• 3 مئی, 2025

اسلامی قانون میں قذف، زنا بالرضا یا زنا بالجبر (قسط 2)

اسلامی قانون میں قذف، زنابالرضایازنا بالجبر
کے ثبوت کاطریق اوراس کی سزا
(قسط 2)

حضرت عمرؓ کے زمانہ کے واقعات

حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بھی زنابالجبر کے ایسے دو واقعات کا ذکر ملتا ہے۔ پہلے واقعہ میں حضرت عمرؓ نے قرائن قویّہ کی روشنی میں تحقیق کروا کر فیصلہ فرمایا۔ وقوعہ کے مطابق ہذیل قبیلہ کا ایک مہمان نےان کی لونڈی سے زنا بالجبر کرنا چاہا۔ اس دوران ہاتھا پائی میں اس لونڈی نےاسے پتھر ماراجس سے وہ ہلاک ہو گیا، حضرت عمر ؓنے اس الزام اور واقعہ قتل کی تفتیش کروائی توقرائن کے مطابق دونوں کے نشانات حسب بیان مدعیہ مبینہ مقام پر پائے گئے جس پر حضرت عمر ؓنے مقتول کے بارہ میں یہ فیصلہ فرمایا:
’’ذَاكَ قَتِيلٌ اللّٰهِ وَاللّٰهِ لَا يُودَى أَبَدًا‘‘ یہ اللہ کا مارا ہوا ہے اس کی دیت ادا نہیں ہو گی۔ اور اس لونڈی کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔

(سنن البیہقی جزء8 صفحہ586)

حضرت عمرؓ کے فیصلہ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ زنابالجبر کرنے والے ظالم بدبخت کو اللہ تعالیٰ کا قہر وعذاب نوبت قسم وانکار سے پہلے بھی اپنی گرفت میں لے سکتا ہے۔ جیساکہ اس واقعہ سے ظاہر ہے۔

دوسرا واقعہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں یہ ہوا کہ ایک عورت نوجوان انصاری پر فریفتہ ہوگئی جب وہ اس کے قابو میں نہ آیا تو اس نے حیلہ سازی سے انڈے کی سفیدی اپنے کپڑوں اور رانوں کے درمیان لگائی اور حضرت عمرؓ کے پاس فریاد کرتی آئی کہ یہ شخص میرے ساتھ زبردستی زیادتی کا مرتکب ہوا ہے اور مجھے میرے خاندان میں رسوا کر ڈالا ہے اور بطور ثبوت اپنے اوپر انڈے کی سفیدی پیش کی۔ حضرت عمرؓ نے اس نوجوان کی سزا کا ارادہ کیا تو اس شخص نے فریاد رسی کرتے ہوئے مزید تفتیش کی درخواست اور حلفیہ بیان دیا کہ وہ ہرگز بدفعلی کا مرتکب نہیں ہوا، نہ ہی اس کا ارادہ کیا۔ البتہ اس عورت نے مجھے میری مرضی کے خلاف بہکانے کی کوشش کی مگر میں بچارہا۔

حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کے سپرد مزید تحقیق کا معاملہ کیا اور فرمایا کہ ان دونوں کے بارہ میں اپنی رائے دیں۔ حضرت علیؓ نے کپڑے میں سفیدی وغیرہ کے آثار دیکھے پھر شدید ابلتا ہوا گرم پانی منگوایا اور کپڑے پر ڈالا تو وہ سفیدی منجمد ہوگئی۔ پھر حضرت علیؓ نے اس سفیدی کو لے کر پہلے سونگھا پھر اس کا ذائقہ محسوس کیا تو انڈے کی سفیدی ہی نکلی۔ حضرت علیؓ نے عورت کو ڈانٹ ڈپٹ کی تو اس نےغلط الزام لگانے کا اعتراف کرلیا۔

(الطرق الحكمية في السياسة الشرعية لابن قيم الجوزية (المتوفى:751ھ) جزء1صفحہ44)

الغرض زمانۂ نبویؐ و خلفاء راشدین سے زنابالجبر کے جن معدودے چند واقعات کا پتہ چلتا ہے ان میں کسی ایک واقعہ میں بھی زنابالجبر کے محض بلاثبوت دعویٰ پر کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی، صرف ایک جگہ جو رجم کی تعزیری سزا ہوئی وہ بھی مجرم کے اقرار کی صورت میں تھی۔

