• 14 جولائی, 2025

طبقہ نسواں پر حضرت مصلح موعود کے احسانات

اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ
بتلا ہی نہیں سکتا میرا فکرِ سخندانہ
ہر روز تو تجھ جیسے انسان نہیں لاتی
یہ گردشِ روزانہ یہ گردش دورانہ

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ جو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مبشر اولاد میں سے ہیں اور جن کی پیدائش سے قبل ہی خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو عظیم الشان بشارتیں دیں اور آپ نے اپنی زندگی کے ایک ایک دن، ایک ایک لمحے میں اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ آپ ہی وہ پسرِ موعود ہیں آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جو فضل ِ عمر بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے عطر سے ممسوح بھی۔

اس وقت خاکسار آپ کی عدیم المثال سیرت کے درخشاں پہلو میں سے ایک پہلو کو بیان کر رہی ہے۔ جو خالصتاً ہم خواتین سے متعلق ہے۔ بحیثیت ایک عورت کے، ایک لجنہ اماء اللہ کے ممبر ہونے کے ناطے جب میں آپ کے اس احسان ِعظیم کی طرف نظر دوڑاتی ہوں جو آپ نے ہمیشہ ہمیش کے لیے ہماری صنف پر کر دیا تو بعد از حمد الٰہی دل کے گوشے گوشے سے آپ کے لیے دعاؤں کا ایک سیل رواں ہے جو جاری ہو جاتا ہے۔ کہ کس طرح ایک عام عورت کو آپ نے لجنہ اماء اللہ کی مفید رکن بنا کر اس کی کایا ہی پلٹ دی۔ کس طرح اسے دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے آراستہ کر کے ایسا بیش قیمت موتی بنا دیا جو ہزاروں سالوں کی محنت کے بعد ہی سیپ سے صدف بنا کرتا ہے۔ وہ تراشا ہوا ہیرا جس کی تراش خراش کے بعد ہیت ہی بدل جاتی ہو اور ہر جوہر شناش اسے اپنی انگوٹھی میں جڑوانے کو اعزاز اور سعادت سمجھتا ہو۔ بلاشبہ اس مقام تک ہمیں لانے والا وہی بابرکت وجود ہے۔ جس کی دور اندیشی اور کمال فہم نے عورتوں میں اخفاء صلاحیتوں کو پہچانا اور انکو پالش کر کے ایک تنظیم میں پرو دیا۔

عورت کو بنیادی حقوق اسلام نے دلوا دیئے تھے

اللہ تعالیٰ نے کتاب رحمان میں صاف صاف فرما دیا کہ

اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی

(آلِ عمران: 196)

میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہرگز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مَرد ہو یا عورت۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو اس صنف نازک کو آبگینہ قرار دے کر اس کے تمام حقوق کے معاملے میں مردوں کو خدا خوفی کا حکم دے گئے تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ جس طرح اور اسلامی تعلیمات دنیا سے منحرف ہوئیں اور خاص کر برصغیر کے مسلمان طبقے نے جس طرح دوسرے مذاہب کی دیکھا دیکھی انکی رسومات اور رواج کو اپنایا عورت کو پھر سے حقیر اور کمتر سمجھا جانے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عورتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کے خاص ہدایت کی ان تمام حقوق کو بعینہ اسی طور پر قائم کروایا جس طرح آپ کے آقا و مولا نے اس کا حکم دیا تھا اور پھر جماعت کے ہر خلیفہ نے اس امر کا خاص خیال رکھا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ عورتیں آبادی کا نصف سے زائد حصہ ہوا کرتی ہیں اور انکو معاشرے کا مفید اور کارآمد رکن بنائے بغیر ترقی کا خیال ہی عبث ہے نیز سب سے اہم فریضہ جو قدرت نے عورت کے سپرد کیا ہے وہ تربیت اولاد کا فریضہ ہے وہ گود جو پہلی درسگاہ ہے اگر وہ تربیت یافتہ نہ ہوئی تو جماعت کے تابندہ مستقبل کا خواب پورا نہ ہو سکتا تھا۔

