• 15 جولائی, 2025

الہام الہی کا پس منظر اور پیغام مسیح موعود علیہ السلام زمین کے کناروں تک پہنچنے کے معجزانہ نظارے

’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
الہام الہی کا پس منظر اور پیغام مسیح موعود علیہ السلام زمین کے کناروں تک پہنچنے کے معجزانہ نظارے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجموعہ الہامات

’’تذکرہ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو نصرت ربانی اور عالمی غلبہ کی کثرت سے بشارات دی ہیں اور اتنے رنگوں میں ان کو دہرایا ہے کہ کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا۔ ان الہامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ آپ کا یہ الہام 1898ء کا ہے یعنی آج سے 124 سال پہلے کا۔ اور یہ اکیلا الہام ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس الہام سے ملتے جلتے الہام اور قریب ترین الفاظ جو دوسرے الہامات میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ
1. میں تجھے زمین کے کناروں تک عزت کے ساتھ شہرت دوں گا۔

(ازالہ اوہام و تذکرہ صفحہ 149 ازقادیان 2008ء)

2. خدا …… تیری دعوت کودنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔

(اشتہار 20 فروری 1886 وتذکرہ صفحہ 112)

3. خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھاوے۔

(مکتوبات و تذکرہ صفحہ 282)

4. وہ تیرے سلسلہ کو اور تیری جماعت کو زمین پر پھیلائے گا اور انہیں برکت دے گا اور بڑھائے گا اور ان کی عزت زمین پر قائم کرے گا۔

(تحفۃ الندوہ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 97)

5. عربی میں ہے کہ ’’وعدنی انی سینصرنی حتی یبلغ امری مشارق الارض ومغاربھا‘‘ (لجۃ النور اور تذکرہ صفحہ 260) اللہ نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میری مدد کرے گا یہاں تک کہ میرا معاملہ زمین کے ہر مشرق او رہر مغرب میں پہنچ جائے گا۔

6. انگلش میں ہے:۔

‘‘I shall give you a large party of Islam ’’

(براہین احمدیہ و تذکرہ صفحہ 80)

یہ بہت پر معارف اور معنی خیز الہام ہیں جن میں زمین کے کناروں اور دنیا کے کناروں اور آفاق کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم نے اس طرح اسلام کے غلبہ کو رسول کریم ﷺ کی صداقت کے طور پر پیش کیا ہے اور یہی کناروں کا محاورہ استعمال کیا ہے یعنی اطراف۔ فرمایا:۔ اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ط أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ (الانبیاء: 45) کیا مخالفین دیکھتے نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں تو کیا پھر بھی وہ غالب آ سکتے ہیں۔ اسی طرح آفاق کا لفظ بھی استعمال کیا ہے سَنُرِيهِمْ اٰيٰاتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتَّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّط (حم السجدہ 54) یعنی ہم انہیں ضرور آفاق میں بھی اور ان کے نفوس کے اندر بھی نشان دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر کھل جائے گا کہ وہ حق ہے۔ پس قرآنی اسلوب کی روشنی میں اس الہام کے متعدد پہلو ہیں جن سے اس الہام کے منجانب اللہ ہونے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

  1. اس الہام کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کی کیا صورت حال تھی؟
  2. الہام کے وقت حضور کا پیغام کہاں کہاں تک پہنچ چکا تھا؟
  3. زمین کے کناروں سے کیا مراد ہے؟
  4. زمین کے کناروں تک حضور کی تبلیغ پہنچنے کے خرق عادت نظارے۔