ایک خاتون کا زنابالجبر کا دعویٰ زلیخا کی طرح حیلہ سازی پر مبنی ثابت ہوا جبکہ دوسری نے زیادتی کرنے والے مجرم کی تعیین میں غلطی کھائی۔

مذکورہ بالا دوسرےواقعہ سے کسی کے بلا ثبوت دعویٰ زنابالجبر پر کاروائی کرنے کی مشکلات اور مسائل کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی کہ قرائن کی بھی کتنی چھان بین ہونی چاہیے۔ خصوصاً جبکہ دوسرا فریق حلفیہ بیان کے ذریعہ اس واقعہ کی تردید کررہا ہوجیساکہ مذکورہ بالا واقعہ میں ہے تو بلا ثبوت دعویٰ قبول کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

زناکاری اور اس کی تشہیر و اشاعت فاحشہ کی تعزیری سزا

زنا کی سزا سو کوڑے کا حکم مدینہ میں 5 نبوی میں سورة نور میں نازل ہوا۔ اس سے قبل مدینہ میں پہلے سے موجود بدکاری کے اڈوں کا خاتمہ اور استیصال کرنے کے لیے سورۂ احزاب میں منافقوں کو متنبہ کر دیا گیاکہ اگروہ زناکاری اوراس کی تشہیر و اشاعت سے باز نہ آئے تو انہیں موت تک کی سزا دینے سے بھی دریغ نہیں کیاجائے گا۔ فرمایا:

لَئِنْ لَّمْ یَنْتَہِ الْمُنٰـفِقُوْنَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُوْنَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَکَ فِیْھَا اِلَّا قَلِیْلًا۔ مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْا ۤاُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃَ اللّٰہِ تَبْدِیْـلًا

(الاحزاب:61-63)

یعنی اگر منافقین اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینہ میں جھوٹی خبریں اڑاتے پھرتے ہیں باز نہیں آئیں گے تو ہم ضرور تجھے (ان کی عقوبت کے لئے) ان کے پیچھے لگا دیں گے۔ پھر وہ اس (شہر) میں تیرے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑا۔ (یہ) دھتکارے ہوئے، جہاں کہیں بھی پائے جائیں پکڑ لئے جائیں اور اچھی طرح قتل کئے جائیں۔ (یہ) اللہ کی سنّت ان لوگوں کے متعلق بھی تھی جو پہلے گزر چکے ہیں اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔

آیت میں لفظ تقتیل سے قتل یا سنگساری بھی مراد لی جاسکتی ہے۔ سنگساری کا طریق اس لیےرائج ہوا تاسب لوگ مل کر مجرم کو اس کے انجام تک پہنچائیں اور قتل کا الزام کسی ایک فرد پر نہ آسکے اور قبائل میں اس کے نتیجہ میں انتقامی لڑائیوں کا سدّباب ہو۔

توریت میں بھی سنگساری کا حکم تھاجس کا نفاذآغاز اسلام میں ایسے یہودی مجرموں کے علاوہ بعض مسلمانوں پر بھی ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورة احزاب کی مذکورہ بالا آیات سے زنا کی سزا قتل مراد لیتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہودیوں کی مقدس کتاب اور اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے یہ عقیدہ متفق علیہ مانا گیاہے کہ جو شخص ایسا ہو کہ خدا کی کتابوں میں اس پر ملعون کا لفظ بولا گیاہو وہ ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے محروم اور بے نصیب ہوتاہے۔ جیساکہ اس آیت میں بھی اشارہ ہے (مَلۡعُوۡنِیۡنَ ۚۛ اَیۡنَمَا ثُقِفُوۡۤا اُخِذُوۡا وَقُتِّلُوۡا تَقۡتِیۡلًا) یعنی زناکار اور زناکاری کی اشاعت کرنے والے جو مدینہ میں ہیں یہ لعنتی ہیں یعنی ہمیشہ کے لئے خدا کی رحمت سے رد کئے گئے۔ اس لئے یہ اس لائق ہیں کہ جہاں ان کو پاؤ قتل کرو۔ پس اس آیت میں اس بات کی طرف یہ عجیب اشارہ ہے کہ لعنتی ہمیشہ کے لئے ہدایت سے محروم رہتاہے اور اس کی پیدائش ہی ایسی ہوتی ہے جس پر جھوٹ اور بدکار ی کا جوش غالب رہتاہے اور اسی بنا پر قتل کرنے کا حکم ہوا کیونکہ جو قابل علاج نہیں اور مرض متعدی رکھتا ہے اس کامرنا بہترہے۔‘‘

