قادیان کی سر زمین سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کی تحریک کا آغاز ہوا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے خدا نےیہ خبردی ہےکہ
’’میں تیری تبلیغ کوزمین کےکناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
یہ اعلان اوردعویٰ سن کرکم ہی کسی نے یقین کیا ہوگا کہ یہ بات پوری ہوگی کیونکہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کسی لحاظ سے بھی اس مقام وشہرت کے مالک نہ تھےکہ دنیا یہ سمجھ سکتی کہ ان کوعالمی شہرت حاصل ہوگی۔ اس کے برعکس صورت حال یہ تھی کہ آپ کے والد صاحب کے پرانے ملنے والے بھی ان سے یہ پوچھتے تھے کہ سنا ہے آپ کے دو بیٹے ہیں۔ ایک کو تو ہم بخوبی جانتے ہیں مگر دوسرے کو ہم نےکبھی نہیں دیکھا تو حضور کے والد صاحب ان کو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ میرا وہ لڑکا تو مسیتڑ ہے، اسے دیکھنا ہو تو مسجد میں جاکر دیکھ لو اسے عبادت اور مطالعہ کتب کے سوا اور کسی کام کا شوق نہیں ہے۔ قادیان کے قصبہ کی بھی کوئی شہرت نہ تھی بلکہ اس وقت تویہ حالت تھی کہ نہ ہی وہاں کوئی ضلعی یاتحصیل ہیڈکوارٹر تھا، نہ ہی کوئی تجارتی منڈی تھی، نہ ہی کسی اہم شاہراہ پر واقع تھا کہ وہاں سے گزرتے ہوئے لوگوں کواس قصبہ کاعلم ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب ابتدائی صحابی حضرت مسیح موعود سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کی زیارت کے شوق میں قادیان کاپتہ دریافت کرتے تو انہیں اس سلسلہ میں کافی مشکل پیش آتی۔ یہاں تک کہ قادیان سےگیارہ میل کےفاصلہ پربٹالہ نامی ریلوے اسٹیشن پرپہنچ کربھی قادیان کارستہ معلوم کرنا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہوتا۔ قادیان پہنچنے کے لئے کوئی پختہ سڑک یامعقول سواری بھی نہ تھی۔ ان مشکلات پراس مخالفت نے اور اضافہ کر دیا جو ہمیشہ ہی سچے مامور کی ہوتی آئی ہے۔چنانچہ یہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے بٹالہ کے ایک مولوی صاحب جنہیں یہ خیال تھا کہ اس علاقہ میں ان کی مدد کے بغیر کوئی اہم مذہبی کام سرانجام نہیں پاسکتا اور جویہ سمجھتے تھے کہ ان کی مخالفت کی وجہ سےاحمدیت قادیان سے باہر نہیں نکل سکےگی، ایک عرصہ تک اس مہم میں لگےرہےکہ قادیان جانے والوں کوبٹالہ اسٹیشن پر ہی بددِل کر کے واپس جانے پر مجبور کر دیں۔
حضرت مرزا غلام احمد ؑ ’ایک گوشہ نشین صوفی منش شخص‘ کایہ دعویٰ کہ وہ ہندوؤں کے اوتار ہیں، سرمایہ دارہندوقوم کی مخالفت کےلئے کافی تھا۔ آپؑ کی یہ تحقیق کہ حضرت بابا نانک ؒ مسلمان تھے
سکھوں کو غضبناک کرنے کےلئےکافی تھی۔ مسلمان توپہلےہی حضرت عیسیٰ ؑ کی وفات کے اعلان سےآتش زیرپا ہوچکےتھے۔ ان مخالف حالات میں زمین کےکناروں تک شہرت کی بات اور بھی عجیب اور ناقابل یقین ہوجاتی ہے خداتعالیٰ کےکام عجیب ہوتےہیں۔دنیادارآدمی کےلئےان کوسمجھنا آسان نہیں ہوتا مگر حقیقت ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
سچائی کی کونپل آہستہ آہستہ بڑھنےلگی۔ مخالفت کی آندھیوں کی شدت کے باوجود یہ زندگی کی توانائیاں اور رونقیں حاصل کرتی چلی گئی۔ قادیان میں مشکلات پیداہوئیں توآسمان روحانیت کے بلند پرواز پرندے ربوہ میں جمع ہوگئے اور تبلیغ واشاعت اسلام کاکام پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانہ پر شروع ہوگیا اور مخالفت کی اس کھادسےسچائی کی نوخیزنازک کونپل ایک ایسےخوش نمادرخت کی شکل اختیارکرگئی جس کی شاخیں دنیابھرمیں پھیل گئیں۔ایم ٹی اے کےکیمرہ کی آنکھ نےہمیں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کےدوروں کی جھلکیاں دکھا تی ہے۔ شمع احمدیت کے پروانوں کے جلسے، جلوس، استقبال، نعرے بتاتے ہیں دنیا کے ہر حصہ میں، قادیان سے دور دراز علاقہ میں، تبلیغ اور اثر و نفوذ کتنا مسرت انگیز اور روح پرورہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے روح پرور اوروجدآفریں درختِ وجود کی سرسبز شاخیں دنیا کے کناروں تک پھیل گئی ہیں۔ ایشیا، یورپ، افریقہ، کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا میں احمدی مبلغین کی کامیابیاں، اسلام کی پرامن تعلیم کا اثرونفوذ، خدائی وعدوں کی سچائی، احمدیت کی صداقت، قرآن مجیدکی عظمت اور بانی اسلام ﷺ کی شان و شوکت کا منہ بولتا ناقابل تردید ثبوت ہے۔
اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا
اب دیکھتے ہو کیسا رجوع جہاں ہوا
اک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا
(مولانا عبدالباسط شاہد۔ مربی سلسلہ یوکے)