• 14 جولائی, 2025

ایک خدائی نشان اور تعارف خاندان

خاکسارکے پردادا چودھری دین محمد ’’ذیلدار‘‘ قادیان سے 12۔13 میل دور گاؤں چودھری والا تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں رہائش پذیر تھے۔ ان کی ’’گاڈری‘‘ جٹ برادری کے بارہ گاؤں تھے۔ جن میں سے گیارہ سکھ مذہب کے زیر اثر تھے اور ایک گاؤں چودھری والا میں مسلمان سکونت پذیر تھے۔ اس گاؤں میں پردادا جان دین محمد ذیلدار اپنی فیملی کے ساتھ رہائش رکھتے تھے۔ جو اپنی نیک نامی، شرافت، دلیری اور انصاف پسندی میں کافی مشہور تھے۔ اس وقت ذیلداری زیادہ تر سکھوں کے پاس ہی تھی۔ صرف دو ذیلداریاں مسلمانوں کے حصہ میں آئیں۔ جن میں سے ایک قریبی گاؤں کے چودھری فتح محمد سیال صاحب کو سونپی گئی اور دوسری ہمارے خاندان میں میرے دادا جان کے حصہ میں آئی۔ الحمدللّٰہ۔ اس کے ساتھ ساتھ چودھری دین محمد ذیلدار صاحب کو انگریز حکومت نے آرنری مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دیئے ہوئے تھے۔

لیکھرام قتل کیس اور خاندان کا اعزاز

6 مارچ 1897ء عید کےد وسرے روز لیکھرام ایک نشان کے طور پر قتل ہوا۔ لیکھرام قتل کیس کےسلسلہ میں آلہ قتل چھری برآمد کرنے کے لئے جو انکوائری ٹیم تشکیل دی گئی اس میں چودھری دین محمد ذیلدار و آرنری مجسٹریٹ، کیپٹن انگریز DSP محمد بخش، اور SHO شامل تھے۔ یہ ٹیم ذیلدار و آرنری مجسٹریٹ دین محمد صاحب کی زیر قیادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر روانہ ہوئی۔

گھر پہنچنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ ٹیم کو خوش آمدید کہا اور ٹیم کے ساتھ پورے گھر کی تلاشی میں ان کی مدد فرمائی۔ پردادا جان بتاتے تھے کہ دوران تفتیش دو تین بار میں نے حضرت صاحب کے چہرہ مبارک پر نظر ڈالنے کی کوشش کی مگر میری نظریں ان کے چہرہ پر ٹھہر ہی نہیں رہی تھیں اور نیچے زمین میں گڑھ جاتیں۔ اتنا نورانی، منور،ہشاش بشاش اور با رعب چہرہ میں نے اس سے قبل نہیں دیکھا ان کا پرکشش اور مہتاب کی طرح چمکتا دمکتا چہرہ اور ان کی پرسکون مسکراہٹ ان کی بے گناہی کو ثابت کر رہی تھی۔ بعد ازاں تفتیشی رپورٹ میں لکھا گیا کہ کوئی آلۂ قتل برآمد نہیں ہوا۔ گھر آ کر پردادا جان نے بتایا کہ آج مرزا صاحب کو ملنے کا اتفاق ہوا۔ یہ کوئی عام شخص نہیں بلکہ میرا دل کہتا ہے کہ یہ اللہ کا خاص اور سچا بندہ ہے۔ اور ایک سچا دعویٰ دار ہے۔ میرے دل پر ان کی سحر انگیز شخصیت کا گہرا اثر پڑا ہے۔ پردادا جان کی اولاد میں تین بیٹے اور اہلیہ تھیں۔ جن پر بھی ان کی باتوں کا گہرا اثر ہوا۔ پردادا جان تو کچھ عرصہ بعد ہی وفات پا گئے مگر ان کے گھر میں مرزا صاحب کا ذکر کثرت سے ہونے لگا۔ ان کے بعد ذیلداری ان کے بڑے بیٹے چودھری عبدالرحیم صاحب (میرے دادا جان) کو سونپی گئی۔

قبول احمدیت

چودھری دین محمد صاحب کےد وسرے بیٹے جو کہ لاہور کالج میں زیر تعلیم تھے ان کی دوستی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب M.A سے ہو گئی اور یوں آپس میں گہرا تعلق بن گیا۔ دونوں گھرانے آپس میں آنے جانے لگے۔ چودھری ظہور حسین صاحب وہیں ’’شملہ‘‘ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہو گئے جو کہ ایک پرفضا مقام تھا۔ جہاں دونوں گھرانے گرمیوں میں جاتے۔ حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد بھی چودھری والا تشریف لاتے۔