(تریاق القلوب صفحہ 50-49)

یہاں دو باتیں خاص طورپر قابل توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ قتل کی یہ تعزیری سزا زناکاری کے ساتھ اس کی اشاعت کرنے والوں کے لئے ہے، دوم یہ کہ جب زنا کا مرض متعدی ہو اور قابل علاج نہ ہوتوصرف اس صورت میں سزا موت ہے۔ اشاعت زنا کاری کے نتیجہ میں نہ صرف زنا کے عادی مجرموں کی حوصلہ افزائی ہوتی بلکہ بلیک میلنگ کے رستے کھلتے اور اس دلدل سے نکلنے کی خواہش رکھنے والا بھی ان کے چُنگل سے باہر نکل نہیں سکتا اور ایک اور قسم کے جبری زنا کی زنجیر میں جکڑا جاتا ہے۔

سورۂ احزاب میں زنا کاری اور اس کی اشاعت کی سزا کے احکام نازل ہونے سے کچھ عرصہ بعد سورۃ النور کی آیت تجلید میں کوڑوں کا یہ حکم نازل ہوا:

اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃً۔ وَلَا تَاخُذُکُمْ بِہِمَا رَافَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ۔ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ

(النور: 3)

زنا کار عورت اور زنا کار مرد، پس ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور اللہ کے دین کے تعلق میں ان دونوں کے حق میں کوئی نرمی (کا رُجحان) تم پر قبضہ نہ کر لے اگر تم اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانے والے ہو۔ اور ان کی سزا مومنوں میں سے ایک گروہ مشاہدہ کرے۔

آیت کا حکم اکثر علماء کے نزدیک عام نہیں خاص ہے اس لیے صرف کنوارے مرد یا عورت کی سزا سو کوڑے ہے جبکہ شادی شدہ مرد یا عورت زنا کے مرتکب ہوں تواس کی سزا سنت رسولؐ کے مطابق رجم ہے ان کے نزدیک سنت نے قرآن کی تخصیص کر دی۔

ہمارے نزدیک سو کوڑے کی سزا کا حکم عمومی ہے اور کنوارے یا شادی شدہ دونوں کی یہی سزا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ہمارے نزدیک شادی شدہ کی سزا کوڑے ہی ہوں گے سوائے اس کے کہ Adultery(بدکاری) کا عادی ہو اور لڑکیوں کو خراب کرے۔ اس کو بے شک Stoning کا مستحق سمجھیں گے۔ مگر شرائط وہی ہیں کہ چار عینی گواہ ہوں جو ملنے قریباً ناممکن ہوتے ہیں۔‘‘

(فائل مسائل دینی 1958ء)

البتہ سورۃ الاحزاب کے مشروط حکم کے مطابق جب زناکے مجرم عادی ہوں اوراس کی تشہیر واشاعت سے معاشرہ کو خراب کریں تو ان کی سزا موت ہوسکتی ہے۔

اسلامی ریاست مدینہ میں اس حکم پرعملدرآمد کی تین مثالیں ملتی ہیں۔

1. جہینہ قبیلہ کی عورت فاطمہ غامدیہ کے ناجائز حمل کے اعتراف پر رجم کیا گیا۔

(مسلم کتاب الحدود باب حد الزنا)

2. ایک نوکر نے اپنے مالک کی بیوی سے زنا کیا۔ اس عورت کو حضور ؐ کے حکم سے رجم اور نوکر کو بھی سوکوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا ہوئی۔

(المعجم الاوسط للطبرانی جزء6 صفحہ302)

3. ماعزؔ بن مالک اسلمی کے چار بار سرعام زنا کے اعتراف پر رجم کی سزادی گئی۔ یہ بھی مذکور ہے کہ ماعزؔ سے حضورﷺ نے کئی سوالات کرکے تحقیق کے بعد اس کے مسلسل اقرار پر سزا دی۔

(بخاری کتاب المحاربین باب رجم المحصین)

زنا بالجبر کی تعزیری سزاموت کی دوسری دلیل

قرآن شریف کی ایک اور آیت سے بھی زنابالجبر کی تعزیری سزا ہاتھ پاؤں کاٹنے یا جلاوطنی یا موت تک ہوسکتی ہے۔ جس کا استنباط اس آیت محاربت سے ہوتا ہے۔ فرمایا:

اِنَّمَا جَزَآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہ، وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ۔ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الاْٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ

(المائدہ:34)

