• 14 جولائی, 2025

کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی اکرمؐ کے امّتی ہو سکتے ہیں؟

غیر احمدی مسلمان علماء ایک طرف تو بڑی شد و مد سے اور متعدد احادیث پیش کرکےکہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ قطعی طور پر آخری نبی ہیں اور آپ ﷺ کے بعد کسی بھی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا اور نہ ہی آئے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ قربِ قیامت میں ایک نبی یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ جب ان سے اس تضاد کے بارے میں دریافت کیا جاتا ہے کہ تو وہ اس کی یہ تاویلات پیش کرتے ہیں:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور نبی نہیں آئیں گے۔

وہ نبی اکرم ﷺ کے امّتی کی حیثیت سے آئیں گے اور اسلامی شریعت پر عمل کریں گے۔

نبی اکرم ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت نبی اکرم ﷺ سے پہلے مل چکی تھی۔

اس مختصر مضمون میں ہم صرف نکتہ۔2 پر بات کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا قرآن و حدیث کی رو سے کوئی نبی اپنے بعد مبعوث ہونے والے نبی کی امت کا فرد بن سکتا ہے یا نہیں۔ یہ متنازعہ نکتہ تاریخِ مذاہب میں پہلی دفعہ نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے پہلے بھی اٹھایا جاچکا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ فیصلہ فرمادیا ہوا ہے کہ ایک نبی اپنے سے پہلے مبعوث ہونے والے نبی کی امت کا فرد تو کہلایا جاسکتا ہے لیکن اپنے سے بعد مبعوث ہونے والے نبی کی امت کا فرد نہیں بن سکتا۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے یا عیسائی؟

قرآن مجید میں ذکر ہے کہ یہودونصاریٰ کا آپس میں اس بات پر تنازعہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی ہیں یا عیسائی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ عیسائی اور اس کی دلیل یہ دیتا ہے کہ کوئی بھی امت کتاب کے نزول سے معرض وجود میں آتی ہے۔ چونکہ تورات اور انجیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی تھیں اور ان کے نزول سے یہودی اور عیسائی امتیں وجود میں آئیں لہٰذا حضرت ابراہیم علیہ السلام ان دونوں امتوں کے فرد نہیں کہلائے جاسکتے۔ یہ ایک معقولی بات ہے لہٰذا اس آیت کے آخر میں کہا گیا ہے کہ کیا تم عقل نہیں کرتے۔

﴿3:66﴾ یٰۤاَھْلَ الۡکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡۤ اِبۡرٰھِیۡمَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَتِ التَّوۡرٰٮۃُ وَ الۡاِنۡجِیۡلُ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ ﴿3:67﴾ ھٰۤاَنۡتُمۡ ھٰۤؤُلَآءِ حَاجَجۡتُمۡ فِیۡمَا لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوۡنَ فِیۡمَا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿3:68﴾ مَا کَانَ اِبۡرٰھِیۡمُ یَہُوۡدِیًّا وَّ لَا نَصۡرَانِیًّا وَّ لٰکِنۡ کَانَ حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ

اے اہلِ کتاب! تم ابراہیم کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل نہیں اتاری گئیں مگر اُس کے بعد۔ پس کیا تم عقل نہیں کرتے؟ سنو! تم ایسے لوگ ہو کہ اُس بارہ میں جھگڑتے ہو جس کا تمہیں علم ہے۔ تو پھر ایسی باتوں میں کیوں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں کوئی علم ہی نہیں۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ابراہیم نہ تو یہودی تھا نہ نصرانی بلکہ وہ تو (ہمیشہ اللہ کی طرف) جھکنے والا فرمانبردار تھا۔ اور وہ (ہرگز) مشرکوں میں سے نہیں تھا۔

حضرت ابراہیمؑ حضرت نوحؑ کے امّتی:

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بیان کردہ اصول کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ حضرت موسیٰ ؑ یا حضرت عیسیٰ ؑ کے امّتی تو نہیں کہلائے جاسکتے لیکن ایک اور آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ان سے پہلے نبی یعنی حضرت نوحؑ کے گروہ میں شامل قرار دیا۔

﴿37:84﴾ وَ اِنَّ مِنۡ شِیۡعَتِہٖ لَاِبۡرٰھِیۡمَ

اور یقیناً اُسی کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھا۔

علامہ ابی حیّان الاندلسی لکھتے ہیں:
’’بأن شریعۃ الیھود والنصاری متأخرۃ عن ابراہیم و ھو متقدم علیھما، و محال أن ینسب المتقدم الی المتأخر، ولظھور فساد ھذہ الدعوی (أفلا تعقلون) أي ھذا کلام من لا یعقل‘‘

(تفسیر البحر المحیط۔ زیر تفسیر آیت مندرجہ بالا)

