• 14 جولائی, 2025

مکرم مولوی نذیر احمد راجوروی مرحوم

یادرفتگان
مکرم مولوی نذیر احمد راجوروی مرحوم

’’دارالذکر‘‘ کے حوالے سے زندہ و جاوید رہ جانے والے ناموں میں ایک نام ’’مولوی نذیر احمد راجوروی‘‘ کا بھی ہے۔ 1970,80,90 کی دھائیوں کے لاہور کے احباب ان کو نہ بھول پائیں گے کیونکہ ان تین دہائیوں میں آپ نے دارالذکر میں بطور ’’ناظم دفتر‘‘ وقت گزارا اور ہر خاص و عام کی خدمت کی۔ لیکن ان کا جماعت لاہور کے مرکزی دفتر سے تعلق 1952 میں اس وقت قائم ہوا تھا جب آپ نے بطور کلرک ٹیمپل روڈ پر واقع جماعت کے دفتر میں ملازمت شروع کی ۔۔ مختلف مضامین کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ مکرم مولوی نذیر احمد صاحب نے ابتداء میں بطور محرر اور کلرک کے کام شروع کیا جس کا اختتام ناظم دفتر سے ہوا۔ یہ دور حضرت مصلح موعود کا دور تھا۔ اس کے بعد آپ نے خلافت ثالثہ، رابعہ کے ادوار دیکھنے کے بعد خلافت خامسہ کے چند سال بھی دیکھے۔ جب آپ نے دفتر میں کام شروع کیا اس وقت لاہور کے امیر مکرم بشیر احمد صاحب تھے۔بعد ازاں آپ نے مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب اور مکرم حمید نصراللہ خان صاحب کے ساتھ بھی کام کرنے کی توفیق پائی۔ مجموعی طور پر آپ کی خدمات کا دور چار دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ آپ کا تعلق کشمیر کے ضلع راجوروی سے تھا، لہذا ان کے نام کیساتھ راجوروی بھی منسوب رہا۔ ویسے وہ اسی شہر کے ایک گاؤں ’’چارکوٹ‘‘ میں پیدا ہوئے تھے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ احمدیہ قادیان میں بھی زیر تعلیم رہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف مقامات کے بعد بالآخر رتن باغ لاہور سے 1960 میں مغلپورہ ان کا مسکن ٹھہرا۔ بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔

مولوی نذیر احمد صاحب انتہا کے منکسرالمزاج سادہ انسان تھے۔ ڈسپلن کے پابند اور بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ مئی 2008 میں آپ کی وفات کے بعد کے پہلے جمعہ کو دارالذکر میں خطبہ کے دوران مکرم حمید نصراللہ خان صاحب نے مولوی صاحب کی خدمات اور اوصاف حمیدہ کا بہت تفصیل کے ساتھ ذکر کیا تھا اور نماز جنازہ غائب پڑہائی تھی۔ بطور ’’ناظم دفتردارالذکر‘‘ آپ نے متعدد نائب امراء کے ساتھ کام کیا جن میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب، مکرم میجر عبد الطیف صاحب، مکرم اعجاز نصراللہ صاحب، مکرم کرنل دلدار احمد صاحب شامل ہیں۔ہم نے جب شعور کے میدان میں قدم رکھا اور دارالذکر آنا جانا شروع کیا تو ہمیشہ ان کو اپنے دفتر میں بھرپور توجہ سے کام کرتے ہوئے پایا۔مولوی نذیر احمد صاحب گونا گوں صفات کے مالک تھے۔ دفتر میں آنے والے کی بات کو بہت تحمل سے سنتے اور پھر دھیمے انداز اور آواز میں جواب دیتے۔یہی رویہ ٹیلی فون کالز پر بھی ہوتا تھا۔ دفتر میں کام کے دوران وقت کو جماعت کی امانت سمجھتے اور ہر وقت لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔اہم خطوط اور معاملات پر گہری نگاہ رکھتے اورختم ہونے تک کارروائی جاری رکھتے تھے۔خدام الاحمدیہ کے کام کے دوران یہی مشاہدہ رہا کہ کسی امور پر جواب نہ ملنے تک ان کی طرف سے یاد دہانیوں کے خطوط کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا۔اس وقت کمپیوٹر سسٹم نہیں تھا بلکہ ہاتھوں سے لکھنا ہوتا تھا۔کاربن پیپررکھ کر دوسری کاپی تیار کرنی ہوتی تھی، لہذا جب بھی ان کے دفتر میں گیا انہیں لکھتے ہی پایا۔ سینکڑوں خطوں کے جوابات دینے ہوتےتھے جن میں مرکزی خطوط بھی شامل تھے، اسی طرح صدران جماعتوں اور مقامی احمدیوں کے خطوط کے جوابات بھی لکھنے اور پھر نائب امراء اور امیر صاحب کے دستخطوں کے بعد ان کو ان کی منزل کی طرف بھیج دیا جاتا۔ فائلیں بھری ہوتی دیکھیں ان کے لکھے خطوط کی۔ ٹیلی فونوں کو اٹینڈ کرنا اور ان کے جوابات دینا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا اور کام کی زیادتی کے باوجود ان کی گفتگو اور لہجہ ہمیشہ نرم اور بادب رہا۔ سردی، گرمی بارش، ہر موسم میں آپ سائیکل کے ذریعے مغلپورہ سے بروقت دارالذکر پہنچ کر اپنا کام شروع کردیتے تھے۔ روزنامہ الفضل اور قومی اخبار ان کے ساتھ گھر سے آتا جو پھر دفتر میں آنے جانے ان کو پڑھتے رہتے۔ان کے ساتھ کام کرنے والے پرانے دفتری کارکنوں میں مکرم انوارالحق صاحب، مکرم محمد دین صاحب، مکرم محمد حفیظ صاحب اور مکرم بابا صدیق صاحب شامل ہیں۔ بابا صدیق صاحب دفتر کی رونق تھے جو اپنے کام اور گفتگو سے سبھی کا دل لبھاتے رہتے تھے۔ لاہور کے رہنے والے پرانے لوگ سبھی مکرم مولوی نذیر صاحب کے نام سے بخوبی واقف تھے۔ ’’بطور ناظم دفتر جماعت‘‘ آپ نے تینوں امراء اور احباب جماعت لاہور کے درمیان رابطے کی ذمہ داری کو احسن طریق سے نبھایا۔اسی طرح دارالذکر میں مربی ہاؤس کے قیام سے پہلے اور بعد میں سلسلہ کے ان واقفین زندگی کیساتھ بھی آپ کا تعلق خوشگوار اور احترام و عقیدت والا رہا۔ربوہ شوریٰ کے اجلاسات میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے،اسی طرح قادیان کے جلسوں میں شرکت کرتے رہے،اپنے وطن کشمیر سے ان کی محبت والہانہ تھی۔اکثر وہاں کی یادوں کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔احباب کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے۔