یعنی یقینا اُن لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا دار پرچڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں دیس نکالا دے دیا جائے۔ یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں تو اُن کے لئے بڑا عذاب (مقدر) ہے۔

اس آیت کی شان نزول کی ایک روایت کے مطابق یہ آیت قبیلہ عرینہ کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جن کے جرائم میں قتل، ڈاکہ، فساد کے علاوہ زنا کا جرم بھی تھا جو انہوں نے رسول اللہﷺ کے چرواہے کی بیوی سے کیا۔

(تفسیر ابن جریر جلد 6صفحہ 105مطبوعہ مصر)

یہ امر قابل ذکر ہے کہ امام بخار ی نے اپنی صحیح میں رجم کا باب دوسرے محدثین کی طرح کتاب الحدود میں نہیں بلکہ کتاب المحاربین میں باندھا ہے اور اس کتاب کی ابتدا ء آیتِ محاربت سے کی ہے۔ جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ امام بخاری کے نزدیک رجم کی سزا آیت ِ محاربت سے مستنبط ہوتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کاکوڑوں کی سزا کے علاوہ خاص حالات میں رجم کےحوالہ کا ذکر ہوچکا ہے۔

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کی
زنابالجبر کی سزا کے بارہ میں رہنمائی

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے آیت محاربت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’میرے نزدیک کیونکہ سنگسار کالفظ قطعیت کے ساتھ یہاں ملتا ہے اور چونکہ اس فساد میں صرف زنا نہیں بلکہ بالجبر شامل ہو سکتاہے تو وہ محض زناکی سزا نہیں ہوگی بلکہ ایسا زنا جس میں سے ایک عورت پر ظالمانہ حملہ ہواہے اس کو ہمیشہ کے لئے مجروح کرکے رکھ دیاگیا ہے۔ یہ عام زنا نہیں ہے ۔ ۔ ۔

پس یہ آیت سنگسار کے ان کیسوں پر اطلاق کرے گی جیسے مثلاً کسی زنابالجبر کے کیس میں انتہائی ظالمانہ حرکت ہوتی ہے۔ اگروہاں سوکوڑے عام مارے جائیں اورباقیوں کو بھی تو یہ بات کوئی انسانی فطرت کے مطابق نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

(درس القرآن فرمودہ 24رمضان المبارک بمطابق 11فروری 1992ء)

اسلامی سزاؤں کے نفاذ کا اصول

اسلامی قانون کے مطابق حدودوقصاص سے متعلق جرائم کی سزاؤں کا نفاذ صرف اسلامی حکومت میں ہوسکتا ہے۔ دیگر کسی نظام حکومت کے تابع ہونے کی صورت میں اس حکومت کے قانون کے مطابق عملدرآمد ہوگا۔

زنابالجبر کی شکایت کے بارہ میں قرآن و سنت سے رہنمائی

اس مسئلہ میں فقہاء میں اختلاف ہے کہ زنابالجبر کےلیے چارگواہوں کی شرط ضروری ہے یا نہیں۔ اکثر فقہاء کے نزدیک ایسے معاملہ میں چارگواہ ضروری نہیں البتہ بعض فقہاء احناف نے زنا بالجبر کے لیے بھی چار گواہ کی شرط رکھی ہے اوربعد ثبوت اس کی سزا بھی زنا کی طرح سوکوڑے ہی بیان کی ہے۔

جیسا کہ علامہ ابن عبد البر (متوفی:463ھ) لکھتے ہیں:
’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زبردستی اور جبراً زنا کرنے والا موجب حد ہے، اگر اس پر وہ گواہیاں پیش کر دی جائیں جو حد کو لازم کرتی ہیں یا پھر وہ خود اس کا اقرار کر لے۔‘‘

(الاستذکارجزء7 صفحہ146)

اسی طرح حنفی فقہ کے بزرگ عالم علامہ سرخسی (متوفی:483ھ) لکھتے ہیں:
’’جب گواہ اس بات کی گواہی دیں کہ ایک شخص نے ایک عورت کو مجبور کر کے اس کے ساتھ زنا کا ارتکاب کیا ہے تو اس شخص پر تو حد نافذ کی جائے گی، مگر عورت پر نہیں کی جائے گی۔ ۔ ۔ اس لیے کہ اس نے فعل زنا کی تکمیل کی اور اس لیے کہ اس کا جبراً یہ کام کرنا رضا مندی سے کرنے سے زیادہ سنگین ہے۔‘‘

(المبسوط جزء9 صفحہ54)