چودھری ظہور حسین صاحب کی دو بیٹیاں تھیں جو کہ چودھری منور احمد کاہلوں صاحب آف ’’چہور مغلیاں‘‘ ماڈرن موٹرز اور چودھری نذیر احمد صاحب MSC ایگریکلچر نائب ناظر زراعت کے ساتھ بیاہی گئیں۔

چودھری ظہور حسین صاحب کے قبول احمدیت کے بعد خاندان کے اکثر افراد جن میں چودھری برکت علی صاحب (خاکسار کے نانا جان) بھی شامل ہو گئے خاندانی مخالفت بھی سر اٹھانے لگی۔ پردادا جان چودھری دین محمد صاحب کے بیٹے کی منگنی خاندان کے رئیس چودھری عظیم بخش کی اکلوتی بیٹی سے طے ہو چکی تھی۔ جن کو انگریز حکومت نے لائل پور ’’بار‘‘ آباد کرنے پر خان بہادر کا خطاب بھی دیا۔ اور سینکڑوں مربع زرعی زمین بھی الاٹ کر دی۔ دادا جان کے احمدی ہونے پر انہوں نے اس رشتہ سے بھی ا نکار کر دیا۔ مگر الحمدللّٰہ دنیاوی جائیدادوں کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کا قدم آگے ہی بڑھتا گیا اور ایمان اور مضبوط وپختہ ہوتا چلا گیا۔

1947ء پارٹیشن کےبعد چک نمبر 185 ر۔ب نزد چک جھمرہ میں زرعی رقبہ الاٹ ہوا۔ دادا جان کے تین بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں، بڑا بیٹا چودھری خورشید احمد صاحب، چودھری مظفر احمد صاحب اور چھوٹے چودھری محمد انور صاحب (خاکسار کے والد محترم)۔

چودھری خورشید احمد صاحب زیادہ تر زمیندارہ کرواتے۔ چودھری مظفر احمد صاحب اور چودھری محمد انور صاحب (والد محترم) چک جھمرہ میں آڑھت کا کاروبار کرتے۔

تایا جان چودھری مظفر احمد صاحب چک جھمرہ میونسپل کمیٹی کے پہلے انتخاب میں ممبر منتخب ہونے کے بعد چیئرمین میونسپل کمشنر کمیٹی منتخب ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے خاندان کو اعلیٰ مقام بھی دیا اور چک جھمرہ میں جماعت کا قیام عمل میں آیا۔

چودھری مظفر احمد صاحب (تایا جان) پہلے صدر جماعت بنے۔ والد صاحب چودھری محمد انور صاحب لمبا عرصہ سیکرٹری مال کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔ بعد ازاں چودھری ناظر حسین صاحب پٹواری، سید عبیداللہ شاہ صاحب، چودھری سردار محمد صاحب برنالہ کمیشن شاپ، چودھری طاہر احمد صاحب امیر و صدر جماعت رہے۔ الحمدللّٰہ۔

والد چودھری محمد انور صاحب جو کہ بچپن سے ہی دیندار، پرہیزگار، نماز تہجد کے پابند، بااصول، خوش اخلاق و خوش لباس، جماعت کے باوفا اور فدائی تھے۔ مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ کسی مالی تحریک میں سستی نہ دکھاتے۔ بیس سال کی عمر میں وصیت کی اور الحمدللّٰہ خود بڑھ کر اپنے ہاتھوں سے ادا کی۔ فیصل آباد گھر میں تاحیات نماز سینٹر قائم رہا۔ خود نماز پڑھاتے۔ وفات سے چند منٹ قبل نماز تہجد کی ادائیگی کے دوران اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ انہوں نے عہد کے الفاظ ’’دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا‘‘ کو پورا کر کے دکھایا۔

آج غور کرتا ہوں کہ پردادا جان کا بطور ذیلدار آرنری مجسٹریٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر جانا ایسا سبب بنا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ایسی برکات ملیں کہ ذیلدار صاحب کے گھر کے افراد آج ساری دنیا میں کینڈا، امریکہ، جرمنی، بیلجئیم، انگلینڈ، آسٹریلیا اور پاکستان میں ترقیات پاتے ہوئے جماعت کی خدمات میں سرگرم عمل ہیں اور خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ جن کی تعداد 350 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

اک سے ہزارہوویں بابرگ و بار ہوویں

یہ سب برکات و ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور خاندان کے بزرگوں کی دعاؤں کے طفیل ہے۔ مجھے بھی سیکرٹری دعوت الی اللہ و ناظم اعلیٰ مجلس انصار اللہ ضلع فیصل آباد کے طور پر خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ الحمدللّٰہ

خدا تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے خاندان کے بزرگوں کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے اور ہماری اولادوں کو جماعت اور خلافت کی برکات سمیٹتے رہنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین یا رب العالمین۔

(چودھری محمد امجد جمیل۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

دنیا کے تازہ حالات میں دعا کی تازہ تحریک خطبہ جمعہ 4مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