا انتہائی درجہ ہے کہ آپ ظاہر کردیں کہ آپ کسی وجہ سے بے بس ہو چکے ہیں اور زندگی میں ایسے مقام پر ہیں جہاں خود سے کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ کوئی بھی کھانا مانگنے یا اپنے بچوں کا خیال رکھنے، کپڑے یا جوتے مانگنے کے لئے اپنے منہ سے کہنے سے شرماتا ہے ۔ اس کے لئے آپ کو خود آگے بڑھ کے خیال کرنا ہوگا ۔ کیونکہ اس کے لئے لوگ برداشت کرنے اور مشکل کو اکیلے ہی جھیل جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کسی کی مشکل یا تکلیف میں یہ ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ مجھے بہت اچھی طرح پتا ہے کہ تم کیا محسوس کر رہے ہویا اپنے کسی رشتے دار کا ایسا ہی قصہ لے کر ہرگز نہ بیٹھیں جس پر کچھ اس طرح کا وقت آ چکا ہو ۔ آپ اس بات سے شائد یہ خیال کریں کہ شائد درد یا مشکل جلد کم ہو جائے گی جب دوسروں کا حال سنے گا مگر اس وقت اسے شائد اس کے درد اور مشکل کی اہمیت کا احساس ہے اسے اپنے درد کی پرواہ ہے اور آپ کو اسی طرح درد محسوس کرنا چاہیے جیسے اس کو در حقیقت ہو رہا ہے شائد وہ اس وقت تھوڑا کڑوا لگے اور اس کی باتیں برداشت کرنی مشکل ہوں مگر یہی درد کا مداوا ہے۔

جلدی مت کریں , وقت دیں چاہے دل کا ہو یا جسم کا , زخم بھرنے میں وقت لگتا ہے۔

ایک اچھا معالج درد کی دوا کے ساتھ ساتھ مریض کو وقت بھی دیتا ہے۔ اس کی تکلیف دہ گفتگو سنتا ہے اور غصّے کو برداشت کرتا ہے۔ کبھی بن مانگی اور غیر مستند نصیحت اور مشوره مت دیں خاص طور پر محاورے اور کہاوتیں یا بزرگوں کی نصیحتیں مت سنائیں نہ کسی کی ہمت کا تذکرہ کریں ۔ بن مانگے دینا ہے تو اپنی تمام صلاحیت ، مال اور وسائل دل کھول کر خرچ کریں ۔ بس اس بات کا خیال رکھیں کہ کبھی کوئی خصوصی ٹوٹکا یا جادوئی حل یا ایسا کوئی بھی فامولا مت دیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔

بس کچھ کر سکیں تو اتنا کریں کہ ضرورت مند کو کبھی مت بھولیں ۔ خاموشی سے بغیر احساس دلائے نظر رکھیں اور کام آیا کریں۔

(کاشف احمد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 2 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