البتہ اس بارہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ زنابالجبر کے دعویٰ پر پہلے مرحلہ میں جرم زنابالرضا یا زنابالجبر کی نوعیت کی تعیین و تفریق اور ثبوت کے لیے قاضی گواہ طلب کرسکتا ہے۔ جب یہ ثابت ہوجائے کہ شکایت کے مطابق واقعہ زنابالجبر کا ہے تو اسکے گواہ موجود نہ ہونے کی صورت میں پہلے ملزم کے اقرار و انکار کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے انکار کے بعد موجود گواہی یا ثبوت و قرائن قابل غور ہونگے۔ مثلاً سی سی ٹی وی فوٹیج (CCTV Footage)، فرانزک ٹیسٹ (Forensic Test) اور میڈیکل رپورٹ DNA ٹیسٹ وغیرہ۔

اگر گواہوں کے ذریعہ جرم زنا ثابت ہوجائے تو اس کی سزا حدّ نافذ ہوگی اور اگر دیگر ثبوت و قرائن سے زنابالجبر ثابت ہوتواس کی تعزیری سزا اسلامی ریاست میں قانون کے مطابق نافذ ہوگی۔ غیر اسلامی ریاست کی صورت میں موجود نظام حکومت کے مطابق فیصلہ پر عملدرآمد ہوگا۔

دعویٰ زنابالجبر کی تحقیق کے بارہ میں جماعت احمدیہ کا موقف

زنابالجبر کی شکایت پرکاروائی اور تحقیق کے متعلق جماعت احمدیہ کا موقف قرآن و سنت کے عین مطابق ہے۔ جو خلافت رابعہ میں مجلس افتاء کے بھی زیرغور آچکا ہے اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مجلس کی درج ذیل سفارشات منظور فرمائیں:

  1. زنابالجبر کا شکار ہونیوالی عورت کو اپنی فریاد متعلقہ حکام تک پہنچانے کی اجازت ہے اور اس کےلیے چار گواہ لانے کی اس پر پابندی نہیں ہوگی۔ بلکہ قرائن کے مطابق جس طرح کسی بھی دوسرے الزام کا معاملہ ہے اس کو بھی نبٹایا جائے گا۔ ایسی صورت میں قرائن کے ذریعہ فیصلہ کرنے کے بارہ میں سورة یوسف کی آیات 27 تا29 ایک راہنما اصول ہے۔
  2. اگر ایسی عورت الزام ثابت نہ کرسکے تب بھی اس پر قذف کی حد نہیں لگائی جائے گی۔ سوائے اس کے کہ یہ ثابت ہوجائے کہ یہ عورت بدنیتی اور محض کسی کو ذلیل و رسوا کرنے کےلیے سازش کررہی ہے اور اس الزام میں اپنے آپ کو بھی ملوث کررہی ہے۔ ایسی صورت میں عدالت (اگر مدعا علیہ مطالبہ کرے تو) اس عورت کےلیے مناسب سزا تجویز کرسکتی ہے۔
  3. عورت کو حتی الامکان جلد از جلد حکام کو اس زیادتی سے مطلع کرنا چاہیے لیکن اگر کسی مجبوری یا بدنامی کے خوف کی وجہ تھی وہ اس میں تاخیر کرتی ہے تو اس وجہ سے اس سماعت کو رد نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر اس عرصہ میں بعض ثبوت ضائع ہوتے ہیں اس کا نقصان مدعیہ کوہی ہوگا۔

(رپورٹ مجلس افتاء مورخہ 23 اپریل 1998ء)

اس رپورٹ کے تیسرے نکتہ کے بارہ میں حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے رہنمائی کرتے ہوئے یہ خصوصی ارشاد تحریر فرمایا:
’’رپورٹ میں تاخیر کی وجہ سے سماعت کو ردّ کیوں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایسے معاملات میں تو رسول اللہﷺ نے فوراً قدم اٹھایا ہے۔ اور تاخیر کے اندر تو توبہ بھی ہوجاتی ہے۔ تاخیر کے ساتھ جب وہ شکایت کا فیصلہ کرتی ہے تو گزشتہ کسی حوالے کا حق اسے نہیں ہونا چاہیے۔ زیادتی کرنے والے کو منع کرنے کے باوجود اگر وہ آخری وقت بھی کرتا ہے تو صرف اس کی شکایت کرے تاکہ اسے فوری شکایت سمجھا جائے۔ ورنہ کیا پتہ دونوں باہمی رضامندی سے کیا کچھ کرتے رہے ہیں۔‘‘

