آج کا اداریہ خاکسار نے اپنی تصنیف ’’تیغ دعا‘‘ کے باب دہم سے لیا ہے جو خاکسار نے لیکھرام کی موت پر 100 سال مکمل ہونے پر قریبا 350 صفحات پر مشتمل تحریر کی تھی۔ آج چھ مارچ کی مناسبت سے اس کا کچھ حصہ ہدیہ قارئین کر رہا ہوں۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ایک کشف میں قوی ہیکل اورمہیب شکل آدمی دیکھا جو لیکھرام اور ایک دوسرے شخص کے بارہ میں پوچھتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
’’مجھے معلوم نہیں کہ وہ اور شخص کون ہے اس فرشتہ خونی نے اس کا نام تو لیا مگر مجھے یاد نہ رہا۔ کاش مجھے یاد ہوتا تو اسے میں متنبہ کرتا تا اگر ہو سکتا تو میں اسے وعظ و نصیحت سے توبہ کی طرف مائل کرتا لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی لیکھرام کا روپ یا یوں کہو کہ اس کا بروز ہے اور توہین اور گالیاں دینے میں اس کا مثیل ہے‘‘
(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ297 حاشیہ)
دوسرے شخص کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے کئی رنگ ہیں۔ (جن کا ذکر کتاب کے اس باب میں تو ہو چکا ہے تاہم قارئین الفضل کے لئے الگ سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ان شاء اللّٰہ) جن میں ایک رنگ میں یہ پیشگوئی جنرل ضیاء الحق کے متعلق بھی پوری ہوئی۔
اس دور میں بھی اللہ تعالیٰ نے ’’دوسرے شخص‘‘ کی ہلاکت کی پیشگوئی ایک دفعہ پھر جماعت احمدیہ کے حق میں پوری کی۔ جب ایک آمر مطلق 17؍ اگست 1988ء کو قہری تجلی کا نشان بناکر مارا گیا۔
اس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور جماعت احمدیہ اور اس کے خلیفہ کے ساتھ نہایت ہتک آمیز سلوک کیا۔ حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ (رحمہ اللہ تعالیٰ) نے عصر حاضر کے اس ڈکٹیٹرکو لیکھو کہہ کر پکارا اور اس کو مخاطب ہوکر فرمایا۔
ہے تیرے پاس کیا گالیوں کے سوا
ساتھ میرے ہے تائید رب الوریٰ
کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا
آج بھی اذن ہوگا تو چل جائے گی
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع (رحمہ اللہ تعالیٰ) نے متعدد بار اسے سمجھایا مگر یہ اپنی شرارتوں میں بڑھتا گیا۔ آخر مباہلہ کے نتیجہ میں جب اس شخص کا معاملہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ 17 اگست 1988ء کی سہ پہرکو صادر فرمایا اور وہ ایسے طریق سے خدائے قادر مطلق کی گرفت میں آیا کہ کوئی اسے بچا نہ سکا۔ وہ اپنے ارمانوں کو دل میں لے کر حسرت و یاس لئے آگ کے شعلوں کی نذر ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوا۔
اس کے قتل کے واقعہ کو لیکھ رام کے واقعہ سے ملا کر اگر دیکھا جائے تو روح خدا کے حضور سجدہ ریز ہوجاتی ہے کہ کس شان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اسے لیکھ رام سے ملایا ہے اور پیارے امام کے یہ الفاظ پورے کیے ہیں۔
؎کل چلی تھی جو لیکھو پہ تیغ دعا
آج بھی اذن ہوگا تو چل جائے گی
اتفاقات میں سے یہ عجیب اتفاق ہے کہ ضیاء الحق کا دور حکومت بھی فرعون مصر اور لیکھ رام کی طرح 11 سال سے کچھ اوپر ہے۔
لیکھ رام کی طرح ضیاء الحق کو بھی موت کا ڈر لاحق تھا۔ ان دنوں گھر سے بہت کم نکلتے تھے۔ بہاولپور کا سفر بھی اختیار کرنے سے قبل کئی دفعہ فیصلہ بدلا اور ضیاء الحق کی ہلاکت کے وقت اس کی حفاظت کے لئے تمام تدابیر بروئے کار لائی گئی تھیں۔ محفوظ ترین ائیر کرافٹ میں سفر کررہا تھا اور پھر ایک کیپسول میں بیٹھا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ائیر کرافٹ تباہ ہونے کی صورت میں وہ الگ زمین پر بحفاظت Land کرجاتا ہے مگر خدائی قدرت دیکھیں کہ وہ Eject ہی نہیں ہوسکا۔
ائیر کرافٹ جہاں گرا وہ جگہ بستی لال کمال (بہاولپور) کے قریب ہے۔ یہ جگہ سرکاری کاغذات میں شمشان گھاٹ (مرگھٹ) کے طور پر الاٹ ہے جہاں کسی وقت ہندو اپنے مردوں کو جلایا کرتے تھے۔ پاکستان بننے سے قبل اس علاقہ میں زیادہ تر ہندو آباد تھے۔