1۔الہام کا پس منظر

الہام کے پس منظر کا جائزہ لینے کے لئے ہم اس سے 4سال پہلے یعنی 1894ء سے لے کر 1897ء کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ جس مہدی کی مدتوں سے منتظر تھی اس کی علامات میں سے ایک کسوف و خسوف کا نشان تھا۔ یہ مارچ، اپریل 1894ء میں ظاہر ہوا۔ بعض سعید روحوں نے اسے دیکھ کر حضور کو قبول کیا مگر عام طور پر امت مسلمہ نے اس نشان کو رد کر دیا۔ علماء نے طرح طرح کے عذر ایجاد کیے۔ حدیث کو حدیث ماننے سے انکار کر دیا۔ روایت کو جھوٹا قرار دے دیا اور چاند سورج گرہن کے لئے وہ تاریخیں تجویز کیں جو قانون قدرت کو جڑھ سے اکھاڑنے کے لئے کافی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے جواب میں بہت دلائل پیش کیے، کئی کتب لکھیں، متعدد چیلنج دیے مگر ماننے والے بہت کم اور انکار کرنے والے ہزاروں گنا کثرت میں تھے۔

1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کا الہامی اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے عام طور پر مسلمان برہم تھے مگر 1895ء میں حضور علیہ السلام نے یہ انکشاف بھی فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر سرینگر کشمیر میں موجود ہے۔ اس اعلان نے مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا اور وہ دونوں قومیں شعلہ جوالہ بن گئیں۔

1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا گورو نانک صاحب کو مسلمان ولی اللہ ثابت کر دیا تو سکھ برادری بھی آپ کی مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک طوفان بد تمیزی برپا ہو گیا۔ چند سعید لوگ حضور کی کتاب ست بچن پڑھ کر احمدی ہو گئے مگر قومی اعتبار سے اس کا رد عمل بہت خوفناک تھا۔ سکھ لیڈر اس کتاب کے جواب کے لئے لیکھرام کے پاس بھی گئے مگر اس نے پہلی شرط یہ لگائی کہ چولہ بابا نانک جس پر کلمہ طیبہ اور دیگر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں اسے جلا دیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکا اور سکھ مذہب کی اہم کتاب جنم ساکھی کے نئے ایڈیشن میں یہ لکھ دیا گیا کہ بابا صاحب کا چولہ آسمان پر اڑ گیا ہے اور پھر واپس کبھی بھی نہیں آئے گا۔ ایک سکھ نے خبط قادیانی کے نام سے کتاب لکھی اور حضرت رسول کریم ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام پر سخت حملے کیے۔

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ602)

1896ء میں حضور نے ایک تبلیغی خط والی کابل امیر عبدالرحمان کے نام لکھا جو حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب شہید لے کر گئے تھے جس پر امیر نے جواب دیا کہ ایں جا بیا۔ یعنی کابل میں آ کر دعوی کرو تو معلوم ہو جائے گا۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اس کے بعد کابل گئے اور انہوں نے امیر کو خوب بھڑکایا اور واپس آ کر کہا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آ سکیں گے۔ (تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ 548) اس کے بعد امیر نے حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا اور 1903ء میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کو بھی مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے جرم میں سنگسار کر دیا۔

1896ء میں ہی حضور نے ہندوستان کے تمام علماء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا جس کے نتیجہ میں ان کے مریدوں میں نفرت کی لہر اور بھی بلند ہو گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ 1906ء تک ان مخالف علماء کی اکثریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اور جو زندہ تھے وہ کسی نہ کسی بلاء میں گرفتار تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ551)

پادری عبداللہ آتھم سے حضور کا مباحثہ (جنگ مقدس) 1893ء میں ہوا تھا جس کے آخر پر حضور نے عبداللہ آتھم کی ہلاکت کی پیشگوئی کی مگر وہ دل میں رجوع کر کے خدا کے فوری غضب سے تو بچ گیا مگر اخفائے حق کے جرم کا مرتکب ہوتا رہا اور 27 جولائی 1896ء کو بالآخر ہاویہ میں جا گرا۔ اس واقعہ نے عیسائی دنیا کو اپنی تپش اور نفرت میں اور بھی بڑھا دیا اور بالآخر اسی موت کے بدلہ کے طور پر اگست 1897ء میں پادری مارٹن کلارک نے حضور کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کر دیا۔

