مکرم عبدالواحد گجر (مرحوم)
جماعت احمدیہ منڈ یالہ وڑائچ کے سابق صدرجماعت اور کا فی عمر رسیدہ شخص تھے۔ جماعت منڈ یالہ وڑائچ کے بنانے میں آپ کا کلیدی کر دارتھا۔ اور مسجد کی تعمیرمیں بھی آپ پیش پیش تھے۔ اس مسجد کے افتتاح کے وقت (جوغالبا ً 1962ء میں ہوا تھا۔) صدر جماعت آپ تھے۔ پیرانہ سالی کے باو جود باقاعدگی سے نماز ادا کرنے مسجد میں آتے۔ مسعود احمد گجر آپ کے بیٹے ہیں۔آپ نے پنجابی زبان میں آمد امام مہدی کے حوالے سے بہت اشعار یاد کیے ہوئے تھے اور بہت جوش سے سنایا کرتے تھے۔
مکرمہ نجمہ بی بی (مرحومہ)
نجمہ بی بی مکرم مسعوداحمد گجر کی اہلیہ تھیں۔آپ انتہائی مخلص خاتون خانہ تھیں۔جماعت کے مہمانوں کی عزت و اکرام کرنا،مہمانوازی کرنا آپ کا ذاتی و صف تھا۔ خاکسار اکثر نماز فجر کی ادائیگی کے بعد عبدالواحد صاحب کے ساتھ ان کے گھر چلا جاتا جہاں آپ اپنی مہمان نوازی سے مجھے عزت بخشتیں۔ آپ کے گھر میں MTA نہیں آتا تھا۔ اس مقصد کے لئے آپ نے رقم دی کہ میں ڈش انٹینا لا کر MTA سیٹ کردوں۔مجھے اس نیک کام کی سعادت ملی چنانچہ جب MTA سیٹ ہوگیا تو تمام عزیز و اقارب خطبہ سننے آپ کے گھر اکٹھے ہو جا یا کر تے تھے۔اپنی فیملی کا چندہ اپنے ہا تھوں سے اداکرتی تھیں۔اکثرمجھ سے دعا ئیہ خطو ط لکھوا کر پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ارسال کرتیں۔ شادی کے بعد جب میں اہلیہ کے ہمراہ ملاقات کے لئے گیا تو بہت خوش ہوئیں۔
محترمہ کلثوم بی بی (مرحومہ)
آپ چوہدری محمد صا لح صاحب کی زوجہ اور مکرم پر وفیسر محمد سہیل احمد کی والدہ تھیں۔ بہت نیک اور غر یب پرورخاتون تھیں۔ مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتی تھیں بلکہ جب تک کہ میری شادی نہیں ہوئی آپ نے بالکل اپنی سگی اولاد کی طرح میری تمام ضروریات کا خیال رکھا۔ میری اہلیہ کو بھی اپنی بیٹیوں جیسا پیار دیا۔ مہمانان کا بہت اکرام کرتیں اور پڑوسیوں کے ساتھ بھی حسن معاشرت قائم رکھتیں۔ہر کسی کی ضروریات کو پو را کرنے کی کوشش کرتیں۔مجھے میری شادی کے موقع پر معلم ہاؤس کے کچن کا سامان آپ نے بطور تحفہ دیا۔ جب آپ ہجرت کرکے ربوہ اپنے بیٹوں مکرم نسیم احمد اور مکرم منیر احمد کے پاس شفٹ ہو ئیں تو آپ کی جدائی سےاہلیان منڈیالہ اداس ہو گئے۔ آپ نے منڈیالہ میں بہت یادگار وقت گزارا تھا۔
مکرم منور احمد ککے زئی مرحوم
مکرم منور احمد ککے زئی مرحوم (ابن محمد عمر ابن حضرت شیخ فقیر علی صاحب رضی اللہ عنہ) پیشہ کے لحاظ سے پٹواری تھے۔ بعد ازاں قانون گوبھی بن گئے۔ بہت پیا رے انسان تھے۔ پا نچ وقت کی نماز کے پابند تھے۔اپنےبچوں کو بھی نماز کی ادائیگی لئے ساتھ لاتے تھے۔
قبولیت دعا کا واقعہ
منور احمد ککے زئی صاحب کا گھر گلی میں مسجدسے کچھ فاصلے پر تھا، میں نے منور احمد صاحب سے کہا کہ آپ بچوں کے ساتھ مسجد میں آکرنماز ادا کیا کریں۔اس کے بعد آپ نے بچوں کے ہمراہ مسجد میں نماز ادا کرنی شروع کردی۔ مگر چندروز بعد منور احمد صاحب رک گئے میرے استفسار پر کہنے لگے کہ میری رہائش گاہ کے قریب ایک غیر احمدی حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دیتاہے،وہ ہم سے برداشت نہیں ہوتی اور آپ ہمارے لیے دعا کریں۔ میں نے بھی اور دوسرے دوستوں نے بھی دعا کی کہ اے خدا!منور احمد صاحب کے راستے میں آسانی کے سامان پیدا کر اور حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینے والوں سے خود مقابلہ کر۔ کچھ دنوں بعد اس شخص کی وفات ہو گئی اور منور احمدصاحب اپنے بچوں کے ساتھ نماز پڑھنے آنے لگے۔
آپ نہایت غر یب پرور اور مہمان نواز تھے۔ حضورانور ایدہ اللہ کا خطبہ باقاعدگی سے سنتے تھے۔ قر آن کریم اس غرض سے سناتے کہ میں انکی درستی اور اصلاح کر سکوں۔آپ نے اور آپ کی اہلیہ نے اپنے بچوں کی بہت عمدہ تر بیت کی۔ آج تک آپ کی اولاد میں نیکی، اطاعت کا جذبہ پایا جاتا ہے۔
2005ء کے زلزلہ میں آپ کی ڈیوٹی حکو مت کی جانب سے راولاکوٹ سامان پہنچانے کی لگی تھی۔ اس سفر میں آپ مجھے بھی اپنے ہمراہ لے گئے ہمارے ساتھ ایک شیعہ صاحب بھی شریک سفر تھے۔ جنہیں احسن رنگ میں تبلیغ کرنے کا موقع بھی ملا۔را ستے میں زلزلے کی وجہ سے بہت بے سرو سامانی کی حالت میں لوگ ملے جن کی حسب استطاعت مدد بھی کی۔اللہ تعالیٰ منور احمد مرحوم کے درجات بلند کرے جنت الفردوس میں جگہ دے۔ (آمین)
مکرم ار شد احمد احسان کالونی والے (مرحوم) ارشد احمد صاحب بہت اچھے انسان اور اطاعت کا کامل نمونہ تھے۔ آپ لوگوں سے بہت محبت کر تے تھے۔ غریب آدمی تھے اور محنت مزدوری کرتے تھے۔ایک مر تبہ معلم ہاؤ س میں کچھ کام کر وا نا تھا۔ آپ بہت محنت سے شہر سے سامان لے کر آتےرہے اور کام کی اجرت لینے سے بھی انکارکر دیا،تو میں نے اصرار کرکے انعام کے طو ر پر آپ کو معقول رقم ادا کردی۔ آپ کا گھر معلم ہاؤ س سے دور تھا مگر پھر بھی آپ اپنی فیملی کے ہمراہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے باقاعدگی سے آتے۔ ارشد صاحب حضور انور کاخطبہ بھی باقاعدگی سے سنتے تھے۔
(احسان علی سندھی)