مؤرخہ27دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ قادیان میں لجنہ اماء اللہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ رضی اللہ عنہ نے احمدی خواتین کو تربیتِ اولاد کے حوالے سے ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ آپ نے فرمایا کہ:۔
’’اصل ذمہ داری عورتوں پر بچوں کی تعلیم وتربیت کی ہے اور یہ ذمہ داری جہاد کی ذمہ داری سے کچھ کم نہیں۔ اگر بچوں کی تربیت اچھی ہو تو قوم کی بنیاد مضبوط ہوتی ہے اور قوم ترقی کرتی ہے۔ اگر ان کی تربیت اچھی نہ ہو تو قوم ضرور ایک نہ ایک دن تباہ ہو جاتی ہے پس کسی قوم کی ترقی اور تباہی کا دارومدار اُس قوم کی عورتوں پر ہی ہے۔‘‘

تو اسی لیے آپکی پُر حکمت سوچ کی بدولت لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ایک ایسی تنظیم تھی جس کا حصہ بن کر ہر کلی ایک خوشبودار پھول بنی اور اپنی خوشبو سے تمام عالم کو مہکایا۔ الحمد للّٰہ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بے حد خیال تھا اسی لیے آپ نے انکی تعلیم اور تربیت دونوں پر زور دیا

17مارچ 1925ء کو دارالمسیح میں باقاعدہ اسکول کا افتتاح کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’یہ مدرسہ میراایک علمی درخت ہے۔ مجھے مدرسہ خواتین سے خاص طور پر محبت ہے اور میں اس مدرسہ کے لیے تڑپ رکھتا ہوں کہ جس غرض کے لیے جاری کیا گیا ہے وہ پوری ہو یعنی استانیاں تیار ہوں جو اعلیٰ نسلوں کی تربیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کر سکیں۔‘‘

(الازہار لذوات الخمار صفحہ 191)

آپ نے خواتین کے لئے تعلیم کے مواقع پیدا کیے جس کا عملی نمونہ شاخ دینیات کا قیام اور دیگر تعلیمی اداروں کا قیام تھا پھر اپنے قیمتی وقت میں سے خواتین کے درس کے لیے وقت نکالنا اس امر کا غماز ہے کہ آپکو انکی تربیت کا کس قدر خیال تھا اور آپ اسے کس قدر ضروری خیال کرتے تھے۔ پھر خواتین کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے اخبارات اور رسائل کی اشاعت اور اس کے علاوہ جلسہ سالانہ میں خواتین کے لیے الگ سے جلسے کا انتخاب جس کا تمام انتظام لجنہ اماء اللہ ہی کے سپرد کر کے انکی انتظامی صلاحیتوں کو اجاگر کیا۔ علمی مجالس کی وجہ سے ان میں تقریر و تحریر کا ملکہ پیدا کرنا، تحریک جدید، مساجد کی تعمیر اور دیگر مالی تحریکات میں خواتین کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔خواتین کو اپنے زیورات بے حد عزیز ہوا کرتے ہیں۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کی تربیت تھی کہ وہی خواتین اپنے قیمتی زیورات راہِ خدا میں پیش کرتی کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی تھیں نیز جو بھی انکے پاس ہوتا اسکی قربانی کرنا عین سعادت سمجھتی تھیں۔ ہمارا ہر دل عزیز روزنامہ الفضل بھی تو دو عظیم خواتین کی زیورات کی قربانی ہے۔ جب تک یہ اخبار شائع ہوتا رہے اور ہم سب اس سے روحانی مائدہ حاصل کرتےرہیں گے۔ ان عظیم خواتین کی قربانی کو خراج تحسین پیش ہوتا رہے گا۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ
’’اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی‘‘

(الفضل 29؍ اپریل 1944ء صفحہ 3)