1897ء میں نائب سفیر سلطان ترکی حسین کامی قادیان آئے۔ وہ ترکی کی مزعومہ خلافت عثمانیہ کے لئے انگریزوں کے مد مقابل حضور کی تائید حاصل کرنے کے متمنی تھے۔ مگر حضور کو کشفا بتایا گیا کہ سلطنت ترکی کی حالت اچھی نہیں اور ان حالتوں کے ساتھ انجام بخیر نہیں ہے۔ اس پر اس نے واپس جا کر حضور کے خلاف اخبار میں ایک غضب آلود مضمون شائع کروایا اور کثرت سے چرچا بھی کیا۔ اس طرح گویا حضور نے مسلمانوں کی طاقتور سلطنت عثمانیہ سے دشمنی بھی مول لے لی۔

حضور نے 1893ء میں شاتم رسول لیکھرام کی 6 سال میں ہلاکت کی پیشگوئی کی تھی۔ 6 مارچ 1897ء کو جب یہ پیشگوئی عظیم شان سے پوری ہوئی تو ہندو اور آریہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے۔ الزام لگایا کہ آپ نے اسے قتل کروایا ہے۔ آپ کے گھر کی تلاشی لی گئی اور تلاشی لینے والے تھانے دار نے کہا کہ مرزا ہمیشہ بچتا رہا ہے اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ آپ کے قتل کی سازشیں کی گئیں اور قاتلوں کے لئے انعام مقرر کیے گئے۔ مولوی بٹالوی صاحب نے لکھا کہ میں قسم کھانے کو تیار ہوں کہ لیکھرام کے قتل میں مرزا صاحب شریک ہیں۔ اس سلسلہ میں گرفتاری کی کوششیں بھی کی گئیں۔

(تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ598)

1898ء کے شروع میں ایک مولوی ملا محمد بخش جعفر زٹلی نے ایک اشتہار شائع کر کے حضور کی وفات کی جھوٹی خبر مشہور کر دی۔ (تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ9) وسط 1898ء میں حضور علیہ السلام پر حکومت پنجاب نے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے اور سرکاری خزانہ کو نقصان پہنچانے کا مقدمہ دائر کیا۔ 1898ء کے آخر پر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخبری پر حضور کے خلاف حفظ امن کا مقدمہ دائر ہوا اور مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب مجھے قتل کرا دیں گے۔

یہ بھی یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر براہین احمدیہ کی ابتدائی جلدوں کی اشاعت کے بعد کفر کافتویٰ لگ گیا تھا۔ (عالمی فتنہ تکفیر کے متعلق رسو ل کریم ﷺ کی پیشگوئیاں۔ دوست محمد شاہد۔صفحہ16۔ ڈنمارک) اس کے بعد 1890 ٫ میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے ہندوستان میں گھوم کر 200 علما٫ سے کفر کے فتاویٰ حاصل کئے اور غلیظ ترین گالیاں دیں۔

(حیات طیبہ صفحہ102 شیخ عبد القادر)

یہ واقعات چیخ چیخ کر اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جان مال اور عزت سخت خطرے میں تھی اور مخالفین نے ہر طرف سے گویا محاصرہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان کی تمام مذہبی قومیں مسلمان، عیسائی، ہندو، آریہ اور سکھ آپ علیہ السلام کو نیست و نابود کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی مقدمات دائر کر کے حکومت کے ذریعہ آپ علیہ السلام کو سزا دلوانے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ جماعت احمدیہ 1889ء میں قائم ہو چکی تھی مگر اس کی تعداد نہایت کم تھی۔ چند ہزار ہو گی مگر ابھی تک اس کا کوئی باقاعدہ نام بھی نہیں تھا۔ موجودہ نام 1901ء میں رکھا گیا۔ ان حالات میں کسی کا یہ سوچنا کہ وہ دشمن کے شر سے بچ جائے گا، مخالفین ناکام و نامراد ہوں گے، اور وہ زمین کے کناروں تک عزت اور شہرت پائے گااور قبول کیا جائے گا دنیا کی نظر میں ایک دیوانے کی بڑسے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ کیا ایسی ہی نہیں جیسے اپنی قوم کے ظلم سے تنگ آ کر خدا کے ایک عظیم فرستادہ کا تعاقب کرنے والے کا یہ کہنا کہ کسری کے کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے۔

