’’اُن کے لیے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں‘‘
جپتے تھے جو، امیر خلیفہ سے ہے تَواں
دِکھتے نہیں ہیں خود وہ، جو کہتے تھے زعم سے
دیکھیں گے بار کیسے اٹھائے گا یہ گراں
ماتم کناں ہیں وہ بھی، سو کرتے ہیں اب فُغاں
پھولے گی نہ یہ فصل، جو کرتے تھے بد گماں
’’دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا‘‘
اُس کے حضور میں جسے کہتے تھے نوجواں
مصلح اُسی کو دیکھو، خدا نے بنا دیا
منکر جو تھے وہ سب ہوئے گمنام و بے نشاں
عطرِ رضائے یار سے ممسوح جو ہوا
خامہ فسوں تھا جس کا، سخنور گُہر فشاں
’’ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا‘‘ نے کی
فضلِ خدا سے آج گواہ اس پہ ہر زباں
فضلِ عمر نے رکھی تھی یورپ میں جو بِنا
مسرور کو بھی قصر خدا نے دیا وہاں
فرزندِ ارجمند نے پہنی تھی جو رِدا
پہنائی اُس کے سبط کو قادر نے اِس زماں
گویا کہ خود خدا ہے جو اُترا مِنَ السَّمَاء
روحِ خدا کی باتیں یہ کرتا ہے جب بیاں
محمود کو ظفر کی ہوئی جو خبر عطا
پوری ہوئی ہے اب وہ بِساں سیلِ بے کراں
شعلہ بیان تھا وہ، تو شیریں سخن ہے یہ
لب بستہ کو خدا نے مرے دی ہے وہ زباں
تھا ذی شکوہ جس جگہ، مسرور اب وہاں
پر کیف وہ سماں ہے جو ہوتا نہیں بیاں
نکہت بھی منفرد ہے تو ہر گُل بھی ہے جدا
ایسا شجر کہ جس پہ نہ آئے کبھی خزاں
وہ میر اس سپَہ کا، یہ سالار اب ہوا
ٹھہرا نہیں کوئی بھی، جو تھا مطلق العناں
عاجز ہوں میں کہ لکھوں جو سینہ میں ہے نہاں
مہتاب ہیں یہ ہر دو، میں ہوں ناقص اللّساں
(م م محمودؔ)