• 29 اپریل, 2024

مَیں اس خدا کی عبادت سے کیسے با زآ جاؤں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین تھا اور کامل یقین تھا کہ آپ خداتعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ اور خداتعالیٰ کا آخری فیصلہ یقینا آپؐ کو پتہ تھا کہ میرے حق میں ہونا ہے۔ تو فرمایا کہ اے کافرو! تم اپنی ڈھٹائی کی وجہ سے اپنے جھوٹے دین سے ہٹ نہیں سکتے یٰٓاَیُّھَاالْکَافِرُوْنَ کی سورۃ میں ساری بات آ گئی تو مَیں جو خدا کا نبی ہوں، اس خدا کا پیغام پہنچانے سے کیسے باز آ جاؤں جس کا خدا نے مجھے حکم دیا ہے۔ مَیں اس خدا کی عبادت سے کیسے با زآ جاؤں جو ہر روز ایک نیا نشان اپنی قدرت کا مجھے دکھاتا ہے۔ جو تمہارے مقابلے میں خود میری حفاظت کے لئے کھڑا ہے۔ تم بے شک میری مخالفت کرتے رہو، مجھے تکلیفیں دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو، لیکن یاد رکھو کہ غالب مَیں نے ہی آنا ہے۔ تمہیں یہی جواب ہے جوفی الحال خدا نے مجھے سکھایا ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہو، مَیں اپنے دین پر قائم رہوں گا۔ لَکُمۡ دِیۡنُکُمۡ وَلِیَ دِیۡنِ۔ لیکن یاد رکھو یہ مقدر ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کر لیا ہے، میرے خدا نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جو حاضر کا بھی علم رکھتا ہے، جو غائب کا بھی علم رکھتا ہے، آئندہ کا بھی علم رکھتا ہے، جو اپنے پیار کا مجھ پہ اظہار کرتا رہتا ہے اُس خدا کی تقدیر اب یہ ہے کہ خدائے واحد کے دین نے ہی غالب آنا ہے اور تم نے ختم ہونا ہے۔ تو یہ جواب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار کرنے والے اور اپنے پیارے کے منہ سے کہلوایا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ کی ذات سے جو عشق تھا اور اس کی وحدانیت دنیا میں قائم کرنے کی جو تڑپ تھی اور جو آپؐ نے اس کے لئے کوشش کی اس کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر کبھی کسی سے بھی اس ذات کے بارے میں، اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اعلیٰ اور اچھے کلمات آپؐ نے سنے تو ہمیشہ اس کی تعریف کی۔

ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کی ہے وہ لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ ’’سنو اللہ کے سوا یقینا ہر چیز باطل اور مٹ جانے والی ہے‘‘

(بخاری کتاب مناقب الانصار باب ایام الجاھلیۃ۔ حدیث نمبر 3841)

پھر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے نام کی غیرت آپؐ میں کس قدر تھی کہ نقصان برداشت کر لینا گوارا تھا لیکن یہ گوارا نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی غیرت کے تقاضے پورے نہ کئے جائیں۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، جب انتہائی کمزور حالت تھی۔ اور بدر سے پہلے ایک مقام پر ایک شخص حاضر ہوا اور شجاعت اور بہادری میں اس کی بہت شہرت تھی۔ صحابہ ؓ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اس نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کی کہ مَیں اس شرط پر آپ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصہ دیا جائے۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاتے ہو۔ اس نے کہا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا پھر تم جا سکتے ہو۔ میں کسی مشرک سے مدد نہیں لینا چاہتا۔ کچھ دیر بعد اس نے حاضر ہو کر پھر یہی درخواست کی۔ تو آپ نے وہی جواب دیا، وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی لشکر میں شریک کر لیں۔ آپؐ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو۔ اس دفعہ اس نے ہاں میں جواب دیا تو آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے، ہمارے ساتھ چلو۔

(مسلم کتاب الجہاد باب کراھۃ الاستعانۃ فی الغزو بکافر … حدیث نمبر 4700)

اگر کوئی دنیادار ہوتا تو کہتا کہ مدد مل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ لیکن آپؐ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ کسی مشرک سے اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں مدد لی جائے۔

(خطبہ جمعہ 4؍ فروری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

اسیران راہ مولیٰ کی رہائی کے لئے دعا کی تحریک

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