2۔پیغام کہاں کہاں پہنچ چکا تھا

اس الہام کے وقت ابھی جماعت کا کوئی نام نہیں تھا اور نوزائیدہ شکل میں تھی۔ اس لئے ہندوستان میں احمدی تو موجود تھے مگر کوئی نظام جماعت نہیں تھا۔ احمدی مالی قربانی بھی کرتے تھے مگر چندوں کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں تھا۔ حضور علیہ السلام حسب ضرورت تحریک کرتے اور احباب لبیک کہتے۔ کوئی مبلغ، کوئی مربی نہیں تھا۔ کوئی اخبار یا رسالہ نہ تھا۔ الحکم اخبار 1897ء کے آخر پر ہفت روزہ کے طور امرتسر سے جاری ہوا اور ریویو آف ریلیجنز 1902ء میں جاری ہوا۔

ہندوستان سے باہر سب سے زیادہ حضور کا ذکر برطانیہ میں ہو گا کیونکہ ہندوستان پر انگریز حکمران تھے اور انڈیا کی ساری خبریں وہاں پہنچتی تھیں۔ مئی 1897ء میں حضور نے تحفہ قیصریہ کے نام سے ایک تبلیغی خط ملکہ وکٹوریہ انگلستان کو بھجوایا مگر اس پر بھی کوئی خاص رد عمل سامنے نہیں آیا۔

حضور علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوتے ہی اشتہارات کے ذریعہ عالمگیر نشان نمائی کا اعلان کیا تھا اور دنیا کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی راہنماؤں کو اپنے پیغام سے مطلع کیا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یہ دعویٰ بفضلہ تعالیٰ وتوفیقہٖ میدانِ مقابلہ میں کروڑ ہا مخالفوں کے سامنے کیا گیا ہے اور قریب تیس ہزار کے اس دعویٰ کے دکھلانے کے لئے اشتہارات تقسیم کئے گئے۔ اور آٹھ ہزار انگریزی اشتہار اور خطوط انگریزی رجسٹری کرا کر ملک ہند کے تمام پادریوں اور پنڈتوں اور یہودیوں کی طرف بھیجے گئے اور پھر اس پر اکتفا نہ کر کے انگلستان اورجرمن اور فرانس اور یونان اور روس اور روم اور دیگر ممالک یورپ میں بڑے بڑے پادریوں کے نام اور شہزادوں اور وزیروں کے نام روانہ کئے گئے۔ چنانچہ ان میں سے شہزادہ پرنس آف ویلز ولی عہد تخت انگلستان اور ہندوستان، اور گلیڈ سٹون وزیر اعظم اور جرمن کا شہزادہ بسمارک ہے۔ چنانچہ تمام صاحبوں کی رسیدوں سے ایک صندوق بھرا ہوا ہے‘‘

(مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ649)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام مشہور لیڈروں تک حضور کا دعوی پہنچ گیا تھا لیکن ان میں سے کسی نے قبولیت کی خواہش ظاہر نہیں کی اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ساری قوموں تک بھی حضور کا پیغام پہنچ گیا۔ کیونکہ ان سب قوموں کی زبانوں تک ہی رسائی کے لئے ایک بہت بڑا نظام درکار تھا