اسی کے تحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لجنہ اماء اللہ کے قیام کے جو سترہ نکات پیش کیے تھے، ان کو اپنا لائحہ عمل بنا کر ہر احمدی عورت نے خدا تعالیٰ سے اپنا ایک گہرا تعلق بنانے کی ہر ممکن سعی کی قرآنی تعلیمات کو پڑھا اور ترجمۃالقرآن خود بھی سیکھا اور دوسروں کو بھی سکھا رہی ہیں۔ باقاعدہ جلسہ جات، اجتماعات منظم بنیادوں پر منعقد ہوتے ہیں۔ اجلاسات کے نصاب کی تیاری ہوتی ہے اور اس امر کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ گھریلو خواتین، نوجوان بچیوں اور پڑھی لکھی ہر طرح کی ذہنی استعدادوں کے مطابق ایسا مفید لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس سے ہر کوئی کماحقہ فائدہ اٹھا سکے۔ پھر تبلیغ کا میدان ہو یا خدمت خلق کا شعبہ احمدی خواتین ہر جگہ اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ فری میڈیکل کیمپس لگانے ہوں یا تبلیغ کے لیے اسٹال، سیمینار منعقد کرنے ہوں یا جماعتی پمفلٹس کی تقسیم، مینا بازار میں اپنی کھانے پکانے کے اور دستکاری کے جوہر دکھانے ہوں یا اعلیٰ علمی تربیتی مضامین لکھنے ہوں۔ آج جماعت کی نوے فیصد خواتین اس قابل ہیں۔ الحمد للّٰہ! کہ جس موضوع پر چاہیں آپ ان سے سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں۔وہ جھجکتی نہیں، بڑے سے بڑے اجتماع میں تلاوت قرآن کریم کرنے، نظم پڑھنے یا تقریر کرنے سے، کیونکہ یہ سارا اعتماد تنظیمی پروگرام انکو فراہم کرتے ہیں۔

پھر حضرت نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا کے اس شعر کے مصداق

؎نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست
ہاتھوں سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو

اپنی اولاد کی ایسی بہتر تربیت بھی کر رہی ہیں کہ جو خلافت احمدیہ کی کامل اطاعت گزار اور سمعنا و اطعنا کہنے والے اور کسی بھی مشکل میں ہار نہ ماننے والے ہیں۔ اس ضمن میں ایک بے حد جذباتی کر دینے واقعہ پیش کرتی ہوں۔

حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد جب شروع میں کشمیر میں جہاد ہو رہا تھا تو پاکستانی فوج کو مجاہدین کی شدید ضرورت تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے دیہاتی جماعتوں میں پیغام بھجوانے شروع کیے کہ جو بھی فوج میں بھرتی ہوسکتا ہے آج قوم اور ملک کو ایک خاص ضرورت ہے اس لیے آپ لوگ بھرتی ہوں۔ ایک جگہ آپ کے کارندے گئے اور وہاں اعلان کیا۔بڑا احمدی گاؤں تھا کوئی کھڑا نہیں ہوا۔پھر اس نے کہا پھر کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ایک بیوہ عورت تھی بڑی عمر کی اس کا ایک ہی بچہ تھا وہ اپنے گھر سے یہ نظارہ جھانک رہی تھی۔ اس قدر اس کو جوش آیا اس نے اپنے بیٹے کا نام لے کر کہا کہ او! میرے بیٹے تو کیوں جواب نہیں دیتا۔ تیرے کان میں خلیفہ وقت کی آواز نہیں پڑ رہی۔ چنانچہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے کہا میں حاضر ہوں اور جس طرح بارش کا ایک قطرہ آتا ہے اور اس کے پیچھے موسلادھار بارش برستی ہے،جتنے جوان تھے سارے اُ ٹھ کھڑے ہوئے کہ ہم بھی آتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو لکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب مجھ تک اطلاع پہنچی تو میں نے اپنے خدا کے حضور ایک دعا کی۔ مَیں نے کہا اے میرے اللہ! میری آواز پر اس بیوہ نے اپنا ایک ہی بیٹا پیش کر دیا ہے جو شادی کی عمر سے گزر چکی ہے۔پھر اولاد کی کوئی توقع نہیں ہے۔میں تیری عظمت اور جلال کی دہائی دیتا ہوں کہ اگر تونے قربانی لینی ہے تو میرے بیٹے ذبح ہو جائیں اس عورت کا بیٹا بچایا جائے۔یہ ہیں وہ احمدی خواتین اور مستورات جو عہد بیعت کو نبھانے والی ہیں۔

(ماخوذ از خطاب جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرمودہ27؍دسمبر 1982ء الازہار لذوات الخمار حصہ دوم صفحہ 14)

