• 31 اکتوبر, 2024

غیبت ایک گناہ ہے

پھر غیبت ایک گناہ ہے جس سے اصلاح کی بجائے معاشرے میں بدامنی کے سامان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس گندے فعل سے کراہت دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم تو آرام سے غیبت کرلیتے ہو۔یہ سمجھتے ہو کہ کوئی بات نہیں،بات کرنی ہے کرلی۔ زبان کا مزا لینا ہے لے لیا۔ یا کسی کے خلاف زہر اگلنا ہے اگل دیا۔لیکن یاد رکھو یہ ایسا مکروہ فعل ہے ایسی مکروہ چیز ہے جیسے تم نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھالیا۔ اور کون ہے جو اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے کراہت نہ کرے۔ غیبت یہی ہے کہ کسی کی برائی اس کے پیچھے بیان کی جائے۔پس اگر اس شخص کی اصلاح چاہتے ہو جس کے بارہ میں تمہیں کوئی شکایت ہے تو علیحدگی میں اسے سمجھاوٴ تاکہ وہ اپنی اصلاح کرلے اور پھر بھی اگر نہ سمجھے تو پھر اصلاح کے لئے متعلقہ عہدیدار ہیں، نظام جماعت ہے، امیر جماعت ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی مصلحت آڑے آرہی ہے یا تسلی نہیں ہے تو مجھ تک پیغام پہنچایا جاسکتا ہے۔ بعض لوگ مجھے شکایت کرتے ہیں لیکن ان شکایتوں سے صاف لگ رہا ہوتا ہے کہ اصلاح کی بجائے اپنے دل کا غبار نکال رہے ہیں اور پھر اکثر یہی ہوتاہے کہ شکایت کرنے والے اپنا نام نہیں لکھتے صرف ایک احمدی یا ایک ہمدرد لکھ دیتے ہیں نیچے یا پھر ایسا نام اور پتہ لکھتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں ہوتا جو بالکل غلط ہوتا ہے۔ ایسے لوگ سوائے میرے دل میں کسی کے خلاف گرہ پیدا کرنے کی کوشش کے اور کچھ نہیں کررہے ہوتے۔ اور اس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے۔ کیونکہ نام چھپانے سے ایک تو صاف پتہ چل رہا ہوتا ہے کہ کوئی ہمدرد نہیں ہے بلکہ صرف کسی دوسرے کو بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ عموماً تو ایسے خطوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی اور میرا کام تو ویسے بھی یہ ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے پہلے تحقیق کرواوٴں، پتہ کروں اور جس کا نام پتہ ہی نہیں اس کی تحقیق بھی نہیں ہوسکتی۔ لیکن اگر کسی کو سزا ہو بھی تو میرے دل میں اس کے خلاف نفرت کبھی نہیں پیدا ہوئی، نہ کوئی گرہ پیدا ہوتی ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ ایک احمدی کو کسی بھی وجہ سے سزا ہوئی ہے۔ بہرحال ایک احمدی کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاتَّقُوا اللّٰہَ کہ تقویٰ اختیار کرو۔ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیۡمٌ کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ جن کو اس قسم کی بدظنیوں کی یا تجسس کی یا غیبت کی عادت ہے اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف کریں۔ اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احساس ندامت لے کر میرے پاس آوٴ گے تو مَیں تمہاری توبہ قبول کروں گا اور تمہارے ساتھ رحم کا سلوک کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے۔ اگر نیک ظنّ کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے۔ جب پہلی ہی منزل پر خطاکی تو پھر منزلِ مقصود پر پہنچنا مشکل ہے۔ بدظنی بہت بُری چیز ہے۔ انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنّی شروع کر دیتا ہے‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 375 جدید ایڈیشن)

(خطبہ جمعہ 5 فروری 2010ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 23 فروری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