3۔دنیا کے کناروں سے کیا مراد ہے

‘‘Verdens Ende’’ – The End of the Earth
یعنی ‘‘دنیا کا آخری حصہ’’ – ناروے
  1. زمین تو عرف عام میں گول ہے، اور گول چیز کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ اس لئے اس الہام میں دنیا کے کناروں سے مراد ہر جگہ ہو سکتی ہے یعنی زمین کے چپے چپے پر تیری تبلیغ پہنچے گی۔
  2. وہ معروف مقامات جنہیں دنیا کا کنارہ کہا جاتا ہے جہاں آبادیاں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔
  3. ناروے کے شہر شون کے شمال میں ایک مقام End of the world کہلاتا ہے۔
  4. قطب شمالی کے قریب واقع ملک فن لینڈ کو دنیا کا آخری سراکہا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ، روس، اور کینیڈاکے شمالی علاقوں کو بھی آخری کنارہ کہا جاتا ہے۔ نیز قطب جنوبی اور بر اعظم انٹارکٹکا کو بھی دنیا کا آخری کنارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف چند سائنس دان رہتے ہیں جو سائنسی تحقیقات کرتے ہیں۔
  5. فجی جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، اسے بھی کنارہ کہا جاتا ہے۔
  6. کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے سورج جاپان میں طلوع ہوتا ہے۔
  7. بحر الکاہل میں موجود ریاست ساموانے دسمبر 2021ء میں اپنے معیاری وقت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس طرح یہ ریاست دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا دیکھتی ہے۔
  8. اگر آپ نقشے پر شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک نظر دوڑائیں تو جتنے ممالک اور خطے ساحل سمندر پر موجود ہیں وہ سب زمین کے کنارے کہلا سکتے ہیں۔ ان کی بھاری اکثریت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چند جزائر ایسے ہوں جو ابھی اس نور سے منور نہیں ہوئے، کوئی بعید نہیں کہ چند سالوں میں وہاں بھی حضور علیہ السلام کا پیغام پہنچ جائے۔
فجی میں واقع ڈیٹ لائن

4۔پیغام پہنچنے سے متعلق غیر معمولی نظارے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب یہ وعدہ دیا گیا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں کا تو اس میں لازماً اس طرف بھی اشارہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت تمہارے ساتھ ہو گی۔ اور یہ بھی کہ الہی سنت کے مطابق پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے الہی جماعت کی محنت اور کاوش بھی ضروری ہو گی۔ چنانچہ اس کے عین مطابق جماعت احمدیہ جان، مال، وقت، عزت اور اولادوں کی قربانی کر کے اس مقدس پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچا رہی ہے۔ اس راہ میں شہادتیں بھی ہوئیں، بہت دکھ سہے، بیوی بچوں کو چھوڑا، بھوک پیاس برداشت کی، زخم کھائے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر کوئی کمی نہ چھوڑی اور خدا نے اپنے وعدوں کے مطابق قربانیوں کا بہترین پھل اور صلہ عطا کیا مگر اس کا ایک ایمان افروز پہلو یہ بھی ہے کہ بہت سی ایسی جگہوں پر جماعت کا پیغام اس طرح بھی پہنچا کہ اس کے لئے کوئی خاص محنت اور جد و جہدنہیں کرنی پڑی بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر اور تجلی کے طفیل ان ملکوں میں احمدیت کی داغ بیل پڑی مثلاً

*گھانا میں ابتدائی تبلیغ کے لئے کوئی باقاعدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ گھانا میں قصبہ اکرافو کے ایک مسلمان یوسف نیارکو صاحب Yousuf Nyarkoنے 1920ء میں خواب میں دیکھا کہ ہ ہ ایک سفید آدمی کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نےا پنے خواب کا ذکر مسٹر عبدالرحمان پیڈروMr. Abdul Rahman Pedro صاحب کے ساتھ کیا جو نائجیریا کے رہنے والے تھے۔ عبدالرحمان صاحب نے انہیں بتایا کہ میں نے ایک مسلم مشن کے متعلق پڑھا ہے جس کا مرکز ہندوستان میں ہے اور ایک برانچ لندن میں بھی ہے۔ یوسف صاحب نے اپنے خواب کی اطلاع جب چیف مہدی آپا کو دی تو انہوں نے مسلمانوں کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ احمدیت کے مرکز کو ایک خط لکھا جائے کہ ان کے لئے کوئی مبلغ بھجوایا جائے۔پہلے گھانین احمدی چیف مہدی آپا نے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان تاجر سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ جو اس وقت لندن میں تھے کا پتہ لیا اور ان سے خط و کتابت کی اور کچھ رقم جمع کر کے سفید مبلغ منگوانے کے لئے لندن مشن کو بھیج دیا۔چنانچہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے حکم پر مارچ 1921ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب رضی اللہ عنہ لندن سے گھانا پہنچے۔