یہ جذبہ جن عورتوں میں پیدا ہو جائے کہ وہ اپنی اولاد تک راہ خدا میں پیش کر دیں اور رتی برابر ملال تک نہ ہو۔ تحریک وقف نو بے شک اسکا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کس طرح خلیفہ وقت کی ایک آواز پر خواتین نے قبل از پیدائش اپنی اولاد کو خدمت دین کے لیے پیش کر دیا۔ کتنی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے اپنے واقفین شوہروں کے ساتھ نہایت تنگی ترشی کے حالات دیکھے۔ مالی تنگی برداشت کی،خاوندوں سے دوریاں سہیں لیکن کامل وفا و اخلاص سے اپنے رشتے کو نبھایا اور بچوں کی اعلیٰ تربیت بھی کی۔ کیا کوئی بھی احمدی وہ واقعہ بھول سکتا ہے جب ایک واقف زندگی کا بچہ سالہا سال باپ کی جدائی برداشت کرنے کے بعد ماں سے آکر پوچھتا ہے کہ ماں ابا کیا ہوتا ہے؟ یہ ظرف، یہ حوصلہ ایک احمدی بیوی اور ایک احمدی بچے کا ہی ہو سکتا ہے۔ پھر کتنی ہی ایسی عظیم خواتین جن کے باپ، بھائی، شوہر، بیٹے اپنی دین کی بقا کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر گئے لیکن انکے منہ سے کوئی ایسا کلمہ نہیں نکلا جس سے بے چینی یا بے تابی کا اظہار ہوتا ہے۔ بلکہ سب نے اپنے آپکو خوش قسمت قرار دیا کہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے جو اس نے ہمیں اس عظیم قربانی کے لیے منتخب کیا۔

حضرت مرزا غلام قادر صاحب شہید کی شہادت پر انکی عظیم والدہ محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ کا انکو ’’جزاک اللّٰہ قادر‘‘ کہہ کر رخصت کرنا اس کا عملی ثبوت ہے کہ احمدی عورت جو عہد دہراتی ہے کہ جان، مال، وقت اور اولاد کو دین کے لیے وقف کر دے گی وہ محض الفاظ نہیں بلکہ وہ پورے دل سے خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اقرار کرتی ہے۔ اس قابل اسے بنانے والے اس سب کے لیے اسے تیار کرنے وہی عظیم ہستی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ہی تو تھے۔ اس موضوع کو ایک مضمون میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ جس قدر احسانات اس طبقہ پر آپ رضی اللہ عنہ کر گئے ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ اپنی خاص دعاؤں میں اس بابرکت وجود کو ہمیشہ یاد رکھیں اس احسان کو یاد کرواتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا جماعت کی عورتوں پر یہ احسان ہے کہ احمدی عورت کے لئے ایک ایسی تنظیم قائم فرمادی جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو اُجاگر کر سکتی ہے۔اگر آپ عبادت کر رہی ہیں اور نمازوں کی ادائیگی کر رہی ہیں تو اللہ تعالیٰ ان عبادتوں کے طفیل آپ کے بچوں کے مستقبل بھی روشن کردے گا اور آپ پر بے شمار فضل فرمائے گا۔کوشش کریں کہ زمانے کی لغویات، فضولیات اور بدعات آپ کے گھروں پر اثر انداز نہ ہوں۔ انٹرنیٹ اور ٹیلیفون وغیرہ ہر ایسی چیز جس کا ناجائز استعمال شروع ہو جائے وہ بھی لغویات میں ہے فیشن میں لباس اگر ننگے پن کی طرف جا رہاہو تو یہ بھی بے حیائی بن جائے گی۔ اپنی حیا اور حجاب کا خیال رکھیں اور اس کی حدود میں رہتے ہوئے جو فیشن کرنا ہے کریں۔غیر محرم جوان لڑکے لڑکیوں اور مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول سے بھی بچیں۔ احمدی بچیوں کے لئے مناسب تفریح کے انتظامات کرنا لجنہ کا کام ہے۔بچپن سے ہی بچیوں کے ذہنوں میں یہ با ت ڈالنی چاہئے کہ تمہارا ایک تقدس ہے تا کہ وہ ہر قسم کی لغویات اور گناہوں سے بچتے ہوئے اپنے اندرپاک تبدیلیاں پیدا کرنے والی ہوں۔‘‘

(خطاب حضور انور برموقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ جرمنی بتاریخ 11؍ جون 2006ء)

خدا کرے کہ ہم اپنے اس محسن کی تمام توقعات پر ہمیشہ پوری اترتی رہیں اور اسی طرح اپنی دینی اور دنیاوی علم کو بڑھا کر خدمت انسانیت اور خدمت دین اور تربیت اولاد کر سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین اَللّٰھم آمین۔

(صدف علیم صدیقی۔ ریجائنا،کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