کیونکہ یہودونصاریٰ کی شریعت بعد میں تھی اور حضرت ابراہیمؑ ان سے پہلے تھے اور پہلے والے کو بعد سے نسبت دینا محال ہے اور اس دعویٰ کے فساد کے ظاہر کرنے کو فرمایا (کیا تم عقل نہیں کرتے) یعنی یہ کہ اس کلام میں کوئی عقل نہیں۔

اس امّت کا نبی اسی میں سے ہوگا

اس قرآنی اصول کی تصدیق ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جسے علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب ’’الخصائص الکبریٰ‘‘ میں درج کیا ہے۔ مشہور دیوبندی عالم مولوی اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی اپنی کتاب ’’النشر الطیب فی ذکر النبی الحبیبؐ‘‘ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے۔

’’ابونعیم نے ’’حلیہ‘‘ میں حضرت انسؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بنی اسرائیل کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ جو شخص مجھ سے اس حال میں ملے کہ وہ احمد مجتبیٰ کا منکر ہے تو میں اسے جہنم میں داخل کرونگا۔

موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے رب! احمد کون ہیں؟ فرمایا:۔ ’’میں نے کسی مخلوق کو ان سے بڑھ کر مکرم نہیں بنایا۔ اور میں نے ان کا نام تخلیق زمین و آسمان سے پہلے عرش پر لکھا۔ بلاشبہ میری تمام مخلوق پر جنت حرام ہے جب تک وہ ان کی امت میں داخل نہ ہو۔‘‘ موسیٰ ؑنے کہا ان کی امت کیسی ہے؟ فرمایا وہ بہت زیادہ حمد کرنے والی امت ہے جو چڑھتے اور اترتے ہر حال میں خدا کی حمد کرنے والی ہے۔ وہ اپنی کمریں باندھیں گے اور اعضاء کو پاک کریں گے۔ وہ دن میں روزہ دار اور شب میں ذکر واذکار اور عبادت گزار ہونگے۔ ان کے قلیل عمل کو قبول کروں گا اور لَا الٰہ اِلَّا اللّٰہ کی شہادت پر ان کو جنت میں داخل کروں گا۔ عرض کیا اس امت کا نبی مجھے بنادے! فرمایا اس امت کا نبی انہیں میں سے ہوگا۔ عرض کیا مجھے اس امت کا فرد بنادے! فرمایا تمہارا زمانہ پہلے ہے اور ان کا زمانہ آخر میں، لیکن بہت جلد میں تم کو اور ان کو دارالجلال میں جمع کردونگا۔‘‘

قرآن و حدیث میں بیان کردہ ان اصولوں کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام امّت محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے نبی یا فرد اس لئے نہیں بن سکتے کیونکہ یہ امت قرآن کریم کے نزول سے معرض وجود میں آئی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول قرآن سے پہلے مبعوث ہوچکے تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح ان کا زمانہ بھی امت محمدیہ سے پہلے کا ہے۔ چنانچہ جو رکاوٹ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس امت کا نبی یا فرد بننے میں ہے بعینہہ وہی رکاوٹ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ احادیث میں جس ابن مریم کے آنے کا ذکر ہے وہ اسی امت میں پیدا ہونے والا ایک فرد ہے نہ کہ باہر سے آنے والا کوئی اور شخص، جیسا کہ اس حدیث میں کہا گیا کہ اس امت کا نبی انہی میں سے ہوگا۔ ایک اور بات جو ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ غیراحمدی علماء جس دین کے پیروکار ہیں اس کی بنیاد قرآن و سنّت کبجائے خودساختہ اور من گھڑت اصولوں پر رکھی گئی ہے جس سے وہ احمدیہ مسلم جماعت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ ہمیشہ کی طرح اُن کی ناکامی و نامرادی کی صورت میں نکلتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قائم کردہ الہٰی جماعت کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے اور آپ کے ماننے والے دنیا کے تمام ملکوں میں موجود ہیں جو آپ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ آپؑ ایک جگہ مخلوق خدا کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے عزیزو! تم نے وہ وقت پایا ہے جس کی بشارت تمام معموروں نے دی ہے اور اس شخص کو یعنی مسیح موعود کو تم نے دیکھ لیا ہے اس لئے اب اپنے ایمانوں کو مضبوط کروا ور اپنی راہیں درست کرو اپنے دلوں کو پاک کروا ور اپنے مولا کو راضی کرو۔‘‘

(روحانی خزائن۔ جلد ص442)

اپنی وفات کے قریب 2مئی 1908 کو بعداز نمازِ عصر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے تمام تصانیف و تقاریر اور سفروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’قولی رنگ میں اور منقولی طور سے تو اب اپنا کام ختم کرچکے ہیں۔ کوئی پہلو ایسا نہیں رہ گیا جس کو ہم نے پورا نہ کیا ہو۔‘‘

(الحکم 16مئی 1908)

(انصر رضا۔ واقفِ زندگی۔ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 11 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