*گیمبیا کا مشن بھی اسی طرح قائم ہوا۔ گیمبیا کی ایک لڑکی اعلیٰ تعلیم کے لئے سیرالیون گئی۔ وہاں اسے کسی دکان پر نماز کی ایک کتاب ملی جس میں عربی زبان کے ساتھ انگریزی ترجمہ بھی تھا۔ اس لڑکی نے اپنے ملک میں کبھی ایسی کتاب نہ دیکھی تھی۔ اس نے وہ کتاب خرید لی اور گیمبیا میں اپنے ایک عزیز کو بھجوادی۔ یہ کتاب صدر انجمن احمدیہ قادیان کی شائع شدہ تھی۔ ایک نوجوان مسٹر بارہ انجائے (Bara Injoy) نے قادیان میں جماعت سے رابطہ کیا اور مزید دینی کتب کے لئے درخواست کی۔ اسے جماعت نے مزید کتب ارسال کیں اور بتایا کہ آپ کے قریبی ملک نائیجیریا میں ہمارا مشن ہے۔ وہاں رابطہ کرکے مزید لٹریچر اور معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ اس زمانہ میں مکرم نسیم سیفی صاحب نائیجیریا کے مشنری انچارج تھے۔ سب سے پہلے نائیجیریا سے ایک معلم مکرم حمزہ سنی الوصاحب گیمبیا تشریف لائے اور تقریباً ایک سال تک بانجول میں تبلیغ کرتے رہے۔ ان کے بعد گھانا سے ایک لوکل معلم مکرم سعید جبریل چند ماہ کے لئے تشریف لائے۔ اس زمانہ میں چونکہ گیمبیا میں باقاعدہ جماعت قائم نہ ہوئی تھی اس لئے مکرم سعید صاحب اپنے گلے میں ایک بیگ ڈالے رکھتے تھے جس پر احمدیت لکھا ہوا تھا اور گھوم پھر کر لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچاتے رہتے۔اس طرح پڑھے لکھے نوجوانوں کا مرکز احمدیت قادیان کے ساتھ بذریعہ خط و کتابت اچھا خاصارابطہ قائم ہوگیا اور وہاں سے اخبارات و رسائل بھی باقاعدگی کے ساتھ آنے شروع ہوگئے۔

(ارض بلال از منور احمد خورشید مبلغ سلسلہ)

*انڈونیشیا کے 4 نوجوان 1923 ٫ میں دینی تعلیم کے لئے ہندوستان آئے تو قادیان آ کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے دینی تعلیم کی درخواست کی۔ اسی دوران انہوں نے احمدیت قبول کر لی اور وہاں سے اپنے ملک میں تبلیغ شروع کر دی

*جاپان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کے تبلیغی خطوط کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچ چکا تھا لیکن باقاعدہ مشن 1935 ٫ میں صوفی عبد القدیر نیاز صاحب کے ذریعہ قائم ہوا۔

*مشرق بعید میں جو سعید روحیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں احمدیت سے مشرف ہوئیں ان میں سے چند نام یہ ہیں ہانگ کانگ و چین میں حضرت قاری غلام مجتبی صاحب رضی اللہ عنہ و قاری غلام حم صاحب رضی اللہ عنہ۔آسٹریلیا میں حضرت صوفی حسن موسی صاحب رضی اللہ عنہ نے ستمبر 1903 ٫ میں بیعت کی۔ نیوزی لینڈ سے حضرت پروفیسر کلیمنٹ ریگ صاحب رضی اللہ عنہ نے مئی 1908 ٫ میں حضور علیہ السلام کی زیارت کی اور واپس جا کر بیعت کر لی۔ فجی کے پہلے احمدی حاجی محمد رمضان صاحب تھے جو 1959 ٫ میں شامل جماعت ہوئے۔