(ارشادحضرت خلیفة المسیح الرابعؒ مورخہ 7مئی 1998ء)

مدعی کے زنابالجبر کے بلا ثبوت الزام اور ملزم کے اس سےانکار کی صورت میں دنیوی اسلامی سزا حد یا تعزیر سے بری الذمہ ہونے کےلیے آخری طریق قرآنی اصول کے مطابق یہ ہے کہ جس شخص پر الزام ہے وہ چار دفعہ یہ حلفیہ شہادت دےکہ الزام لگانے والا جھوٹا ہےاور پانچویں دفعہ یہ حلفیہ بیان کہ اگر مدعی سچا ہے تو اس ملزم پر خدا کا غضب نازل ہو۔

(النور: 7 تا 10)

اس کے بعد اسلامی قانون سزا کے مطابق یہ معاملہ خدا کے سپردہوگا یعنی قضائی لحاظ سے یہ کیس فائل کردیا جائیگا اورفریقین کو خدائی فیصلہ کا انتظار کرنا ہوگا۔

کم سنی میں فحش باتوں پر اکسانے کے نتیجہ میں بدعادات کا پیدا ہو جانا اور اس کی ذمہ داری

اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے۔ (الروم: 31) اور وہ طبعاً بدی سے نفرت کرتا ہے۔ بے شک گھر کے ماحول اور خصوصاً والدین کی تربیت کا اتنا اثر تو ہو سکتا ہے جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایک صحیح الفطرت بچے کو والدین یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔

(بخاری کتاب الجنائزبَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ)

لیکن یہ بات محض کم سنی کے زمانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ عاقل بالغ ہوجانے اور سن شعور کے بعد ہرانسان اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ اور اس کےلیے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 287) کا اصول کارفرما ہوتا ہے۔ یعنی ہرعاقل بالغ مسلمان پرذمہ داری اس کی توفیق اور استعداد کے مطابق ہوتی ہے۔ اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے کیونکہ انسانی فطرت میں جو نیکی بدی کا شعور بخشا گیا ہے اس کے بارہ میں فرمایا: ’’فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا‘‘ (الشمس: 9-10) کہ نفس انسانی کو نیکی بدی دل میں ڈال دی گئی ہے پھر جو نفس کو پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا: وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ (البلد: 11)کہ انسان کو دونوں راستے نیکی بدی کے دکھا دئیے پھر وہ بلندی کی طرف جانے کی بجائے پستی کی طرف کیوں گیا۔

فطرت میں نیکی بدی کی پہچان کے موجوداس مادہ کے بارہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور تجھے ناپسند ہو کہ لوگوں کو اس کا پتہ چلے۔

(مسلم کتاب البر والصلة والآداب بَابُ تَفْسِيرِ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ)

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ جو بات تمہیں شک میں ڈالے اسے ترک کردواور وہ بات اختیار کرو جو مشکوک نہیں۔

(ترمذی كتاب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم باب منہ)

حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ کوئی نصیحت فرمائیں۔ آپؑ نے فرمایا۔ تقویٰ اختیار کرو۔ اس نے پوچھا: تقویٰ کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا جس بات میں دسواں حصہ بھی شُبہ ہو کہ خدا کو ناراض کرے گی اسے چھوڑ دو۔

(روایت حضرت مفتی محمد صادق صاحب برموقع نکاح حضرت مصلح موعودؓ مع حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ الفضل 30ستمبر 1935ء)

پس اگر کوئی بچہ واقعی کم سنی میں ہرطرف سے انتہائی خراب بگڑے ہوئے ماحول میں گھرا ہو اور اس طرح پرورش پائے توبھی فطرت صحیحہ کی وجہ سے غالب امکان ہے کہ وہ راہ راست پر قائم رہ سکتا ہے۔ جیسےحضرت موسیٰؑ کا بچپن فرعون کے گھر میں گزرا، شاہی محلّات کی شراب نوشی، عیاشی اور اخلاق باختگی کے باوجود وہ نیکی پر قائم رہے۔

خود نبی کریمﷺ کا ابتدائی بچپن حلیمہ سعدیہ کے گاؤں میں اپنے گنواردیہاتی رضاعی بھائی بہنوں کے ساتھ گزرا پھر بعد میں دادا کی کفالت میں چچاؤں اور عمزادوں کے ساتھ رہے جو مشرکانہ ماحول کے پروردہ تھے مگر آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے صدق و ثبات عطا فرمایا۔