میرا مکرم مولوی نذیر احمد صاحب سے پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب ان کا دفتر اوپر بالائی منزل پر تھاکچن کے بالمقابل اور ان کے ساتھ ہی مکرم چوہدری فتح محمد صاحب نائب امیر کا کمرہ ہوا کرتا تھا، میں ٹیلی فون کرنے ان کے کمرہ میں جایا کرتا تھا۔ یہ 1980 کی دہائی کی بات ہے۔خدام الاحمدیہ ضلع کاجب تک اپنا ٹیلیفون نہیں لگا، اس وقت تک میں انہی کے دفتر میں بیٹھ کر قائدین و ناظمین کو فون کیا کرتا۔اسی دوران وہ اپنے خطوط لکھنے میں مصروف رہتے، لیکن اکثر یوں بھی ہوتا کہ مجھے کہتے کہ کچھ وقفہ بھی دیدیا کریں تاکہ کسی کا فون بھی آ جائے اور یہ مسلسل مصروف نہ ہو۔یہ اچھی بات تھی جو پھر ہمیشہ پیش نظر رہی۔پھر ان کا دفتر نیچے چلاگیا تو بھی چند سال ایسا ہی سلسلہ چلا،ٹیلی فون کرنے کا۔جب خدام الاحمدیہ کے اپنے دفترمیں فون لگ گیا تو سلسلہ منقطع ہوا لیکن آپ نے کافی عرصہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ مثالی تعاون کیا۔ میرے فون کرنے کے دوران کبھی کبھار وہ کاغذ پنسل چھوڑ کر میرے ساتھ پرانی باتیں بھی کرتے، بس بظاہر وہ کچھ وقفہ کرتے اور پھر لکھنا شروع کردیتے۔ کم و بیش پندرہ سال اسی دفتر کے ذریعے میرا ان سے بہت تعلق رہا۔ پھر جب میری رہائش تبدیل ہوئی تو میں انکی جماعت مغلپورہ کا ممبر بن گیا اور وہ صدر جماعت تھے۔ اور یوں ان کی صدارت میں ان کی شخصیت کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ مولوی نذیر صاحب کے اندر انتظامی صلاحیت بھی خوب تھی۔ انہوں نے دارالذکر میں کام کی زیادتی کے باوجود دیگر ذمہ داریوں کوحسن طریق سے سنبھال رکھا تھا۔ اپنے ہم عصروں اور ہم عمروں میں بہت مقبول تھے۔ جب کبھی پانچ، چھ ان کے ہم عصر ان کے دفتر میں اکھٹے ہوجاتے تو خوب سماں بندھ جاتا تھا۔مکرم صدیق شاکر صاحب، ٹھیکیدار محمد شریف صاحب، مکرم شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب، مکرم عبد القیوم ناگی صاحب،مکرم میاں محمد یحیی صاحب، مکرم عبد المالک صاحب وغیرہ شامل ہیں،مکرم عبد المالک صاحب ان کے پڑوسی بھی تھے۔ جماعتی بڑے جلسوں کے موقع پر جماعت کی ضیافتی ٹیم کیساتھ بھی بہت محبت کا تعلق رہا اور کھانوں کی پکوائی کے دوران ہنسی مذاق کرتے۔ خاکسار کی دعوت ولیمہ (جنوری1991) میں بھی شرکت کی اور یوں میری حوصلہ افزائی کی۔صبح سے شام تک دارالذکر میں مصروف رہنے کے بعد مغلپورہ گھر پہنچ کے مقامی صدر اور گھریلو ذمہ داریاں نبھاتے۔بطور صدر جماعت مغلپورہ گریفن کی گراؤنڈ میں سالہاسال نمازوں کا اہتمام آپ کی نگرانی میں ہوتا اور آپ عیدین کے خطبے دیتے رہے، یوں سال ہا سال تک آپ کی امامت میں عیدین کی نمازیں پڑھنے کی توفیق ملی۔۔ صدر بننے سے پہلے مغلپورہ میں بطور جنرل سیکرٹری مغلپورہ بھی خدمت کی توفیق پائی۔علاوہ ازیں آپ مغلپورہ میں زعیم اعلیٰ انصاراللہ مغلپورہ کے کام کرنے کی توفیق ملی۔ مغلپورہ میں خدام الاحمدیہ کے دور میں بطور قائد مجلس بھی کام کیا۔یوں ابتداء ہی سے وفات تک ذیلی تنظیموں اور جماعت کے ساتھ گہری وابستگی رہی اور خلافت کیساتھ وفا اور اخلاص کا تعلق رہا۔ امیر صاحب لاہور کی مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ بھی کام کیا۔ زندگی کے آخری سالوں میں بوجہ دل کی تکلیف بیماری گھر پر صاحب فراش رہے،علاج بھی ہوتا رہا۔وفات والے دن 6 مئی کوبھی نماز تہجد اور فجر ادا کی۔خاندان کے ذرائع کے مطابق وفات والے دن صبح پوچھا کہ حضرت صاحب لندن واپس آگئے ہیں؟ ہاں میں جواب ملنے پر خاموش ہوگئے۔اسی دن صبح دس بجے کے قریب طبیعت خراب ہونے پر سروسز ہسپتال لے جایا گیا لیکن شدید ہارٹ اٹیک کی وجہ سے مولیٰ کے حضور حاضر ہوگئے انا للّٰہ وانالیہ راجعون۔ روزنامہ الفضل ربوہ میں مکرم مولوی نذیر احمد صاحب راجوروی کی وفات کی خبر شائع ہوئی جس کے مطابق جماعت احمدیہ کے دیرینہ خادم مکرم مولوی نذیر احمد صاحب ناظم دفتر دارالذکر لاہور مورخہ 6مئی 2008 کو لاہور میں قضائے الہی سے وفات پاگئے۔ بعد نماز مغرب مغلپورہ میں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ سات مئی کو بعد نماز فجر بیت المبارک میں مکرم راجہ نصیر احمد صاحب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے نماز جنازہ پڑہائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد آپ ہی نے دعا کرائی۔ مرحومین نے لواحقین میں بیوہ کے علاوہ 9 بیٹیاں اور 2بیٹے چھوڑے۔ تمام اولاد شادی شدہ ہے۔ مرحوم نے ناظم دفتر دارالذکر کے علاوہ مختلف وقتوں میں صدر حلقہ مغلپورہ، زعیم اعلیٰ انصاراللہ، جنرل سیکرٹری اور سیکرٹری رشتہ ناطہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 12مئی 2008 صفحہ2)

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 10 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