*چین میں ہمارے پہلے مبلغ صوفی عبد الغفور صاحب 1935 ٫ میں پہنچے مگر احمدیت کا پیغام 1924 ٫ میں پہنچ چکا تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ کئی احمدی تھے مگر ان کا رابطہ مرکز سے نہیں تھا۔

(خطبات محمود جلد8 صفحہ312)

*امریکہ کو بھی نئی دنیا کہا جاتا ہے اور ایک لحاظ سے وہ دنیا کا کنارہ بھی ہے۔ امریکہ میں الیگزنڈر حضور علیہ السلام کی خط و کتابت کے نتیجہ میں مسلمان ہو گئے اور انہی کے ذریعے مسٹر اینڈرسن ٫1904 میں احمدی ہوئے جن کا نام حضور علیہ السلام نے احمد تجویز فرمایا۔

*روس کے قطب شمالی کے علاقے بھی دنیا کے کنارے کہلاتے ہیں۔ روس کے مفکر اور عظیم ناول نگار ٹالسٹائی کے ساتھ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی معرفت خط و کتابت ہوتی رہی اور جب اس کو اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھیجا گیا تو اس نے اس پر بڑا خوبصورت تبصرہ کیا۔

یہ محض چند مثالیں ہیں اور اس بات کا کافی ثبوت مہیا کرتی ہیں کہ یہ وعدہ خدا کی طرف سے تھا جو تمام نامساعد حالات میں پورا ہوا۔ بیسیوں ایسے واقعات ہیں جہاں صرف اور صرف خدا تعالی کی مشیت ہی نظر آتی ہے۔ الغرض یہ محض ایک الہام نہیں۔ یہ ایک عظیم الشان وعدہ ہے جس کے پورا ہونے کی کہانیاں زمین کے چپے چپے پر بکھری ہوئی ہیں۔ ایک پیشگوئی ہے جو ہر خطہ ارض پر اپنی چمکار دکھلا رہی ہے۔ ایک تاریخ ہے جو خدائی نصرت و تائید سے بھرپور ہے۔ مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے جس کا ایک عالم گواہی دے رہا ہے۔ ایک نور سے لکھی ہوئی تحریر ہے جو خاکدان عالم پر نقش کی گئی ہے۔ صلحائے عرب اور ابدال شام بھی اب اس پر درود بھیج رہے ہیں اور عجم کے لوگ بھی اس کے ایک اشارہ پر جانیں قربان کرنے پر تیار ہیں۔دنیا کے 213 ملکوں میں اس کا پرچم لہراتا ہے اور ہر جھنڈا اس کا الہام یاد کراتا ہے۔

کہاں قادیان کی معمولی سی بستی اور قادیان کے چند لوگ اور کہاں دنیا کے دور دراز جزائر جو سمندروں سے گھرے ہوئےہیں۔ سرسبز و شاداب علاقے جو فصلوں سے اٹے ہوئے ہیں۔ قطب شمالی اور قطب جنوبی جو پانیوں اور برفوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ وہ صحرا جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں۔ پرانی دنیا ہو یا نئی دنیا ہو۔ گنجان آبادیاں ہوں یا آسٹریلیا اور کینیڈا کی طرح ساحلی اور ریتلے علاقے۔ سب جگہ قادیان اور اس کے مقدس نبی کا نام گونجتا ہے اور گونجتا رہے گا جب تک کہ انسان اس کرہ ارض پر موجود ہے۔ اور ایک وقت آئے گا کہ اَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورَبِّهَا۔ (الزمر: 70) ساری زمین ا پنے رب کے نور سے منور ہو جائے گی۔ ان شاء اللّٰہ

(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ گھانا)

پچھلا پڑھیں

خلاصہ خطبہ جمعۃ المبارک مؤرخہ 18؍مارچ 2022ء

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