آگ میں جلنے کے بعد اس کا اور دوسرے ساتھیوں کا نام و نشان مٹ گیا اور ایک Denture بچا۔ کچھ راکھ تو اکٹھی کرکے اسلام آباد میں دفنا دی گئی اور باقی راکھ کو سیلاب کے پانی نے دریائے ستلج میں بہا دیا۔ اور اس طرح کئی لحاظ سے لیکھ رام سے مشابہ ٹھہرا۔ ایک دفعہ پھر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس شعر کو سچا پایا۔
جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال، اے روبہ زار و نزار

فاتح مباہلہ – حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒ
بھارت کے مشہور مقالہ نگار جمناداس نے کراچی کے اخبار ڈیلی نیوز کے حوالہ سے لکھا۔
’’جس امریکی ہوائی جہاز کی تباہی ہوئی ہے اسے تمام دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ قرار دیا جاتاتھا۔ اس سے پہلے اس طرح کے کسی ہوائی جہاز کو کسی حادثہ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی مشینری ایسی ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ چار انجنوں والا یہ ہوائی جہاز پرواز کرنے کے چار منٹ بعد ہی تباہ ہوجائے………. معتبر ذرائع کے مطابق یہ ہوائی جہاز اس طرح تباہ ہوا کہ مسافروں کے جسم بری طرح جل گئے انہیں پہچانا نہیں جاسکتا تھا ……….. جنرل ضیاء نے وصیت کررکھی تھی کہ مرنے کے بعد اس کی آنکھیں خیرات کردی جائیں لیکن آنکھیں تک جل گئیں ……….. آگے اخبار لکھتا ہے۔
اسلام کی روایات کے مطابق دفن کرنے سے پہلے رشتہ داروں کو لاش کا دیدار کرنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن جنرل ضیاء الحق کا تابوت رسم پوری کرنے کے لئے ان کے نزدیکی رشتہ داروں کے سامنے کھولا نہیں گیا بلکہ اسی طرح دفن کردیا گیا …….. اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ دفنایا گیا وہ ایسا نہیں تھا کہ اسے دیکھا جائے۔
یہ بات کہ لاش کے ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے تھے اور وہ بری طرح جل گئے تھے اس کا ثبوت ہے کہ دھماکہ اتنا تیز تھا کہ انسان اور مشین دونوں ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔‘‘
(روزنامہ ہند سماچار 8 نومبر 1988ء)
جہاز کا ملبہ

؎خدا اڑا دے گا خاک تیری کرے گا رسوائے عام کہنا
آج بھی جماعت کو بے شمار لیکھ راموں سے واسطہ ہے جو ہر وقت مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو نقصان پہنچانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ہم اپنے پیارے خدا کے دربار میں امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کو نیست و نابود کرے گا اور جماعت احمدیہ کی شان کو ہمیشہ بڑھاتا رہے گا۔ اس کا علم ہمیشہ بلند رکھے گا۔ اور ہمارے ازدیاد ایمان کی خاطر ہمارے حق میں نشان دکھلاتا رہے گا۔ جس کا اعتراف غیروں کو بھی ہے اور وہ یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ:
’’مرزائیوں کی حفاظت کے سامان غیب سے پیدا ہوجاتے ہیں …….. دوسری طرف مرزائیوں کے مخالفین کی تباہی کے سامان بھی غیب سے ظہور میں آجاتے ہیں۔‘‘
(ترجمان القرآن اگست 1934ء صفحہ57-58)
ایک اور نامہ نگار جناب سخاوت حسین آف اوکاڑہ نے پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف سازش کرنے والوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ہر حکمران کا انجام برا ثابت ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پاکستان میں پہلی دفعہ جناب دولتانہ نے قادیانی مسئلہ کو اٹھایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد وہ آج تک اقتدار کی کرسی سے محروم رہے۔ پھر جناب ایوب خان نے اپنے اقتدار کے ڈوبتے ہوئے دور میں اس مسئلہ کا سہارا لینا چاہا۔ انہوں نے اپنے سہارے میں مرزائیت سے بریت کے بیانات اخبارات اور ریڈیو پر نشر کئے۔ صدر کی ایما پر اس وقت کے گورنر مغربی پاکستان جناب امیر محمد خان نے مرزا غلام احمد قادیانی کی اہم کتب کو ضبط کیا مگر یہ ان کے متزلزل اقتدار کو طول نہ دے سکا بلکہ رسوا ہوکر اقتدار سے علیحدہ ہوئے۔ پھر بھٹو جن کی پارٹی اور حکومت بذات خود مرزائیوں کی امداد و اعانت سے برسر اقتدار آئی تھی نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ اور ڈولتے ہوئے اقتدار کو سنبھالا اور طول دینے کے لئے اپنے محسن مرزا کی جماعت کی گردن پر وار کیا اور ایسا وار کہ 90 سالہ مسئلہ حل کر ڈالا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے بعد اب انہوں نے پاکستانی عوام کے دل جیت لئے ہیں اور اب وہ تازیست وزیر اعظم پاکستان رہیں گے۔ لیکن ان کا یہ خیال شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ اب صدرضیاء الحق نے مرزائیوں سے بریت کا اعلان واشگاف الفاظ میں کیا ہے اور مرزائیوں کو کلیدی آسامیوں سے علیحدہ کرنے کا عہد کیا ہے لیکن ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے دل کانپ جاتا ہے کیونکہ ماضی میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ جنہوں نے بھی قادیانی مسئلہ کو اٹھایا یا چھیڑا وہ اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے ایسا کیوں ہوتا ہے۔ اس کے پس پردہ کون سے عوامل یا غیبی طاقت کارفرما ہے؟ وہ پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔‘‘
(روزنامہ جنگ لاہور 13 دسمبر 1983ء)
جی ہاں!ان کا یہ خدشہ صد فی صد سچا ثابت ہوا۔ ضیا الحق کو اقتدار سے ہی نہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کی ہلاکت کا نشان احمدیت اور خلافت کی صداقت پر ایک روشن مینار کی طرح زندہ رہےگا۔ کیونکہ ان کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الرابع (رحمہ اللہ تعالیٰ) نے نہایت واضح الفاظ میں فرما دیا تھا:
’’جہاں تک صدر صاحب پاکستان کا تعلق ہے وہ چیلنج قبول کریں یا نہ کریں۔ چونکہ وہ تمام آئمۃ المکفرین کے امام ہیں ………. انہوں نے معصوم احمدیوں پر ظلم کئے ہیں۔ ایسے شخص کا زبان سے چیلنج قبول کرنا ضروری نہیں ہوا کرتا۔ اس کا اپنے ظلم و ستم میں جاری رہنا اس بات کا نشان ہوتا ہے کہ اس نے چیلنج قبول کرلیا ہے۔‘‘
اس کے بعد 12 اگست 1988ء یعنی اس کی ہلاکت سے صرف 5 دن قبل واضح رنگ میں فرمایا:
’’یہ شخص خدا کی پکڑ اور سزا سے بچ نہیں سکے گا۔ اسے اس کی ہلاکت سے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی۔ اس کا نام و نشان مٹ جائے گا۔‘‘
آخر شیر خدا نے بپھر کر ہر بن باسی کو للکارا
کوئی مبارز ہو تو نکلے، سامنے کوئی مباہل آئے
ہمت کس کو تھی کہ اٹھتا، کس کا دل گردہ تھا نکلتا
کس کا پتہ تھا کہ اٹھ کر، مرد حق کے مقابل آئے
آخر طاہر سچا نکلا، آخر ملا نکلا جھوٹا
جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا
پیارے آقا حضرت امام جماعت احمدیہ انہی واقعات کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے مظلوم احمدیوں کو مخاطب ہوکر یوں فرماتے ہیں:
’’اے پاکستان کے مظلوم احمدیو! تمہیں مبارک ہو کہ بلند ہمت اور شجاعت اور اولوالعزمی کی یہ صفات تم سے ظاہر ہورہی ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب اول درجہ کے پاک یافتہ ہوکر تم ان ابتلاؤں سے نکلو گے اور عزت اور حرمت کا تاج تمہارے سروں پر رکھا جائے گا وہ دن لازماً آئیں گے کہ مسیح دوراں کو کانٹوں کا تاج پہنانے والے خود کانٹوں میں گھسیٹے جائیں گے اور ذلت اور رسوائی کا تاج ان کے سروں پر رکھا جائے گا۔‘‘
خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے
(تیغ دعا۔قتل لیکھرام اور سو سال از حنیف محمود صفحہ312-317)
عصر حاضر کے فرعون سے یہ کہو رب موسیٰ کی عظمت کو سجدے کرے
ورنہ ٹکڑے ہوا میں بکھر جائیں گے وہ جو پھینکے گا اپنا عصا دوستو
(لئیق احمد عابد)