پس بچپن اور لڑکپن میں بدعادتوں کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنامحض ایک عذر لنگ تو ہوسکتا ہے اس میں کوئی وزن یا حقیقت نہیں کیونکہ اول تو ماحول میں سارے لوگ خراب یا بدعادات سکھانے والے نہیں ہوتے پھر والدین میں سے بھی اگر ایک راہ راست پہ نہ بھی ہوتو دوسرا بہتر تربیت کردیتا ہے اور اگر گھر کا ماحول اجتماعی ہے اور دیگر بزرگوں اور سرپرستوں کی موجودگی کے علاوہ عمومی نیک ماحول میسر آجاتاہے۔ پھراچھے دوست ماحول میں ان بعض کمزریاں دور کرنے کا موجب بن سکتے ہیں۔

اسی طرح بعض ترقی یافتہ معاشروں میں تو بچوں کو کم سنی کی ایسی کمزوریوں سے بچنے کے وسائل درسگاہوں کے ذریعہ بھی میسر ہوتے ہیں۔

تاہم اگر کسی بدقسمت بچے کو ماں باپ دونوں کی تربیت اور نگرانی کے ساتھ اس کے گھر کے بزرگوں کی بھی نگرانی میسر نہ آسکے، نہ ہی درسگاہ اور ماحول و معاشرہ سے سیکھ کر وہ بدعادات سے بچ سکےتو پھر بھی ایسا عذر اس کےلیے کافی نہیں ہوسکتا کیونکہ سن شعور کو پہنچنے کے بعد اس کی فطرت صحیحہ کو نیکی بدی کی مکمل پہچان حاصل ہوچکی ہوتی ہے۔ خواہ وہ کتنے ہی عذر کرے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ۔ وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ (القيامة: 15-16) کہ حقىقت ىہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر بہت بصىرت رکھنے والا ہے۔ اگرچہ وہ اپنے بڑے بڑے عذر پىش کرے۔

اس اصول کے لحاظ سے معصوم اور کم سن بچوں کی پاکیزہ فطرت کا تو کیا سوال، مجرموں کی فطرت میں بھی نیکی اور بدی کی پہچان موجود ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا یہ دلچسپ واقعہ درج فرمایا ہے کہ ان کے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کےلیے آیا۔ آپ نے اسے محنت کرنے اور چوری کے پیشہ سے بچنے کی نصیحت کی۔ اس نے اپنے جرم پر اصرار کرتے ہوئے چوری کےلیےاپنی اور اپنے ساتھی چوروں کے گروہ کی محنت کی طویل داستان سناڈالی جو مال چوری کرنے سے لے کرمال مسروقہ زیورات وغیرہ سنارکے پاس فروخت کرنےتک انہیں کرنی پڑتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے اس کی فطرت کوبیدارکرنے کےلیے یہ پوچھاکہ اگر وہ سنار تمہارا چوری کا مال کھاجائے تو پھر؟ اس پر وہ بے اختیار بولا کہ ہم اس بے ایمان کا سر نہ اڑادیں۔ حضورؓ نے اسے فرمایا کہ ابھی تو تم کہہ رے تھے کہ چوری کوئی عیب نہیں اوربڑی محنت کا کام ہے اور ابھی تم اس سنار کو بے ایمان کہہ رہے ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ خود تمہاری فطرت اس چوری کو ناپسند کرتی ہے۔

پس امر واقعہ یہی ہے کہ ہر باشعورانسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ ملکہ ودیعت کیا ہوتا ہے مگر وہ اپنے مفادات دلچسپیوں اور تساہل کے پیش نظر اس سے عمداً صرف نظر کرتا ہے اور یہی اس کا قصور ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہ واقعہ بیان کرکے اس ہر درج ذیل لطیف تبصرہ فرمایا:
’’بہرحال اصل دلیل جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے باربار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی کانشنس میں نیکی اور بدی کا احساس پایا جاتا ہے یعنی ہر شخص میں خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیں بری ہیں۔ یہ نہیں کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاں چیز بری۔ یہ علم الاخلاق ہے۔ کانشنس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک مادہ پایا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہے اور کوئی چیزبری ہے۔ تم ساری دنیا میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں دکھاسکتے جو یہ کہتا ہو کہ ہر چیز اچھی ہے یا ہر چیز بری ہے۔ وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہوگا اور کسی کو برا سمجھتا ہوگا مثلاً چورچوری کو اچھا سمجھےگا مگر قتل کو برا سمجھےگا۔ یا قاتل قتل کو اچھا سمجھےگا مگر وعدہ کی خلاف ورزی کو برا سمجھےگا۔ یا ظالم ظلم کو اچھا سمجھے گا مگر جھوٹ پر اسے غصہ آجائے گا۔ یا جھوٹا جھوٹ کو اچھا سمجھے گا مگر قتل پر اسے غصہ آجائے گا۔ غرض اخلاق اور مذہب سے تعلق رکھنے والے جس قدر افراد دنیا میں پائے جاتے ہیں ہندو کیا اور عیسائی کیا اور مسلمان کیا اور سکھ اور یہودی کیا اور چوہڑے کیااور عالم کیا اور جاہل کیا ہر انسان میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ کچھ کام مجھے کرنے چاہئیں اور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں۔‘‘

(تفسیر کبیر سورة الشمس جلد9 صفحہ36)

تاہم اگرثابت ہوکہ کسی لڑکے یالڑکی کوواقعی غیراخلاقی عادات سکھائی بھی گئیں یاغلط کاموں کے لیے مجبور کیا گیا تو اس بچے کے لیے کوئی سزا نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَنْ يُكْرِهُّنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ (النور: 34) اور اپنى لونڈىوں کو اگر وہ شادى کرنا چاہىں تو (روک کر مخفى) بدکارى پر مجبور نہ کرو تاکہ تم دنىوى زندگى کا فائدہ چاہو اور اگر کوئى ان کو بے بس کردے گا تو ان کے بے بس کئے جانے کے بعد ىقىناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کی ایک باندی تھی جس کا نام مُسَیکہ تھا اور دوسری کانام امیمہ تھا وہ ان دونوں کو زنا پر مجبور کیا کرتا تھا ان دونوں نے نبی ﷺ کے پاس اس بات کی شکایت کی۔ دوسری روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول اپنی باندی سے کہا کرتا تھا کہ جا اور ہمارے لئے کچھ لے کر آؤ۔ تو ایک روایت کے مطابق اس موقع پر یہ آیت نازل فرمائی وَلَا تُکْرِھُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ ترجمہ: اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ شادی کرنا چاہیں تو (روک کر مخفی) بدکاری پر مجبور نہ کرو تا کہ تم دنیوی زندگی کا فائدہ اُٹھاؤ اگر کوئی ان کو بے بس کردے گا تو ان کے بے بس کئے جانے کے بعد یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

(صحیح مسلم کتا ب التفسیر زیر آیت وَلَا تُکْرِھُوا فَتَیَاتِکُمْ عَلَی الْبِغَآءِ)

اور اگر اس موقع پر اس آیت کا نازل ہونا ثابت نہ بھی ہوتو بھی اس آیت میں عمومی رنگ میں ایسی سوسائٹی کےلیے جس میں غیراخلاقی اورجنسی جرائم کی سرپرستی کی جاتی ہے یہ پیغام ہے کہ اول تخریب اخلاق کے اس سلسلہ کو نظام کے ذریعہ روکنا چاہیے۔ دوسرے جو لوگ مجبوراً غیراخلاقی جرائم میں ملوث کیے جاتے ہیں۔ وہ قابل رحم ہیں نہ صرف اس دنیا میں ان کےلیے کوئی سزا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو غفور ورحیم بھی ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا تا ان کو اس صفت سے فیضیاب ہونے کےلیے خود بھی ا ستغفار کرنا چاہیے کہ وہ اپنی کسی نادانستہ معصیت پنہانی کی وجہ سے وہ کیوں اس مصیبت کے چنگل میں پھنس گیا۔

دوسرےاس جگہ جبراً غیراخلاقی جرائم کا ارتکاب کروانے والوں کی بھی کوئی سزا بیان نہیں کی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلام میں محض شبہ کی بناء پر کوئی حدود وغیرہ قائم نہیں کی جاتیں۔ اور اگر وہ ثابت ہوجائے تو ایسے لوگوں کےلیے اسلامی ریاست میں بدکاری وغیرہ کےسنگین جرائم اور ان کی اشاعت و ترویج کی تعزیری سزا موت تک بیان کی گئی ہے۔ جس کا سورة احزاب آیت نمبر62 میں ذکر موجود ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب

(علامہ ایچ ایم طارق)

پچھلا پڑھیں

حاصل مطالعہ کلمہ طیّبہ کی ایمان افروز تفسیر (فرمودہ حضرت مصلح موعودؓ)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2022